حسن خاتمہ کی علامتیں

تحریر: عبد اللہ یوسف ذہبی , پی ڈی ایف لنک

حسن خاتمہ کی علامتیں

کسی بھی انسان کی زندگی میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا، نہ تو قلبی کیفیت ہموار رہتی ہے اور نہ اس کے اعمال و افعال ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں، بلکہ اتار چڑھاؤ اور اونچ نیچ انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ ماحول، صحبت اور حالات انسان کو بدلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک نیک اور متقی انسان کو بدلتے ہوئے بھی دیر نہیں لگتی اور بعینہ اسی طرح مجرم اور گناہوں میں ڈوبا ہوا انسان بھی کبھی پلٹا کھا کر سیدھی راہ پر آجاتا ہے۔ تاریخ میں جہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ شرابی ، زانی اور گناہوں کے رسیا لوگوں نے خود کو بدل کر تقویٰ اور نیکی کی زندگی اپنائی، وہاں ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں کہ نیک اور پارسا لوگ بری صحبت اور ماحول کی وجہ سے یکسر بدل گئے۔

اسلام نے مسلمانوں کو یہ شعور دیا ہے کہ وہ اپنے انجام کی فکر کریں، کیونکہ اعتبار خاتمے اور انجام کا ہوگا۔ ایک آدمی اچھے عمل کرتے کرتے جنت کے دروازے پر جا پہنچتا ہے، اچانک ایسا عمل کر بیٹھتا ہے کہ جہنم میں جا گرتا ہے…. اور دوسرا شخص برے عمل کرتے کرتے جہنم کے کنارے جا پہنچتا ہے لیکن ایک ایسا عمل کر لیتا ہے کہ جنت کا حق دار بن جاتا ہے۔ چنانچہ سید نا سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا ۔ آپ نے فرمایا :

’’اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔“ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے ۔ وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر کار زخمی ہو گیا، پھر اس نے چاہا کہ جلدی مرجائے،تو اس نے اپنی ہی تلوار کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتے ہوئے نکل گئی(اس طرح وہ خود کشی کر کے مرگیا ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

(إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَى النَّاسُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَى النَّاسُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِخَوَاتِيْمِهَا)

’’بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے ، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ ایک (دوسرا) بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو صرف خاتمے پر ہے۔“

(صحيح البخاري:6493)

شیخ البانیؒ نے اپنی معروف تصنیف ’’کتاب الجنائز‘‘ میں حسن خاتمہ کی چند علامتیں تحریر کی ہیں۔ ہم یہاں شیخ رحمہ اللہ کی ذکر کردہ علامتوں کو مختصراً بیان کرتے ہوئے اللہ کی توفیق سے مزید علامتوں کا اضافہ کریں گے۔

علامہ البانیؒ فرماتے ہیں :

شارعؑ نے چند علامتیں بیان کی ہیں جنھیں کسی شخص کے حسن خاتمہ کی دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمارے لیے ان علامتوں کو ذکر کیا ہے۔ جو شخص ان علامتوں میں سے کسی علامت کے ساتھ فوت ہو گا تو یہ اس کے لیے بشارت اور خوشخبری ہے۔

موت کے وقت کلمہ شہادت کہنا

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ))

’’جس کا آخری کلام ’’’لا اله الا اللہ‘‘، ہوا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘

(سنن أبي داؤد: 3116 وسنده حسن، مسند احمد 5/247، وصححه الحاكم 1351 ووافقه الذهبي)

رسول الله ﷺ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ سیدنا طلحہ بن عبید اللهؓ کے پاس سے گزرے تو فرمایا:

آپ کیوں پریشان ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد (سیدنا ابوبکر صدیقؓ ) کے امیر المومنین بننے پر ناگواری ہوئی ہے؟ سیدنا طلحہؓ کہنے لگے :

نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:

(انّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةٌ لَا يَقُولُهَا اَحَدٌ عِنْدَ مَوتِهِ إِلَّا كَانَتْ نُورَ الصَّحِيفَةِ وَإِنْ جَسَدَهُ وَ رُوحَهُ لَيَجِدَانَ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ)

’’میں ایک کلمہ جانتا ہوں جسے اگر کوئی شخص اپنی موت کے وقت کہہ لے تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور بن جاتا ہے اور موت کے وقت اس کی وجہ سے اس کے جسم و جان کو راحت حاصل ہوتی ہے۔“

سیدنا طلحہؓ فرماتے ہیں :

افسوس میں رسول اللہ ﷺ سے وہ کلمہ دریافت نہ کر سکا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا:

مجھے وہ کلمہ معلوم ہے۔ یہ وہی ہے جسے کہنے کا آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو اس کی موت کے وقت فرمایا تھا۔ اگر نبی ﷺ کے علم میں اس کلمے کے علاوہ کوئی اور کلمہ ہوتا جو اس کی نجات کا زیادہ سبب بن سکتا تو آپ اسے وہی کلمہ پڑھنے کا حکم دیتے۔

(سنن ابن ماجه: 3795؛ سنن الكبرى للنسائى : 271/6، 10940 وهو صحيح)

یاد رہے کہ موت کے وقت کلمہ پڑھنا انھی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو زندگی بھر توحید پر قائم رہ کر اس کلمے کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور شرک و بدعت سے بیزار رہتے ہیں۔

سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى قَلْبِ مُوقِنِ إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهَا))

’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں(محمد ﷺ)اللہ کا رسول ہوں اور یہ گواہی قلبی یقین سے ہو تو اللہ تعالٰی اس کی مغفرت فرما دے گا۔“

(سنن ابن ماجه: 3796 وسنده حسن)

موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آنا

سیدنا بریدہ بن حصیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَوْتُ الْمُؤْمِنِ بِعَرَقِ الْجَبِيْنِ))

’’مومن کی موت پیشانی کے پسینے کے ساتھ ہوتی ہے۔“

(سنن النسائی: 1829، 1830 وسنده صحیح سنن الترمذي: 982)

اس حدیث مبارکہ میں مومن کی موت کی علامت پر بتائی گئی ہے کہ اسے موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آتا ہے۔ پسینے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، تاہم علماء نے تو جیحات بیان کی ہیں،

مثلاً:

یہ پسینہ روح نکلنے کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وغیرہ

جمعہ کے دن یا رات کو فوت ہونا:

سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَا مِن مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ الله فِتْنَةَ الْقَبْرِ)

’’جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہوا، اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔“

(سنن الترمذى: 1074؛ مسند أحمد 2/189 المنتخب من مسند عبد بن حمید:323 وسنده حسن)

معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن یا رات کو فوت ہونا خاتمہ بالخیر کی علامت ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ محض جمعہ کے دن فوت ہو جانا ہی کافی نہیں، بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیادی شرط کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ ورنہ کافر، منافق اور فاسق و فاجر لوگ بھی جمعہ کے دن مرتے ہیں لیکن انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو جانا:

ارشاد باری تعالی ہے:

(وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ-وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْۙ-اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ،یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ)

(۳/ آل عمران: 171-169)

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے ، آپ انھیں ہرگز مردہ گمان نہ کیجیے، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔ وہ اس رزق پر خوش ہیں جو انھیں اللہ نے اپنے فضل سے دیا ہے اور ان کے بارے میں بھی خوش ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے (دنیا میں ) رہ گئے ہیں کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی طرف سے عظیم نعمت اور فضل پر بہت خوش ہوتے غمگین ہیں اور (اس بات پر ) کہ بے شک اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔“

سید نا مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللهِ سِتُّ خِصَالٍ: يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دُفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ، وَيُرى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنَ الفَزَعِ الأَكْبَرِ، وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيْمَانِ وَيُزَوِّجُ مِنَ الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَيُشَفَعُ فِي سَبْعِينَ إِنسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ»)

’’اللہ کے پاس شہید کے لیے چھ انعامات ہیں:

خون کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے، اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے، وہ قیامت کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا، اسے ایمان کا لباس پہنایا جائے گا، خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی اور اس کے ستر رشتے داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

(سنن ابن ماجه: 2799 سنن الترمذى كتاب الجهاد، باب في ثواب الشهيد، ح:1663 وهو حسن)

راشد بن سعدؒ ، نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا:

اے اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ اہل ایمان کا ان کی قبروں میں امتحان لیا جاتا ہے مگر شہید کا نہیں؟ آپ نے فرمایا:

(كَفَى بِبَارِقَةِ السُّيُوفِ عَلَى رَأْسِهِ فِتْنَةٌ)

(سنن النسائي: 2055 وسنده صحيح)

’’اس کے سر پر چمکتی تلوار میں اس کے لیے امتحان سے کافی ہوگئیں ۔“

شہادت کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں۔ یہاں صرف چند ذکر کر دی گئی ہیں۔ شہادت کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ امام الانبیا ﷺ خود اللہ تعالیٰ ۔ شہادت کی موت کی دعا کیا کرتے تھے۔ اس لیے ہر مسلمان کو شہادت کی تمنا رکھنی چاہیے۔ خلوص نیت کے ساتھ شہادت کی تمنا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ شہادت کے درجے تک پہنچا دیتا ہے، اگر چہ اسے عملاً جہاد کرنے کا موقع نہ ملے۔

سیدنا سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ سَأَلُ اللهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ مِنْ قَلْبِهِ، بَلَغَهُ اللهُ مَنَازِل الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ)

’’جو اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے شہادت کا سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے درجات تک پہنچا دیتا ہے، اگر چہ وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو۔“

(صحیح مسلم: 157/1909)

7-6-5 سواری سے گر کر مرنے والا، جسے جانور گرا دے اور جانور کے کاٹنے سے مرنے والا جہاد یا ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلنے والا شخص خواہ طبعی موت ہی کیوں نہ فوت ہو، اسے شہادت کا مرتبہ حاصل ہو گا اور خلوص نیت کی وجہ سے اللہ تعالی اسے شہادت کے رتبے پر فائز فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَد وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا)

(4/ النساء : 100)

” اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت آجائے تو بے شک اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہو گیا۔“

(سید نا ابو امامہ باہلی دی له بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیالیم نے فرمایا:

اثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ : رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ اَوْيَرُدَّهُ بِمَانَالَ مِنْ أَجْرٍ وَ غَنِيْمَةٍ وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلَامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللهِ)

’’تین قسم کے آدمیوں کا اللہ عز وجل ضامن ہے:

جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا تو اللہ تعالٰی اس کا ضامن ہے حتی کہ اگر اس کی وفات ہو جائے تو وہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا اجر و ثواب اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ آدمی جو مسجد کی طرف گیا تو اللہ اس کا ضامن ہے حتی کہ اگر اس کی وفات ہو جائے تو اس کو جنت میں داخل کرے گا یا اجر و ثواب اور غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا اور تیسرا وہ آدمی جو سلام کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اللہ عزوجل اس کا ضامن ہے۔“

(سنن ابی داؤد: 2494 وسنده صحيح)

’’درج بالا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مجاہد اگر معرکے میں لڑ کر شہید نہ بھی ہوا، بلکہ راستے ہی میں طبعی موت آ جائے تو وہ شہید ہی شمار ہوگا۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ ایک باب قائم کیا ہے:

’’بَابُ فَضْل مَنْ يُصْرَعُ فِي سَبِيْلِ الله فَمَاتَ فَهُوَ مِنْهُم

’’اگر کوئی شخص جہاد میں سواری سے گر کر مر جائے تو اس کا شمار بھی مجاہدین میں ہو گا ۔“

اس عنوان کے تحت امام بخاریؒ درج ذیل حدیث لائے ہیں:

ام حرام بنت ملحانؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا:

آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

(خواب میں ) میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو جہاد کرنے کے لیے اس طرح بہتے ہوئے سمندر میں سوار ہو کر جا رہے تھے جس طرح بادشاہ تختوں پر ہوں۔ میں نے عرض کیا :

پھر آپ میرے لیے بھی دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انھی میں سے بنا دے۔ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور دوبارہ سو گئے ، پھر پہلے کی طرح مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ اُم حرامؓ عرض کرنے لگیں:

آپ دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہی میں سے بنا دے تو آپ نے فرمایا:

’’تم پہلے لوگوں میں ہوگی۔“

چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں۔ معاویہؓ کے زمانے میں غزوہ سے واپسی پر جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو ام حرامؓ کے لیے سواری لائی گئی تا کہ وہ اس پر سوار ہوں لیکن جانور نے انھیں گرا دیا اور وہ فوت ہو گئیں۔

(صحيح البخاري: 2799؛ صحیح مسلم: 1912 )

صدق دل سے شہادت کی دعا کرنے والا

سچے دل سے شہادت کی دعا کرنے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ شہادت کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں، خواہ وہ طبعی موت ہی کیوں نہ فوت ہو، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شہادت کی تمنا اور دعا کے ساتھ ساتھ بندے کو اگر عملا موقع ملے تو جہاد میں ہر ممکن طریقے سے شامل ہونا چاہیے۔

اللہ کے دین کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ صادقہ رکھنے والا شخص ہی شہادت کی دعا کر سکتا ہے۔

سمندر کے سفر میں سر چکرا کر اور ڈوب کر مرنے والا

سیدہ ام حرامؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( المائد في البحر ، الذي يصيبه القيء ، له أجر شهيد ، والغرق له أجر شهيدين))

(سنن ابی داؤد:2493 وسنده صحیح)

’’سمندر کے سفر میں جس کا سر چکرائے اور قے آ جائے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے اور جو ڈوب کر مر جائے تو اسے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔‘‘

جل کر مر جانے والا

جابر بن عتیکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى القَتْل فِي سَبِيْلِ اللهِ : المَطْعُونُ شَهِيدٌ وَ الْغَرِقُ شَهِيدٌ وَ صَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ وَ الْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَ صَاحِبُ الْحَرِيْقِ شَهِيدٌ وَ الَّذِي يَمُوْتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ وَ الْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعِ شَهِيدٌ

اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے علاوہ بھی شہادت کے سات اسباب ہیں:

’’طاعون سے مرنے والا شہید ہے، پانی میں ڈوب جانے والا شہید ہے ، ذات الجنب ( بیماری) سے مرجانے والا شہید ہے، پیٹ کی تکلیف سے مرجانے والا شہید ہے ، آگ سے جل کر مرنے والا شہید ہے، کسی مکان یا دیوار کے نیچے آکر مر جانے والا شہید ہے اور وہ عورت جو وضع حمل ( ولادت) کی تکلیف میں وفات پا جائے شہید ہے۔“

(سنن أبي داؤد: 3111، سنن ابن ماجه :2803 وسنده حسن)

فتنوں کے دور میں دین پر ثابت قدم رہنے والا

ابو ثعلبہ خشنیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

((فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ الصَّبْرُ فِيهِ مِثْلُ قَبْضٍ عَلَى الْجَمَرِ لِلْعَامِلِ فِيهِمْ مِثْلُ أَجْرٍ خَمْسِيْنَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عمله))

تمہارے بعد صبر کے دن آنے والے ہیں، اس زمانے میں دین پر صبر کرنا آگ کا انگارہ پکڑنے کی طرح مشکل ہو گا۔ ان لوگوں میں عمل کرنے والے کو اس جیسے پچاس عاملوں کا ثواب ملے گا۔“

(سنن ابی داؤد:4341؛ سنن ابن ماجه: 4014؛ سنن الترمذي: 3058 وسنده حسن)

اللہ کے راستے میں پہرہ دینے والا

سیدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(الرِّبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامٍ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ وَأَجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ وَآمِنَ الفتان)

’’اللہ کی راہ میں ایک دن رات پہرہ دینا مہینہ بھر روزے رکھنے اور قیام کرنے سے افضل ہے اور جو پہرہ دیتے ہوئے فوت ہو جائے تو اس کا یہ کام برابر جاری رہے گا، اس کا رزق جاری ہو جائے گا اور وہ (قبر کے)عذاب سے بچ جائے گا۔“

(صحیح مسلم: 1913)

سیدنا فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((كُلّ مَيّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيْلِ اللهِ فَإِنَّهُ يُنْهى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ))

’’ہر مرنے والے کا عمل اس کے مرنے پر ختم ہو جاتا ہے، مگر مورچہ بند، کہ اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘

(سنن ابی داؤد: 2500 ؛ سنن الترمذی:1621 وسنده صحيح)

نیک عمل کرتے ہوئے موت آنا

نیک عمل کرتے ہوئے موت آنا حسنِ خاتمہ کی نشانی ہے۔ وہ نیک عمل کوئی سا بھی ہو سکتا ہے، جیسے کسی کو نماز پڑھتے ہوئے، روزے کی حالت میں، ذکر میں مشغول، کسی کی مدد کرتے ہوئے یا صدقہ خیرات کرتے ہوئے موت آجائے۔

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ إِذَا ارَادَ بِعَبْدِ خَيْرًا إِسْتَعْمَلَهُ» فَقِيلَ: كَيْفَ يَسْتَعْمِلُهُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: يُوَفقُهُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قبل الْمَوْتِ

(سنن الترمذي:2142)

”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کام پر لگا دیتا ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ اسے کیسے کام میں لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا:

اسے موت سے پہلے نیک عمل کی توفیق دے دیتا ہے۔“

طاعون کی بیماری سے مرنے والا

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے نبی کریم ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

((إِنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ فَجَعَلَهُ اللهُ رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِيْنَ فَلَيْسَ مِنْ عَبْدِ يَقَعُ الطَّاعُوْنُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا يَعَلَمُ أَنَّهُ لَنْ يُصِيبَهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ))

’’بلا شبہ یہ عذاب تھا، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا، اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون (کی وبا) پھیلی ہو، اور وہ یقین رکھتا ہو کہ اسے وہی نقصان پہنچ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے تو اسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔“

(صحیح البخاري:5734؛ وسنده حسن)

سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ)

’’طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت کا باعث ہے۔‘‘

(صحیح البخاری : 5732؛ صحیح مسلم: 1914)

دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرنے والا

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالغَرِيقُ وَصَاحِبُ الهَدْمِ والشَّهِيدُ فِي سَبِيْلِ اللهُ)

’’شہداء پانچ قسم کے ہیں:

طاعون کی بیماری سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہونے والا ۔“

(صحيح البخاري:652؛ صحیح مسلم:1914)

پیٹ کی بیماری سے مرنے والا

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے:

(وَ مَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ)

”جو پیٹ کی بیماری کی وجہ سے فوت ہوا وہ شہید ہے۔“

(صحیح مسلم: 1915)

عبداللہ بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفطهؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ لوگوں نے ایک شخص کا ذکر کیا جو پیٹ کی تکلیف سے فوت ہو گیا تھا۔ ان دونوں میں سے ہر ایک بزرگ نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے جنازے میں شریک ہوں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:

کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا:

(مَنْ يَقْتُلُهُ بَطْنُهُ لَمْ يُعَذِّبُ فِي قَبْرِهِ؟)

’’جو آدمی پیٹ کی تکلیف سے مر جائے ، اسے عذاب قبر نہیں ہوگا ؟“

تو دوسرے نے کہا:

کیوں نہیں!

(سنن النسائی: 2054 وسنده صحیح)

پیٹ کی تکلیف میں پیٹ سے متعلقہ ہر بیماری شامل ہے۔ جیسے اسہال، ہیضہ، آنتوں کا سرطان وغیرہ کی بیماری۔

دین، مال اور گھر والوں کے دفاع میں قتل ہو جانا

سیدنا سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ أَهْلِهِ أَوْدُونَ دَمِهِ أَوْ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ)

’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت یا خون یا دین کے دفاع میں قتل ہو جائے، وہ شہید ہے۔‘‘

(سنن ابی داؤد:4772؛ سنن النسائی:4099 وسنده صحيح)

سید نا سوید بن مقرنؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَظْلَمَتِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ»

’’جو شخص اپنے حق کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے ، وہ شہید ہے۔“

(سنن النسائي: 4101 وهو صحيح)

مال کی حفاظت میں لڑتے ہوئے جان دینے سے مراد یہ ہے کہ کوئی چور یا ڈاکو وغیرہ اگر کسی مسلمان کا مال لوٹنے آئیں تو وہ مال انھیں نہ دے اس بنا پر اگر چور اسے قتل کر دیں تو یہ شہید ہے۔ دین کی خاطر قتل ہونا یہ ہے کہ کسی نے اسے دھمکی دی کہ اپنا دین چھوڑ دے ورنہ مجھے قتل کر دوں گا، اس نے دین نہ چھوڑا اور قتل ہونا قبول کر لیا۔

خون کے دفاع سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی اس سے لڑتا ہے ،تلوار اٹھا لیتا ہے اور یہ فتنے سے بچتے ہوئے مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھاتا اور حملہ آور اسے قتل کر دیتا ہے تو یہ شہید ہے۔

مال کے دفاع میں قتل ہونے والا

سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ»

جس شخص کا مال ناحق چھینے کی کوشش کی گئی تو اس نے قتال کیا ، پھر وہ اس میں قتل ہو گیا تو شہید ہے۔“

(سنن ابی داؤد : 4771؛ سنن النسائی: 4093 وسنده صحيح)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا:

یا رسول اللہ ! اگر کوئی شخص میرا مال چھینے آئے تو اس کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

((فَلَا تُعْطِهِ مَالَكَ))

”اسے اپنا مال مت دے۔“

اس نے عرض کیا:

اگر وہ مجھ سے لڑے؟

آپ نے فرمایا:

(قَاتِلُهُ)

’’ تو بھی اس سے لڑ“ اس نے عرض کیا:

اگر وہ مجھے قتل کر دے؟

آپ نے فرمایا:

(فَأَنْتَ شَهِيدٌ)

’’پھر تو شہید ہے۔“

اس نے کہا:

اگر میں اس کو مار ڈالوں؟

آپ نے فرمایا:

(هُوَ فِی النَّار)

’’ وہ آگ میں جائے گا۔“

(صحیح مسلم: 140)

سیدنا مخارقؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :

ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھینا چاہتا ہے تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:

(ذکره باللہ)

’’اسے اللہ تعالیٰ (کے حکم ) کے ذریعے سے نصیحت کر‘‘

اس نے کہا:

اگر وہ نصیحت نہ مانے تو ؟

آپ نے فرمایا:

((فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَن حَوْلَكَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ))

’’ تو اپنے آس پاس کے لوگوں سے مدد حاصل کر ۔“

اس نے عرض کیا:

اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا:

(فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ السُّلْطَانَ)

’’حاکم سے مدد طلب کر “

اس نے کہا:

اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو؟

آپ نے فرمایا:

(قَاتِلْ دُونَ مَالِكَ حَتَّى تَكُونَ مِن شُهَدَاءِ الْآخِرَةِ أَوْ تَمْنَعَ مَالَكَ)

پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کرحتی کہ تو قتل ہو کر آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔“

(سنن النسائی: 4086 وهو صحيح)

اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے والا

سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيْلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ » قَالُوا: فَمَنْ هُمْ؟ يَارَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيْلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيْلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُوْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَالْغَرِيْقُ شَهِيدٌ)

(صحیح مسلم: 1915)

تم شہید کس کو سمجھتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا :

جو اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ فرمایا:

” تب تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! پھر شہید کون ہیں؟ آپ نے فرمایا:

” جو اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اللہ کی راہ میں فوت ہو جائے وہ بھی شہید ہے، طاعون سے مرنے والا بھی شہید ہے اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔“

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں فی سبیل اللہ کے زمرے میں دو قسم کے لوگوں کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہ جو جہاد فی سبیل اللہ میں قتل کر دیا جائے اور دوسرا جو اللہ کی راہ میں، یعنی جہاد پر، حج یا عمرے کے لیے یا طلب علم کے لیے نکلا ہو اور ا سے طبعی موت آ جائے۔

مدینہ منورہ میں فوت ہونا

مدینہ منورہ میں فوت ہونا بھی حسن خاتمہ کی علامت ہے۔ انسان کے بس میں تو نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے فوت ہو، لیکن وہ تمنا اور دعاضرور کر سکتا ہے کہ اسے مدینے میں موت آئے یا وہ کوشش کر سکتا ہے کہ زندگی کا آخری حصہ مدینے میں گزارے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَن يَمُوتَ بِا لْمَدِينَةِ فَلْيَفْعَلْ فَإِنِّي أَشْهَدُ لِمَنْ مَاتَ بِهَا))

(سنن ابن ماجه: 3112؛ سنن الترمذی : 3917 وسنده حسن)

’’تم میں سے جو شخص یہ کر سکے کہ مدینہ میں فوت ہو تو وہ ضرور اس کی کوشش کرے کیونکہ جو یہاں فوت ہوگا میں اس کے حق میں گواہی دوں گا ۔“

آخر میں ہم وہی دعا کرتے ہیں جو سیدنا عمرؓ نے کی تھی:

’’ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيْلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولك ‘‘

اے اللہ ! ہمیں اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں ہمیں موت عطا کر۔ آمین

(صحیح البخاری: ۱۸۹۰)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: