حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

رفع یدین (رکوع سے پہلے اور بعد میں ہاتھ اٹھانا) ایک عظیم سنت ہے جس پر صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت درجنوں صحیح احادیث اور صحابہ کے متواتر عمل موجود ہیں۔ لیکن بعض متعصب حنفی فقہاء اور مقلدین نے اس سنت کے خلاف صحیح مسلم کی جابر بن سمرہؓ والی حدیث («مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس») کو دلیل بنایا اور کہا کہ اس سے رفع یدین کی نفی ثابت ہوتی ہے۔

اس مضمون میں ہم قدم بہ قدم ان کے پیش کردہ حوالوں کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے اور واضح کریں گے کہ یہ روایت سلام کے وقت ہاتھ ہلانے کے بارے میں ہے، نہ کہ رکوع میں رفع یدین کے بارے میں۔

✦ رفع یدین اور "أذناب خيل شمس” والی روایت ✦

«مَا بَالُكُمْ تَرْفَعُونَ أَيْدِيَكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ.»

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم اپنے ہاتھ ایسے کیوں اٹھاتے ہو جیسے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں؟ نماز میں سکون اختیار کرو۔”

حوالہ:
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب النهي عن الإشارة في الصلاة.

اس روایت سے متعلق احناف (فریق مخالف) کے پیش کردہ دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ

① دلیلِ مخالف: الامام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ

(البنایۃ ۳/۱۳۶، طبع بیروت)

النص:
وروى المعلى عن أبي يوسف عن أبي حنيفة
وروي عن أبي يوسف أنها فرض
— البناية شرح الهداية (المؤلف: بدر الدين العيني الحنفی، متوفی 855ھ)

◈ الجواب

اصولی وضاحت:
عینی حنفی نے اس قول کو صیغۂ تمریض کے ساتھ ذکر کیا ہے (یعنی: "روى” یا "يُروى” وغیرہ کے الفاظ)، جو محدثین کے ہاں ضعیف اور غیر ثابت شدہ طریقہ ہے۔ علمِ حدیث کے قواعد میں یہ بات واضح ہے کہ جب کوئی قول مجہول صیغہ میں ہو تو وہ معتبر دلیل نہیں ہوتا۔

جیسا کہ شرح نخبة الفكر میں قاری لکھتے ہیں:

التعليق بصيغة التمريض كـ: يُروى، ويُذكر… يدل على الضعف.

یعنی: جب قول "يُروى” یا "يُذكر” کی صورت میں ہو تو یہ محض ایک ضعیف روایت کے درجے میں آتا ہے اور دلیل نہیں بنتا۔

نقلی شہادت:
تاریخِ جرجان میں ابو یوسف کی نماز کے متعلق ایک واقعہ نقل ہوا ہے کہ شجاع جرجانی نے ان کو نماز میں کہا:

"أحسن صلاتك أيها القاضي”
"اے قاضی! اپنی نماز اچھی طرح ادا کرو۔”

یہ تنبیہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کی نماز کی کیفیت میں بھی اشکال تھا۔

راویوں کا حال:

  • حمزہ بن یوسف السہمی (امام ثبت)

  • ابو بکر اسماعیلی (حافظ ثبت)

  • ابراہیم بن ہانی (ثقہ)

  • شجاع بن صبیح (صالح شخصیت)

یہ سند مضبوط ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ابو یوسف کا استدلال یا عمل بہرحال حجت نہیں۔

📌 نتیجہ:
ابو یوسف کے حوالے سے جو استدلال پیش کیا گیا، وہ غیر ثابت شدہ اور ضعیف ہے۔ لہٰذا "أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ” کو ترک رفعُ الیدین پر دلیل بنانا علمی طور پر کمزور بنیاد رکھتا ہے۔

② دلیلِ مخالف: امام ابوالحسن القدوری

(التجرید، ج2 ص519)

النص:
٢٤٤٩ – قالوا: روى جابر بن سمرة قال: كان إذا صلينا خلف رسول الله ﷺ فسلم أحدنا أشار بيده عن يمينه وعن يساره، فلما صلى قال: (ما بال أحدكم يومئ بيديه كأنها أذناب خيل شمس! إنما يكفي أحدكم أن يقول هكذا ـ وأشار بأصبعه ـ يسلم على أخيه من عن يمينه ومن عن شماله) فثبت أن الكفاية هو السلام.

٢٤٥٠ – قلنا: ذكر الكفاية في الإشارة… (كتاب التجريد للقدوري)

◈ الجواب

قدوری نے اس حدیث کو سلام کے باب میں ذکر کیا ہے، نہ کہ رکوع یا قومہ کے رفعُ الیدین میں۔
یعنی ان کے اپنے فہم کے مطابق بھی یہ حدیث صرف اتنا بتا رہی ہے کہ سلام کے وقت صرف زبان سے "السلام علیکم” کہنا کافی ہے، غیر ضروری ہاتھ ہلانا درست نہیں۔

📌 وضاحت:
اگر یہ حدیث واقعی رکوع و قومہ میں رفع یدین کی نفی کرتی، تو قدوری اسے اسی باب میں ذکر کرتے۔ لیکن انہوں نے اس کو "سلام میں ہاتھ ہلانے” کے تحت لایا، جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حدیث کا محل "سلام” ہے، نہ کہ "رفع یدین”۔

③ دلیلِ مخالف: علامہ زیلعی

(نصب الرایہ، ج1 ص472)

النص:
«…أسكُنوا في الصلاة، وهذا إنما كان في التشهد لا في القيام.» — نصب الراية لأحاديث الهداية

◈ الجواب

زیلعی حنفی نے اس روایت کے بارے میں صاف لکھا کہ یہ واقعہ تشہد اور سلام کے وقت کا ہے، قیام یا رکوع کا نہیں۔

📌 وضاحت:
یعنی خود حنفی محققین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ "أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ” والی حدیث رکوع یا قومہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا تعلق تشہد کے وقت سلام کے انداز سے ہے۔

مختصر نتیجہ:

  • قدوری نے اس روایت کو "سلام کے وقت ہاتھ ہلانے” کے باب میں رکھا۔

  • زیلعی نے بھی وضاحت کر دی کہ محل "تشہد” ہے، نہ کہ "قیام یا رکوع”۔

لہٰذا ان دونوں حضرات کے بیانات بھی اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ اس حدیث سے ترکِ رفعُ الیدین پر استدلال کرنا غلط ہے۔

④ دلیلِ مخالف: علامہ عینی (شرح سنن ابی داود، ج3 ص29)

⑫ (مکرر) دلیلِ مخالف: علامہ بدر الدین عینی (البنایۃ ۲/۲۹۴)

◈ الجواب

مخالف فریق نے ④ اور ⑫ کو دو الگ حوالہ جات بنا کر پیش کیا، حالانکہ دونوں ایک ہی مصنف یعنی بدر الدین عینی کی کتابیں ہیں۔

  • عبدالحی لکھنوی (المتوفی 1304ھ) نے عینی کے بارے میں کہا:

    «…بدر الدين العيني — ولو لم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود…»
    — الفوائد البهية في تراجم الحنفية

یعنی: اگر عینی میں تعصب کی جھلک نہ ہوتی تو ان کی کتاب اور بھی اچھی سمجھی جاتی۔

  • حتیٰ کہ خود حنفی عالم کوثری نے بھی یہ اصول بیان کیا ہے کہ جرح و تعدیل میں متعصب کی گواہی مردود ہوتی ہے۔

📌 وضاحت:
لہٰذا عینی کی عبارت کو دلیل بنا کر پیش کرنا کوئی وزنی استدلال نہیں، کیونکہ وہ خود تعصب کی بنیاد پر کلام کرتے ہیں۔

⑤ دلیلِ مخالف: ملا علی قاری

(فتح باب العنایہ ج1 ص78؛ حاشیہ مشکوٰۃ ص75)

◈ الجواب

ملا علی قاری (المتوفی 1014ھ) اپنی کتاب الأسرار المرفوعة (الموضوعات الكبرى) میں صراحت کرتے ہیں:

«أحاديثُ المنع من رفع اليدين… كلها باطلة لا يصح منها شيء.»

اردو ترجمہ:
"رفع الیدین سے منع کرنے والی جتنی بھی احادیث ہیں، وہ سب کی سب باطل ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں۔”

📌 وضاحت:
جب خود ملا علی قاری یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ رفع یدین سے ممانعت پر مبنی کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں، تو پھر ترکِ رفع پر ان کے حوالے سے استدلال کرنا منطقی طور پر بے بنیاد ہو جاتا ہے۔

مختصر نتیجہ:

  • عینی کا استدلال تعصب کی بنیاد پر ہے، جسے معتبر نہیں مانا جا سکتا۔

  • ملا علی قاری صاف اعلان کر چکے ہیں کہ "رفع یدین کی ممانعت پر مبنی تمام روایات باطل ہیں”۔

لہٰذا "أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ” کو ترک رفع پر دلیل بنانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

⑥ دلیلِ مخالف: امام محمد علی بن زکریا المنبجی

(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1 ص256)

◈ الجواب

یہ وہ واحد حنفی ہیں جن کا حوالہ اپنے ہی ماحول میں پیش کیا جا سکتا ہے، ورنہ محدثین کے ہاں اس کی کوئی بڑی حیثیت نہیں۔
اصل متن کے مطابق:

"یہ واحد حنفی ہے جس کا حوالہ تو اپنے گھر میں رکھ سکتا ہے۔”

📌 وضاحت:
یعنی اس حوالے کو بھی اگر بطور دلیل پیش کیا جائے تو وہ صرف حنفی دائرے میں ہی کچھ وزن رکھتا ہے، عام اہل علم کے ہاں اس سے ترک رفعُ الیدین پر استدلال معتبر نہیں۔

⑦-الف دلیلِ مخالف: محدث کاسانی

(بدائع الصنائع ۱/۲۰۷)

النص:
«…رأى بعضَ أصحابه يرفعون أيديهم عند الركوع وعند الرفع منه فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذنابُ خيلٍ شمسٍ أسكنوا في الصلاة.» — بدائع الصنائع

◈ الجواب

اس روایت کو محدثین کی ایک بڑی جماعت نے سلام/تشہد کے وقت پر محمول کیا ہے، جیسے کہ:

  • امام قدوری

  • علامہ زیلعی

  • امام بخاری

  • امام نووی

ان سب نے وضاحت کی ہے کہ یہ روایت رکوع یا قومہ کے رفع یدین سے متعلق نہیں بلکہ سلام میں ہاتھ کی حرکت سے متعلق ہے۔

✿ حدیثِ وعید

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فليتبوأ مقعده من النار.»
(صحیح البخاری)

📌 وضاحت:
یعنی جو شخص آپ ﷺ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
لہٰذا کسی ایسی روایت کو، جو اصل میں سلام کے وقت ہاتھ کی حرکت پر وارد ہے، رکوع یا قومہ کے رفع پر فٹ کرنا سخت خطرناک معاملہ ہے۔

◈ الجواب 2 (کاسانی کی شدت پسندی پر شہادت)

عبدالقادر القرشی (حنفی) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

«…جرى بينهما كلام… فرفع الكاساني على الفقيه المقرعة… فأُرسل إلى حلب» — الجواهر المضية في طبقات الحنفية

📌 اردو وضاحت:
یعنی کاسانی مناظرات میں سخت لہجہ اختیار کرتے تھے اور بعض اوقات تشدد آمیز انداز بھی سامنے آیا۔
یہ چیز اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان کی عبارات کو دلیل بناتے وقت احتیاط ضروری ہے۔

⑦-ب دلیلِ مخالف: شیخ سید محمد احمد طحطاوی

(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح)

النص:
«…ويُكره الرفع في غير هذه المواطن… فلا يرفع يديه عند الركوع ولا عند الرفع منه… لحديث مسلم: مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس…» — حاشیہ الطحطاوی

مزید منقولہ (اذان میں انگوٹھے چومنے کے بارے میں):
«…فإنه ﷺ يكون قائداً له في الجنة» — حاشیہ الطحطاوی

◈ الجواب

  • طحطاوی نے اس روایت کو رکوع و قومہ پر قیاس کیا، حالانکہ اصل محل سلام تھا، جیسا کہ دیگر محدثین نے وضاحت کی۔

  • مزید یہ کہ انہوں نے کچھ اور منکر روایات پر بھی اعتماد کیا، جیسے اذان کے وقت انگوٹھے چومنے کی روایت۔

✿ محدثین کی تنقید

  • کوثری اور ابو غدہ جیسے محققین نے کہا:

    «ولا تغتر بقول الطحطاوي… فهو كلام مردود… كتاب الفردوس فيه أحاديث موضوعة…» — المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص170

📌 وضاحت:
یعنی طحطاوی کی باتوں پر دھوکا نہ کھاؤ، کیونکہ ان کی بنیاد ضعیف بلکہ موضوع احادیث پر ہے۔

نتیجہ:
طحطاوی کا سلام کے محل کو رکوع پر قیاس کرنا محلِ خطا ہے اور ان کی دیگر ضعیف روایات پر اعتماد بھی ان کے استدلال کو کمزور کرتا ہے۔

⑧ دلیلِ مخالف: امام حسن بن عمار الشرنبالی

(مراقي الفلاح / ص40)

النص:
«ويُكره رفعُ اليدين عند إرادة الركوع والرفع…» — مراقي الفلاح

◈ الجواب

شرنبالی نے محض یہ کہہ دیا کہ رکوع اور قومہ میں ہاتھ اٹھانا مکروہ ہے، لیکن کوئی صحیح اور صریح دلیل پیش نہ کر سکے۔

✿ مزید وضاحت:

خود انہی کی کتاب العقد الفريد میں تقلید کی حقیقت یوں بیان کی گئی ہے:

«حقيقةُ التقليد: العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج الأربعة الشرعية بلا حجة منها.»

اردو ترجمہ:
تقلید کی حقیقت یہ ہے کہ ایسے شخص کی بات پر عمل کرنا جو شرعی دلائل (قرآن، حدیث، اجماع، قیاس صحیح) میں سے کسی پر اپنی بات قائم نہ کرے۔

بلکہ وہ مزید لکھتے ہیں:

«ليس على الإنسان التزام مذهب معين… ويجوز له العمل بما يخالف… مقلداً فيه غير إمامه…»

یعنی کسی شخص پر لازم نہیں کہ وہ ہمیشہ ایک ہی مذهب کا پابند رہے۔ اسے دوسرے امام کی بات پر بھی عمل کرنے کی اجازت ہے، اگر وہاں دلیل ہو۔

📌 نتیجہ:
جب شرنبالی خود تقلید کو ’’بغیر دلیل شخص کی پیروی‘‘ قرار دیتے ہیں، تو ان کا اپنا یہ قول (کہ رفع یدین مکروہ ہے) دلیل نہ ہونے کی وجہ سے حجت نہیں بن سکتا۔

⑨ دلیلِ مخالف: محمد ہاشم سندھی

(كشف الرين، ص 68)

◈ الجواب

محمد ہاشم سندھی کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ وہ تعصب اور غلو کا شکار تھے۔

یہاں تک کہ انہوں نے اپنی ایک کتاب ذب ذبابات الدراسات میں یہ عجیب بات لکھی کہ:

«…حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد از نزول عمل بمذھب ابو حنیفہ خواہد کرد.»

اردو ترجمہ:
"حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب زمین پر اتریں گے تو امام ابو حنیفہ کے مذہب پر عمل کریں گے!”

📌 وضاحت:
ایسی غلو آمیز نسبتیں علمی معیار سے بہت دور ہیں۔ نہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی بنیاد ہے اور نہ ہی محدثین نے اسے قبول کیا۔

نتیجہ:
جب کوئی شخص ایسی بے بنیاد اور غالی باتیں لکھتا ہو، تو اس کے حوالے سے ترکِ رفع یدین پر استدلال کرنا کسی صورت معتبر نہیں۔

⑩ دلیلِ مخالف: ابن عابدین شامی

(الفتاویٰ ۱/۴۸۴)

النص:
«وأما سلمان الفارسي رضي الله… فلم يكن في العلم والاجتهاد… كأبي حنيفة… وقد يوجد في المفضول ما لا يوجد في الفاضل.» — رد المحتار على الدر المختار

◈ الجواب

ابن عابدین شامی یہاں حضرت سلمان فارسیؓ اور امام ابو حنیفہ کے علم و اجتہاد کا تقابلی ذکر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ: اگرچہ حضرت سلمانؓ کو صحابیت کا شرف حاصل ہے، مگر علمی اجتہاد کے پہلو سے امام ابو حنیفہ کو ترجیح حاصل ہے۔

📌 وضاحت:
یہ بحث محض افضلیت اور ترجیح کے دائرے میں ہے، اس کا رکوع یا قومہ میں رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں۔
لہٰذا اس عبارت کو ترک رفع یدین کی دلیل کے طور پر پیش کرنا محلِ نزاع سے بالکل غیر متعلق ہے۔

⑪ دلیلِ مخالف: شیخ عبد الحق محدث دہلوی

(شرح سفر السعادة، ص72)

النص (اشعۃ اللمعات 2/170):
«…تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ ہاتھ اٹھانا اختلافی ہے… رفع بھی منقول ہے اور عدمِ رفع بھی…»

◈ الجواب

محدث دہلوی صاف کہتے ہیں کہ:

  • تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا معاملہ اختلافی ہے۔

  • رفع یدین بھی منقول ہے اور ترک رفع بھی منقول ہے۔

📌 وضاحت:
یہ اعتراف بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین کا وقوع ثابت ہے۔
اگر رفع یدین کبھی ہوا ہی نہ ہوتا تو محدث دہلوی یہ نہ کہتے کہ ’’رفع بھی منقول ہے‘‘۔

نتیجہ:
چونکہ رفع یدین کے ثبوت کا اقرار خود محدث دہلوی نے کیا ہے، لہٰذا حدیث «أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ» سے ترک رفع پر اصرار کرنا اصل حقیقت کے خلاف ہے۔

⑫ (مکرر) دلیلِ مخالف: علامہ بدر الدین عینی

(البنایۃ ۲/۲۹۴)

◈ الجواب

یہ حوالہ پہلے (④) میں آ چکا ہے۔
عینی کا استدلال تعصب پر مبنی ہے اور جرح و تعدیل میں متعصب کی گواہی معتبر نہیں۔
لہٰذا اسے دوبارہ دلیل بنانا محض تکرار ہے۔

⑬ دلیلِ مخالف: علامہ عبدالعزیز پرہاروی

(کوثر النبی)

◈ الجواب

پرحاروی کی کتاب میں "أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ” کو ترک رفع یدین کی دلیل کے طور پر سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
البتہ انہوں نے اصولی مباحث میں بعض تابعین کو بعض صحابہ پر فقہی ترجیح دینے کی گفتگو کی ہے، جیسا کہ:

«قال أبو حنيفة: كان حماد أفقه من سالم… وعلقمة ليس بدون من ابن عمر في الفقه… وإن كانت لابن عمر فضل صحبة…» — كوثر النبي

📌 وضاحت:
یہ ساری بحث "افضلیت” اور "فقہی ترجیح” کے بارے میں ہے، رکوع یا قومہ کے رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں۔

⑭ دلیلِ مخالف: ابو الفرج ابن الجوزی

(كشف المشكل من حديث الصحيحين 1/295)

◈ الجواب

ابن الجوزی لکھتے ہیں:

«…ليس لهم فيه حجة؛ لأنه قد روي مفسَّراً بعد حديثين…» — كشف المشكل

📌 وضاحت:
ابن الجوزی کے مطابق یہ حدیث "سلام کے وقت ہاتھ ہلانے” کے بارے میں ہے، اور دیگر مفصل روایات اس کو واضح کر دیتی ہیں۔
لہٰذا اسے رکوع یا قومہ پر فٹ کرنا حدیث کے خلاف تاویل ہے۔

⑮ دلیلِ مخالف: علامہ مغلطائی

(شرح ابن ماجہ 1/74)

◈ الجواب

مغلطائی فرماتے ہیں:

«…استدلال بعض الحنفية… فليس بصحيح؛ لأنهم إنما كان ذلك حالة السلام فيما ذكره البخاري وغيره.» — شرح سنن ابن ماجه

📌 وضاحت:
یعنی بعض احناف کا اس حدیث کو ترک رفع یدین پر دلیل بنانا درست نہیں، کیونکہ اصل واقعہ سلام کے وقت کا تھا، جیسا کہ امام بخاری اور دیگر محدثین نے وضاحت کی ہے۔

مختصر نتیجہ:

  • عینی کا استدلال پہلے ہی رد کیا جا چکا۔

  • پرہاروی کی بحث اصل محل سے غیر متعلق ہے۔

  • ابن الجوزی اور مغلطائی دونوں نے واضح کہا کہ حدیث کا تعلق صرف سلام سے ہے، رکوع یا قومہ سے نہیں۔

⑯ دلیلِ مخالف: برہان الدین ماشہ

(المحيط البرهاني 2/55)

◈ الجواب

بعض حنفی علماء نے خود ہی اس کتاب کے بارے میں کہا ہے کہ یہ قابلِ اعتماد نہیں۔

  • عبدالحی لکھنوی فرماتے ہیں:

    «…مفقود في ديارنا… لا يحل النقل منه ولا الإفتاء عنه…» — الفوائد البهية

  • ابن نجیم (مصنف بحر الرائق) بھی لکھتے ہیں:

    «…لا يجوز الإفتاء منه… لا يحل النقل من الكتب الغريبة.» — الفوائد البهية

📌 وضاحت:
یعنی ایسی کتاب جس سے خود حنفی علماء نقل کرنے یا فتویٰ دینے کو ناجائز قرار دیں، اس سے ترک رفع یدین پر استدلال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

⑰ دلیلِ مخالف: شہاب الدین ابن ادریس المالکی

(الزخیرۃ 2/22)

◈ الجواب

اصل متن میں اس حوالے پر کوئی تفصیلی جواب درج نہیں تھا۔
لیکن اصولی طور پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ مالکیہ کے بڑے ائمہ (مثلاً امام مالکؒ) رفع یدین کے قائل تھے، لہٰذا یہ جزوی قول کسی بھی صورت ترک رفع یدین کے لیے حجت نہیں ہو سکتا۔

⑱ دلیلِ مخالف: علامہ حاجہ النجاح الحلبی

(فقہ العبادات 1/187)

◈ الجواب

یہ مصنف مجہول الحال ہیں۔ یعنی ان کے حالات اور علمی مرتبے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔

اصولِ حدیث کے مطابق:

  • مجہول یا مستور کی خبر حجت نہیں۔

  • امام حسام الدین خسیکثی (المعروف الحسامی) نے لکھا ہے:

    «فاسق کی طرح مستور کی خبر بھی حجت نہیں جب تک عدالت ظاہر نہ ہو۔»

📌 وضاحت:
جب کسی راوی یا مصنف کا حال ہی معلوم نہ ہو تو اس کے قول کو شریعت میں دلیل بنانا اصول کے خلاف ہے۔

مختصر نتیجہ:

  • برہانی کی کتاب حنفی علماء کے نزدیک ہی ناقابلِ اعتماد ہے۔

  • ابن ادریس مالکی کا یہ قول جزوی اور غیر مؤثر ہے۔

  • حلبی کی عبارت چونکہ ایک مجہول شخص سے ہے، اس لیے دلیل بن ہی نہیں سکتی۔

⑲ دلیلِ مخالف: یاسین الفحل

(أثر اختلاف المتون والأسانيد 1/477)

◈ الجواب

یاسین الفحل نے امام بخاری کے معلق قول کو نقل کیا ہے:

«فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام… ولا يحتج به من له حظ من العلم… ولَو كان كما ذهب إليه… لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة وتكبيرات العيد منهياً عنها.» — أثر اختلاف الأسانيد والمتون

📌 وضاحت:

  • امام بخاری نے صاف کہا کہ یہ واقعہ تشہد کا ہے، نہ کہ قیام کا۔

  • اگر کوئی اسے قیام یا رکوع پر محمول کرے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تکبیرِ اُولیٰ اور عیدین کی تکبیروں میں بھی رفع یدین منع ہو، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔

نتیجہ:
یعنی استدلال کا نتیجہ باطل نکلتا ہے، اس لیے دلیل بھی باطل ہے۔

⑳ دلیلِ مخالف: محمد حسن محدث سنبھلی

(تنسیق النظام، ص55)

◈ الجواب

اصل متن میں اس کے اسلوبِ تحریر پر سخت تنقید کی گئی ہے۔
ہم ادب کے تقاضے کے تحت صرف یہی عرض کریں گے کہ:

📌 وضاحت:

  • حدیث «أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ» کا محل سلام ہے۔

  • اسے رکوع یا قومہ کے ترک رفع پر دلیل بنانا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

(اصل متن میں ان کی تحریروں کے بارے میں تند کلام بھی درج تھا، مگر یہاں ہم صرف علمی نکتہ پر اکتفا کرتے ہیں۔)

㉑ دلیلِ مخالف: ابن ربیعان الدوسری

(رد خبر الواحد بما يسمى… 1/63)

◈ الجواب

ابن ربیعان الدوسری لکھتے ہیں:

«…وهذا لا حجة فيه لأن الذي نهاهم عنه رسول الله ﷺ غير الذي كان يفعلُه… محال أن ينهاهم عما سَنَّ لهم… وإنما رأى أقواماً يعبثون بأيديهم ويرفعونها في غير مواضع الرفع فنهى عن ذلك.»رد خبر الواحد

📌 وضاحت:

  • رسول اللہ ﷺ نے جس بات سے منع کیا، وہ دراصل "غیر محل میں ہاتھ ہلانا” تھا۔

  • اور جو عمل آپ ﷺ نے سنت کے طور پر سکھایا (رفع یدین رکوع میں) وہ منع شدہ نہیں۔

نتیجہ:
لہٰذا یہ حدیث رفع یدین کے خلاف نہیں بلکہ بے جا حرکات کے خلاف ہے۔

㉒ دلیلِ مخالف: ابن عوض اللہ بن محمد

(الإرشادات في تقوية الأحاديث بالشواهد والمتابعات 1/170)

◈ الجواب

ابن عوض اللہ لکھتے ہیں:

«…احتج بها بعض الكوفيين لمذهبهم في المنع من رفع اليدين… فقال: "مالي أراكم…” فهذه رواية مختصرة، فينبغي حملها على الرواية الأولى المفصلة… أن هذا الرفع كان في التشهد والتسليم، وليس في الركوع أو الرفع منه.» الإرشادات

📌 وضاحت:
یہاں ایک اصولی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ مختصر روایت کو ہمیشہ مفصل روایت پر محمول کیا جاتا ہے۔
چونکہ مفصل روایات میں صاف آ گیا ہے کہ یہ معاملہ سلام اور تشہد سے متعلق ہے، اس لیے مختصر روایت کو بھی اسی پر سمجھنا لازم ہے۔

مختصر نتیجہ:

  • یاسین الفحل کے مطابق قیام پر محمول کرنا لازمِ باطل پیدا کرتا ہے۔

  • سنبھلی کا اسلوب سخت تھا لیکن نتیجہ غلط تھا۔

  • ابن ربیعان نے وضاحت کی کہ نہی "غیر محل کے ہاتھ ہلانے” پر تھی۔

  • ابن عوض اللہ نے اصولی قاعدے کے تحت مختصر روایت کو مفصل پر محمول کیا۔

㉓ دلیلِ مخالف: امام نووی (المجموع 3/400)

النص:
«وأما حديث جابر بن سمرة فاحتجاجهم به من أعجب الأشياء وأقبح أنواع الجهالة بالسنة؛ لأنه لم يرد في رفع الأيدي في الركوع والرفع منه، ولكن كانوا يرفعون أيديهم في حالة السلام… ولا خلاف فيه بين أهل الحديث ومن له أدنى اختلاطٍ بأهل الحديث.» المجموع شرح المهذب

◈ الجواب

امام نووی (رحمہ اللہ) صاف فرما رہے ہیں:

  • اس حدیث کو ترک رفع یدین پر دلیل بنانا جہالت ہے۔

  • یہ روایت رکوع یا قومہ کے رفع یدین کے بارے میں نہیں، بلکہ سلام کے وقت ہاتھ ہلانے کے بارے میں ہے۔

  • اور اس بات پر اہل حدیث کے مابین کوئی اختلاف ہی نہیں۔

📌 وضاحت:
یعنی یہ بات بالکل متفقہ ہے کہ "أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ” والی حدیث سلام کے بارے میں ہے، رکوع یا قومہ کے بارے میں نہیں۔

㉔ دلیلِ مخالف: قاضی عیاض مالکی

(إكمال المعلم بفوائد مسلم 2/344)

النص:
«(٢٧) بابُ الأمر بالسكون في الصلاة، والنهي عن الإشارة باليد ورفعها عند السلام…» إكمال المعلم بفوائد مسلم

◈ الجواب

قاضی عیاض نے خود باب باندھ کر وضاحت کر دی کہ یہ حدیث "سلام کے وقت ہاتھ ہلانے” سے متعلق ہے۔
📌 وضاحت:
جب محدثین نے خود باب بندی میں محل واضح کر دیا، تو پھر اسے رکوع یا قومہ کے رفع یدین پر لے جانا سراسر غلط تاویل ہے۔

❀ پورے مضمون کا خلاصہ

پوری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ:

  • حدیث «أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ» کو رکوع یا قومہ میں رفع یدین کی نفی پر پیش کرنا علمی خیانت ہے۔

  • محدثین کی وضاحت کے مطابق یہ حدیث صرف اور صرف تشہد اور سلام کے وقت ہاتھ کی حرکت سے ممانعت کرتی ہے۔

  • ترک رفع یدین پر پیش کیے گئے تمام حوالہ جات یا تو محلِ حدیث سے غیر متعلق نکلے، یا خود ان کے مصنفین نے بھی اعتراف کیا کہ یہ حدیث سلام کے بارے میں ہے۔

✅ نتیجہ:
پس یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ احناف کے پاس رفع یدین کی نفی پر کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں۔ بلکہ ان کے پیش کردہ اکثر حوالہ جات تعصب یا بے بنیاد اقوال پر مبنی ہیں۔

اہم حوالاجات کے سکین

حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 01 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 02 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 03 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 04 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 05 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 06 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 07 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 08 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 09 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 10 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 11 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 12 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 13 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 14 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 15 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 16 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 17 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 18 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 19 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 20 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 21 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 22 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 23 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 24 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 25 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 26 حدیثِ أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اور ترکِ رفع یدین: نصوص و دلائل کی روشنی میں – 27

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے