حبیب اللہ ڈیروی صاحب اور ان کا طریقۂ استدلال
تحریر:حافظ زبیر علی زئی

الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ و السلامس علیٰ رسولہ الأمین، أما بعد :

اس مضمون میں حافظ حبیب اللہ ڈیروی حیاتی دیوبندی صاحب کی بعض مطبوعہ کتابوں میں سے بعض موضوع و مردود روایات  باحوالہ پیشِ خدمت ہیں ۔ جن سے انہوں نے استدلال کیا ہے یا بطور حجت پیش کیا ہے  ۔ اس کے بعد ڈیروی صاحب کے اکاذیب اور اخلاقی کردار کے دس دس نمونے درج کئے گئے ہیں تاکہ حبیب اللہ ڈیروی صاحب او ران طریقۂ استدلال عام لوگوں کے سامنے واضح ہوجائے ۔

۱:        ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"اور  حضرت امام شافعیؒ جب حضرت امام ابوحنیفہؒ کی قبر کی زیارت کے لئے پہنچے تو وہاں نمازوں میں رفع الیدین چھوڑ دیا تھا کسی نے امام شافعیؒ سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا :          استحیاًء من صاحب  ھٰذا القبر                 اس قبر والے سے حیا آتی ہے ۔
حضر ت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ تکمیل الاذھان ص ۱۵۷ میں اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں "مشعر لعدم التاکید” کہ یہ واقعہ اس بات کا مشعر ہے کہ رفع الیدین عندالرکوع وغیرہ امام شافعی کے ہاں مؤکد نہ تھا۔
(نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ، طبع دوم ۱۴۰۶؁ھ ص ۲۹،۳۰)

اس پر تبصرہ کرتے ہوئےراقم الحروف نے لکھا تھا:

"یہ واقعہ جعلی اور سفید جھوٹ ہے۔ شاہ رفیع الدین کا کسی واقعہ کو بغیر سند نقل کردینا اس واقعہ کی صحت کی دلیل نہیں ہے ۔ شاہ رفیع الدین اور امام شافعی کے درمیان کئی سو سال کا فاصلہ ہے جس میں مسافروں کی گردنیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ ڈیروی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعہ کی مکمل اور مفصل سند پیش کریں تا کہ راویوں کا صدق و کذب معلوم ہوجائے ۔ اسناد دین میں سے ہیں اور بغیر سند کے کسی بات کی ذرہ برابر  حیثیت نہیں ہے ۔”                              (نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین ، طبع اول ۱۴۱۳؁ھ ص ۲۱)

ابھی تک ڈیروی صاحب یا ان کے کسی ساتھی نے اس موضوع و مردود قصے کی کوئی سند پیش نہیں کی ہے ۔

(۱۱جمادی الاولیٰ ۱۴۲۷؁ھ)

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس من گھڑت قصے کی ان لوگوں کے پاس کوئی سند موجود نہیں ہے۔

۲:        ڈیروی صاحب لکھتے ہیں :

"حضرت امام ابوحنیفہؒ ترک رفع الیدین پر عمل کرتے تھے اور اس کو حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت قرار دیتے تھے اور رفع الیدین کرنے والوں کو منع کرتے تھے ۔چنانچہ حافظ ابن حجر لسان المیزان ج۲ ص ۳۲۲ میں لکھتے ہیں:          قتیبہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو مقاتل سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ کے پہلو میں نماز پڑھی اور میں رفع الیدین کرتا رہا جب امام ابوحنیفہؒ نے سلام پھیرا تو کہا اے ابو مقاتل شاید تو بھی پنکھوں والوں سے ہے ”     (نور الصباح ص ۳۱)

ابومقاتل حفص بن سلم المسرقندی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ ابن عدی، ابن حبان اور جوزجانی وغیرہم نے اس پر جرح کی ۔ (دیکھئے الکامل ۸۰۱/۲ ، المجروحین ۲۵۶/۱، احوال الرجال : ۳۷۴)

ابو نعیم الاصبہانی نے اسے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ۔ (۵۲ م)

حاکم نیشاپوری نے کہا:

"حدث عن عبیداللہ بن عمر و أیوب السختیاني و مسعر وغیرہ بأحادیث موضوعۃ…”          اس (ابو مقاتل) نے عبیداللہ بن عمر، ایوب السختیانی اور مسعر وغیرہم سے موضوع احادیث بیان کی ہیں ۔ (المدخل الی الصحیح ص ۱۳۰،۱۳۱ رقم: ۴۲)

حافظ ذہبی نے کہا :”واہٍ”        وہ (سخت) کمزور (راوی ) ہے  ۔ (دیوان الضعفاء : ۱۰۵۰)جمہور کی اس جرح کے مقابلے میں محدث خلیلی کی توثیق مردود ہے ۔

صالح بن عبداللہ (الترمذی) فرماتے ہیں کہ ہم ابومقاتل السمر قندی کے پاس تھے تو وہ وصیتِ لقمان، قتلِ سعید بن جبیر اور اس جیسی لمبی حدیثیں عون بن ابی شداد سے بیان کرنے لگا۔ ابومقاتل کے بھتیجے نے اس سے کہا : اے چچا! آپ یہ نہ کہیں کہ ہمیں عون نے حدیث بیان کی کیونکہ آپ نے یہ چیزیں نہیں سنیں۔ اس نے کہا: اے بیٹے ! یہ اچھا کلام ہے ۔ (کتاب العلل للترمذی مع السنن ص ۸۹۲ و سندہ صحیح)

معلوم ہوا کہ بزعمِ خود اچھے کلام کے لئے ابو مقاتل صاحب سندیں گھڑنے سے بھی باز نہیں آتا تھا ۔ایسے کذاب کی روایت ڈیروی صاحب بطورِ استدلال پیش کر رہے ہیں۔

۳:       ڈیروی صاحب بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ (ج۱ ص ۱۶۰) لکھتے ہیں :

"عن جابر عن الأسود و علقمۃ أنھما کان یرفعان أیدیھما إذا افتتحاثم لا یعودان”
حضرت اسوداور حضرت علقمہ افتتاح الصلوٰۃ کے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور اس کے بعد رفع الیدین کے لئے نہ لوٹتے تھے ۔” (نور الصباح ص ۴۷)

اس کا راوی جابر الجعفی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا:

"ضعیف رافضي” وہ ضعیف رافضی ہے ۔ (تقریب التہذیب : ۸۷۸)

امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا:

"ما رأیت أحداً أکذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء بن أبي رباح”

میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھااور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔ (العلل الترمذی ص ۸۹۱ و سندہ حسن)

بذاتِ خو دڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"جابر بن یزید جعفی بہت جھوٹا اور شیعہ خبیث ہے ۔ مگر انصاری صاحب نے اس بہت بڑے جھوٹے سے بھی رفع الیدین کی روایت الرسائل ص ۳۶۲،۳۶۴ وغیرہ میں درج کی ہے کیونکہ مسلمانوں کو دھوکا دینا مقصود ہے ۔”

(مقدمہ نور الصباح بترقیمی ص ۱۹، یہ عبارت مقدمۃ الکتاب سے پہلے ہے)

معلوم ہوا کہ بقلم خود جھوٹے کی روایت پیش کرکے ڈیروی صاحب نے عام مسلمانوں کو دھوکا  دیا ہے ۔

۴:       ڈیروی صاحب اپنے ممدوح انور شاہ کشمیری دیوبندی (العرف الشذی ص ۴۸۷) سے نقل کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے روایت کی گئی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جس مسئلہ پر امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ متفق ہوجائیں تو اس کےخلاف کوئی بات نہ سنی جائے کیونکہ امام ابوحنیفہؒ قیاس کے زیادہ ماہر ہیں….” (نور الصباح ص ۳۲)

کاشمیری صاحب اور ڈیروی صاحب کی پیش کردہ یہ روایت محض بے سند ، بے اصل اور من گھڑت ہے۔

اس کے مقابلے میں امام احمدؒ فرماتے ہیں:

"حدیث أبي حنیفۃ ضعیف و رأیہ ضعیف” ابوحنیفہ کی حدیث ضعیف ہے اور اس کی رائے (بھی) ضعیف ہے ۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی ۲۸۵/۴ و سندہ صحیح)

امام احمد اپنی مشہور کتاب المسند میں امام ابوحنیفہ کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

(دیکھئے مسند احمد ۳۵۷/۵  ح ۲۳۴۱۵)

امام احمؒد سے امام ابوحنیفہؒ کی توثیق و تعریف قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ جرح ہی جرح ثابت ہے جس کی تفصیل میری کتاب "الأسانید الصحیحۃ في أخبار الإمام أبي حنیفۃ” میں درج ہے ۔

قاضی ابو یوسف کے بارے میں امام احمدؒ فرماتے ہیں:

"وأنا لا أحدث عنہ”        اور میں اس سے حدیث بیان نہیں کرتا ۔

(تاریخ بغداد ۲۵۹/۱۴ و سندہ صحیح، نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ : ۱۹ ص ۵۱)

محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں امام احمدؒ فرماتے ہیں:

"لا أروي عنہ شیئاً” میں اس سے کوئی چیز (بھی) روایت نہیں کرتا ۔

(کتاب العلل و معرفۃالرجال للامام احمد ۲۵۸/۲ ت ۱۸۶۲، دوسرا نسخہ: ۵۳۲۹)

امام احمدؒ سے کسی نے پوچھا کہ ایک علاقے میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک اصحاب الحدیث جو روایتیں تو بیان کرتے ہیں مگر صحیح ضعیف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ دوسرا اصحاب الرائے ہیں جن کی معرفتِ حدیث (بہت) تھوڑی ہے ۔ کس سے مسئلہ پوچھنا چاہئے؟

امام احمدؒ نے جواب دیا:

"یسأل أصحاب الحدیث ولا یسأل أصحاب الرأي، ضعیف الحدیث خیر بن رأي أبي حنیفۃ”          اصحاب الحدیث سے مسئلہ پوچھنا چاہئے اور اصحاب الرائے سے نہیں پوچھنا چاہئے ۔ ابوحنیفہؒ کی رائے سے ضعیف الحدیث (راوی ) بہتر ہے ۔                     (تاریخ بغداد ۴۴۹/۱۳ و سندہ صحیح، المحلّیٰ لابن حزم ۶۸/۱ ، السنۃ لعبد اللہ بن احمد: ۲۲۹)

ڈیروی صاحب اور تمام آلِ دیوبند سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ کاشمیری صاحب کی بیان کردہ اس روایت کی صحیح و متصل سند پیش کریں۔

۵:       ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"امام بخاریؒ کے استاد حافظ ابوبکر بن ابی شیبہؒ اپنے مصنف ج ۱ ص ۱۵۹میں لکھتے ہیں:

"عن أشعت عن الشعبي أنہ کان یرفع یدیہ في أول التکبیرۃ ثم لا یرفعھما”
حضرت امام شعبیؒ پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرتے پھر اس کے بعد نہ کرتے تھے ۔”                                                            (نور الصباح ص ۴۵)

اس اثر کا راوی اشعت بن سوار جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے لہذا یہ روایت مردود ہے ۔

ڈیروی صاحب ایک روایت کے بارے میں بقلمِ خود لکھتے ہیں:

"پھر اس کی سند میں اشعت بن سوار الکندی الکوفی ہے جو عندالجمہور ضعیف ہے۔                                                            (تہذیب التہذیب ص ۳۵۲ ج ۱ تا ص ۳۴۵)
(توضیح الکلام پر ایک نظر ص ۲۷۴، ۲۷۵)

۶:        ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"ابن جریج ایک راوی ہے جس نے نوے عورتوں سے متعہ و زنا کیا تھا۔ (تذکرہ الحفاظ للذہبی وغیرہ)”       (نور الصباح ص ۱۸مقدمہ بترقیمی)

ابن جریج سے باسند صحیح نوے عورتوں (یا صرف ایک عورت سے بھی) متعہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

تذکرۃ الحفاظ (۱۷۰/۱ ، ۱۷۱ ت ۱۶۴) کے سارے حوالے بے سند و مردود ہیں۔ زنا کا لفظ ڈیروی صاحب نے خود گھڑ لیا ہے جب کہ اس کے برخلاف تذکرۃ الحفاظ کی بے سند مردود روایت میں "تزوّج”کا لفظ ہے ۔ (ص ۱۷۹)

ڈیروی صاحب  نے بقلمِ خود "متعہ و زنا ” کرنے والے ابن جریج کو "ثقہ” لکھا ہے ۔                                                                                (نور الصباح ص ۲۲۲)

انھوں نے اسی کتاب میں ابن جریج کی روایت سے استدلال کیا ہے ۔ (دیکھئے نور الصباح ص ۲۲)

۷:       ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"چنانچہ امام بخاریؒ کے استاد حافظ ابوبکرؒ مصنف  ج ۱ص ۱۶۰ میں لکھتے ہیں:

(عن سفیان بن مسلم الجھني قال کان این أبي لیلیٰ یرفع یدیہ أول شئ إذا کبر)
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ صرف ابتداء میں رفع الیدین کرتے تھے جب تکبیر کرتے تھے۔                                                            (نور الصباح ص ۴۳)

عرض ہے کہ سفیان بن مسلم الجہنی بالکل نامعلوم و مجہول راوی ہے ، اس کی توثیق کہیں نہیں ملی۔ عین ممکن ہے کہ یہ کتابت یا طباعت کی غلطی ہو اور صحیح لفظ "سفیان عن مسلم الجھني” ہو ۔ واللہ اعلم !

مسلم بن سالم ابوفروۃ الجہنی صدوق راوی ہے لیکن سفیان (ثوری) مشہور مدلس ہیں لہذا اس صورت میں بھی سفیان کی تدلیس کی وجہ سے یہ سند ضعیف و مردود ہے ۔

۸:       مصنف ابن ابی شیبہ (۱۶۰/۱ہمارا نسخہ ۲۳۶/۱ ح ۲۴۴۷) کی ایک روایت "عن الحجاج عن طلحۃ عن خثیمۃ” نقل کرنے سے پہلے ڈیروی صاحب جلی خط میں لکھتے ہیں:

"حضرت خثیمہؒ التابعی بھی رفع الیدین نہیں کرتے تھے” (نور الصباح ص ۴۸)

عرض ہے کہ اس سند میں حجاج غیر متعین ہونے کی وجہ سے مجہول ہے ۔ اگر اس  سے مراد ابوبکر (بن عیاش) کا استاد حجاج بن ارطاۃ لیا جائے تو اس کے بارے میں ڈیروی صاحب خود لکھتے ہیں کہ "کیونکہ حجاج بن ارطاۃ ضعیف اور مدلس اور کثیر الخطاء اور متروک الحدیث ہے ” (نور الصباح ص ۲۲۴)

اس بقلمِ خود "ضعیف” اور "متروک الحدیث” کی روایت کو ڈیروی صاحب نے بحوالہ مسند احمد ج ۴ ص ۳ بطورِ دلیل نمبر ۱۹پیش کرکے استدلال کیا ہے ۔ (نور الصباح ص ۱۶۷،۱۶۸)

اس طرح کی بے شمار مثالیں اس کی دلیل ہیں کہ جو روایت  ڈیروی صاحب کی من پسند ہوتی ہے وہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور جو روایت ان کی مرضی کے خلاف ہوتی ہے تو اس پر جرح کردیتے ہیں۔

۹:        ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:

"اور جب حضرت علیؓ کوفہ تشریف لائے اور حضرت ابن مسعودؓ  کی تعلیم اور متعلمین کو دیکھا تو بے ساختہ بول اٹھے: "أصحاب عبداللہ سُرج ھٰذہ القریۃ”          حضرت عبداللہ کے شاگرد تو اس بستی کے چراغ ہیں۔(طبقات ابن سعد ج۶ ص ۴)    (نور الصباح ص ۵۰، ۵۱)

یہ روایت طبقات ابن سعد (ہمارا نسخہ ج۶ ص ۱۰) اور حلیۃ الاولیاء (۱۷۰/۴) میں  مالک بن مِغْوَل عن القاسم (بن عبدالرحمٰن) عن علیؓ کی سند سے مروی ہے ۔

قاسم غیر متعین ہے ۔ اگر اس سے قاسم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود المسعودی یا قاسم بن عبدالرحمٰن الدمشقی مراد لیا جائے تو یہ روایت منقطع ہے لہذا مردود ہے ۔

۱۰:       سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ایک تفسیر منسوب ہے ۔ یہ ساری کی ساری تفسیر موضوع اور من گھڑت ہے ۔اس کی سند سے محمد بن مروان السدی اور محمد بن السائب الکلبی دونوں کذاب راوی ہیں۔

(دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ: ۲۴ص ۵۰تا ۵۴)

اس موضوع تفسیر سے ڈیروی صاحب نقل کرتے ہیں:

"مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناً ولا شمالًا ولا یرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ          عاجزی و انکساری کرنے والے جو دائیں اور بائیں نہیں دیکھتے اور نہ وہ نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں۔          قارئین کرام حضرت ابن عباسؓ کا یہ فتویٰ ان کی مرفوع روایت کے عین موافق ہے جس میں رفع الیدین سے منع کیا گیا ہے ۔” (نور الصباح ص ۷۲)

یہ عبارت ہمارے نسخہ میں ص ۲۱۲پر ہے ۔

اس تفسیر کے راوی سدی کے بارے میں ڈیروی صاحب کے ممدوح سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

"سدی کذاب اور وضاع ہے ”     (اتمام البرہان ص ۴۵۵)

سرفراز خان صاحب مزید لکھتے ہیں:

"آپ لوگ سدی کی "دم” تھامے رکھیں اور یہی آپ کو مبارک ہو ” (اتمام البرہان ص ۴۵۷)

معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب سدی کی یہ تفسیر پیش کرکے ڈیروی صاحب نے سدی کذاب کی "دم” تھام لی ہے ۔!

تنبیہ:    سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے یہ ثابت ہے کہ آپ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۱ ص ۲۳۵ ح ۲۴۳۱ و سندہ حسن) لہذا یہ موضوع تفسیری روایت صحابی کے عمل کے مقابلے میں بھی مردو د ہے ۔

یہ دس روایات بطورِ نمونہ پیش کی گئی ہیں تاکہ عام مسلمانوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ حافظ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے موضوع و مردود روایات سے استدلال کیا ہے اور من گھڑت روایات کو بطورِ حجت پیش کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے