حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

اس مضمون میں ہم ایک بریلوی مصنف کے حافظ ابن حبانؒ پر لگائے گئے اس صریح بہتان کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ حافظ ابن حبانؒ اولیاء اللہ کی قبور کے وسیلے سے دعا مانگنے کے قائل تھے۔ ہم اس جھوٹ کی اصل عبارت، اس کا درست سیاق، اور اہلِ علم کی وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے کہ حافظ ابن حبانؒ کے کلام میں "قبروں کے وسیلے” کا کوئی ذکر تک موجود نہیں۔ اس تحقیق میں ہم قبر پر دعا کرنے کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت پر محدثین کے اقوال، صحیح احادیث، اور فقہاء کے منہج کو پیش کریں گے، نیز قبروں کی زیارت کے مسئلے پر سلف کے فتاویٰ، اور دعا کی قبولیت میں اصل سبب کیا ہے — اس پر ابن قیمؒ، ذہبیؒ اور دیگر ائمہ کے اقوال شامل ہوں گے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کیا جائے گا کہ مجتہدین سے اگر اجتہاد میں خطا بھی ہو جائے تو وہ اجر سے محروم نہیں ہوتے۔

دعویٰ، اصل عبارت اور ابتدائی تردید

1️⃣ بریلوی کا دعویٰ

اسد نامی بریلوی لکھتا ہے:

امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی 354ھ) کا اولیاء اللہ کی قبور کے وسیلے کے حوالے سے عقیدہ اور موقف!
… میں نے طوس میں امام علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی کئی بار زیارت کی، اور جب بھی کسی سخت پریشانی کا سامنا ہوا تو اس قبر پر آ کر اللہ سے دعا کی، اللہ نے دعا قبول کی اور مشکل دور کی۔ یہ میرا آزمایا ہوا طریقہ ہے…

پھر اس متن سے خود ساختہ نتیجہ اخذ کیا کہ:

امام ابن حبان اپنی دعا کی قبولیت کے لیے امام علی بن موسیٰ کی قبر کو وسیلہ بناتے تھے۔

2️⃣ ابتدائی تردید

🔹 پوری عربی عبارت میں "قبر کے وسیلہ” یا "توسل بالمقبور” کے کوئی الفاظ موجود نہیں۔
🔹 یہ بدعتی مصنف نے اپنے مطلب کے لیے "قبر پر دعا” کو "قبر کے وسیلے” میں بدل دیا، جو صریح تحریف اور جھوٹ ہے۔

3️⃣ حافظ ابن حبان کا منہج – اپنی صحیح میں

حافظ ابن حبان نے اپنی "صحیح” میں ایک مستقل باب باندھا:

اصل متن:

ذِكْرُ الْأَمْرِ لِمَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا الْعَافِيَةَ لِنَفْسِهِ وَلِمَنْ تَحْتَ أَطْبَاقِ الثَّرَى نَسْأَلُ اللَّهَ الْبَرَكَةَ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ
(الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان)

یعنی: "ذکر اس حکم کا کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو، وہ اللہ سے اپنے لیے اور ان کے لیے جو مٹی کے نیچے ہیں، عافیت مانگے، اور ہم اس حالت میں برکت کا سوال کرتے ہیں۔”

پھر اس باب کے تحت حدیث ذکر کی:

3173 – متن الحدیث:

بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ يُعَلِّمُهُمْ أَنْ يَقُولُوا: "السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدَّارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ، وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ، نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ”
(الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان)

📌 استنباط:

  • حافظ ابن حبان کے نزدیک قبرستان میں اپنے لیے اور میت کے لیے دعا مانگنا سنت ہے۔

  • انہوں نے اس کو "باب الدعاء عند القبور” میں ذکر کیا، مگر یہ "قبروں کو وسیلہ بنانا” نہیں بلکہ "قبر پر اللہ سے دعا کرنا” ہے۔

محدثین کی وضاحت – دعا کی قبولیت کا اصل سبب

1️⃣ ابن قیم الجوزیہؒ (751ھ) – دعا کی قبولیت کا سبب

اصل متن:

أن فلانا استغاث بالقبر الفلانى فى شدة فخلص منها.
فيدعو العبد عنده بحرقة وانكسار وذلة، فيجيب الله دعوته لما قام بقلبه، لا لأجل القبر. فإنه لو دعاه كذلك فى الحانة والخمارة والحمام والسوق أجابه، فيظن الجاهل أن للقبر تأثيرا فى إجابة تلك الدعوة، والله سبحانه يجيب دعوة المضطر، ولو كان كافراً.
(إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان)

ترجمہ:
کسی نے کہا کہ فلاں نے فلاں قبر پر سختی میں دعا کی اور وہ مشکل دور ہو گئی۔ تو حقیقت یہ ہے کہ بندہ قبر پر حرارت، عاجزی اور انکساری سے دعا کرتا ہے تو اللہ اس کے دل کی کیفیت کی وجہ سے دعا قبول فرماتا ہے، قبر کی وجہ سے نہیں۔ اگر وہ اسی کیفیت سے کسی قحبہ خانے، شراب خانے، حمام یا بازار میں دعا کرے تب بھی اللہ قبول کر سکتا ہے۔ مگر جاہل سمجھتا ہے کہ قبر کا اثر ہے، حالانکہ اللہ مضطر کی دعا قبول کرتا ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔

2️⃣ حافظ ذہبیؒ (748ھ) – ہر جگہ دعا کی قبولیت

اصل متن:

وَالدُّعَاءُ مُسْتَجَاب عِنْد قُبُوْر الأَنْبِيَاء وَالأَوْلِيَاء، وَفِي سَائِر البِقَاع، لَكِن سَبَبُ الإِجَابَة حُضُورُ الدَّاعِي، وَخُشُوعُهُ وَابتِهَاله، وَبلاَ رَيْبٍ فِي البقعَةِ المُبَارَكَة، وَفِي المَسْجِدِ، وَفِي السَّحَر… وَكُلُّ مُضطر فَدُعَاؤُه مُجَابٌ.
(سير أعلام النبلاء)

ترجمہ:
انبیاء اور اولیاء کی قبور پر بھی دعا قبول ہوتی ہے اور باقی جگہوں پر بھی۔ لیکن سببِ قبولیت دعا کرنے والے کی حضوریِ قلب، خشوع اور التجاء ہے۔ البتہ مبارک جگہ، مسجد، سحر کے وقت وغیرہ پر یہ کیفیت زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ ہر مضطر کی دعا قبول ہوتی ہے۔

3️⃣ ابن عبدالہادیؒ (744ھ) – قبر پر دعا میت کے لیے

اصل متن:

لذلك فإن الدعاء عند القبر لا يكره مطلقاً بل، يؤمر به للميت، كما جاءت به السنة فيما تقدم ضمناً وتبعاً.
(الصارم المنكي في الرد على السبكي)

ترجمہ:
پس قبر پر دعا کرنا مطلقاً مکروہ نہیں بلکہ میت کے لیے اس کا حکم ہے، جیسا کہ سنت میں ضمناً اور تبعاً آیا ہے۔

4️⃣ امام احمد بن حنبلؒ – قبر پر دعا کی کیفیت

اصل متن:

كَيْفيَّة الدُّعَاء عِنْد الْقَبْر سُئِلَ عَمَّن رأى الْقَبْر أيقف قَائِما أَو يجلس فيدعو؟ قَالَ: أَرْجُو أَن لَا يكون بِهِ بَأْس.
(مسائل الإمام أحمد رواية صالح)

ترجمہ:
قبروں پر دعا کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کھڑے ہو کر کرے یا بیٹھ کر؟ فرمایا: امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔

📌 خلاصہ:

  • محدثین کے نزدیک قبر پر دعا مانگنے کی قبولیت کا سبب قبر نہیں بلکہ دعا کرنے والے کی کیفیت ہے۔

  • قبروں کے وسیلے کا عقیدہ ان نصوص سے ثابت نہیں ہوتا۔

  • حافظ ابن حبان کا عمل محض "قبر پر اللہ سے دعا” تھا، نہ کہ "قبر سے دعا” یا "قبر کو وسیلہ بنانا”۔

قبروں کی زیارت – سلف و ائمہ کے فتاویٰ

1️⃣ ابراہیم النخعیؒ (96ھ) – قبروں کی زیارت

اصل متن:

عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانُوا يَكْرَهُونَ زِيَارَةَ الْقُبُورِ
(المصنف لابن أبي شيبة، رقم: 11822)

ترجمہ:
ابراہیم النخعی کہتے ہیں: "وہ (سلف) قبروں کی زیارت کو ناپسند کرتے تھے۔”

2️⃣ ابن سیرینؒ (110ھ) – زیارت اور نماز

اصل متن:

أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُزَارَ الْقَبْرُ، وَيُصَلَّى عِنْدَهُ
(المصنف لابن أبي شيبة، رقم: 11817، وسند صحیح)

ترجمہ:
ابن سیرین قبروں کی زیارت اور ان کے پاس نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

3️⃣ امام نوویؒ (676ھ) – ناسخ و منسوخ

اصل متن:

قَوْلُهُ ﷺ: (كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا) … صَرِيحٌ فِي نَسْخِ نَهْيِ الرِّجَالِ عَنْ زِيَارَتِهَا، وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ زِيَارَتَهَا سُنَّةٌ لَهُمْ
(شرح صحيح مسلم)

ترجمہ:
حدیث "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب ان کی زیارت کرو” مردوں کے لیے زیارت کی ممانعت کے نسخ پر صریح دلیل ہے، اور اس پر اجماع ہے کہ ان کے لیے زیارت سنت ہے۔

📌 نتیجہ:

  • سلف میں کچھ کے نزدیک قبروں کی زیارت مکروہ تھی، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوا اور مردوں کے لیے زیارت سنت قرار پائی۔

  • قبروں پر دعا کرنا ممانعت میں داخل نہیں، لیکن دعا میں قبر کی تاثیر ماننا بدعت ہے۔

شعیب الأرناؤوطؒ کی وضاحت اور اجتہاد میں خطا پر اجر

1️⃣ شعیب الأرناؤوطؒ – قبروں کو دعا کا خاص مقام ماننے کی نفی

اصل متن:

هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الأموات الصالحين ترياقا ودواءا للأحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي ﷺ، ولا سنه لأمته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لأجل الصلاة والدعاء عندها.
(حاشیہ سير أعلام النبلاء)

ترجمہ:
یہ بات قائل کے لیے درست نہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر زندوں کے لیے تریاق اور دوا ہو۔ قرآن میں کوئی نص نہیں جو کسی خاص قبر کے پاس دعا کی خصوصیت بیان کرے۔ نہ نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا، نہ امت کو تعلیم دی، نہ صحابہ و تابعین نے کیا، نہ ائمہ مسلمین میں سے کسی نے مستحسن سمجھا جن کے قول کی اقتداء کی جاتی ہے۔ بلکہ انبیاء و صالحین کی قبروں پر نماز یا دعا کے لیے قصد کرنے سے ممانعت ثابت ہے۔

2️⃣ حافظ ابن حبانؒ – مجتہد ہونے کا مقام

اصل متن:

محمد بن حبان … أحد الحفّاظ الكبار المصنّفين المجتهدين
(البداية والنهاية لابن كثير)

ترجمہ:
محمد بن حبان بڑے حفاظِ حدیث، مصنفین اور مجتہدین میں سے تھے۔

3️⃣ اجتہاد میں خطا پر اجر – حدیثِ صحیح

اصل متن:

إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ
(صحيح البخاري، رقم: 7352)

ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرے اور درست فیصلہ دے تو اس کے لیے دو اجر ہیں، اور اگر اجتہاد کرے اور خطا کرے تو ایک اجر ہے۔

📌 مضمون کا مجموعی خلاصہ اور حاصل کلام:

  • حافظ ابن حبانؒ کا قبر پر اللہ سے دعا کرنا، قبروں کو وسیلہ بنانے کی دلیل نہیں۔

  • محدثین اور فقہاء نے واضح کیا کہ دعا کی قبولیت کا سبب دعا کرنے والے کی کیفیت ہے، قبر کی ذات نہیں۔

  • کسی خاص قبر کو دعا کا خاص مقام ماننا بدعت ہے۔

  • حافظ ابن حبانؒ مجتہد تھے، اجتہاد میں اگر خطا بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اجر سے محروم نہیں۔

اہم حوالاجات کے سکین

حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 01 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 02 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 03 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 04 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 05 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 06 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 07 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 08 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 09 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 10 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 11 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 12 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 13 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 14 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 15 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 16 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 17 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 18 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 19 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 20 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 21 حافظ ابن حبان پر قبر کے وسیلے کا بہتان – ایک تحقیقی جائزہ – 22

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے