ہر مسلمان کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور جنت میں داخل فرمائے، کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔ دنیا کی ساری کامیابیاں اس کامیابی کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
آیتِ مبارکہ
﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ﴾
[آل عمران: ۱۸۵]
ترجمہ
"پھر جس شخص کو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہی درحقیقت کامیاب ہوا۔ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔”
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے اعمال و اسباب ہیں جن کے ذریعے مسلمان جہنم سے نجات حاصل کرسکتا ہے؟ ذیل میں قرآن و سنت کی روشنی میں انہی اسباب کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
❶ توحید
جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب توحید ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفات اور عبادات میں یکتا ماننا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور خالص دل سے ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘‘ پر ایمان رکھنا۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
( مَنْ شَھِدَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ )
[مسلم: ۲۹]
ترجمہ
"جو شخص گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم حرام فرما دیتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( إِنِّی لَأعْلَمُ کَلِمَۃً لَا یَقُولُہَا عَبْدٌ حَقًّا مِّنْ قَلْبِہِ فَیَمُوتُ عَلٰی ذَلِکَ إِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ )
[المستدرک ج ۱ ص ۱۴۳، وقال الحاکم: صحیح علی شرط الشیخین، ووافقہ الذہبی]
ترجمہ
"میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں، جو بندہ دل کی گہرائی سے سچے دل سے کہے اور اسی حالت میں مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دیتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
حضرت عتبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّم عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ )
[صحیح مسلم]
ترجمہ
"بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص پر جہنم حرام کر دیتا ہے جو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘ کہتا ہے۔”
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ توحیدِ خالص جہنم سے نجات کا سب سے بڑا سبب ہے، جب کہ اس کی ضد شرک جہنم میں داخل ہونے کا یقینی سبب ہے۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:
"یا رسول اللہ! وہ دو اعمال کون سے ہیں جو انسان کے لیے واجب (یعنی لازم) ہو جاتے ہیں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، وَمَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ دَخَلَ النَّارَ )
[مسلم: ۹۳]
ترجمہ
"جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا، وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔”
توحید اور شرک کی حقیقت
توحید اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں، یہ دونوں کسی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔
جو شخص دل سے اللہ کو واحد مانتا اور توحیدِ خالص پر قائم رہتا ہے، وہ شرک سے محفوظ رہتا ہے۔
اور جو شخص شرک میں مبتلا ہوتا ہے، وہ توحید کے نور سے محروم ہو جاتا ہے۔
انجام کے اعتبار سے بھی دونوں کا فرق واضح ہے — توحید والا جنتی، اور مشرک جہنمی۔
آیتِ مبارکہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ ﴾
[المائدۃ: ۷۲]
ترجمہ
"یقیناً جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔”
یہی عقیدۂ توحید انسان کو جہنم سے بچا کر جنت کی راہ دکھاتا ہے۔
توحیدِ خالص ہی بندے اور اللہ کے درمیان براہِ راست تعلق کا ذریعہ ہے۔
جو بندہ اس تعلق کو خلوص سے قائم رکھتا ہے، وہ اللہ کی امان میں آجاتا ہے۔
❷ اخلاص
جہنم سے نجات کا دوسرا اہم سبب اخلاص ہے۔
اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات اور اعمال صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے، نہ کہ دکھاوے، شہرت یا لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے۔
ایسا عمل جو ریاکاری سے پاک ہو، وہی اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے، اور یہی بندے کو جہنم سے بچاتا ہے۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
( لَن یُّوَافِیَ عَبْدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِی بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ )
[البخاری: ۶۴۲۳]
ترجمہ
"جو بندہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس نے خالص اللہ کی رضا کے لیے ’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ‘ کہا تھا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔”
اخلاصِ نیت ہی وہ معیار ہے جس پر عمل کی قبولیت کا دار و مدار ہے۔
اگر عمل میں ریاکاری، شہرت یا کسی دنیاوی فائدے کی غرض شامل ہو، تو وہ عمل باطل ہوجاتا ہے اور انسان کو جہنم کے قریب کر دیتا ہے۔
قیامت کے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کا فیصلہ کیا جائے گا، وہ ایسے ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں ریا کے لیے اعمال کیے ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہوگا۔
اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ اقرار کرے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟
وہ عرض کرے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے تو اس لیے لڑائی کی تھی کہ لوگ تجھے بہادر کہیں، چنانچہ وہ کہا گیا۔
پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دو۔
پھر ایک شخص لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا، تعلیم دی اور قرآن کی تلاوت کی۔
اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ تسلیم کرے گا۔
پھر فرمایا جائے گا: ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟
وہ کہے گا: میں نے علم حاصل کیا، دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھا تیرے لیے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے علم اس لیے حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں، اور قرآن اس لیے پڑھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔
پھر حکم ہوگا کہ اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دو۔
پھر ایک شخص لایا جائے گا جسے اللہ نے مال دیا تھا۔
اسے اپنی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی، وہ تسلیم کرے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟
وہ کہے گا: میں نے ہر اس جگہ خرچ کیا جہاں تو راضی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے اس لیے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، اور ایسا ہی کہا گیا۔
پھر حکم ہوگا کہ اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے۔‘‘
[مسلم: ۱۹۰۵]
ترجمہ خلاصہ
ان تینوں نے بظاہر نیک اعمال کیے، لیکن چونکہ نیت میں اخلاص نہیں تھا بلکہ ریاکاری تھی، اس لیے وہ سب جہنم میں ڈال دیے گئے۔
❸ دعا
جہنم سے نجات حاصل کرنے کا تیسرا مؤثر سبب دعا ہے۔
یعنی بندہ خود اللہ تعالیٰ سے التجا کرے کہ وہ اسے جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے لے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں "عباد الرحمٰن” کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کی دعا کا ذکر کیا ہے:
آیتِ مبارکہ
﴿ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ٭ إِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾
[الفرقان: ۶۵-۶۶]
ترجمہ
"اور وہ لوگ جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے، بے شک اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لیے بہت ہی بری جگہ ہے۔”
یہ دعا ان مؤمن بندوں کی نشانی ہے جو ہمیشہ جہنم کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالَتِ الْجَنَّۃُ: اَللّٰہُمَّ أَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ، وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالَتِ النَّارُ: اَللّٰہُمَّ أَجِرْہُ مِنَ النَّارِ)
[صحیح الجامع: ۶۲۷۵]
ترجمہ
"جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرتا ہے تو جنت کہتی ہے: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کر دے۔
اور جو شخص تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ! اسے جہنم سے پناہ دے۔”
یہ دعا کا کمال ہے کہ جہنم خود اس بندے کے حق میں دعا کرتی ہے جو اس سے پناہ طلب کرتا ہے۔
اسی لیے نبی اکرم ﷺ خود بھی جہنم سے پناہ مانگتے تھے اور اپنے صحابہؓ کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ ہمیں یہ دعا ایسے اہتمام سے سکھاتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھائی جاتی ہو:
( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ )
[مسلم: ۵۹۰]
ترجمہ
"اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں،
قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں،
مسیحِ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں،
اور زندگی و موت کے فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔”
آیتِ مبارکہ
اسی طرح نبی کریم ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:
﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾
[البخاری: ۶۳۸۹]
ترجمہ
"اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔”
یہ دعائیں دراصل مومن کے دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی پکار ہیں، جو اسے جہنم سے نجات اور اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بناتی ہیں۔
❹ تقویٰ
جہنم سے نجات حاصل کرنے کا چوتھا سبب تقویٰ ہے۔
لفظ ’’تقوی‘‘ عربی لفظ ’’وقایہ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: بچاؤ یا حفاظت کرنا۔
یعنی تقویٰ کا مفہوم یہ ہوا کہ بندہ اپنے اور گناہوں کے درمیان اللہ کے خوف کو رکاوٹ بنالے، اس کی نافرمانی سے بچے، اور برے اعمال سے اپنے دامن کو محفوظ رکھے۔
جو شخص اللہ کے خوف سے برائیوں سے رک جاتا ہے، وہی درحقیقت جہنم سے نجات پانے والا ہوتا ہے۔
آیتِ مبارکہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ٭ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا ﴾
[مریم: ۷۱-۷۲]
ترجمہ
"اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو۔ یہ تیرے رب کے ذمے طے شدہ فیصلہ ہے۔
پھر ہم پرہیزگاروں (متقیوں) کو بچا لیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑیں گے۔”
اس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نجات انہی لوگوں کے لیے ہے جو دنیا میں تقویٰ اختیار کرتے ہیں، گناہوں سے بچتے ہیں اور اللہ کے خوف کو دل میں رکھتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:
"کون سی چیز لوگوں کو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرے گی؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
( تَقْوَى اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ )
[ترمذی: ۲۰۰۴، وقال: صحیح غریب، وحسنہ الألبانی]
ترجمہ
"اللہ کا خوف (یعنی تقویٰ) اور اچھا اخلاق۔”
پھر آپ ﷺ سے پوچھا گیا: "کون سی چیز لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں داخل کرے گی؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
( اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ )
[ترمذی: ۲۰۰۴]
ترجمہ
"زبان اور شرمگاہ۔”
یہ دونوں اعضاء اکثر انسان کو گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں، اسی لیے نبی ﷺ نے انہیں جہنم میں پہنچانے والے سب سے بڑے اسباب قرار دیا۔
لہٰذا جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، وہ تقویٰ کی اصل روح کو حاصل کر لیتا ہے۔
زبان کی حفاظت
✿ جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ، فحش گوئی اور بہتان سے زبان کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
✿ زبان سے صرف خیر، حق اور ذکرِ الٰہی ادا ہونا چاہیے۔
✿ زبان کا روزہ رکھنا بھی تقویٰ کا ایک حصہ ہے۔
شرمگاہ کی حفاظت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
آیتِ مبارکہ
﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ٭ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴾
[المعارج: ۲۹-۳۱]
ترجمہ
"اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا ان (لونڈیوں) کے جن کے وہ مالک ہیں، تو وہ ملامت زدہ نہیں۔
اور جو اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے، وہی حد سے گزر جانے والے ہیں۔”
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ )
[مسلم: ۲۸۲۲]
ترجمہ
"جنت کو ناپسندیدہ (مشکل) چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے، اور جہنم کو خواہشات (شہوات) سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔”
لہٰذا تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنی خواہشات کو شریعت کے تابع بنائے، نفسانی میلان اور شہوت پرستی سے بچے، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گزارے۔
یہی رویہ جہنم سے آزادی کا ذریعہ بنتا ہے، جبکہ خواہشات کے پیچھے چلنا انسان کو یقینی طور پر جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔
❺ روزہ
جہنم سے بچنے کا پانچواں سبب روزہ ہے۔
روزہ دراصل ایسی روحانی ڈھال ہے جو انسان کو خواہشات اور گناہوں سے بچاتی ہے۔
روزہ دار اللہ کے خوف سے کھانے، پینے اور شہوت سے رک جاتا ہے، یہی کیفیت قیامت کے دن جہنم سے اس کے لیے ڈھال بن جائے گی۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( اَلصِّيَامُ جُنَّةٌ مِّنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ )
[النسائی: ۲۲۳۱، ابن ماجہ: ۱۶۳۹، وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: ۹۸۲]
ترجمہ
"روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے، جیسے تم میں سے کوئی جنگ میں بچاؤ کے لیے ڈھال لیتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ إِلَّا بَاعَدَ اللّٰهُ بِذٰلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا )
[البخاری: ۲۸۴۰، مسلم: ۱۱۵۳]
ترجمہ
"جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ جَعَلَ اللّٰهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ )
[ترمذی: ۱۶۲۴، وقال الألبانی: حسن صحیح]
ترجمہ
"جو شخص اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ایسی خندق بنا دیتا ہے جو زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے جتنی ہے۔”
روزہ نہ صرف جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ گناہوں کو مٹانے والا بھی ہے۔
اسی لیے شریعت نے بعض گناہوں کے کفارے میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے:
مثلاً:
① قتلِ خطا
② ظہار
③ رمضان کے دن بیوی سے تعلق قائم کرنا
④ قسم توڑنے کا کفارہ
یہ تمام مثالیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ روزہ گناہوں کو دھوتا ہے، اور جب گناہ مٹ جائیں تو انسان اللہ کے فضل سے جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
❻ چالیس دن تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا
جہنم سے نجات پانے کا چھٹا سبب ہے:
چالیس دن تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا۔
نماز دراصل ایمان کی علامت اور منافقت سے براءت کا ذریعہ ہے، اور جو بندہ لگاتار چالیس دن تکبیرِ اُولیٰ (یعنی امام کے ساتھ "اللّٰہ اکبر” کی پہلی تکبیر) کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرے، اسے دو عظیم نعمتیں عطا کی جاتی ہیں:
① جہنم کی آگ سے نجات۔
② نفاق سے براءت۔
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَلَّى لِلّٰهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَىٰ، كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ: بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ )
[ترمذی: ۲۴۱، وحسنہ الألبانی]
ترجمہ
"جو شخص چالیس دن تک باجماعت نماز اس طرح پڑھے کہ تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو، اس کے لیے دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے:
جہنم کی آگ سے آزادی، اور نفاق (منافقت) سے براءت۔”
یہ عمل اگرچہ بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے، مگر اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کرنا مضبوط ایمان اور عزم کا تقاضا کرتا ہے۔
چالیس دن کی نمازیں کل ۲۰۰ نمازوں کے برابر ہوتی ہیں، اور یہ سمجھ لو کہ یہ ۲۰۰ قدم جنت کی طرف ہیں۔
اگر اتنی عبادت کے ذریعے بندہ جہنم سے نجات کا پروانہ حاصل کر لے تو یہ سودا یقیناً بہت سستا ہے۔
لہٰذا ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اس عمل کو اپنانے کا پختہ عزم کرے، اللہ سے مدد مانگے، اور اس کے لیے اپنی نمازوں کی حفاظت کرے۔
❼ فجر و عصر کی نمازوں کی پابندی
تمام نمازوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن فجر اور عصر کی نمازوں کو شریعت میں خصوصی فضیلت حاصل ہے۔
جو مسلمان ان دونوں نمازوں کو پابندی کے ساتھ اور وقت پر ادا کرتا ہے، نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی ہے۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( لَنْ یَّلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا ) یعنی الفجر والعصر
[مسلم: ۶۳۴]
ترجمہ
"وہ شخص ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو طلوعِ آفتاب سے پہلے (یعنی نمازِ فجر) اور غروبِ آفتاب سے پہلے (یعنی نمازِ عصر) ادا کرتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَلَّی الْبَرْدَیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ )
[بخاری: ۵۷۴، مسلم: ۶۳۵]
ترجمہ
"جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں (فجر اور عصر) ادا کرتا رہے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔”
فجر کی نماز کی فضیلت
فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کی فضیلت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّی اللَّيْلَ كُلَّهُ )
[مسلم: ۶۵۶]
ترجمہ
"جس نے نمازِ عشاء باجماعت ادا کی، گویا اس نے آدھی رات قیام کیا، اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی، گویا اس نے پوری رات نماز میں گزاری۔”
عصر کی نماز کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
آیتِ مبارکہ
﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ ﴾
[البقرۃ: ۲۳۸]
ترجمہ
"تمام نمازوں کی پابندی کرو، خاص طور پر درمیانی نماز (یعنی نمازِ عصر) کی۔ اور اللہ کے حضور ادب و خشوع سے کھڑے رہو۔”
نمازِ عصر چھوڑنے کا نقصان
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
( اَلَّذِیْ تَفُوْتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلُهُ وَمَالُهُ )
[بخاری: ۵۵۲، مسلم: ۶۲۶]
ترجمہ
"جس شخص کی نمازِ عصر فوت ہوگئی، گویا اس سے اس کے گھر والے اور مال سب چھین لیے گئے۔”
اور ایک دوسری روایت میں فرمایا:
( مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ )
[بخاری: ۵۵۳]
ترجمہ
"جو شخص نمازِ عصر چھوڑ دے، اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔”
❽ ظہر سے پہلے اور بعد چار رکعات کی پابندی
نمازِ ظہر کے وقت نوافل کی ایک خاص فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حدیثِ مبارکہ
حضرت اُمّ حبیبہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ حَافَظَ عَلَىٰ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ )
[ترمذی: ۴۲۷، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعات اور بعد میں چار رکعات ہمیشہ پڑھتا رہے، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام فرما دیتا ہے۔”
❾ اللہ کے خوف سے رونا
اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہنے والے آنسو بندے کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ حَتَّى یَعُودَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللّٰهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ فِی مِنْخَرَیْ مُسْلِمٍ )
[ترمذی، وقال: حسن صحیح، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"جو شخص اللہ کے خوف سے روئے، وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، یہاں تک کہ دودھ دوبارہ تھن میں واپس آجائے (یعنی کبھی نہیں)، اور جو شخص اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوا، اس کے نتھنوں میں جہنم کا دھواں داخل نہیں ہوسکتا۔”
حدیثِ مبارکہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
( ثَلَاثَةٌ لَا تَرَى أَعْيُنُهُمُ النَّارَ یَوْمَ الْقِيَامَةِ: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ، وَعَيْنٌ حَرَسَتْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ، وَعَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰهِ )
[طبرانی، وقال الألبانی: حسن لغیرہ، السلسلۃ الصحیحۃ: ۲۶۷۳]
ترجمہ
"قیامت کے دن تین آنکھیں جہنم کو نہیں دیکھیں گی:
① وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی،
② وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتی رہی،
③ اور وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے باز رہی۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سات افراد ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، اس دن جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔”
[بخاری: ۶۶۰، مسلم: ۱۰۳۱]
❿ اللہ کے راستے میں غبار آلود ہونا
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَهُمَا حَرَامٌ عَلَى النَّارِ )
[ترمذی: ۱۶۳۲، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوں، وہ دونوں جہنم پر حرام ہوجاتے ہیں۔”
یہ "اللہ کا راستہ” صرف جہاد تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ عمل شامل ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
نمازِ جمعہ کے لیے پیدل چل کر آنا بھی اسی میں داخل ہے۔
حدیثِ مبارکہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ، وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَمَشَى وَلَمْ یَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ، فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ، أَجْرُ صِیَامِهَا وَقِیَامِهَا )
[ابوداؤد: ۳۴۵، ابن ماجہ: ۱۰۸۷، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"جو شخص جمعے کے دن غسل کرے، پھر جلدی جائے، پیدل جائے، امام کے قریب بیٹھے، خطبہ غور سے سنے اور لغو کام نہ کرے، اسے ہر قدم پر ایک سال کے روزے اور قیام کا اجر ملتا ہے۔”
⓫ بیٹیوں کی پرورش و تربیت
اولاد عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا خاص اختیار ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا کرے، جسے چاہے بیٹیاں، یا دونوں، اور جسے چاہے کچھ بھی نہ دے۔
آیتِ مبارکہ
﴿ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ یَہَبُ لِمَنْ یَشَاءُ إِنَاثًا وَیَہَبُ لِمَنْ یَشَاءُ الذُّكُورَ ٭ أَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّإِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَشَاءُ عَقِیْمًا إِنَّهُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ ﴾
[الشوریٰ: ۴۹-۵۰]
ترجمہ
"آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے، یا دونوں بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ یقیناً وہ جاننے والا، قدرت رکھنے والا ہے۔”
لہٰذا جسے اللہ بیٹیاں عطا کرے اسے عار یا بوجھ نہ سمجھے بلکہ ان کی اچھی تربیت کرے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ بیٹیاں قیامت کے دن جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَیْءٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ )
[بخاری: ۱۴۱۸، مسلم: ۲۶۲۹]
ترجمہ
"جس شخص کو بیٹیوں کی آزمائش میں ڈالا گیا، پھر اس نے ان کے ساتھ بھلائی کی، تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔”
حدیثِ مبارکہ
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کو لیے آئی۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔
اس نے ایک ایک کھجور اپنی دونوں بیٹیوں کو دی، پھر تیسری کھجور اپنے لیے اٹھائی، لیکن بیٹیوں نے وہ بھی مانگ لی۔
چنانچہ اس نے کھجور دو حصوں میں تقسیم کی اور اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دی، خود کچھ نہ کھایا۔
جب میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ اللّٰهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ، أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّارِ )
[مسلم: ۲۶۳۰]
ترجمہ
"بے شک اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے لیے جنت واجب کر دی، یا اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔”
⓬ مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرنا
اگر کسی مجلس میں کسی مسلمان کی عزت پر حملہ ہو یا غیبت کی جائے، تو اس موقع پر اس کا دفاع کرنا بہت بڑا عمل ہے۔
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیهِ بِالْغَیْبَةِ كَانَ حَقًّا عَلَى اللّٰهِ أَنْ یُعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ )
[صحیح الجامع: ۶۲۴۰]
ترجمہ
"جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا غیبت کے وقت دفاع کرے، اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔”
لہٰذا اگر کسی کے سامنے کوئی شخص کسی مسلمان کی برائی بیان کرے یا الزام تراشی کرے، تو سننے والے کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کا دفاع کرے، بدگوئی سے منع کرے، اور خود ایسی غیبت میں شریک نہ ہو۔
ایسا شخص اللہ کی نظر میں عزت و اجر کا مستحق بنتا ہے۔
⓭ مسلمان کو آزاد کرانا
کسی مسلمان قیدی یا غلام کو آزاد کرانا جہنم سے نجات کا سبب ہے۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( أَیُّمَا امْرِیءٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، یُجْزِیءُ كُلُّ عُضْوٍ مِّنْهُ عُضْوًا مِّنْهُ… )
[ترمذی: ۱۵۴۷، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"جو مسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے، وہی عمل اس کے لیے جہنم سے خلاصی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے آزاد کیے گئے ہر عضو کے بدلے اللہ اس کے بدن کے ایک عضو کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔”
⓮ حسنِ اخلاق
اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی جہنم سے آزادی کا بڑا ذریعہ ہے۔
جو شخص نرم دل، متواضع، اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے والا ہو، وہ اللہ کے ہاں مقرب ہے۔
حدیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ كَانَ هَیِّنًا لَیِّنًا قَرِیبًا حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ )
[صحیح الترغیب والترہیب: ۱۷۴۵]
ترجمہ
"جو شخص نرم خو، ملنسار اور قریب الفطرت ہو، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام فرما دیتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
حضرت امّ الدرداءؓ بیان کرتی ہیں کہ اُن کے شوہر ابو الدرداءؓ رات بھر تہجد میں یہ دعا مانگتے رہے:
( اَللّٰهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي )
[الأدب المفرد للبخاری]
ترجمہ
"اے اللہ! جیسے تو نے میری خلقت اچھی بنائی ہے، ویسے ہی میرے اخلاق بھی اچھے بنا دے۔”
جب انہوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا:
( إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ یُحَسِّنُ خُلُقَهُ حَتَّى یُدْخِلَهُ حُسْنُ خُلُقِهِ الْجَنَّةَ، وَیُسِیءُ خُلُقَهُ حَتَّى یُدْخِلَهُ سُوءُ خُلُقِهِ النَّارَ )
[الأدب المفرد]
ترجمہ
"بے شک مسلمان اپنے اچھے اخلاق کے باعث جنت میں داخل ہوتا ہے، اور برے اخلاق کے باعث جہنم میں جا پہنچتا ہے۔”
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَا مِنْ شَيْءٍ يُوضَعُ فِي الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ، وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ )
[ترمذی: ۲۰۰۳، وصححہ الألبانی]
ترجمہ
"قیامت کے دن میزان میں سب سے بھاری چیز حسنِ اخلاق ہوگی، اور اچھے اخلاق والا شخص اُس درجہ کو پہنچ جائے گا جو روزے اور نمازوں والے کو حاصل ہوتا ہے۔”
⓯ جہنم سے نجات کا خاص ذکر
صبح و شام کے اذکار میں ایک خاص دعا ایسی ہے جسے چار مرتبہ پڑھنے والا جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے۔
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص صبح کے وقت یہ دعا ایک مرتبہ پڑھے:
( اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَصْبَحْتُ أُشْهِدُكَ وَأُشْهِدُ حَمَلَةَ عَرْشِكَ وَمَلَائِكَتَكَ وَجَمِيعَ خَلْقِكَ أَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ )
تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک چوتھائی حصہ جہنم سے آزاد کردے گا، اور جو اسے چار مرتبہ پڑھے، وہ مکمل طور پر جہنم سے آزاد کردیا جائے گا۔”
[ابوداؤد، حسنہ ابن باز فی تحفۃ الأخیار]
ترجمہ
"اے اللہ! میں نے صبح کی اور تجھے، تیرے عرش اٹھانے والے فرشتوں کو، تمام فرشتوں اور تیری تمام مخلوق کو گواہ بناتا ہوں کہ تو ہی سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، اور محمد ﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں۔”
شام کے وقت اسی دعا میں "أصبحتُ” کی جگہ "أمسیتُ” پڑھا جائے۔
مضمون کا خلاصہ
✿ جہنم سے نجات کے لیے قرآن و سنت میں بے شمار اسباب بیان کیے گئے ہیں۔
✿ ان میں توحید، اخلاص، دعا، تقویٰ، روزہ، نماز کی پابندی، حسنِ اخلاق، بیٹیوں کی تربیت، اور صبح و شام کے اذکار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
✿ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود بھی ان اسباب کو اختیار کرے اور اپنے اہل و عیال کو بھی ان پر عمل کی ترغیب دے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
آیتِ مبارکہ
﴿ یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾
[التحریم: ۶]
ترجمہ
"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔”
نتیجہ
جہنم سے نجات حاصل کرنے کا سبب چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ لگے، اسے معمولی نہ سمجھو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ )
[بخاری: ۶۵۶۳، مسلم: ۱۰۱۶]
ترجمہ
"جہنم سے بچو، چاہے کھجور کے آدھے حصے کے صدقے سے ہی سہی، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو ایک اچھی بات کے ذریعے۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں، ہمارے والدین، اہل و عیال، اور تمام مسلمانوں کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے،
اور ہمیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔