(جہاد ) فرض کفایہ ہے ، تین صورتوں میں جہاد فرض عین ہوتا ہے
[المغنى: 346/8]
➊ جب لشکر آپس میں ٹکرانے لگیں تو ہر حاضر شخص پر فرض عین ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہے اور اس وقت پیٹھ پھیر کر بھاگنا حرام ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ – وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ [الأنفال: 15 – 16]
”اے ایمان والو! جب تم کافروں سے روبرو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا ۔ اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی ) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنٰی ہے ۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا وہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔“
اور حدیث میں ہے کہ ”سات ہلاک کر دینے والی اشیاء سے بچو (ان میں سے ایک یہ ہے ):
التولى يوم الزحف
”لڑائی کے دن پیٹھ پھیرنے سے ۔“
[بخارى: 2766 ، كتاب الوصايا: باب قول الله تعالى إن الذين ياكلون أموال اليتمي]
➋ جب کفار کسی شہر میں حملہ آور ہو جائیں تو ان کا دفاع کرنے کی غرض سے ان سے لڑائی کرنا فرض عین ہو جاتا ہے ۔ امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں کہ
إذا نزل الكفار ببلد تعين على أهله قتالهم و دفعهم
”جب کافرکسی شہر میں اتر آئیں تو اس شہر والوں کے لیے ان سے لڑنا اور ان کا دفاع کرنا (فرض عین ہو جاتا ہے ) ۔“
[المغني: 346/8]
➌ جب حاکم وقت سب کو نکلنے کا حکم دے تو سب پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [التوبة: 38]
”اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو ۔“
اور حدیث میں ہے کہ :
إذا استنفرتم فانفروا
”جب تمہیں نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو ۔“
[بخاري: 3077 ، كتاب الجهاد: باب لا هجرة بعد الفتح]
اس پر فقہا کا اتفاق ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: بدائع الصنائع: ص / 98 ، تبيين الحقائق: 241/3 ، فتح القدير: 278/4 ، الدر المختار: 239/3 ، آثار الحرب: ص / 87]
فرض عین اور فرض کفایہ کی تعریف
فرض عین:
هو الفرض الذى يجب على كل مسلم أن يفعله بنفسه كالصلاة والصوم
”فرض عین الیسا فرض ہے جسے کرنا بذات خود ہر مسلمان پر واجب ہو مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ۔“
فرض كفايه:
الذى إذا قام به من يكفى سقط عن سائر الناس وإن لم يقم به من يكفى أثم الناس كلهم فالخطاب فى ابتدائه يتناول الجميع كفرض الأعيان ثم يختلفان فى أن فرض الكفاية يسقط بفعل البعض وفرض الأعيان لا يسقط عن أحد بفعل غيره
”فرض کفایہ وہ ہے جسے اتنے لوگ ادا کریں جو کافی رہیں تو باقی تمام لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے اور اگر اتنے لوگ ادا نہ کریں جو کافی ہوں تو تمام لوگ گناہ گار ہوتے ہیں ۔ اس کا حکم شروع میں تمام لوگوں کو ہوتا ہے بعد میں دونوں کا فرق یہ ہے کہ فرض کفایہ کچھ لوگوں کے ادا کرنے سے باقی سب سے ساقط ہو جاتا ہے اور فرض عین کسی ایک کے ادا کرنے سے دوسروں سے ساقط نہیں ہوتا ۔“
[المغنى: 345/8]
اس کی مثال نماز جنازہ ہے ۔ یعنی اگر کچھ لوگ نماز جنازہ ادا کر لیں تو سب کے لیے اس میں حاضر ہونا ضروری نہیں لیکن اگر اتنے لوگ بھی حاضر نہ ہوں جو تجہیز و تکفین کے معاملات میں کفایت کر سکیں تو تمام مسلمان گناہ میں فرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے شریک ہوں گے ۔
جہاد کو فرض کفایہ کہنے والوں کے دلائل:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا [التوبة: 39]
”اگر تم نہ نکلے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا ۔“
مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ….. [التوبة: 120]
”مدینہ کے رہنے والوں اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں ۔“
ان آیات کو اس آیت :
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ [التوبة: 122]
”اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تا کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تا کہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس جائیں ، ڈرائیں تا کہ وہ ڈر جائیں ۔“
نے منسوخ کر دیا ہے ۔
[حسن: صحيح ابو داود: 2187 ، كتاب الجهاد: باب فى نسخ نفير العامة بالخاصة ، ابو داود: 2505]
➋ امام طبریؒ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے یہ آیت :
إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا [التوبه: 39]
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) خاص ہو کہ یعنی جب آپ جہاد کے لیے نکلنے کو کہیں اور کوئی نہ نکلے (تو اسے یہ عذاب ہو گا ) ۔
[تفسير طبري: 11/7]
➌ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ میرے سامنے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ آیت مخصوص ہے منسوخ نہیں ۔
[فتح البارى: 121/6]
➍ فرض کفایہ کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات خود جہاد کے لیے جاتے اور بعض اوقات صرف دستوں کو بھیج دیتے اور خود نہ جاتے ۔
[الروضة الندية: 715/2]
➎ لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ [النساء: 95]
”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں ۔ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے ۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیچھے بیٹھ رہنے والے بھی جہاد کے بغیر گناہگار نہیں ہوں گے ۔
➏ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من آمن بالله ورسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة جاهد فى سبيل الله أو جلس فى أرضه التى ولد فيها
”جو شخص الله اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے ، اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ اس نے جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت کی ہو یا اُس زمین میں ہی بیٹھا رہا ہو جہاں وہ پیدا ہوا تھا ۔“
[بخاري: 2790 ، كتاب الجهاد: باب درجات المجاهدين فى سبيل الله]
ثابت ہوا کہ جہاد کے بغیر بھی جنت کی بشارت ہے لٰہذا یہ فرض عین نہیں ۔
➐ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من جهز غازيا فى سبيل الله فقد غزا ومن خلف غازيا فى أهله فقد غزا
”جس نے اللہ کے راستے میں کسی غازی کو تیار کیا تحقیق اس نے بھی غزوہ کیا اور جس نے کسی غازی کے اہل و عیال کی اچھی نگہبانی کی اس نے بھی غزوہ کیا ۔“
[مسلم: 1895 ، كتاب الإمارة: باب فضل إعانة الغازى فى سبيل الله بمركوب وغيره]
➑ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سأل الله الشهادة بصدق بلغه الله منازل الشهداء وإن مات على فراشه
”جس نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے شہادت کا سوال کیا اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مرتبوں تک پہنچا دے گا خواہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ فوت ہو جائے ۔“
[مسلم: 1909 , كتاب الإمارة: باب استحباب طلب الشهادة فى سبيل الله تعالى]
(حنابلہ ، شافعیہ ) جہاد فرض کفایہ ہے ۔
[نيل الأوطار: 679/4]
فرض عین کہنے والوں کے دلائل:
➊ انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ [التوبة: 41]
”ہلکے ہو یا بوجھل (اللہ کے راستے میں ) نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو ۔“
➋ إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا [التوبة: 39]
”اگر تم نہ نکلے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا ۔“
➌ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ [البقرة: 216]
”تم پر لڑائی فرض کر دی گئی ہے ۔“
➍ حدیث نبوی ہے کہ :
من مات ولم يغز ولم يحدث به نفسه مات على شعبة من نفاق
”جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ نہ تو اس نے غزوہ کیا اور نہ ہی اس کے دل میں اس کا ارادہ پیدا ہوا تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرے گا ۔“
[مسلم: 1910 ، كتاب الإمارة: باب ذم من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه بالغزو]
(سعید بن مسیّب ) جہاد فرض عین ہے ۔
[المغنى: 345/8 ، تفسير قرطبي: 38/3]
خلاصہ کلام:
لفظِ جہاد کتاب و سنت میں اغلبا دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
➊ جہاد بمعنی قتال: جیسے قرآن میں ہے:
انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ [التوبة: 41]
”ہلکے ہو یا بوجھل نکل کھڑے ہو جاؤ اور اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرو ۔“
اس آیت میں جہاد بمعنی قتال استعمال ہوا ہے ۔
➋ جہاد بمعنی غلبہ دین کے لیے محنت و کوشش:
جیسا کہ سورہ فرقان میں ہے:
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا [الفرقان: 52]
”پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعہ ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں ۔“
یہ آیت مکی ہے اور ابھی قتال کا حکم نازل نہیں ہوا تھا لٰہذا یہاں جہاد کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامر و نواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جوز جرو توبیخ اور وعیدیں ہیں وہ واضح کریں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جاهدوا المشركين بأموالكم و أنفسكم والسنتكم
”مشرکین سے اپنے مال و جان اور زبان کے ساتھ جہاد کرو ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2186 ، كتاب الجهاد: باب كراهية ترك الغزو ، ابو داود: 2504]
لازماََ زبان کے ساتھ دشمنوں کے خلاف جنگ تو نہیں ہو سکتی تاہم کفار و منافقین کی سازشوں اور پروپیگینڈوں کو بے نقاب کر کے ان پر حجت قائم کی جا سکتی ہے ۔
علاوہ ازیں ایک آیت میں لفظِ جہاد درج بالا دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے اور وہ آیت یہ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [التوبة: 73]
”اے نبی ! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کیجیے ۔“
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ ”جہاد بالکفار سے مراد ان کے خلاف جنگ کرنا ہے اور جہاد بالمنافقین سے مراد (ان کے خلاف جنگ نہیں بلکہ ) ان کے خلاف حجت و برہان قائم کر دینا ہی ہے ۔“
[تفسير فتح القدير: 462/2]
معلوم ہوا کہ جہاد کتاب و سنت میں جنگ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور غلبہ دین کے لیے دیگر ذرائع و وسائل سے محنت و کوشش کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ تو واضح رہے کہ اگر جہاد بمعنی قتال (یعنی دشمنوں کے خلاف جنگ کے ) ہو تو گذشتہ فرض عین ہونے کی تین صورتوں کے علاوہ فرض کفایہ ہو گا ۔ اور اگر جہاد دین کی سر بلندی کے لیے کسی بھی طریقے سے کی جانے والی محنت و کوشش کے معنی میں ہو تو وہ ہر مسلمان پر ساری زندگی نماز کی طرح فرض عین ہے ۔
(ابن حجرؒ ) فرماتے ہیں کہ :
والتحقيق أيضا أن جنس جهاد الكفار متعين على كل مسلم إما بيده وإما بلسانه وإما بماله وإما بقلبه والله أعلم
”محقق و مسلم بات یہ ہے کہ کفار کے بالمقابل جنس جہاد ہر مسلمان پر فرض عین ہے خواہ یہ جہاد ہاتھ سے ہو یا زبان سے ، مال سے ہو یا دل سے ۔“
[فتح البارى: 38/6]
تنبیہ: فرض کفایہ بھی جب تک ادا نہ ہوتا ہو فرض عین ہوتا ہے ۔ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ ”کتاب و سنت میں جہاد کی فرضیت کے متعلق جو دلائل آئے ہیں اتنے زیادہ ہیں کہ یہاں لکھنے کی گنجائش نہیں لیکن وہ صرف علی الکفایہ ہی واجب ہے ۔ جب بعض لوگ اسے ادا کر رہے ہوں تو باقی لوگوں سے ساقط ہے اور جب تک بعض اسے ادا نہ کریں ہر مکلّف پر فرض عین ہے ۔
[السيل الجرر: 55/4]
مثلاً کوئی شخص پانی میں غرق ہو رہا ہو اور وہاں کچھ تیراک موجود ہوں تو ان میں سے ایک بھی اگر اسے بچا لے تو سب کا فرض ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی بھی نہ بچائے اور کہے کہ یہ تو فرض کفایہ ہے فرض عین نہیں تو یہ بات قابل قبول نہ ہو گی ۔