جو فجر کی اذان سن مسلسل کھاتا رہےاس کا حکم؟
سوال : اس شخص کے صوم کا شرعی حکم کیا ہے جو فجر کی اذان سن کر برابر کھاتا پیتا رہے ؟
جواب : مومن پر واجب ہے کہ اگر اس کا صوم فرض ہو مثلاً صومِ رمضان و صومِ نذر و کفارات تو صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد کھانے پینے سے اور دیگر تمام مفطرات سے باز رہے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ [2-البقرة:187]
’’ اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح صادق کا سفید دھاگہ سیا ہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک صوم کو پورا کرو “۔
لہٰذا جب کوئی شخص اذان سن لے اور اسے معلوم ہو کہ یہ فجر کی اذان ہے تو رک جانا ضروری ہے اور اگر موذن طلوع فجر سے پہلے اذان دے تو اس پر رکنا ضروری نہیں بلکہ کھانا جائز ہے جب تک کہ فجر ظاہر نہ ہو جائے۔ اور اگر مؤذن کا حال معلوم نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان دے رہا ہے یا فجر کے بعد، تو ایسی صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اذان سن کر کھانے پینے سے رک جا ئے۔ اور اگر اذان کے وقت تھوڑا بہت کھا پی لے تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ اسے طلوع فجر کا علم نہیں ہو سکا ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص ایسے شہروں میں رہتا ہو جہاں بجلی کی روشنیاں پوری رات جگمگاتی رہتی ہیں اسے صحیح طور پر طلوع فجر کا علم نہیں ہو پاتا، پھر بھی اس پر ضروری ہے کہ احتیاط سے کام لے اور اذان اور جنتریوں میں دیئے گئے وقت کا لحاظ کرے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
دع ما يريبك الي ما لا يريبك [صحيح: صحيح بخاري، البيوع 34 باب تفسير المشبهات 3]
جس بات میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور وہ بات اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من اتقي الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه [صحيح: صحيح بخاري، الإيمان 2 باب فضل من استبرأ لدينه 39 رقم 52 بروايت نعمان بن بشير رضي الله عنه، صحيح مسلم، المساقاة 22 باب أخذ الحلال وترك الشبهات 20 رقم 107، 5991]
جو شبہا ت سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: