جنگ میں شب خون، جھوٹ اور دھوکے کی اجازت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کفار پر شب خون مارنا (رات کی غفلت میں حملہ کرنا ) جھوٹ بولنا اور دھو کہ دینا بھی جنگ میں جائز ہے
➊ حضرت صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے متعلق پوچھا گیا کہ :
بيتون فيصيبون من نسائهم و ذراريهم
”ان کے گھر والوں پر شب خون مارا جاتا ہے تو ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مار دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی انہی میں سے ہیں ۔“
[بخاري: 3012 ، كتاب الجهاد والسير: باب أهل الدار يبيتون فيصاب الولدان والذراري ، مسلم: 1745 ، ابو داود: 2672 ، ترمذي: 1570 ، ابن ماجة: 2839 ، احمد: 37/4]
➋ حضرت سلمہ بن أکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
بيتنا هوازن مع أبى بكر الصديق
”ہم نے قبیلہ ہوازن پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر شب خون مارا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2297 ، احمد: 46/4 ، ابو داود: 2638 ، كتاب الجهاد: باب فى البيات ، ابن ماجة: 2840 ، دارمي: 219/2 ، حاكم: 107/1]
(شوکانیؒ ) اس حدیث میں ثبوت موجود ہے کہ کفار پر شب خون مارا جا سکتا ہے ۔
[نيل الأوطار: 717/4]
(ترمذیؒ ) بعض اہل علم نے تو رات کو حملہ کرنے کی اجازت دی ہے لیکن بعض نے اسے ناپسند کیا ہے ۔ امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ نے کہا کہ رات کو دشمن پر شب خون مارنے میں کوئی حرج نہیں ۔
[ترمذي: 122/4]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محمد بن مسلمہ کو کعب بن اشرف یہودی کے قتل کے لیے بھیجا تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول !
فأذن لي فأقول …… قال قد فعلت
”مجھے اجازت دیجیے کہ میں کوئی بات کہوں (یعنی انہیں دھوکہ دینے کے لیے خواہ جھوٹ ہی ہو ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایسا کیا (یعنی تمہیں اجازت دی ) ۔“
تو انہوں نے جا کر اسے کہا:
إن هذا يعني النبى صلى الله عليه وسلم قـد عـنـانـا وسألنا الصدقة
”یقیناً اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں مشقت و پریشانی میں ڈال رکھا ہے اور ہم سے صدقہ مانگتا ہے ۔“
[مسلم: 1801 ، كتاب الجهاد والسير: باب قتل كعب بن الأشرف طاغوت اليهود ، بخاري: 3032]
➋ حضرت اُم کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں کہ ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں جھوٹ بولنے کی رخصت کے متعلق نہیں سنا:
إلا فى الحرب والإ صلاح بين الناس وحديث الرجل امرأته وحديث المرأة زوجها
”مگر جنگ میں ، اور لوگوں کے درمیان اصلاح کے لیے ، اور آدمی کی اپنی بیوی سے بات میں اور بیوی کی اپنے شوہر سے بات میں ۔“
[مسلم: 2605 ، كتاب البر والصلة والآداب: باب تحريم الكذب وبيان المباح منه ، بخاري: 2692 ، ابو داود: 4921 ، ترمذي: 1938 ، احمد: 403/6 ، نسائي فى السنن الكبرى: 351/5]
(نوویؒ ) ظاہر یہی ہے کہ ان تینوں کاموں میں حقیقی جھوٹ بولنا جائز ہے لیکن معاریض کا استعمال زیادہ بہتر ہے ۔
[شرح مسلم: 404/8]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحرب خدعة
”جنگ دھوکہ ہے ۔“
[بخاري: 3030 ، كتاب الجهاد والسير: باب الحرب خدعة ، مسلم: 1739]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے ۔
[بخاري: 3029 ، كتاب الجهاد والسير: باب الحرب خدعة ، مسلم: 1740]
(ابن قدامہؒ ) جنگ میں مد مقابل دشمن کو دھوکہ دینا جائز ہے ۔
[المغنى: 41/13]
(نوویؒ ) کفار کو دوران جنگ ہر ممکن طریقے سے دھوکہ دینے کے جواز پر اتفاق ہے مگر اس میں نقض عہد نہیں ہونا چاہیے ۔
[شرح مسلم: 45/12]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے