جنگِ فجار ─ کیا رسول اللہ ﷺ شریک ہوئے تھے؟ تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو عبدالعزیز محمد یوسف مدنی

سیرت کی بعض مشہور کتابوں میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نوجوانی میں جنگِ فِجار میں شرکت کی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے۔ عوامی بیانیہ میں یہ واقعہ کافی مشہور ہے، لیکن محدثین اور محققین نے اس کی سند پر تفصیلی کلام کیا ہے۔

✦ روایت کا ذکر

➊ جنگِ فجار کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں حرمت والے مہینے اور حرم دونوں کی بے حرمتی کی گئی۔
➋ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اس جنگ میں شریک ہوئے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے۔

📚 حوالہ جات: ابن ہشام (1/84–86)، قلب جزیرۃ العرب (ص360)، تاریخ خضری (1/63)، الرحیق المختوم (ص91)، سیرۃ النبی (1/115)

✦ تحقیق و تجزیہ

✔️ یہ واقعہ سنداً ثابت نہیں ہے۔

▣ محققین کی آراء

ڈاکٹر اکرم العمری (السیرۃ الصحیحۃ 1/111):
"یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جنگ میں شرکت کی تھی۔”

سیرۃ ابن ہشام (1/24، ط: دار الصحابۃ) کے محقق:
اس کی سند معضل (یعنی دو یا زیادہ رواۃ ساقط) ہے۔

ابن کثیر (البدایۃ والنہایۃ 2/189):
ابن اسحاق اور ابن ہشام سے ضعیف سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

ابن سعد (طبقات 1/126–128):
واقدی کی روایت سے ذکر کیا ہے لیکن واقدی متروک (ناقابلِ اعتماد) راوی ہے۔

▣ دیگر اہلِ علم کا موقف

• شیخ البانی رحمہ اللہ نے فقہ السیرۃ للغزالی پر تعلیق (ص71) میں اس پر سکوت کیا، لیکن اپنی صحیح السیرۃ النبویۃ میں اسے ذکر نہیں کیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ ثابت نہیں۔
• شیخ محمد بن رزق الطرہونی نے بھی صحیح السیرۃ (1/111) میں اس کو شامل نہیں کیا۔
• شیخ محمد بن عبداللہ العوشن نے ما شاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ (ص16) میں اس کی تضعیف ذکر کی۔

✦ نتیجہ

① جنگِ فجار میں رسول اللہ ﷺ کی شرکت کا قصہ سیرت کی کتابوں میں ضرور ملتا ہے لیکن اس کی تمام اسناد ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں۔
② ابن ہشام، ابن کثیر اور ابن سعد سب نے اسے ذکر کیا مگر ضعیف رواۃ کے ساتھ۔
③ محققین (اکرم العمری، البانی، الطرہونی) کے نزدیک یہ واقعہ ثابت نہیں۔

✅ لہٰذا یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگِ فجار میں عملی شرکت کی، صحیح نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مشہور سیرت قصہ ہے لیکن تحقیق کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے