نمازِ جمعہ کی ادائیگی اسلام کے شعائر میں سے ایک اہم شعار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے مبارک عہد سے لے کر خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانوں تک جمعہ کی نماز کے لیے ایک ہی اذان کا معمول رہا۔ بعد کے ادوار میں آبادی کے بڑھنے اور مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض علاقوں میں دوسری اذان کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہی اضافی اذان موضوعِ بحث رہی ہے۔
اس تحقیقی مضمون میں ہم واضح دلائل، سلف صالحین کے اقوال اور مستند تاریخی حوالوں کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے کہ جمعہ کی دوسری اذان (جو امام کے منبر پر بیٹھنے سے قبل دی جاتی ہے) رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں نہ تھی، بلکہ بعد کے ادوار میں اس کا آغاز ہوا۔ اس اضافی اذان کو متعدد صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین نے واضح طور پر "مُحدَث” یعنی بعد میں ایجاد کردہ بدعت قرار دیا ہے۔
ہمارے اس تحقیقی جائزے کا مقصد کسی خاص طبقے یا مسلک پر تنقید نہیں، بلکہ اس مسئلے کی تاریخی و علمی وضاحت ہے تاکہ قاری کو سنتِ نبوی ﷺ اور سلف صالحین کے طریقے پر واضح آگاہی ہو سکے۔
جمعہ کی ایک اذان – عہدِ نبویﷺ کا معمول
جمعہ کی نماز میں صرف ایک اذان ہونا نبی اکرم ﷺ اور ان کے بعد دو جلیل القدر خلفاء، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے مبارک ادوار میں بلا اختلاف معمول رہا ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان کا آغاز
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور مدینہ منورہ کے وسیع ہو جانے کے سبب لوگوں کو نمازِ جمعہ کے لیے جمع کرنا دشوار ہونے لگا۔ اس دشواری کو دیکھتے ہوئے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ نے ایک اضافی اذان کا انتظام فرمایا، جو مسجدِ نبوی سے باہر "زوراء” نامی بازار کی بلند جگہ سے دی جاتی تھی، نہ کہ مسجد کے اندر۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
«فأما الأذان الأول فمحدث، فعله عثمان بن عفان ليتأهب الناس لحضور الخطبة عند اتساع المدينة وكثرة أهلها»
”جہاں تک پہلی اذان (یعنی اضافی اذان) کا تعلق ہے تو یہ بعد کی ایجاد ہے۔ اسے عثمان بن عفانؓ نے اس لیے شروع فرمایا تاکہ شہر پھیلنے اور آبادی بڑھنے کے باعث لوگ خطبے کے لیے تیاری کر سکیں۔“
(تفسير القرطبي، اللباب في علوم الكتاب لابن عادل)
واضح رہے کہ اس اضافی اذان کو اگرچہ "پہلی اذان” کہا جاتا ہے، لیکن یہ درحقیقت ترتیب میں دوسری ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد کی اصل اذان وہی تھی جو امام کے منبر پر تشریف فرما ہونے کے بعد دی جاتی تھی۔
صحابۂ کرامؓ کی آراء اور مؤقف
سلف صالحین میں سرِفہرست صحابۂ کرامؓ کی جماعت ہے، جن کا طریقہ اور قول اُمّت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ذیل میں ہم جمعہ کی دوسری اذان (ترتیب کے لحاظ سے پہلی، یعنی امام کے منبر پر بیٹھنے سے پہلے والی اذان) کے متعلق جلیل القدر صحابہ کرامؓ کی مستند آراء کو پیش کریں گے۔
① سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی واضح رائے
حضرت عبداللہ بن عمرؓ جمعہ کی اس اضافی اذان کے بارے میں صراحتاً فرماتے ہیں:
«الأذانُ الأوّلُ يومَ الجُمعةِ بِدْعةٌ»
”جمعہ کے دن پہلی (اضافی) اذان بدعت ہے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة، رقم: 5437)
ایک دوسری سند کے ساتھ یہی روایت اس طرح منقول ہے کہ:
«سألتُ نافعًا مولى ابنِ عمرَ، الأذانُ الأوّلُ يومَ الجمعةِ بِدْعَةٌ؟ فقال: قال ابنُ عمرَ: بِدْعَةٌ»
”نافع مولیٰ ابن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ جمعہ کی پہلی اذان کیا بدعت ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابن عمرؓ نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة، رقم: 5441)
سند کا تحقیقی جائزہ:
-
شبابہ بن سوار (صدوق حسن الحدیث)
-
ہشام بن الغاز (ثقہ)
-
نافع مولیٰ ابن عمر (مشہور ثقہ تابعی)
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ مستند کتب حدیث میں موجود ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن عمرؓ جمعہ کی دوسری اذان کو بدعت قرار دیتے تھے۔
② سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ صحابہ کرامؓ میں علم و تقویٰ کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ ان کے ثقہ شاگرد امام عمرو بن دینار (المتوفی 126ھ) فرماتے ہیں:
«رأيتُ ابنَ الزُبيرِ لا يُؤذَّنُ له حتّى يجلسَ على المِنبرِ، ولا يُؤذَّنُ له إلّا أذانًا واحدًا يومَ الجمعةِ»
”میں نے عبداللہ بن زبیرؓ کو دیکھا کہ ان کے لیے اذان اس وقت تک نہیں دی جاتی تھی جب تک وہ منبر پر نہ بیٹھ جاتے۔ اور جمعہ کے دن ان کے لیے صرف ایک ہی اذان ہوتی تھی۔“
(المصنف لعبدالرزاق، رقم: 5344)
امام عمرو بن دینار کا یہاں ایک اذان کا ذکر کرنا، دوسری اضافی اذان کے رواج کی نفی کرنے کے مترادف ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے عمومی طریقے میں ایک ہی اذان تھی۔
صحابۂ کرامؓ کے اقوال و افعال کا خلاصہ:
صحابۂ کرامؓ کے ان واضح اقوال و افعال سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
-
پہلی بات: دورِ صحابہ میں اصل سنتِ نبوی ﷺ (یعنی منبر پر امام کے بیٹھنے کے بعد ایک ہی اذان) پر ہی عمل رہا۔
-
دوسری بات: حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی آراء سے واضح ہے کہ اضافی اذان اُن کے نزدیک بدعت یا نیا کام تھی۔
تابعین کرام کا مؤقف
تابعین کی جماعت براہِ راست صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مستفیض ہوئی، اس لیے ان کے اقوال اور فتاویٰ شرعی معاملات میں انتہائی مستند حیثیت رکھتے ہیں۔
① امام حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی: 110ھ) کا قول:
امام حسن بصریؒ اس اضافی اذان کے بارے میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں:
«النداءُ الأوّلُ يومَ الجمعةِ الذي يكونُ عند خروجِ الإمامِ، والذي قبل ذلك مُحدَثٌ»
”جمعہ کے دن اصل اذان وہی ہے جو امام کے نکلنے کے وقت دی جاتی ہے۔ اور اس سے پہلے والی اذان نئی ایجاد ہے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة، رقم: 5435)
سند کا تحقیقی جائزہ:
-
ہشیم بن بشیر (ثقہ ثبت)
-
منصور بن المعتمر (ثقہ ثبت)
-
حسن بصری (مشہور ثقہ تابعی)
② امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (متوفی: 114ھ) کا قول:
امام عطاء بن ابی رباحؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:
«إنّما كانَ الأذانُ يومَ الجمعةِ فيما مضى واحدًا، ثمّ الإقامة، فكان ذلك الأذانُ يُؤذَّنُ به حين يطلعُ الإمامُ…. فأمّا الأذانُ الذي يُؤذَّنُ به الآنَ قبلَ خروجِ الإمامِ وجلوسِه على المِنبرِ فهو باطلٌ، وأوّلُ من أحدثَه الحجّاجُ بنُ يوسفَ»
”پہلے زمانے میں جمعہ کے دن صرف ایک اذان اور اس کے بعد اقامت ہوتی تھی، یہ اذان امام کے ظاہر ہونے کے وقت دی جاتی تھی… البتہ جو اذان اب امام کے نکلنے اور منبر پر بیٹھنے سے پہلے دی جا رہی ہے، وہ باطل ہے اور اس کی ابتداء حجاج بن یوسف نے کی تھی۔“
(المصنف لعبدالرزاق، رقم: 5339)
یہ قول بہت واضح طور پر دوسری اذان کے بعد کی ایجاد ہونے کو ثابت کرتا ہے۔
③ امام عبدالرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ (متوفی: 182ھ) کا قول:
امام عبدالرحمن بن زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں:
«لم يكن في زمانِ النبيِّ ﷺ أذانٌ إلا أذانانِ: أذانٌ حين يجلسُ على المِنبرِ، وأذانٌ حين تُقامُ الصلاةُ، وهذا الآخرُ شيءٌ أحدثَه الناسُ بعدُ»
”رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو ہی اذانیں تھیں: ایک وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے پر ہوتی تھی، اور دوسری اقامت۔ یہ اضافی اذان بعد میں لوگوں نے ایجاد کر لی ہے۔“
(جامع البیان في تأویل القرآن، امام طبری)
تابعین کے مؤقف کا خلاصہ:
تابعین کرام کی ان صریح تصریحات سے واضح طور پر مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
-
اول: تابعین کے زمانے تک بھی سنت کے مطابق جمعہ کے لیے ایک ہی اذان معمول رہی۔
-
دوم: اضافی اذان کو انہوں نے واضح طور پر ”مُحدَث“ (نیا ایجاد شدہ) اور ”باطل“ قرار دیا ہے۔
-
سوم: بعض تابعین نے اس اضافی اذان کی ابتداء حجاج بن یوسف کی جانب منسوب کی ہے۔
فقہائے کرام اور ائمہ دین کی آراء
اب ہم اسلامی تاریخ کے معروف فقہاء اور ائمہ دین کے اقوال اور ان کے فقہی مؤقف کو واضح کریں گے تاکہ جمعہ کی دوسری اذان کے متعلق مسئلہ علمی اور تحقیقی لحاظ سے مکمل طور پر واضح ہو سکے۔
① امام ابو الحسن الماوردی رحمہ اللہ (متوفی: 450ھ)
امام ماوردی رحمہ اللہ اس اذان کے متعلق لکھتے ہیں:
«فأما الأذان الأول فمحدث، فعله عثمان بن عفان ليتأهب الناس لحضور الخطبة عند اتساع المدينة وكثرة أهلها»
”پہلی اذان (یعنی اضافی اذان) نیا کام ہے، جسے حضرت عثمانؓ نے صرف اس لیے شروع فرمایا تھا تاکہ لوگ خطبہ میں حاضر ہونے کی تیاری کر سکیں کیونکہ شہر وسیع ہو گیا اور لوگ بڑھ گئے تھے۔“
(تفسير القرطبي، اللباب في علوم الكتاب لابن عادل)
یہ واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ ماوردیؒ کے نزدیک بھی اضافی اذان بعد کا اضافہ تھی۔
② امام شافعی رحمہ اللہ (متوفی: 204ھ)
امام شافعیؒ اس اضافی اذان کے متعلق فرماتے ہیں:
«وأحب أن يكون الأذان يوم الجمعة حين يدخل الإمام المسجد ويجلس على موضعه الذي يخطب عليه، لا يزيد عليه»
”میں پسند کرتا ہوں کہ جمعہ کی اذان صرف اسی وقت دی جائے جب امام مسجد میں داخل ہو کر منبر پر بیٹھے، اس سے زائد کوئی اضافہ نہ ہو۔“
(الأم للشافعي)
مزید فرماتے ہیں:
«أذان قبل أذان المؤذنين إذا جلس الإمام على المنبر، كرهت ذلك»
”جب امام منبر پر بیٹھے تو اس سے پہلے اذان کو میں ناپسند کرتا ہوں۔“
(الأم للشافعي)
اگر امام شافعیؒ اس اضافی اذان کو سنت سمجھتے تو اس سے کراہت کا اظہار نہ کرتے۔
③ قاضی ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ (متوفی: 543ھ)
قاضی ابن العربیؒ اس بارے میں لکھتے ہیں:
”رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان ایک ہی تھی، حضرت عثمانؓ نے مقام زوراء پر ایک تیسری اذان (اضافی) شروع فرمائی۔ لوگوں نے اسے اصل اذان سمجھ لیا اور تین مؤذن مقرر کر دیے۔ یہ ایک واضح وہم ہے۔ بعد میں ایک وقت میں دو اذانیں دینا شروع کر دیں، یہ وہم در وہم ہے۔ بغداد میں بھی اسی طرح دیکھا، یہ تمام امور نئی ایجاد (محدث) ہیں۔“
(أحكام القرآن لابن العربي)
④ امام ابو بکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ (متوفی: 370ھ)
امام جصاصؒ حنفی فرماتے ہیں:
”سلف کی ایک جماعت نے امام کے باہر آنے سے پہلے والی اذان کو بدعت کہا ہے۔ ابن عمرؓ نے فرمایا: جمعہ کی پہلی اذان بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ حسن بصریؒ نے فرمایا: امام کے نکلنے سے قبل اذان نئی چیز (محدث) ہے۔“
مزید فرماتے ہیں:
”ہمارے حنفی اصحاب نے بھی صرف اسی ایک اذان کا ذکر کیا ہے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جاتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ، ابو بکرؓ اور عمرؓ کے زمانے میں تھا۔“
(أحكام القرآن للجصاص)
⑤ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفی: 852ھ)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
”فاکہانی نے کہا کہ مکہ میں اس اضافی اذان کی ابتدا حجاج بن یوسف نے اور بصرہ میں زیاد نے کی۔ اور مغرب اقصیٰ میں ابھی تک صرف ایک اذان ہی ہوتی ہے۔ ابن عمرؓ نے اس اضافی اذان کو بدعت کہا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے اس کا انکار کیا ہو۔ ہر وہ کام جو نبی ﷺ کے زمانے میں نہ ہو وہ بدعت ہے، خواہ حسنہ ہو یا سیئہ۔“
(فتح الباري شرح صحيح البخاري)
فقہائے کرام اور ائمہ دین کی آراء کا خلاصہ:
-
اول: فقہائے کرام اور ائمہ نے اضافی اذان کو واضح طور پر ”محدث“ (نیا کام)، ”بدعت“ اور ”غیر سنت“ قرار دیا۔
-
دوم: تمام معتبر ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ سنتِ رسول ﷺ اور صحابہ کرام کا طریقہ ایک ہی اذان تھا۔
-
سوم: بعد کے اضافے کو مختلف ادوار میں متعدد ائمہ نے ناپسند کیا۔
🔹 تحقیقی نتائج کا خلاصہ:
① رسول اللہ ﷺ کا مبارک عہد:
عہدِ نبوی ﷺ میں نمازِ جمعہ کی صرف ایک ہی اذان ہوتی تھی، جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی۔ اس حقیقت پر تمام مورخین اور علماء متفق ہیں۔
② خلفائے راشدین کا دور:
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے مبارک ادوار میں بھی اسی سنتِ رسول ﷺ پر عمل ہوتا رہا۔
③ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اضافہ:
حضرت عثمان بن عفانؓ نے آبادی کے بڑھ جانے اور مدینہ کے وسیع ہونے کی وجہ سے ایک اضافی اذان کا اہتمام کیا جو مسجد کے باہر (زوراء نامی بازار) سے دی جاتی تھی۔ بعد کے لوگوں نے اس اذان کو مسجد کے اندر رائج کر دیا۔
④ صحابہ کرامؓ کا مؤقف:
-
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے واضح طور پر اضافی اذان کو "بدعت” قرار دیا۔ (مصنف ابن أبي شيبة)
-
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے زمانے میں ایک ہی اذان کا معمول رہا۔ (المصنف لعبدالرزاق)
⑤ تابعین کرام کا مؤقف:
-
امام حسن بصریؒ نے اس اذان کو "محدث” (نیا کام) کہا۔
-
امام عطاء بن ابی رباحؒ نے اس اذان کو "باطل” قرار دیا اور اسے حجاج بن یوسف کی ایجاد بتایا۔
-
امام عبدالرحمن بن زیدؒ نے بھی اسے بعد کی ایجاد قرار دیا۔
⑥ ائمہ دین و فقہاء کی آراء:
-
امام شافعیؒ نے اضافی اذان کو ناپسندیدہ قرار دیا اور سنت پر ہی زور دیا۔
-
قاضی ابو بکر ابن العربیؒ اور امام ابو بکر الجصاصؒ حنفی نے بھی اضافی اذان کو واضح الفاظ میں "بدعت” اور "محدث” کہا ہے۔
-
امام ماوردیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اضافی اذان کے بدعت ہونے کی صراحت کی۔
🔹 خلاصۂ کلام:
مذکورہ بالا تمام شواہد اور واضح تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ جمعہ کی اضافی اذان سنتِ رسول ﷺ، سنت خلفائے راشدین اور عمومی طریقۂ صحابہ و تابعین کے خلاف ہے۔ اسے متعدد جلیل القدر صحابہ، تابعین اور فقہائے امت نے واضح طور پر "بدعت” قرار دیا ہے۔
بے شک حضرت عثمانؓ نے آبادی کی ضرورت کے پیش نظر ایک اضافی اذان کا انتظام کیا تھا، لیکن یہ مسجد سے باہر اور صرف اطلاع کے لیے تھی۔ آج کل اس اذان کو مسجد کے اندر عبادت اور سنت کے طور پر رائج کرنا بلاشبہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
اہم حوالاجات کے سکرین شاٹس