جلدی کی صورت میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں؟

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ اللهِ إِذَا عَجَلَ بِهِ السَّفَرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَنزِلُ فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ يَرْكَبُ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جلدی روانہ ہو جاتے تو ظہر کوعصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر آپ پڑاؤ کرتے تو دونوں نماز اکٹھی پڑھ لیتے ، اگر سورج آپ کی روانگی سے پہلے ڈھل جاتا تو آپ ظہر کی نماز پڑھتے پھر سوار ہوتے ۔“ مسلم ۔
تحقیق و تخریج:

بخاری: 1112، مسلم: 704
وَفِي رِوَايَةِ الْبَيْهَقِي: كَانَ إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ فَزَالَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظَّهْرَ وَالْعَصْرَ ثُمَّ ارْتَحَلَ
بیہقی کی ایک روایت میں ہے ”جب سفر میں ہوتے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر کی نماز پڑھتے پھر سفر پر روانہ ہو جاتے ۔“
تحقیق و تخریج:

یہ حدیث صحیح ہے ۔ بیهقی: 3/ 162 ۔
وَعَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا حَدَّبِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بَعْدَ مَا يَغِيبُ الشَّفَقُ، وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا جَدَّبِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ ۔
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر جب سورج غروب ہونے کے بعد سفر پر روانگی کے لیے تیار ہوتے تو مغرب اور عشاء کو جمع کر لیتے وہ فرماتے ہیں ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہونے لگتے تو مغرب اور عشاء کو جمع کر لیتے تھے ۔ “ مسلم کے الفاظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج:

بخاری: 1106، مسلم: 704
فوائد:

➊ جلدی کی صورت میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں یعنی مسافر جلدی میں ظہر کا انتظار کیے بغیر سفر پر روانہ ہو پھر جہاں قیام کرے عصر کے ساتھ ظہر کی نماز بھی پڑھ لے ۔
➋ اگر ظہر کا وقت ہو جائے تو نماز پڑھ کر سفر کرے ۔
➌ اگر شام کے قریب سفر پر جانتا ہو تو مغرب اور عشاء کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔
➍ اگر روانہ ہوتے وقت کسی نماز کا وقت ہو تو نماز ادا کر لینی چاہیے تاکہ فریضہ کی ادائیگی ہو جائے لیکن یہ گھر سے روانہ ہوتے وقت کی نماز قصر نہ ہو گی ۔ اسی طرح ایک آدمی نے سفر کیا وقت صبح کا تھا اور وہ ظہر کے وقت میں منزل مقصود پر پہنچ گیا اگر منزل ذاتی رہائش ہے تو ظہر کی نماز مکمل پڑھنی ہو گی ہاں اگر منزل مقصود کی حد سے باہر ہے تو پھر وہی ظہر کی نماز قصر ادا کرے گا بشرطیکہ نو میل طے کیا ہو ۔
➎ اسلام نے انسان کے لیے سہولت بھی مہیا فرمائی ہے سفر صبح و شام کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ لیل و نہار کی کسی گھڑی میں بھی نکلا جا سکتا ہے ممانعت نہیں الغرض سفر کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نفل وفرائض ذکر و دعا کی صورت میں یاد رکھا جائے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: