جسے رمضان کی آمد کا علم طلوعِ فجر کے بعد ہو وہ کیا کرے ؟
سوال : جس شخص کو نیند وغیرہ کی وجہ سے رمضان کی آمد کا علم صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد ہو اس کے صوم کا کیا حکم ہے ؟
جواب : جس شخص کو ماہِ رمضان کے دخو ل کا علم صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد ہو اس پر ضروری ہے کہ علم ہونے کے بعد سے دن کے بقیہ حصہ میں صوم کو توڑنے والی چیزوں سے رکا رہے۔ کیوں کہ وہ رمضان کا دن ہے جس میں کسی بھی تندرست، مقیم شخص کے لئے صوم کو توڑنے والی چیزوں کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس پر اس دن کے صوم کی قضا لازم ہے، اس لئے کہ اس نے طلوعِ فجر سے پہلے صوم کی نیت نہیں کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من لم يبيت الصيام قبل الفجر فلا صيام له [صحيح: صحيح سنن أبى داؤد، الصوم باب النية فى الصيام 71 رقم 2143۔ 2454۔ بروايت حفصه رضي الله عنها۔ صحيح سنن ترمذي، الصوم باب لا صيام لمن لم يعزم من الليل 33 رقم 583۔ 733، صحيح سنن ابن ماجه،الصوم باب ما جاء فى فرض الصوم من الليل 26 رقم 1379۔ 1700، صحيح الجامع رقم 6534، بروايت عائشه رضي الله عنها ورقم 6535 بروايت حفصه رضي الله عنها، الإرواء رقم 914]
’’ جس نے فجر سے پہلے صوم کی نیت نہیں کر لی اس کا صوم نہیں ہو گا “۔
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’ المغنی “ (4؍387 رقم 498) میں نقل کیا ہے۔ اور عام فقہاء کا قول یہی ہے۔ اور اس سے ’’ صومِ فرض “ مراد ہے۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں مذکور ہے۔
جہاں تک نفلی صوم کا معاملہ ہے تو اس کی نیت دن کے اندر بھی کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس وقت تک صوم کو توڑنے والی کسی چیز کا استعمال نہ کیا ہو۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ [صحيح مسلم، الصيام 13 باب جواز صوم النافلة بنية من النهار قبل الزوال 32 رقم 170، 1154]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ اور ان کے صیام و قیام کو قبول فرمائے۔ یقیناًً وہ خوب سننے والا اور (بندوں) سے بہت قریب ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: