جزیہ کے احکام، شرائط اور مقدار

صلح کو جزیہ کے ذریعے پختہ کرنا بھی جائز ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ [التوبة: 29]
”ان سے لڑائی کرو جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے ، جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ اشیاء کو حرام نہیں جانتے ، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ، ان میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔“
➋ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے امیر کو وصیت کرتے کہ جب وہ دشمن سے ملے تو انہیں تین باتوں میں سے ایک کی طرف دعوت دے: ”انہیں اسلام کی طرف دعوت دے ، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم ان سے قبول کر لو اور ان سے رک جاؤ ۔ اگر وہ نہ مانیں تو انہیں جزیہ ادا کرنے کی دعوت دو اگر وہ یہ مان لیں تو ان سے قبول کر لو اور ان سے رک جاؤ ۔ اگر وہ اس کا بھی انکار کر دیں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے قتال کرو ۔“
[مسلم: 1357 – 1358 ، كتاب الجهاد والسير: باب تامير الإمام الأمراء على البعوث ووصيته ……]
➌ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر (بحرین کا دارالخلافہ ) کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ۔
[بخاري: 3157 ، كتاب الجزية: باب الجزية والموادعة مع أهل الحرب ، ابو داود: 3043 ، ترمذي: 1587 ، نسائي: 234/5 ، احمد: 190/1]
➍ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے جنگ نہاوند کے دن لشکر کسری کے امیر کو کہا:
أمرنا نبينا نقاتلكم حتى تعبدوا الله وتؤدوا الجزية
”ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم تم سے لڑتے رہیں حتی کہ تم اللہ کی عبادت کرنے لگو اور جزیہ ادا کرو ۔
[بخاري: 3159 ، كتاب الجزية والموادعة: باب الجزية والموادعة مع أهل الحرب…….]
➎ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دومۃ الجندل کے حکمران اکیدر کو گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
فحقن دمـه وصـالـحـه على الجزية
”اس کا خون نہ بہایا اور اس سے جزیہ پر مصالحت کر لی ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 2621 ، كتاب الحراج: باب فى أخذ الجزية ، ابو داود: 3037 ، بيهقي: 187/9 ، تحفة الأشراف: 286/13]
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین سے جزیہ لینے کے لیے بھیجا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بحرین سے مصالحت کی ہوئی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی کو امیر مقرر فرمایا تھا ۔
[بخاري: 2988 ، مسلم: 2961 ، احمد: 137/4 ، ترمذي: 2462 ، ابن ماجة: 3997]
(زہریؒ ) سب سے پہلے اہل نجران نے جزیہ دیا تھا اور وہ عیسائی تھے ۔
[ابو عبيد فى الأموال: ص / 67]
(احمدؒ ) اہل کتاب اور مجوسیوں کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا (صرف اسلام یا قتل ) ۔
(شافعیؒ ) اہل کتاب اور مجوسیوں سے جزیہ لیا جائے گا عربی ہوں یا عجمی ۔
(مالکؒ ، اوزاعیؒ ) عرب و عجم کے تمام کافروں سے جزیہ لیا جائے گا ۔
(احناف ) مشرکین عرب سے جزیہ نہیں لیا جائے گا (حالانکہ صحیح حدیث گزری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومتہ الجندل کے حکمران سے جزیہ لیا اور وہ عرب سے تھا ) ۔
[المغني: 203/13 ، الاختيار: 137/4 ، فتح البارى: 393/6 ، نيل الأوطار: 125/5 ، الروضة الندية: 763/2]
(راجح ) عرب و عجم کے تمام کفار سے جزیہ لینا درست ہے سوائے مرتد کے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی لشکر کو روانہ کرتے وقت ان کے امیر کو تمام مشرکین سے جزیہ لینے کی وصیت فرماتے تھے ۔ اور یہ آیت :
قَاتِلُوا الَّذِينَ …….. حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ
بھی اس کے مخالف نہیں ہے کیونکہ جزیہ کفار سے لیا جائے گا اور اہل کتاب بھی کفار کی ایک قسم ہیں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے بھی اسی بات کو راجح قرار دیا ہے ۔
[السيل الجرار: 570/4 ، سبل السلام: 1797/4 ، قاعدة فى قتال الكافر لابن تيمية]

جزیہ کی شرائط

جمہور فقہا کا کہنا ہے کہ جزیہ کے لیے تین شرائط ہیں:
➊ بالغ ہونا .
➋ آزاد ہونا .
➌ مذکر ہونا ۔
یعنی بچے ، غلام ، عورت ، پاگل ، انتہائی بوڑھے ، کمائی سے عاجز اور گرجوں کے عبادت گزاروں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا ۔
[فتح البارى: 393/6 ، نيل الأوطار: 129/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 444/6 ، سبل السلام: 1800/4]
واضح رہے کہ یہ تمام اجتہادی مسائل ہیں ان میں کوئی شرعی نص موجود نہیں ، اختلاف کا سبب یہ ہے کہ انہیں (یعنی بچے ، پاگل وغیرہ کو ) قتل کیا جائے گا یا نہیں ۔
[بداية المجتهد: 748/1]

جزیہ کی مقدار

➊ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا:
فـأمــرنــي أن آخذ من كل حالم دينارا أو عدله معافريا
”کہ میں ہر بالغ سے ایک دینار بطور جزیہ وصول کروں یا پھر اس کے برابر معافری کپڑالوں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1394 ، كتاب الزكاة: باب فى زكاة السائمة ، ابو داود: 1576 ، ترمذي: 623 ، نسائي: 26/5 ، ابن الجارود: 1104 ، دار قطني: 102/2 ، حاكم: 398/1 ، بيهقى: 98/4 ، احمد: 230/5 ، طيالسي: 240/1 ، ابن أبى شبيبة: 126/3 ، عبد الرزاق: 21/4 ، ابن ماجة: 1803]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے دو ہزار حلوں (لباسوں ) پر صلح کی کہ وہ نصف ماہ صفر میں اور نصف ماہ رجب میں ادا کریں گے ۔
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 657 ، كتاب الخراج: باب فى أخذ الجزية ، ابو داود: 3041 ، بيهقي: 187/9]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جزیہ لینے کے لیے تین طبقے بنا رکھے تھے ۔
① اغنیاء سے 48 درہم ۔
② متوسطین سے 24 درہم .
③ اور فقراء سے 12 درہم ۔
[ابن أبى شيبة: 241/12 ، كتاب الجهاد: باب ما قالوا فى وضع الجزية والقتال عليها ، بيهقي: 196/9 ، كتاب الجزية]
➍ ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ میں نے مجاہدؒ سے پوچھا ، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینا (جزیہ ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں ۔
[بخاري: قبل الحديث / 3156 ، كتاب الجزية والموادعة: باب الحزية والموادعة مع أهل الذمة والحرب]
درج بالا تمام احادیث کو جمع کرنے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے ۔
(شافعیؒ ) کم از کم جزیہ ایک دینا ضروری ہے اور اگر امام درست سمجھے تو زیادہ بھی لے سکتا ہے ۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ ) ان کا موقف وہی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا یعنی تین طبقات ۔
(مالکؒ ) اغنیاء کے لیے 40 درہم یا 4 دینار اور فقراء کے لیے 10 درہم یا ایک دینار ۔
(ثوریؒ ، عطاؒ ، یحییٰ ، ابو عبیدؒ ) جزیہ کی کوئی مقدار معین نہیں جس پر مصالحت ہو جائے وہی لیا جائے گا ۔
[المغني: 211/13 ، بدائع الصنائع: 112/7 ، الدر المختار: 292/3 ، تبيين الحقائق: 276/3 ، الشرح الكبير: 201/2 ، مغنى المحتاج: 248/4 ، تفسير فتح القدير: 425/2 ، بداية المجتهد: 749/2]
❀ جو مال بھی میسر ہو اسی سے جزیہ لیا جائے گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا وصول کرنے کا کہا ۔
❀ ذمیوں پر یہ شرط لگانا کہ وہ اپنے پاس آنے والے مسلمانوں کی ضیافت کریں گے درست ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا ۔
[بيهقي: 196/9 ، كتاب الحزية: باب الضيافة فى الصلح]
❀ امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں کہ کسی غلام کے مالک پر اپنے غلام کی طرف سے جزبہ دینا لازم نہیں ہے جب کہ مالک مسلمان ہو ۔
[المغني: 220/13]
❀ مسلمان ہونے سے بالا تفاق جزیہ ساقط ہو جائے گا ۔
(احناف ، مالکیہ ) موت کے ساتھ جزیہ ساقط ہو جائے گا ۔
(شافعیہ ، حنابلہ ) موت کے ساتھ ساقط نہیں ہو گا بلکہ قرض کی طرح ترکے سے ادا کیا جائے گا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 449/6 ، آثار الحرب: ص / 694 ، المغنى: 221/13 ، بداية المجتهد: 570/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے