جرابوں پر مسح صحیح احادیث، آثار صحابہ و تابعین کی روشنی میں
📘 کتاب کا نام: جرابوں پر مسح کی مشروعیت
👤 مولف: ابو عدنان محمد منیر قمر، ترجمان سپریم کورٹ الخبر، سعودی عرب

جرابوں (موزوں) پر مسح کی مشروعیت

موسمِ سرما میں سردی سے بچنے کے لیے یا کسی بھی دوسری غرض سے جس شخص نے چمڑے کے موزے پہن رکھے ہوں اور وہ وضو و طہارت کی حالت میں پہنے ہوئے ہوں، تو اسے اجازت ہے کہ انھیں اتار کر پاؤں دھونے کے بجائے ان موزوں کے اوپر ہی گیلا ہاتھ پھیر کر مسح کر لے، کیونکہ یہ مسح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح احادیث میں ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، سننِ اربعہ اور مسند احمد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور پاؤں کے موزوں پر مسح کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کرتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا:
نعم، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بال، ثم توضأ، ومسح على خفيه .
”ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشاب کرنے کے بعد وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا“۔
الفتح الرباني: (57/4)، صحيح سنن أبي داؤد، رقم الحديث: (140)، صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث: (81، 82) ، صحيح سنن النسائي، رقم الحديث: (114)، سنن ابن ماجه، رقم الحديث: (543)
اس حدیث کے راوی حضرت جریر رضی اللہ عنہ چونکہ سورۃ المائدہ کی آیتِ وضو نازل ہونے کے بعد اسلام لائے تھے، اس لیے لوگ ان کی اس روایت کو بہت معتبر مانتے تھے، کیونکہ اس آیت کے ذریعے سے جن صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسح کے منسوخ ہو جانے کا گمان تھا، وہ ان کی روایت سے دور ہو گیا، کیونکہ وہ تو مشرف بہ اسلام ہی آیتِ وضو کے نزول کے بعد ہوئے تھے، جبکہ آیتِ وضو 5ھ یا 4 ھجری غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر نازل ہوئی تھی اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ماہِ رمضان 10ھ میں واقع ہوا تھا۔

الفتح الرباني و شرحه بلوغ الأماني: (57/2-58) نیز فتح الباری جلد سات میں بھی سید نا جریر بن عبد اللہ علی الفاظ کے قبول اسلام کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔

ایسے ہی صحیح بخاری، موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بیان فرماتے ہیں:
إنه مسح على الخفين .
”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا“۔
صحيح البخاري مع الفتح، رقم الحديث (202)، الموطأ مع شرحه المسوى، رقم الحدیث (58)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے عظیم المرتبت والد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں پوچھا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نعم، إذا حدثك شيئا سعد عن النبى صلى الله عليه وسلم فلا تسأل عنه غيره
”ہاں! جب تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز سعد بیان کریں تو پھر اس کے بارے میں کسی دوسرے سے مت پوچھو“۔
صحيح البخاري مع الفتح (305/1) و الفتح الرباني (59/2)
صحیح بخاری میں حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رأيت النبى يمسح على عمامته وخفيه .
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دستار مبارک اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا ہے۔“
صحيح البخاري مع الفتح (308/1)
فتح الباری میں لکھا ہے:
”حفاظِ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنا تواتر سے ثابت ہے۔ ان میں سے بعض محدثین کرام نے موزوں پر مسح کرنے کی مشروعیت بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو شمار کیا تو ان کی تعداد اسّی (80) سے بھی تجاوز کر گئی، جن میں اس دنیا میں ہوتے ہوئے ہی جنت کی خوشخبری پانے والے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں“۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني سبعون من الصحابة بالمسح على الخفين
”مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ستر (70) حضرات نے موزوں پر مسح کرنے والی حدیث سنائی ہے۔“
فتح الباري (306/1) ، الفتح الرباني (58/2-59)

◈جرابوں پر مسح اور احادیثِ رسول ﷺ:

چمڑے کے موزوں کی طرح ہی اون، فوم، کاٹن یا نائیلون کی جرابوں پر مسح کرنا بھی جائز ہے، جس کا ثبوت سنن ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، سنن بیہقی اور صحیح ابن حبان میں صحیح سند سے مروی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ ومسح على الجوربين والنعلين .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا“۔
سنن أبي داؤد مع العون (269/1)، سنن الترمذي مع التحفة (327/1)، مسند أحمد (71/2) وصححه الألباني في الإرواء (137/1-138) و تحقيق المشكاة (162/1) و تمام المنة (ص: 113)، سنن ابن ماجه، رقم الحديث (559)، موارد الظمآن، رقم الحديث (176)، صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث (86)۔
محدثین کرام کے معیارِ صحت پر پوری اترنے والی اس حدیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں جرابوں پر مسح کی مشروعیت کا ذکر آیا ہے، اگرچہ ان میں سے بعض کی اسانید اور راویوں پر کچھ کلام بھی کیا گیا ہے، مگر ان میں سے بھی متکلم فیہ احادیث اکثر محدثین کرام کے نزدیک صحیح ہیں۔ان روایات کی نصوص اور محدثین کے ان پر تبصرے ”نصب الراية تخريج أحاديث الهداية للإمام الزيلعي“ (184/1 تا 186) ”عون المعبود شرح أبي داؤد للعلامه شمس الحق العظيم آبادي (269/1-275 طبع مدني)، معالم السنن للخطابي (121/1)، تهذيب السنن لابن القيم (ص: 123 122)، تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي للمباركفوري (333/1-330طبع مدني) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ علامہ ابن قیم کی کتاب ” زاد المعاد“ کے محقق نے لکھا ہے:
”علامہ جمال الدین قاسمی نے جرابوں پر مسح کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا، جس میں کئی صحیح و ثابت احادیث جمع کیں اور پھر علامہ احمد شاکر نے اس رسالے کی تخریج کی تو کئی دیگر احادیث کا اس میں اضافہ بھی کیا ہے ۔“
تحقیق زاد المعاد (194/1)

◈ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک جماعت سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں خود امام صاحب نے ان نو (9) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفصیل یوں ذکر کی ہے:
➊ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ➋ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ➌ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ
➍ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ➎ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ➏ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ
➐ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ➑ حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ ➒ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سنن أبي داؤد مع العون (274/1-275)
”تهذیب السنن“ میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ابن المنذر کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جرابوں پر مسح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نو (9) صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے:
➊ حضرت علی ➋ حضرت عمار ➌ حضرت ابو مسعود انصاری
➍ حضرت انس ➎ حضرت عبد اللہ بن عمر ➏ حضرت براء
➐ حضرت بلال ➑ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ➒ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہم
تهذيب السنن لابن القيم على هامش العون (272/1)
ان اٹھارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی میں سے حضرت علی، انس، براء اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم کے نام مکرر آئے ہیں تو گویا چودہ صحابہ سے جرابوں پر مسح کی روایت ملتی ہے، جبکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت ثوبان اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے” المسح على الجوربين“ کی مرفوع روایات آئی ہیں، لہٰذا ان کی تعداد سترہ ہو گئی۔
عون المعبود (274/1-275)، تحفة الأحوذي (329/1-328) المحلى لابن حزم (81/2/1-82، 103)، مصنف ابن أبي شيبة (188/1-189)، مصنف عبدالرزاق (190/1، 745 ، 773، 781، 782) اور” نصب الراية للزيلعي “ میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار بھی منقول ہیں۔
اختصار کے پیشِ نظر ہم ان آثار کی نصوص اور ان کے ترجمے سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ البتہ ان کا خلاصہ یہی ہے کہ ان سب نے مختلف مواقع پر اپنی جرابوں پر مسح کیا، جو جرابوں پر مسح کی مشروعیت کی دلیل ہے۔

◈ آثارِ تابعین اور اقوالِ ائمہ رحمہم اللہ:

جس طرح قدسی نفوس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جرابوں پر مسح کرنے کے جواز کی قائل ہے، اسی طرح تابعین کرام رحمہم اللہ کی بھی ایک جماعت اس کی قائل و فاعل ہے۔
بحوالہ ہفت روزہ اہل حدیث (جلد 20، شماره 52 ، بابت 29 جمادی الاول 1410ھ بمطابق 29 دسمبر 1989ء)
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ(189/1 )اور علامہ ابن قیم کی ”اعلام الموقعین“(75/1) پر جن تیرہ تابعین کے اسمائے گرامی مذکور ہیں، ان میں:
➊ حسن بصری➋ سعید بن مسیب➌ ابن جریج ➍ عطاء
➎ ابراہیم نخعی ➏ فضل بن وکیع ➐ اعمش ➑ قتادہ
➒خلاص ➓ سعید بن جبیر⓫نافع ⓬سفیان ثوری
⓭ ابو ثور رحمہم اللہ جیسے اساطینِ علم شامل ہیں۔
ان حضرات کے اقوال و فتاویٰ بھی مذکورہ کتب میں منقول ہیں۔ جن کی نصوص و ترجمہ سے اختصار کے پیش نظر ہم صرف نظر کرتے ہیں، جب کہ جامع ترمذی میں امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جرابوں پر مسح کے جواز کا قول کئی اہلِ علم کا ہے، اور حضرت سفیان ثوری، ابن المبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے“۔
سنن الترمذي مع تحفة الأحوذي (329/1)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ”تهذیب السنن“ میں فرماتے ہیں:
”جرابوں پر مسح کے جواز کا قول اکثر اہلِ علم کا ہے اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ذکر کیے گئے ہیں، ان کے علاوہ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، عبد اللہ بن مبارک، سفیان ثوری، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، سعید بن مسیب اور ابو یوسف قاضی رحمہم اللہ بھی جواز کے قائل تھے، اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ہم ذکر کر آئے ہیں، ان کا مخالف بھی دوسرا کوئی صحابی ہم نہیں جانتے“۔
تهذيب السنن لابن القيم على هامش عون المعبود (273/1-274)

◈ احناف کا مسلک:

معالم السنن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگردانِ گرامی امام قاضی ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا مسلک یوں منقول ہے:
يمسح عليهما إذا كانا تخينين لا يشفان
”جرابوں پر مسح کیا جائے گا جبکہ وہ موٹی ہوں“۔
خاص فقہِ حنفی کی کتاب قدوری میں ہے کہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کہتے ہیں:
يجوز المسح على الجوربين إذا كانا تخينين لا يشفان الماء
”جرابوں پر مسح جائز ہے جبکہ وہ موٹی ہوں اور پانی کو (مسح کے وقت) چوس کر پاؤں تک نہ پہنچاتی ہوں“۔
قدوري مع شرحه اللباب (40/1/1 دار الكتاب)
خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ شروع میں جرابوں پر مسح کے قائل نہ تھے، مگر بعد میں انھوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا اور صاحبین والا قول ہی اختیار فرما لیا تھا۔ چنانچہ قدوری کی شرح اللباب میں شیخ عبد الغنی غنیمی میدانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، ہدایہ کے حوالے سے تصحیح میں ہے:
أنه رجع إلى قولهما وعليه الفتوى
”امام صاحب نے بھی صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے“۔
حاصلِ کلام کے طور پر شرح الجامع المعروف قاضی خاں سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اگر جرابیں موٹی ہوں، مگر جوتے میں نہ ہوں تو امام صاحب کے نزدیک ان پر مسح جائز نہیں۔ صاحبین کے نزدیک جائز ہے۔ اور آگے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ بیان کیا جاتا ہے:
إن الإمام رجع إلى قولهما فى المرض الذى مات فيه
”امام صاحب نے اپنے اس مرض کے دوران میں جس سے پھر آپ جانبر نہ ہو سکے تھے، صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا“۔
اللباب (40/1/1)
نیز ہدایہ میں لکھا ہے:
وقالا: يجوز المسح على الجوربين إذا كانا تخينين لا يشفان، لما روي أن النبى ﷺ مسح على جوربيه، وعليه الفتوى
”صاحبین کا کہنا ہے کہ جرابیں اگر موٹی ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے، کیونکہ روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دونوں جرابوں پر مسح کیا تھا اور اسی بات پر (علمائے احناف کا) فتویٰ ہے“۔
الهداية (44/1) طبع مجتبائي
ان الفاظ سے پہلے صاحب ہدایہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے نزدیک جرابوں پر مسح جائز نہیں اور پھر تین سطروں کے بعد ہی ذکر کر دیا ہے کہ امام صاحب نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔

◈ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا رجوع:

یہ جو ذکر ہو رہا ہے کہ صاحبین یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردانِ رشید امام قاضی ابو یوسف و امام محمد رحمہما اللہ تو شروع ہی سے جرابوں پر مسح کے جواز کے قائل تھے اور دلیل کے طور پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا کرتے تھے اور بالآخر خود امام صاحب جو پہلے جواز کے قائل نہیں تھے، وہ بھی صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر کے جواز کے قائل ہو گئے، ان کے اس رجوع کی تفصیل ہدایہ کے حاشیہ پر مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔
موصوف لکھتے ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی آخری بیماری میں اپنے شاگردوں کے سامنے وضو فرمایا، جبکہ آپ نے جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس وقت آپ نے وضو کر کے جرابوں پر مسح کیا اور اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے یہ عمل اس لیے کیا کہ میں جرابوں پر مسح سے روکا کرتا تھا، مگر اب میری تحقیق یہ ہے کہ جرابوں پر مسح نہ صرف جائز ہے، بلکہ یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اس لیے میں نے یہ عمل کر کے تمھیں بتایا ہے، تاکہ تم عوام الناس اور علماء کو بتاؤ کہ ابو حنیفہ نے اپنے مسلک سے رجوع کر لیا ہے۔
صرف جرابوں پر مسح کے مسئلے پر رجوع ہی نہیں، بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے کثیر مسائل میں تحقیق کے بعد ان سے رجوع کیا تھا اور یہی محققین کی شان ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے کہ جب صحیح مسئلہ سامنے آجائے تو اپنے پرانے عمل کو فوراً ترک کر دیا جائے جو بلا دلیل ہو اور از روئے دلیلِ صحیح کو اختیار کر لیا جائے۔ ”طبقات الحنفية“ (ص: 92 تا 100) میں شیخ عبد القادر نے ذکر کیا ہے:
”امام صاحب نے قاضی ابو یوسف کو چوبیس (24) مسائل تحریر کرائے، جن میں انھوں نے اپنے سابقہ مسلک سے رجوع کیا تھا اور قاضی ابو یوسف کو یہ تاکید فرمائی کہ یہ مسائل اور ان میں رجوع علماء کو بھی بتا دینا اور عوام تک بھی پہنچا دینا، تاکہ کہیں میری وجہ سے لوگ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک نہ کرتے رہیں، اس لیے کہ نعمان غلطی کر سکتا ہے، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلطی نہیں کر سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر اور معصوم ہیں، اور نعمان بن ثابت پیغمبر ہے نہ معصوم۔ یاد رکھنا کہ جب میرا کوئی قول حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف پاؤ تو میرے قول کو دیوار پر مار دو اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سینے سے لگا لو“۔
اس طرح امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا۔ جو ان کی تواضع کے ساتھ ساتھ رفعت اور بلند مقامی کا ثبوت ہے۔ رحمه الله رحمة واسعة.
ہفت روزہ اہل حدیث (جلد 20، شماره 52، بابت 29 جمادی الاولی 1410ھ بمطابق 29 دسمبر 1989ء)
معالم السنن للخطابی(121/1)، عمدۃ القاری حاشیہ شرح الوقایہ(بحواله تحفة الأحوذي: 335/1) اور رد المحتار حاشیہ در مختار (278/1)میں بھی فقہائے احناف کا فتویٰ یہی مذکور ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

◈ لفظِ جراب کی لغوی تحقیق:

جراب ایک معروف چیز ہے، لیکن بعض لوگ بلا وجہ اسے ایسے معانی میں لینے لگتے ہیں کہ جسے تشدد اور غلو کہا جا سکتا ہے، جیسے کوئی کہہ دیتا ہے کہ جراب سے چمڑے کی جرابیں مراد ہیں، حالانکہ ان کے لیے تو حدیث شریف حتیٰ کہ بخاری و مسلم میں ”خفين“ کا لفظ موجود ہے، لہٰذا جراب سے چمڑے کی جرابیں مراد لینا لغت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا آئیے اس لفظ کی تھوڑی سی لغوی تحقیق کریں، تاکہ اصل حقیقت تک پہنچا جا سکے۔ چنانچہ عربی کی درمیانی مگر معروف و متداول ڈکشنری ”المنجد“ (ص:84) اور” قاموس المحيط فيروز آبادی“ (47/1) میں لکھا ہے:
الجورب: لفافة الرجل
”جراب پاؤں کا لفافہ یعنی پاؤں کو لپیٹنے کے لیے ہوتی ہے“۔
ماہرِ لغت علامہ احمد رضا دمشقی معجم متن اللغة (499-500/1) نامی پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ڈکشنری میں لکھتے ہیں:
جورب پاؤں پر لٹکائے جانے والے لفافے کو کہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک فارسی لفظ ”گورپا“ سے معرب ہے، جس کا معنیٰ” پاؤں کی قبر “ہے۔
پندرہ جلدوں پر مشتمل لسان العرب لابن منظور (263/1) میں لکھا ہے:
الجراب وعاء معروف .
”جراب ایک معروف ظرف ہے“۔
صاحب ”عون المعبود“ اور” تحفۃ الأحوذی“ نے امام سیوطی اور امام ابو بکر بن العربی رحمہما اللہ سے نقل کیا ہے:
الجورب غشاوة للقدم من صوف يتخذ للدفء وهو الشخين .
”جراب پاؤں پر چڑھانے کا ایک پردہ ہوتا ہے، جو پاؤں کو گرم رکھنے کے لیے اون کا بنایا جاتا ہے اور موٹا ہوتا ہے“۔
عون المعبود (269/1)، تحفة الأحوذي (334/1)۔
علامہ عیسی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”جراب ملک شام کے سرد ترین علاقوں میں پاؤں میں ٹخنوں سے اوپر تک پہنی جاتی ہے اور وہ دھاگے یا اون سے تیار شدہ ہوتی ہے“۔
بحوالہ ہفت روزہ اہل حدیث (جلد 20، شماره 51، بابت 22 جمادی الاول 10 ماه به مطابق 22 دسمبر 1989ء)۔
کبار علمائے احناف میں سے علامہ عینی رحمہ اللہ نے جورب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”جورب شامی ممالک میں سخت سردی کے وقت پہنی جاتی ہے، جو اون کی بنی ہوتی ہے اور پاؤں سمیت ٹخنوں کے اوپر تک ہوتی ہے“۔
عون المعبود (270/1) و تحفة الأحوذي (334/1)۔
تاج العروس زبیدی میں بھی ”جورب“ کو پاؤں کا لفافہ اور اصل فارسی” گورپا “ہی لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاویٰ میں ہے کہ ”جوربين“ اور ”نعلين “میں فرق یہ ہے کہ جوربين اون اور نعلين چمڑے سے بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ مجد الدین فیروز آبادی کی ”القاموس المحيط“ میں ”جورب“ کی عام تعریف کی گئی ہے، جو چمڑے، اون، بال اور دھاگے سے بنی ہر جراب کو شامل ہے۔
حوالہ جات سابقہ ۔
اس ساری لغوی تحقیق و تشریح سے معلوم ہوا کہ جورب میں ہر طرح کی جرابیں آ جاتی ہیں، وہ چمڑے کی ہوں، ریشم کی، اون کی، دھاگے کی، بالوں کی، یا نائیلون کی اور ہر اس جراب پر مسح جائز ہے جو صحیح و سالم اور موٹی ہو، لیکن اگر وہ صحیح و سالم تو ہو مگر اتنی باریک ہو کہ اس سے پاؤں صاف نظر آتا ہو تو وہ مسح کے قابل نہیں ہوتی۔ ہاں اگر جراب میں کہیں معمولی سا سوراخ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ فقہاء کی کتب میں مذکور ہے۔

◈ موزوں پر مسح اور پلاسٹر پر مسح میں فرق:

جبیرہ، پلاسٹر یا پٹی پر مسح بظاہر تو موزوں پر مسح ہی کی طرح ہے، لیکن ان دونوں پر مسح کے مابین کچھ فرق ہے، جس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً:
① پلاسٹر یا پٹی پر مسح کی توقیت دنوں کے ساتھ نہیں ہوتی، بلکہ شفا پر منحصر ہوتی ہے، جبکہ موزوں پر مسح کی توقیت دنوں کے ساتھ ہے کہ مسافر تین دنوں اور تین راتوں تک موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم صرف ایک دن اور ایک رات تک۔ اس مدت کے بعد اُسے موزے اتار کر پاؤں کو لازماً دھونا ہو گا، لیکن پلاسٹریا پٹی میں ایسا نہیں، جب تک زخم مندمل نہ ہو جائے اور ہڈی جڑ کر ٹھیک نہ ہو جائے، اُسے اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
② ان دونوں چیزوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز میں یہ شرط ہے کہ طہارت و وضو کی حالت میں پہنے گئے ہوں۔ پلاسٹر یا پٹی میں یہ کوئی شرط نہیں اور حنابلہ اور شافعیہ نے جو یہ شرط عائد کی ہے تو اہل علم نے اُسے غیر معقول و نا حق قرار دیا ہے۔
الفقه الإسلامي وأدلة (353،349/1)
③ تیسرا فرق یہ ہے کہ پلاسٹر یا پٹی حصولِ شفا سے پہلے ہی کسی وجہ سے گر جائے تو بھی مسح کی مدت ختم نہیں ہوگی، بلکہ دوبارہ پٹی کر لینے کے بعد پھر اس پر مسح جائز ہے، لیکن موزہ اگر پاؤں سے اتار لیا جائے یا دونوں اتار دیے جائیں اور وضو بھی نہ ہو تو اب ان پر مسح کی مدت ختم ہو گئی۔ لہذا ضروری ہے کہ وضو کر کے انھیں پہنیں، ورنہ ان پر مسح جائز نہیں ہو گا۔
④ ان دونوں کے مابین چوتھا فرق یہ ہے کہ پٹی پر مسح تو اس وقت جائز ہے کہ جب زخم پر مسح کرنا اور اُسے دھونا نقصان دہ ہو، جبکہ موزوں کا معاملہ اس کے بر عکس ہے کہ اگر چہ کوئی پاؤں دھونے سے عاجز نہ بھی ہو، تب بھی مسح جائز ہے، اور موسم سرما کی سردی سے بچاؤ تو کوئی بہت بڑا عذر نہیں، اس کے باوجو د شریعت نے اجازت دے رکھی ہے۔
⑤ پانچواں فرق یہ ہے کہ موزوں پر مسح تو صرف پاؤں کے ساتھ خاص ہے، جسم کے دوسرے حصے پر موزہ نما چیز چڑھائی جائے یا دستانے پہن لیے جائیں، تب بھی ان پر مسح جائز نہیں، جب کہ پلاسٹریا پٹی سر سے پاؤں تک جسم کے کسی بھی حصے پر ہو، اس پر مسح کرنا جائز ہے۔
بدائع الصنائع (14/1)، المغني لابن قدامة (356/1)، الفقه الإسلامي (356/1-357)، جدید فقہی مسائل(ص: 61 )

◈ مسح کی شرط:

جبیرہ، پلاسٹر اور پٹی کے ضمن میں یہ تفصیل گزر چکی ہے کہ ان پر مسح اور موزوں یا جرابوں پر مسح میں کن کن پہلوؤں میں فرق ہے، لہذا یہاں اس تفصیل کو دُہرانے کی ضرورت نہیں، اور وہیں شرائط مسح بھی ذکر ہوئی تھیں۔ لیکن یہاں صرف ایک ہی شرط قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے طہارت و وضو، کہ موزوں یا جرابوں پر مسح صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ جب انھیں باوضو ہونے کی حالت میں پہنا گیا ہو، کیوں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرمانے لگے تو میں برتن سے پانی ڈال رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب چہرہ اقدس اور بازوؤں کو دھو لیا اور سر اقدس کا مسح کر لیا تو میں جھکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتاروں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دعهما فإني أدخلتهما طاهرتين فمسح عليهما .
”انھیں رہنے دو، کیونکہ میں نے یہ طہارت کی حالت میں پہنے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر مسح کر لیا“۔
صحيح البخاري مع الفتح (309/1) صحيح مسلم مع شرح النووي (170/3)، المنتقى (180/1/1) صحيح سنن أبي داؤد، رقم الحديث (137)، صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث (85)۔

◈ مقامِ مسح:

موزوں یا جرابوں پر مسح بظاہر تو پاؤں کی نچلی جانب ہونا چاہیے، مگر مسنون یہ ہے کہ پاؤں کے تلووں کے بجائے ان کے اوپر والے حصے پر مسح کر لیا جائے، کیونکہ سنن ابی داؤد و دار قطنی، مسند احمد، سنن بیہقی، دارمی اور محلی ابن حزم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
لو كان الدين بالر أى لكان أسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على ظاهر خفيه .
”اگر دین کی بنیاد عقل و قیاس پر ہوتی تو موزوں کے نیچے مسح کرنا ان کے اوپر مسح کرنے سے اولیٰ تھا، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کرتے تھے“۔
صححه الحافظ في التلخيص (160/1/1) و الألباني في الإرواء (140/1) و تحقيق المشكاة (63/1)۔

◈ کیفیتِ مسح:

مسح کرنے کا طریقہ و کیفیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں، لیکن وہ سبھی متکلم فیہ ہیں، لیکن ان کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی گیلی انگلیاں کھول کر دائیں پاؤں کے موزے یا جراب کے اوپر پاؤں کی انگلیوں والی جگہ سے لے کر ان کے پنڈلی پر چڑھنے والے حصے تک اس طرح لے جائیں گویا خط کھینچا جا رہا ہے یا کوئی لکیریں بنا رہا ہے، اسی طرح بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے بائیں پاؤں کی انگلیوں سے لے کر پنڈلیوں کے شروع والی جگہ تک مسح کریں۔ سُبل السلام (59/1/1)
لیکن چونکہ یہ روایات متکلم فیہ ہیں، لہٰذا اس کیفیت کا التزام واجب نہیں، بلکہ کسی بھی طرح مسح کر لیں، مسح ہو جائے گا، البتہ مذکورہ طریقہ اختیار کرنا اولیٰ ہے۔
ان ضعیف اور نا قابل استدلال روایات میں سے ایک سنن کبری بیہقی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں:
إنه مسح على حفيه، ووضع يده اليمنى على خفه الأيمن، ويده اليسرى على خفه الأيسر، ثم مسح أعلاهما مسحة واحدة، كأني أنظر أصابعه على الخفين .
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں موزے پر اپنا دایاں ہاتھ اور بائیں موزے پر اپنا بایاں ہاتھ رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موزوں کے اوپر صرف ایک بار مسح کیا، گویا میں موزوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیاں دیکھ رہا ہوں“۔
لیکن اس روایت کو محدثین میں سے امیر صنعانی رحمہ اللہ نے منقطع قرار دیا ہے۔ اس موضوع کی دوسری روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
إنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على ظهر الخف خطوطا بالأصابع .
انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزے کے اوپر مسح کرتے دیکھا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلیوں سے لکیریں لگارہے ہیں “۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اسی سلسلے کی ایک تیسری روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
إنه صلى الله عليه وسلم أرى بعض من علمه المسح أن يمسح بيده من مقدم الخفين إلى أصل الساق مرة، وفرج بين أصابعه
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو مسح کا طریقہ سکھلاتے ہوئے دکھایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے موزے کے اگلے حصے سے لے کر پنڈلی شروع ہونے کی جگہ تک ایک مرتبہ مسح کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دکھلاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو کھول کر ایک دوسرے سے الگ رکھا“۔
لیکن اس روایت کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے سخت ضعیف کہا ہے۔
سُبل السلام (59/1/1)، التلخيص الحبير (160/1/1-161)
یہ تینوں روایات ہم نے محض تنبیہ کے لیے ذکر کر دی ہیں، ورنہ ان میں سے کوئی ایک بھی قابل استدلال ہے نہ کیفیت و کمیت کے بارے میں دوسری کوئی روایت ہے، جس پر اعتماد کیا جاسکے، لہذا امیر یمانی کے بقول اگر کوئی شخص اپنے موزے ( یا جراب) پر اس طرح ہاتھ پھیر لے، جسے لغوی اعتبار سے مسح کرنا کہا جا سکتا ہو تو وہ کفایت کر جائے گا، خواہ وہ کسی طرح بھی کرلے۔
سُبل السلام (89/1) طبع مکتبه عاطف، ازهر

◈ مسح کی مدت:

اب رہی یہ بات کہ جب وضو کر کے موزے یا جرابیں پہن لی جائیں تو کتنے عرصے کے لیے ان پر مسح کیا جا سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں دس سے زیادہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ مقیم کے لیے ایک دن رات یعنی چوبیس (24) گھنٹے اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر (72) گھنٹے تک ان موزوں یا جرابوں پر مسح کر لینے کی گنجائش ہے ۔چنانچہ صحیح مسلم، سنن نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان اور مسند احمد میں شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور موزوں پر مسح کی مدت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ تم ابن ابی طالب یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جاؤ اور ان سے جا کر پوچھو، کیونکہ وہ سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس بات کو مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے مسح کی مدت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا:
جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (موزوں یا جرابوں پر) مسح کی مدت مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کی ہے“۔
صحیح مسلم مع شرح النووي (176/3/2)، صحيح سنن النسائي، رقم الحديث (124)، سنن ابن ماجه، رقم الحديث (552)، المشكاة مع المرعاة (575/1)
اسی طرح سنن ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان، سنن دار قطنی، مسند احمد و شافعی اور سنن بیہقی میں ایک حدیث مروی ہے، جسے امام ترمذی، ابن خزیمہ اور خطابی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اس موضوع کی صحیح ترین حدیث قرار دیا ہے، جس میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا إذا كنا سفرا أن لا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم سفر میں ہوں تو بول و براز اور نیند سے وضو ٹوٹنے کی صورت میں تین دن اور تین راتوں تک اپنے موزے نہ اتاریں۔ ہاں جنابت ہو جائے تو اتارنے ضروری ہیں“۔
صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث (84) ، صحيح سنن النسائي، رقم الحدیث (122)، سنن ابن ماجه، رقم الحديث (478)، موارد الظمآن، رقم الحديث (179)، المشكاة مع المرعاة (179/1-180)، سُبل السلام (59/1/1)، و المنتقى مع النيل (181/1/1)
اس حدیث میں حکم فرمانے کے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ مسح واجب ہونا چاہیے ، لیکن اجماع نے اس وجوب کو اباحت و ندب میں بدل دیا ہے۔ مسح کے واجب نہیں، بلکہ محض ایک رخصت ہونے کا پتا ایک دوسری حدیث سے بھی چلتا ہے، جو صحیح ابن خزیمہ ، سنن دار قطنی، صحیح ابن حبان، مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند شافعی اور سنن بیہقی میں مروی ہے، جسے المجد ابن تیمیہ اور شوکانی رحمہ اللہ کے بقول امام خطابی، شافعی اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے، اس میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں:
إنه رخص للمسافر ثلاثة أيام ولياليهن، وللمقيم يوما وليلة، إذا تطهر فلبس خفيه أن يمسح عليهما
” آپ صلى الله عليه وسلم نے مسافر کو تین دن اور تین راتیں، اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات کے لیے موزوں پر مسح کی رخصت دی، جب کہ اس نے وضو کر کے موزے پہنے ہوں“۔
موارد الظمآن (184) ، مشكاة المصابيح (578/1، 579)، بلوغ المرام مع السبل (161/1/1)، المنتقى مع لنيل (82/1/1)، فتح الباري (310/1)۔

مسح کی مدت کا آغاز کب ہوتا ہے؟

مسح کے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ مسح کی مدت جو ایک دن مقیم کے لیے اور تین دن مسافر کے لیے ہے، اس کی ابتدا کب سے شمار کی جائے گی ؟ تاکہ چوبیس (24) گھنٹے یا بہتر (72) گھنٹے کا شمار کیا جا سکے۔ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری نے ”المرعاة شرح المشكاة“ میں لکھا ہے:
کثیر علماء کا قول یہ ہے کہ موزوں پر مسح کی مدت کی ابتدا موزے پہننے کے بعد جب وضو ٹوٹے تو اس وقت سے ہو گی نہ کہ وضو کرنے یا مسح کرنے کے وقت سے اور نہ موزے پہننے کے وقت ہی سے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے:
”موزے پہننے کے وقت سے ابتد اشمار ہو گی۔“
المرعاة (575/1)۔
” المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج“ میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”امام شافعی رحمہ اللہ اور کثیر اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ اس مدت کی ابتدا موزے پہننے کے بعد وضو ٹوٹنے کے وقت سے ہے، موزے پہننے سے نہیں اور نہ ان پر مسح کرنے ہی سے “ ۔
شرح مسلم للنووي (176/3/2)۔
صحیح مسلم اور دیگر کتب میں مذکور حدیثِ علی رضی اللہ عنہ اور اسی مفہوم کی دوسری احادیث کے ظاہری معنی سے شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے یہ اخذ کیا ہے:
”ابتداے مدت کا اعتبار (پہلی مرتبہ) مسح کرنے سے ہو گا نہ کہ مسح کرنے کے بعد وضو ٹوٹنے کے وقت سے، امام نووی رحمہ اللہ نے اسے ہی ترجیح دی ہے، اگرچہ ان کے مذہب کے یہ خلاف ہے “۔
تحقيق المشكاة (160/1)۔
محققین علماء کی شان ہی یہ رہی ہے کہ جس بات کو قرآن وسنت کی رو سے صحیح تر سمجھیں، وہ اُسے قبول کر لیتے ہیں، اگر چہ ان کا فقہی مذہب، حتی کہ امام مذہب اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب ”شرح صحیح مسلم “ میں اختصار سے امام شافعی رحمہ اللہ اور کثیر علماء کے حوالے سے بیان کر دیا کہ وضو کر کے موزے پہن لینے کے بعد جب وضو ٹوٹے تو اس وقت سے مسح کی مدت کا آغاز ہو گا۔ اس وقت سے مقیم ایک دن اور ایک رات اور مسافر تین دن اور تین رات مسح کر سکے گا۔ اسے مثال سے یوں سمجھ لیں کہ ایک نمازی نے ظہر کے وقت وضو کیا اور موزے یا جرابیں پہن لیں۔ عشاء تک اس کا وضو بحال رہا اور عشاء کے بعد مثلاً نو بجے اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ اب اُسے اجازت ہے کہ اگلی رات کے نو بجے تک وہ جتنی مرتبہ اور جس غرض کے لیے وضو کرے، اُسے پاؤں سے موزے اور جرابیں اتارنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ ان پر مسح کر سکتا ہے، اگر وہ اس سے پہلے جب موزے اتار کر پورا وضو کرنا اور پاؤں دھونا چاہے تو اسے اختیار ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کے بقول یہ امام شافعی، ابو حنیفہ، ان کے اصحاب، سفیان اور جمہور اہل علم رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے صحیح تر روایت کے مطابق یہی مروی ہے اور امام داؤد رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ان کا استدلال تو حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے اضافی الفاظ من الحدث إلى الحدث سے ہے، لیکن یہ اضافہ ثابت نہیں، بلکہ خود امام نووی رحمہ اللہ نے ”المجموع شرح المهذب“ میں اسے ”غریب“ قرار دیا ہے یا پھر ان کا استدلال قیاس سے ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مسح کی مدت کا آغاز موزے پہننے ہی سے ہو جائے گا، مثلاً ایک شخص نے دو پہر نماز ظہر کے لیے وضو کر کے موزے پہن لیے۔ موزے پہننے کے ساتھ ہی آغاز مدت شمار کیا جائے گا اور آئندہ ظہر تک مقیم کے لیے اور تیسرے دن کی ظہر تک مسافر کے لیے مسح کی گنجائش ہو گی۔ گویا مقیم روزانہ ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہن لیا کرے اور اگر درمیان میں اتارے نہیں تو چوبیس (24) گھنٹے تک اور مسافر بہتر (72) گھنٹے تک مسح کر سکتا ہے۔ مسح کی مدت کے آغاز کے سلسلے میں ایک تیسرا قول امام اوزاعی اور ابو ثور رحمہما اللہ کا ہے، ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ اور داؤد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے کہ مدت مسح کی ابتدا اس مسح سے ہو گی، جو موزے پہننے کے بعد وضو ٹوٹنے پر دوبارہ وضو کرتے وقت کیا جائے گا۔ مثلاً ایک شخص نے ظہر کے وقت وضو کیا اور عشاء تک اسی وضو سے نمازیں ادا کر تا رہا، عشاء کے بعد اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ پھر صبح نماز فجر کے لیے وہ اٹھا اور وضو کیا اور پاؤں پر مسح کیا، اب اس مسح کے وقت سے لے کر مقیم کے لیے چوبیس (24) گھنٹے اور مسافر کے لیے بہتر (72) گھنٹے مسح کر لینے کی رخصت ہے۔
ان حضرات کا استدلال صحیح مسلم اور دیگر کتب والی ان صحیح احادیث کے ظاہری مفہوم سے ہے، جن میں مقیم کو ایک دن اور ایک رات اور مسافر کو تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی گنجایش دی گئی ہے۔ اس گنجایش سے تین دن اور تین راتیں یا ایک دن اور ایک رات کا پوری طرح استفاده صرف اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ مدتِ مسح کا شمار پہلے مسح سے کیا جائے۔ مثلاً ایک آدمی نے نماز ظہر کے لیے وضو کیا اور موزے پہن لیے، نماز عشاء تک اس کا وضو بحال رہا اور پھر وضو ٹوٹ گیا۔ صبح فجر کے لیے اس نے وضو کیا اور مسح کیا۔ اب اگر مسح کی مدت کا آغاز وضو ٹوٹ جانے سے شمار کیا جائے تو اس طرح اُسے صرف دن دن کے وقت یا دن اور نماز عشاء تک مسح کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ عشاء کے بعد اور تہجد کے لیے اگر وہ اُٹھے تو اسے مسح کا اختیار نہیں ہو گا، کیوں کہ اس شکل میں عشاء کے بعد وضو ٹوٹ جانے سے مسح کا اختیار صرف اسی وقت تک رہ گیا ہے ، جب کہ صحیح احادیث اُسے پورا دن اور پوری رات مسح کا اختیار دے رہی ہیں، اور یہ صرف اسی شکل میں ممکن ہے، جب مدتِ مسح کا آغاز پہلے مسح سے شمار کیا جائے نہ کہ موزے پہننے یا وضو ٹوٹنے سے کیا جائے۔ اس مسلک کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهو المختار الراجح دليلا، واختاره ابن المنذر، وحكي نحوه عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه
”دلیل کی رو سے یہی مختار اور راجح مسلک ہے اور امام ابن المنذر نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ، اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے “۔
المجموع شرح المهذب (525/1) طبع قاهره-
یہ تو ایک علمی بحث اور اس کی تفصیلات تھیں۔ ویسے اگر مطلقاً روزانہ ظہر کے وقت پورا وضو کر لیا جائے تو مقیم کو اس کی گنجایش ہے، باقی اوقات میں پاؤں کے موزوں یا جرابوں پر مسح کرتا رہے۔ مسافر تین راتیں اور تین دن کر لے۔ یہ موٹا سا حساب ہے اور جواز کی حدود کے اندر بھی، اور اگر باریکیوں کو ہی اختیار کرنا ہو تو وہ بھی ہم نے ذکر کر دی ہیں۔ والله الموفق
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ مسح کی گنجایش حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ موزوں یا جرابوں کو اتارے نہیں، بلکہ مسلسل پہنے رہے۔ یہ نہیں کہ جب چاہے پہن لے اور مسح کرلے، کیوں کہ فتح الباری میں” فائدہ“ کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”اگر مسح کرنے کے بعد مسح کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی نے اپنے موزے اتار لیے تو امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ اور دوسرے توقیت کے قائل ائمہ کے نزدیک اسے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا، جب کہ فقہائے کو فہ امام مزنی اور ابو ثور رحمہما اللہ کے نزدیک صرف دونوں پاؤں ہی دھو لے۔ امام مالک ولیث رحمہا اللہ کا بھی یہی قول ہے، جب کہ حضرت حسن بصری، ابن ابی لیلی اور علماء کی ایک جماعت رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پاؤں دھونا بھی ضروری نہیں۔ “
امام ابن تیمیہ اور شیخ البانی رحمہا اللہ نے اس کی تائید کی ہے ۔
تمام المنة (ص: 114-115)
انھوں نے اس شخص پر قیاس کیا ہے، جس نے سر کا مسح کیا، پھر منڈوا ڈالا تو اس کے لیے دوبارہ سر کا مسح کرنا واجب نہیں، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس قیاس کو محل نظر قرار دیا ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی نگرانی میں فتح الباری کی جو تحقیق و تصحیح ہوئی ہے، اس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس تبصرے کی تائید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اسے سر کے مسح پر قیاس کرنا، اس لیے محل نظر ہے کہ سر اصل ہے، جس پر مسح کیا جائے گا، بال چاہے ہوں یا نہ ہوں، جب کہ موزوں پر مسح پاؤں کو دھونے کے عوض میں ہے، لہذا یہ دونوں امور الگ الگ ہوئے۔ اسی بنا پر راجح قول یہی ہے کہ اگر کوئی شخص موزے اتار دے تو اس کا وضو باطل ہو گیا اور اب صرف پاؤں کا دھولینا ہی کافی نہیں۔ کیوں کہ اس طرح موالات یا وہ تسلسل فوت ہو جاتا ہے، جو اعضائے وضو کو دھونے میں ضروری ہے۔
فتح الباري (310/1 حاشيه)

◈ نواقضِ مسح:

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نواقضِ مسح بھی وہی ہیں، جو نواقض وضو ہیں، یعنی جب وضو ٹوٹا تو ساتھ ہی مسح بھی ٹوٹ گیا۔ جب نیا وضو کریں تو نئے سرے سے مسح بھی کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے