تیسری صدی کے ائمہ محدثین
امام حمیدی رحمتہ اللہ (219ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
السنة عندنا ….. يقول الرجل: الرحمن على العرش استوى، ومن زعم غير هذا فهو معطل جهمي.
’’ہمارے ہاں سنت ہے کہ … آدمی کہے: رحمٰن عرش پر مستوی ہے اور جو اس کے خلاف دعویٰ کرتا ہے، وہ معطل (صفات باری تعالیٰ کا منکر) اور جہمی ہے۔
(أصول السنة، ص 547، المندرج في آخر مسنده)
نیز فرماتے ہیں:
الإقرار بالرؤية بعد الموت، وما نطق به القرآن والحديث، مثل: (وقالت اليهود يد الله مغلول غلت أيديهم) ، ومثل: (والسموت مطويت بيمينه) ، وما أشبه هذا من القرآن والحديث، لا يزيد فيه ولا يفسره، يقف على ما وقف عليه القرآن والسنة، ويقول: (الرحمن على العرش استوى)، ومن زعم غير هذا فهو معطل جهمي.
’’موت کے بعد (روز قیامت) رویت باری تعالیٰ کا اقرار، نیز ان تمام صفات کا اثبات جو قرآن وسنت میں بیان ہوئی ہیں ، مثلاً : (وقالت اليهود يد الله مغلولة غلت آیدیهم) (یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے اپنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں) اور جیسا کہ (والسموت مطويت بيمينه) (اور آسمان اس کے ہاتھ پر لیپٹے ہوئے ہیں)، نیز اس طرح کی دوسری قرآنی وحدیثی نصوص ہیں۔ کوئی مسلمان ان میں زیادت نہیں کرے گا، نہ ہی اس کی (اپنی طرف سے) تفسیر کرے گا، بلکہ جہاں قرآن وسنت ٹھہر گئے ہیں، وہیں ٹھہر جائے گا اور کہے گا کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والا گمراہ جہمی ہے ۔‘‘
(أصول السنة: 547/2)
امام محمد بن مصعب العابد رحمتہ اللہ (228ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
من زعم أنك لا تكلم، ولا ترى في الآخرة، فهو كافر بوجهك، لا يعرفك، أشهد أنك فوق العرش فوق سبع سموات، ليس كما يقول أعداتك الزنادقة.
’’اللہ ! جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ آخرت میں تجھ سے کوئی کلام نہیں کرے گا، نہ ہی کوئی تیرا دیدار کر سکے گا، وہ تیرے چہرے کا منکر اور تیری ذات سے جاہل ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، ایسا نہیں ہے، جیسے تیرے دشمن زندیق لوگ کہتے ہیں۔‘‘
(تاريخ بغداد للخطيب: 270/3 ، وسنده صحيح)
امام اسحاق بن راہویہ رحمتہ اللہ (238ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
جمعني وهذا المبتدع، يعني إبراهيم بن أبي صالح، مجلس الأمير عبد الله بن طاهر، فسألني الأمير عن أخبار النزول، فسردتها ، فقال إبراهيم كفرت برب ينزل من سماء إلى سماء، فقلت: آمنت برب يفعل ما يشاء.
’’میں اور یہ بدعتی یعنی ابراہیم بن ابی صالح امیر عبداللہ بن طاہر کی مجلس میں جمع ہوئے۔ انھوں نے مجھ سے نزول باری تعالیٰ کی احادیث پوچھیں ۔ میں نے بیان کر دیں۔ ابراہیم کہنے لگا: میں ایسے رب کا کفر کرتا ہوں، جو ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف نزول کرتا ہے۔ میں نے کہا: میں اس رب پر ایمان لاتا ہوں، جو جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔‘‘
(الأسماء والصفات للبيهقي: 197/2 ، وفي نسخة 375/2 ۔376، الرقم: 951 ، وسنده صحيح)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (صحیح مسلم: 758) کے مطابق اللہ ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، تو پھر ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان کی طرف نزول کا کیا مطلب؟ شیخ الاسلام امام اسحاق بن راہویہ رحمتہ اللہ جو نزول باری تعالیٰ کا اثبات کر رہے ہیں، ان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ نہیں ہے۔
امام محمد بن اسلم طوسی رحمتہ اللہ (242 ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن طاہر رحمتہ اللہ نے کہا:
بلغني أنك لا ترفع رأسك إلى السماء فقلت: ولم، وهل أرجو الخير إلا ممن هو في السماء.
’’مجھے خبر ملی ہے کہ آپ آسمان کی جانب سر نہیں اٹھاتے، میں نے کہا: کیوں؟ میں تو ہر خیر کی امید اسی (رب) سے کرتا ہوں، جو آسمانوں کے اوپر ہے۔‘‘
(العلو للعلي الغفّار للذهبي: 1167/2)
امام ابو زرعہ رازی رحمتہ اللہ (264 ھ) اور امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ (277ھ) ان سے اہل سنت کے مذہب کی بابت پوچھا گیا، تو انھوں نے فرمایا:
أدركنا العلماء في جميع الأمصار، حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ويمنا، وكان من مذهبهم أن الله على عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه بلا كيف، أحاط بكل شيء علما.
’’ہم نے حجاز و عراق، مصر و شام اور یمن تمام علاقوں کے علماء کو دیکھا ہے، سب کا عقیدہ تھا کہ اللہ اپنے عرش پر (بلند) اور اپنی مخلوق سے جدا ہے، جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول کی زبانی بغیر کیفیت بیان کیے بتایا ہے۔ اس نے ہر چیز کا علمی احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، ص 165 ، الرقم: 321)
امام عثمان بن سعید دارمی رحمتہ اللہ (280 ھ )
آپ رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
قد اتفقت الكلمة من المسلمين أن الله فوق عرشه، فوق سماواته.
’’مسلمانوں کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے۔‘‘
(الرَّد على بشر المريسي، ص 408)
حافظ ذہبی رحمتہ اللہ اس قول کی تشریح میں فرماتے ہیں:
قلت: أوضح شيء في هذا الباب قوله تعالى: (الرحن على العرش استوى) (طه: 5) ، فليمر كما جاء، كما هو معلوم من مذهب السلف، وينهى الشخص عن المراقبة والجدال، وتأويلات المعتزلة: (ربنا آمنا بما انزلت واتبعنا الرسول) (آل عمران: 3: 53)
’’میں کہتا ہوں کہ اس بارے میں سب سے واضح نص یہ فرمانِ باری تعالٰی ہے: (الرحمٰن على العرش استوى) (طه: 5) (رحمن عرش پر مستوی ہے)، یہ آیت جیسے نازل ہوئی ہے، ایسے ہی گزاری جائے گی۔ (یعنی کسی تاویل کی ضرورت و گنجائش نہیں)، جیسا کہ سلف صالحین کے مذہب سے معلوم ہوتا ہے، انسان کو مراقبہ، جدال اور معتزلہ کی تاویلات سے بچ جانا چاہیے: (ربنا آمنا بما الزلت واتبعنا الرسول) (آل عمران 53) (ہمارے رب! ہم تیرے نازل کردہ دین پر ایمان لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی۔)‘‘
(سير أعلام النبلاء: 325/13)
امام دارمی رحمتہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
قد اتفقت الكلمة من المسلمين والكافرين أن الله في السماء، وحدوه بذلك إلا المريسي الضال وأصحابه، حتى الصبيان الذين لم يبلغوا الحنت قد عرفوه بذلك، إذا حزب الصبي شيء يرفع يديه إلى ربه يدعوه في السماء دون ما سواها، فكل أحد بالله وبمكانه أعلم من الجهمية.
’’یہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ آسمانوں میں ہے، وہ اسے اوپر ہی مانتے ہیں، نیچے نہیں ، سوائے گمراہ (بشر) مریسی اور اس کے مقلدین کے حتی کہ وہ بچے بھی اللہ کو اوپر ہی مانتے ہیں، جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے کسی بچے کو جب تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے رب کی طرف ہاتھ اُٹھاتا ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے کہیں اور نہیں۔ یوں کائنات کا ہر ایک فرد اللہ تعالیٰ اور اس کی جگہ کے بارے میں جہمیوں سے بڑھ کر جانتا ہے۔‘‘
(نقض الإمام الدارمي على المريسي، ص 288)
مزید لکھتے ہیں:
ويلكم إجماع من الصحابة والتابعين وجميع الأمة، من نفسير القرآن والفرائض والحدود والأحكام نزلت آية كذا في كذا، ونزلت آية كذا في كذا، ونزلت سورة كذا في مكان كذا لا نسمع أحدا يقول: طلعت من تحت الأرض، ولا جاءت من أمام، ولا من خلف، ولكن كله نزلت من فوق، وما يصنع بالتنزيل من هو بنفسه في كل مكان إنما يكون شبه مناولة، لا تنزيلا من فوق السماء مع جبريل، إذ يقول سبحانه وتعالى: (قل نزله روح القدس من ربك بالحق) ، والرب بزعمكم الكاذب في البيت معه، وجبريل يأتيه من خارج، هذا واضح، ولكنكم تغالطون، فمن لم يقصد بإيمانه وعبادته إلى الله الذي استوى على العرش فوق سمواته، وبان من خلقه، فإنما يعبد غير الله، ولا يدري أين الله.
’’جہمیو ! تمھاری بربادی ہو، قرآن کریم کی تفسیر ہو، وراثت کے مسائل ہوں، حدود کا معاملہ ہو یا احکام کی بات ہو، صحابہ کرام، تابعین عظام اور تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ فلاں آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی، فلاں آیت فلاں شخص کے بارے میں اُتری اور فلاں سورت فلاں مقام پر نازل ہوئی۔ ہم نے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ کوئی آیت زمین کے نیچے سے نمودار ہوئی ہو یا آگے، پیچھے سے آئی ہو۔ ہر آیت اُوپر سے نازل ہوئی۔ جو ذات بذات خود ہر جگہ ہو، اُسے کسی چیز کو اوپر سے اُتارنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو ویسے ہی ایسی چیز دے سکتا ہے، اُسے جبریل کے ساتھ آسمان سے اُتارنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (قل نزله روح القدس من ربك بالحق ليثبت الذين آمنوا و هدى وبشرى للمسلمين) (النحل: 102) (اے نبی! کہہ دیجیے کہ اس قرآن کو روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ اُتارا ہے، تا کہ مومنوں کو ثابت قدم کیا جا سکے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔) تمھارے باطل خیالات کے مطابق رب تعالٰی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں تھا اور جبریل (وحی لے کر) باہر سے آتے تھے۔ مسئلہ بالکل واضح ہے، لیکن تم مخالطہ دیتے ہو۔ لہذا جو ایمان اور عبادت میں اللہ کی طرف توجہ نہیں کرتا، اللہ کہ جو ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے اور مخلوق سے جدا ہے، تو وہ غیر اللہ کا پجاری ہے ، وہ جانتا ہی نہیں کہ اللہ کہاں ہے؟‘‘
(الرد على الجهمية، ص 66)
بشر مریسی اور اس کے اساتذہ سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں:
زعمت أنت والمضلون من زعمائك أنه في كل مكان.
’’آپ کا اور آپ کے گمراہ ساتھیوں کا دعوی ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔‘‘
(الرّد على بشر المريسي: 493/1)
امام ابن ابی عاصم رحمتہ اللہ (287 ھ)
آپ رحمتہ اللہ اپنی کتاب السنۃ (215/1 ، باب : 104) میں یوں تبویب کرتے ہیں:
ما ذكر أن الله تعالى في سمائه دون أرضه.
’’ان دلائل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے، زمین میں نہیں۔‘‘
امام ابو جعفر، محمد بن احمد بن نصر، ترمذی رحمتہ اللہ (295 ھ)
آپ رحمتہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ (ہر رات) آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، تو نزول کے بعد علو (بلندی) کیسے باقی رہ جاتا ہے؟ فرمایا:
النزول معقول، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسوال عنه بدعة.
’’نزول باری تعالیٰ معلوم ہے، کیفیت نا معلوم ہے، اس پر ایمان لانا فرض ہے اور کیفیت بارے سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
(تاريخ بغداد للخطيب: 382/1، وسنده صحيح)
امام محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمتہ اللہ (297ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
ذكروا أن الجهمية يقولون: ليس بين الله عز وجل وبين خلقه حجاب ، وأنكروا العرش وأن يكون هو فوقه وفوق السماوات، وقالوا: إن الله في كل مكان.
’’انھوں نے ذکر کیا ہے کہ جہمیہ کے بقول اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان پردہ نہیں، نیز انھوں نے اللہ کے آسمانوں کے اوپر عرش پر ہونے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ ہر جگہ میں ہے۔‘‘
(کتاب العرش: 2)
نیز فرماتے ہیں:
ثم توافرت الأخبار على أن الله تعالى خلق العرش فاستوى عليه بذاته، ثم خلق الأرض والسماوات فصار من الأرض إلى السماء ومن السماء إلى العرش، فهو فوق السماوات وفوق العرش بذاته متخلصا من خلقه، بائنا منهم، علمه في خلقه ، لا يخرجون من علمه.
’’احادیث متواترہ اس پر دلیل ہیں کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے، چنانچہ وہ آسمانوں کے اوپر اپنی ذات کے ساتھ عرش پر ہے، اپنی مخلوق سے علیحدہ وجدا ہے، اس کا علم اس کی مخلوق میں ہے، وہ اس کے علم سے باہر نہیں ہو سکتے ۔‘‘
(کتاب العرش، ص 2)
جہمیہ کا عقیدہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قالوا: إنه فى كل مكان.
’’ان کا کہنا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے۔‘‘
(کتاب العرش، ص 276)
ایک مقام پہ لکھتے ہیں :
فسرت العلماء: وهو معكم يعني بعلمه، توافرت الأخبار أن الله خلق العرش فاستوى عليه بذاته فهو فوق العرش بذاته، متخلصا من خلقه باتنا منهم، علمه في خلقه، لا يخرجون من علمه .
’’اہل علم نے (وهو معكم) (اور وہ تمھارے ساتھ ہے) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ آپ کے ساتھ ہے، کیونکہ اس بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں کہ اللہ نے عرش کو پیدا کیا، پھر اپنی ذات کے ساتھ اس پر مستوی ہوا، پس وہ اپنی ذات کے ساتھ اپنے عرش کے اوپر ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، ان سے علیحدہ ہے۔ اس کا علم اس کی مخلوق میں موجود ہے، وہ اس کے علم سے باہر نہیں نکل سکتے ۔‘‘
(کتاب العرش، ص 278 ،292)
مزید لکھتے ہیں:
قال عزوجل: (الرحمن على العرش استوى) ، فالله تعالى استوى على العرش، يرى كل شيء في السماوات والأرضين ويعلم ويسمع كل ذلك بعينه، وهو فوق العرش، لا الحجب التي احتجب بها من خلقه تحجبه من أن يرى ويسمع ما في الأرض السفلى، ولكنه خلق الحجب وخلق العرش كما خلق الخلق لما شاء وكيف شاء.
فرمانِ باری تعالی ہے:
(الرحمٰن على العرش استوى)
(رحمن عرش پر مستوی ہوا۔)
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ وہ عرش پر مستوی ہوتے ہوئے ہر چیز کو جانتا اور اس کی آواز کو بعینہ ہے۔ ایسے پردے موجود نہیں، جو سب سے نچلی زمین میں موجود چیز کو دیکھنے سے اس کے لیے رکاوٹ بنیں۔ اسی نے پردے پیدا کیے اور اسی نے عرش پیدا کیا ہے، جیسا کہ اسی نے جب چاہا اور جیسے چاہا مخلوق کو پیدا کیا۔
(العرش وما روي فيه لابن أبي شيبة، ص 2)
مخلوق کے اجماع کو دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں:
أجمع الخلق جميعا أنهم إذا دعوا الله جميعا رفعوا أيديهم إلى السماء، فلو كان الله عز وجل في الأرض السفلى، ما كانوا يرفعون أيديهم إلى السماء وهو معهم على الأرض ، ثم توافرت الأخبار على أن الله تعالى خلق العرش فاستوى عليه بذاته، ثم خلق الأرض والسماوات فصار من الأرض إلى السماء ومن السماء إلى العرش، فهو فوق السماوات وفوق العرش بذاته متخلصا من خلقه، باتنا منهم، علمه في خلقه، لا يخرجون من علمه.
’’تمام مخلوق جب دُعا کرتی ہے، تو اتفاقی طور پر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتی ہے۔ اگر اللہ نیچے والی زمین میں ہوتا، تو لوگ اللہ کے زمین میں اپنے ساتھ ہوتے ہوئے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند نہ کرتے۔ پھر متواتر احادیث بھی بتاتی ہیں کہ اللہ نے عرش کو پیدا کیا، پھر اپنی ذات کے ساتھ اس پر مستوی ہو گیا۔ وہ زمین سے آسمان کی طرف اور آسمان سے عرش کی طرف ہوا۔ وہ اپنی ذات کے ساتھ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے۔ اپنی مخلوق سے جُدا ہے۔ ہاں اس کا علم مخلوق میں ہے۔ مخلوق اس کے علم سے باہر نہیں نکل سکتی۔‘‘
(كتاب العرش، ص 51 ، وفي نسخة ، ص 128)
ابو عبد اللہ عمرو بن عثمان مکی رحمتہ اللہ (297 ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
المستوي على عرشه بعظمة جلاله، دون كل مكان.
’’اللہ اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ عرش پر مستوی ہے، ہر جگہ نہیں ۔‘‘
(کتاب العرش للذهبي: 348/2)
امام محمد بن جریر طبری رحمتہ اللہ (224-310ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
حسب امري …. أن يعلم أن ربه هو الذي على العرش استوى فمن تجاوز إلى غير ذلك فقد خاب وخسر.
’’انسان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس کا رب وہ ہے، جو عرش پر مستوی ہے۔ جو اس سے تجاوز کرے گا ، یقیناً تباہ و برباد ہوگا۔‘‘
(صريح السنة: 27)
آیت (اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه)
(فاطر: 10)
’’اسى کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل پاکیزہ کلمات کو بلند کرتا ہے۔‘‘
بابت لکھتے ہیں:
إلى الله يصعد ذكر العبد إياه وثناؤه عليه.
’’بندے کا ذکر اور حمد و ثنا اللہ کی طرف چڑھتے ہیں۔‘‘
(تفسير الطبري: 338/19)
امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمتہ اللہ (223-311ھ)
آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
إن الله عز وجل في السماء كما أخبرنا في محكم تنزيله وعلى لسان نبيه عليه السلام، وكما هو منهوم في فطرة المسلمين، علمائهم وجهالهم، أحرارهم ومماليكهم، ذكرانهم وإناثهم، بالغيهم وأطفالهم، كل من دعا الله جل وعلا فإنما يرفع رأسه إلى السماء ويمد يديه إلى الله، إلى أعلاه لا إلى أسفل.
’’اللہ آسمانوں کے اوپر ہے، جیسا کہ اللہ نے اپنی محکم کتاب اور اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان فرمایا ہے، نیز یہ بات مسلمان علما و جہلا، آزاد و غلام، مذکر و مؤنث، بالغ و نابالغ سب کی فطرت میں موجود ہے۔ ہر شخص جب اللہ سے دُعا کرتا ہے، تو اپنا سر آسمانوں کی طرف بلند کرتا ہے اور اپنے ہاتھ اللہ کے سامنے پھیلاتا ہے، نیچے کی طرف نہیں پھیلاتا ۔‘‘
(کتاب التوحید:254/1)
مزید لکھتے ہیں:
مما هو مصرح في التنزيل أن الرب جل وعلا في السماء، لا كما قالت الجهمية المعطلة: إنه في أسفل الأرضين، فهو في السماء.
’’قرآن مجید میں خوب وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ جہمیہ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے نچلی زمین میں ہے، ان کی یہ بات غلط ۔‘‘
(كتاب التوحيد: 255/1)
ایک باب اسی مسئلہ پر قائم فرماتے ہیں:
باب ذكر الدليل على أن الإقرار بأن الله عز وجل في السماء من الإيمان.
’’یہ اقرار کہ اللہ آسمان پر ہے، یہ عقیدہ رکھنا ایمان کا جزو لازم ہے۔‘‘
(كتاب التوحيد: 278/1)
ایک دوسرا باب ملاحظہ ہو:
باب ذكر سنن النبي صلى الله عليه وسلم المثبتة أن الله جل وعلا فوق كل شيء وأنه في السماء، كما أعلمنا في وحيه على لسان نبيه، إذ لا تكون سنته أبدا المنقولة عنه بنقل العدل عن العدل موصولا إليه إلا موافقة لكتاب الله لا مخالفة له.
’’ان احادیث نبویہ کا بیان، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہرشی اور آسمانوں سے اوپر ہے۔ اس نے ہمیں اپنے نبی کی زبانی دحی میں بتایا ہے۔ جو حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عادل راویوں کے ذریعے منقول ہو اور سند متصل ہو، وہ ہمیشہ کتاب اللہ کے موافق ہوتی ہے، مخالف نہیں ہوتی ۔‘‘
(کتاب التوحيد: 265/1)
معراج کی احادیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
في الأخبار دلالة واضحة أن النبي صلى الله عليه وسلم عرج به من الدنيا إلى السماء السابعة، وأن الله تعالى فرض عليه الصلوات على ما جاء في الأخبار، فتلك الأخبار كلها دالة على أن الخالق البارى فوق سبع سماواته لا على ما زعمت المعطلة أن معبودهم هو معهم في منازلهم، وكنفهم.
’’احادیث مبارکہ میں واضح دلالت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا، نیز اللہ نے آپ پر پانچ نمازیں فرض کیں جیسا کہ احادیث میں ہے۔ یہ تمام احادیث دلیل ہیں کہ خالق ارض و سماوات آسمانوں کے اوپر ہے، اس طرح نہیں، جیسے معطلہ نے سمجھ رکھا ہے کہ ان کا معبود ان کے ساتھ ان کے گھروں اور ان کے طہارت خانوں میں ہوتا ہے۔‘‘
(كتاب التوحيد: 272/1، 273)
اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں۔ اس پر باب بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:
باب ذكر أخبار ثابتة السند صحيحة القوام رواها علماء الحجاز والعراق عن النبي صلى الله عليه وسلم في نزول الرب جل وعلا إلى السماء الدنيا كل ليلة، نشهد شهادة مقر بلسانه، مصدق بقلبه مستيقن بما في هذه الأخبار من ذكر نزول الرب من غير أن نصف الكيفية، لأن نبينا المصطفى لم يصف لنا كيفية نزول خالقنا إلى سماء الدنيا، أعلمنا أنه ينزل والله جل وعلا لم يترك، ولا نبيه عليه السلام بيان ما بالمسلمين الحاجة إليه، من أمر دينهم فنحن قاتلون مصدقون بما في هذه الأخبار من ذكر النزول غير متكلفين القول بصفته أو بصفة الكيفية، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يصف لنا كيفية النزول وفي هذه الأخبار ما بان وثبت وصح أن الله جل وعلا فوق سماء الدنيا، الذي أخبرنا نبينا صلى الله عليه وسلم أنه ينزل إليه، إذ محال في لغة العرب أن يقول: نزل من أسفل إلى أعلى، ومنهوم في الخطاب أن النزول من أعلى إلى أسفل.
’’ان احادیث کا بیان، جو سند اور متن کے اعتبار سے صحیح ہیں اور انھیں حجاز اور عراق کے علما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔ یہ احادیث اللہ کے ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرمانے کے متعلق ہیں۔ ہم زبان کے ساتھ گواہی اور دل کے ساتھ تصدیق بجا لاتے ہیں اور ان احادیث میں نزول باری تعالیٰ کے بیان پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ البتہ اس کی کیفیت کو ہم بیان نہیں کرتے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے خالق کے آسمانِ دنیا کی طرف نزول کی کیفیت بیان نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتایا ہے کہ وہ نزول فرماتا ہے۔ اللہ اور اس کے نبی نے مسلمانوں کے لیے دینی حوالے سے کوئی بھی ضروری بات تشنہ نہیں چھوڑی۔ ہم اس کے قائل ہیں اور ان احادیث میں موجود نزول باری تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہیں۔ اللہ یا اس کے نزول کی کیفیت کے بیان میں تکلف سے کام نہیں لیتے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول کی کیفیت بیان نہیں کی۔ ان احادیث سے بڑی وضاحت و صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ آسمانِ دنیا سے اوپر ہے، جس کی طرف نزول کی ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، کیونکہ لغت عرب میں نیچے سے اوپر کی طرف نزول ممکن ہی نہیں ۔ مفہوم خطاب یہی ہے کہ نزول اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔‘‘
(كتاب التوحيد 289/1 290)
نیز فرماتے ہیں:
قد ذكرنا استواء ربنا على العرش في الباب قبل، فاسمعوا الآن ما أتلو عليكم من كتاب ربنا الذي هو مسطور بين الدفتين، مفروء في المحاريب والكتاتيب، مما هو مصرح في التنزيل أن الرب جل وعلا في السماء، لا كما قالت الجهمية المعطلة: إنه في أسفل الأرضين، فهو في السماء، عليهم لعائن الله التابعة، قال الله تعالى: (وامنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض) ، وقال الله تعالى: (أم أمنتم من في السماء أن يرسل عليكم حاصبا) ، أفليس قد أعلمنا يا ذوي الحجا خالق السموات والأرض وما بينهما في هاتين الآيتين أنه في السماء، وقال عز وجل: (إليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه) ، أفليس العلم محيطا يا ذوي الحجا والألباب أن الرب جل وعلا فوق من يتكلم بالكلمة الطيبة، فتصعد إلى الله كلمته، لا كما زعمت المعطلة الجهمية أنه تهبط إلى الله الكلمة الطيبة كما تصعد إليه، ألم تسمعوا يا طلاب العلم قوله تبارك وتعالى لعيسى ابن مريم: (يعيسى إلى متوفيك ورافعك إلى) ، أليس إنما يرفع الشيء من أسفل إلى أعلا، لا من أعلا إلى أسفل، وقال الله عز وجل: (بل رفعه الله إليه) ، ومحال أن يهبط الإنسان من ظهر الأرض إلى بطنها، أو إلى موضع أخفض منه وأسفل فيقال: رفعه الله إليه، لأن الرفعة في لغة العرب الذين بلغتهم خوطبنا لا تكون إلا من أسفل إلى أعلى وفوق ألم تسمعوا قول خالقنا جل وعلا يصف نفسه: (وهو القاهر فوق عباده) ، أو ليس العلم محيطا، إن الله فوق جميع عباده ، من الجن والإنس، والملائكة ، الذين هم سكان السماوات جميعا؟ أولم تسمعوا قول الخالق الباريء: (ولله يسجد ما في السبوات وما في الأرض من دابة والمليكة وهم لا يستكبرون يخافون ربهم من فوقهم ويفعلون ما يؤمرون) فأعلمنا الجليل جل وعلا في هذه الآية أيضا أن ربنا فوق ملائكته، وفوق ما في السماوات، وما في الأرض، من دابة، أعلمنا أن ملائكته يخافون ربهم الذي فوقهم والمعطلة تزعم أن معبودهم تحت الملائكة ، ألم تسمعوا قول خالقنا: (يدبر الامر من السماء إلى الأرض ثم يعرج اليه) ، أليس معلوما فى اللغة السائرة بين العرب التي خوطبنا بها وبلسانهم نزل الكتاب، أن تدبير الأمر من السماء إلى الأرض، إنما يدبره المدبر، وهو في السماء لا في الأرض، كذلك المفهوم عندهم أن المعارج المصاعد، قال الله تعالى: (تعرج المليكة والروح إليه) ، وإنما يعرج الشيء من أسفل إلى أعلى وفوق، لا من أعلى إلى دون وأسفل، فتفهموا لغة العرب لا تغالطوا وقال جل وعلا: (سبح اسم ربك الأعلى) ، فالأعلى منهوم في اللغة أنه أعلى شيء، وفوق كل شيء، والله قد وصف نفسه في غير موضع من تنزيله ووحيه، أعلمنا أنه العلي العظيم، أفليس العلي يا ذوى الحجا ما يكون عليا، لا كما تزعم المعطلة الجهمية أنه أعلى وأسفل، ووسط، ومع كل شيء، وفي كل موضع من أرض وسماء، وفي أجواف جميع الحيوان ولو تدبروا آية من كتاب الله ووفقهم الله لفهمها، لعقلوا أنهم جهال ، لا يفهمون ما يقولون، وبأن لهم جهل أنفسهم، وخطأ مقالتهم وقال الله تعالى لما سأله كليمه موسى عليه السلام أن يريه ينظر إليه قال: (لن ترينى ولكن انظر إلى الجبل) إلى قوله: (فلما تجلى ربه للجبل جعله دکا) أفليس العلم محيطا يا ذوي الألباب أن الله عز وجل لو كان في كل موضع، ومع كل بشر وخلق كما زعمت المعطلة، لكان متجليا لكل شيء، وكذلك جميع ما في الأرض ، لو كان متجليا لجميع أرضه سهلها ووعرها وجبالها، وبراريها ومفاوزها، ومدنها وقراها، وعمرانها وخرابها، وجميع ما فيها من نبات، وبناء لجعلها دكا كما جعل الله الجبل الذي تجلى له دكا، قال الله تعالى: (فلما تجلى ربه للجبل جعله دکا) .
گزشتہ باب میں ہم نے بیان کیا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ اب وہ آیات میں آپ کو سناتا ہوں، جو منبر ومحراب میں پڑھی جانے والی کتاب میں موجود ہیں۔ ان آیات میں یہ حقیقت وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ اللہ کی ذات آسمانوں سے اوپر ہے۔ جہمیہ معطلہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ سب زمینوں کے نیچے بھی ہے اور آسمانوں کے اوپر بھی۔ جہمیوں پر اللہ تعالیٰ کی مسلسل لعنتیں برسیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(امنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض)
(الملك: 16)
(تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو، جو آسمانوں کے اوپر ہے کہ کہیں وہ تمھیں زمین میں دھنسا نہ دے؟)
نیز فرمایا:
(ام أمنتم من في السماء أن يرسل عليكم حاصبا)
(الملك: 17)
’’یا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمانوں کے اوپر ہے کہ کہیں وہ تم پر پتھروں کی بارش نہ کر دے؟‘‘
اصحاب شعور! کیا آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کے خالق نے ان دو آیات میں بتایا نہیں کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ خود اس کا فرمان ہے:
(اليه يصعد الكلم الطيب و العمل الصالح يرفعه)
(فاطر: 10)
’’اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل پاکیزہ کلمات کو بلند کرتا ہے۔‘‘
ارباب دانش ! کیا اس آیت سے معلوم نہیں ہو جاتا کہ اللہ پاکیزہ کلمات ادا کرنے والے سے اوپر ہے؟ اگر اللہ تعالٰی اوپر ہے، تو ہی اس کی طرف یہ کلمات چڑھیں گے۔ جہمیہ معطلہ کا یہ کہنا سرا سر غلط ہے کہ جس طرح اللہ کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں، اسی طرح اس کی طرف نازل بھی ہوتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ) طالب علم حضرات ! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا جو اس نے عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا:
(العيسى إلى متوفيك ورافعك إلى)
(آل عمران 55)
’’عیسیٰ ! میں آپ کو پورا پورا لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ کسی چیز کا چڑھنا صرف نیچے سے اوپر کی طرف ہی ہو سکتا ہے، اوپر سے نیچے کی طرف چڑھا نہیں جا سکتا؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(بل رفعه الله إليه)
(النساء: 158)
(بلکہ اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا) یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص زمین کے اوپر سے نیچے کی طرف جائے یا اونچی جگہ سے نیچی کی طرف جائے، تو کہہ دیا جائے کہ اسے اللہ نے اوپر اٹھا لیا ہے، کیونکہ عربی زبان جس کے ذریعے (قرآن کریم میں) ہمیں مخاطب کیا گیا ہے، اس میں اٹھنا ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف ہوتا ہے۔ کیا آپ نے ہمارے خالق عز وجل کا یہ فرمان نہیں سنا:
(وهو القاهر فوق عباده)
(الأنعام: 18)
(اور وہ اپنے بندوں کے اوپر ہے اور ان پر غالب ہے۔) کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں رہنے والے اپنے تمام بندوں یعنی جنوں، انسانوں، آسمانوں میں رہنے والے فرشتوں سے اوپر اور بلند ہے۔ کیا آپ نے باری تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا:
(ولله يسجد ما في السموات وما في الأرض من دابة والمليكة وهم لا يستكبرون يخافون ربهم من فوقهم ويفعلون ما يؤمرون)
(النحل: 50)
(آسمان و زمین میں جو چوپائے اور فرشتے ہیں، سب اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپر سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں، جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔) اللہ رب العزت نے ہمیں اس آیت میں بتایا ہے کہ وہ اپنے فرشتوں اور آسمان وزمین کے تمام جانداروں سے اوپر اور بلند ہے۔ اس نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے فرشتے اپنے اس رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے۔ اس کے برعکس معطلہ کا دعوی ہے کہ ان کا معبود فرشتوں سے نیچے ہے۔ کیا آپ نے ہمارے خالق کا یہ فرمان نہیں سنتا:
(يدير الأمر من السماء إلى الأرض ثم يعرج إليه)
(السجدة: 5)
(وه آسمانوں سے زمین کی طرف معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر وہ معاملہ اس کی طرف چڑھتا ہے۔) کیا لغت عرب جو معروف ہے اور جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے، اس سے یہ بات عیاں نہیں ہو جاتی کہ معاملات کی تدبیر اللہ آسمانوں سے زمین کی طرف کرتا ہے اور وہ آسمانوں کے اوپر ہے، زمین میں نہیں؟ عربوں کے ہاں عرج کا مادہ اوپر جانے اور چڑھنے کے معنی میں ہی ہوتا ہے۔ کوئی چیز ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف ہی چڑھتی ہے، اوپر سے نیچے کی طرف نہیں۔ لغت عرب کو سمجھو، مغالطے نہ ڈالو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:
(سبح اسم ربك الأعلى)
(الاعلی: 1)
( آپ اپنے اعلیٰ رب کے نام کی تسبیح بیان کریں۔) لغت عرب میں کسی چیز کے اعلیٰ ہونے کا معنی و مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ سب سے بلند اور اوپر ہو۔ اللہ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر اپنے آپ کو العلي اور العظیم کہا ہے۔ ارباب ہوشں! کیا العلي وہی نہیں ہوتا ، جو بلند ہو؟ اس سب کے باجود جہمیہ معطلہ کہتے ہیں کہ اللہ اوپر بھی ہے اور نیچے بھی، درمیان میں بھی ہے اور ہر چیز کے ساتھ بھی، بلکہ زمین و آسمان میں ہر جگہ ہے، تمام جانداروں کے پیٹ میں بھی ہے (نعوذ باللہ) حالاں کہ اگر وہ قرآنِ کریم کی ایک بھی آیت پر غور کر لیتے اور اللہ اس کو سمجھنے کی توفیق ان کو مرحمت فرماتا تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ وہ پرلے درجے کے جاہل ہیں اور اپنی زبان سے نکلنے والی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے ، ان کے سامنے اپنی جہالت اور اپنے اقوال کی غلطی عیاں ہو جاتی۔ اللہ سے جب موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے مطالبہ کیا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(كن ترنى ولكن انظر إلى الجبل فإن استقة مكانه فسوف ترنى فلما تجلى ربه للجبل جعله دکا)
(الأعراف: 143)
(آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے ، ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا، تو آپ مجھے دیکھے سکیں گے۔ جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی، تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔) اصحاب عقل و شعور! کیا یہ بات معلوم نہیں کہ اگر معطلہ کے کہنے کے مطابق اللہ ہر جگہ ہوتا اور ہر بشر اور ہر مخلوق کے ساتھ ہوتا تو اس کی تجلی ہر چیز پر اور زمین کی تمام مخلوقات پر پڑتی۔ اگر اللہ تعالیٰ ساری زمین یعنی میدانوں، جنگلات، پہاڑوں، براعظموں، ریگستانوں، شہروں، بستیوں، آبادیوں، ویرانوں، تمام نباتات اور تمام عمارتوں پر تجلی کرتا، تو سب کا سب اسی طرح ریزہ ریزہ ہو جاتا ، جس طرح وہ پہاڑ (کوہ طور) ریزہ ریزہ ہوا تھا ، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی ڈالی تھی۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿فلما تجلى ربه للجبل جعله دکا)
(الأعراف: 143)
(جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی ، تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا)
(كتاب التوحيد، ص 254-258)
پھر فیصلہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
من لم يقر بأن الله تعالىٰ على عرشه، قد استوى فوق سبع سماواته ، فهو كافر بربه.
’’جو یہ اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر سات آسمانوں کے اوپر مستوی ہے، وہ اپنے رب کا کافر ہے۔‘‘
(معرفة علوم الحديث للحاكم، ص 84، وسنده صحيح)
امام ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی رحمتہ اللہ (329ھ)
آپ رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب العظمة (543/2) میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:
ذكر عرش الرب تبارك وتعالى وكرسيه وعظم خلقهما، وعلو الرب فوق عرشه.
’’اللہ کے عرش، اس کی کرسی اور ان دونوں چیزوں کی عظمت کا بیان، نیز یہ بیان کہ اللہ عرش پر بلند ہے۔‘‘
امام طبرانی رحمتہ اللہ (260-360 ھ)
آپ رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب ’’السنتہ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے:
باب ما جاء في استواء الله تعالى على عرشه، وأنه بائن من خلقه.
’’اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا اور مخلوق سے جدا ہونے کا بیان ہے۔‘‘
(كتاب العرش للذهبي: 404/2)