آج کل پڑھی جانے والی بعض نعتوں میں ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں جو بظاہر محبتِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں عقیدۂ توحید کے صریح مخالف ہیں۔ مثلاً:
"تیرا کھاواں میں تیرے گیت گاواں یا رسول اللہ”
یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گویا رسول اللہ ﷺ ہی رزق دینے والے ہیں، حالانکہ اسلام کی اصل بنیاد یہی ہے کہ رزق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور یہی توحید سکھانے کے لیئے تو دراصل نبیﷺ کو اس اُمت میں مبعوث کیا گیا تھا۔
خود نبیﷺ نے ہی قرآن کی درج زیل آیات ہم تک پہنچائیں
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينِ
ترجمہ: "بیشک اللہ ہی رزق دینے والا ہے، قوت والا، زبردست۔”
﹙سورہ الذاریات: 58﹚
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
ترجمہ: "زمین پر کوئی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔”
(سورہ ھود: آیت 6)
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ
ترجمہ: "اے لوگو! اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر ہیں۔ کیا کوئی ایسا خالق ہے سوائے اللہ کے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دے؟”
(سورہ فاطر: آیت 3)
خود نبیﷺ صرف اللہ سے درج زیل الفاظ میں رزق طلب کرتے تھے اور یہی آپ نے اپنی اُمت کو سکھایا
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا ابو معاوية، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سيار، عن ابي وائل، عن علي رضي الله عنه، ان مكاتبا جاءه , فقال: إني قد عجزت عن كتابتي فاعني، قال: الا اعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كان عليك مثل جبل صير دينا اداه الله عنك؟ قال: ” قل: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، واغنني بفضلك عمن سواك ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.
«اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك» ”اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے“۔
خلاصہ کلام
اس سے واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مشن ہی یہ تھا کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور انہیں سمجھائیں کہ رازق صرف اللہ ہے۔ لہٰذا نعت یا کسی بھی کلام میں ایسے الفاظ سے اجتناب ضروری ہے جو عقیدے میں بگاڑ پیدا کریں۔
اصل محبتِ رسول ﷺ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں، اور نعتیہ اشعار میں توحید اور رسالت کی حقیقی روشنی کو اجاگر کریں۔
