تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھانے چاہیئے؟
وعند البخاري عن نافع أن ابن عمر: كان إذا دخل (فى) الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه وإذا قال: سمع الله لمن حمده رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه
بخاری شریف ، حضرت نافع سے مروی ہے ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا جب نماز میں داخل ہوتے (یعنی نماز کا آغاز کرتے) اللہ اکبر کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) جب آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جب دورکعتوں سے اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے“ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کی ۔
تحقیق و تخریج: بخاری 739
وعند مسلم من حديث مالك بن الحويرث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه
امام مسلم نے مالک بن حویرث کے حوالے سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ اکبر کہتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور انہیں اپنے کانوں کے برابر لے جاتے ۔
تحقيق و تخریج: مسلم: 391
فوائد:
➊ ان احادیث میں رفع الیدین کرنے کی صراحت پائی جاتی ہے ۔
➋ محل رفع الیدین بھی بتایا گیا ہے کہ جب تکبیر اولی ہو یا رکوع کرنے کا موقع ہو یا جب سمع الله لمن حمده مراد رکوع سے اٹھتے وقت اور اسی طرح دو رکعتوں سے جب کھڑا ہونا ہو تو رفع الیدین کرتا ہے ۔
➌ ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھانا بھی درست ہے ۔
وعنده من رواية وائل بن حجر ، بعد ذكر رفع اليدين: (ثم التحف بثوبه، ثم وضع يده اليمنى على اليسرى) وفيه: (فلما سجد سجدبين كفيه)
مسلم شریف میں وائل بن حجر سے رفع الیدین کے تذکرے کے بعد یہ الفاظ ہیں ثم التحف بثو به ، ثم وضع يده اليمنى على اليسري اور اسی میں یہ الفاظ بھی ہیں: ”جب آپ سجدہ کرتے تو دو ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کرتے ۔“
تحقيق و تخریج: مسلم: 401
فوائد:
➊ دوران نماز اگر چادر یا کمبل لیا ہو تو رفع الیدین کرتے وقت ہاتھ نکال کر رفع الیدین کرنا چاہیے پھر دوبارہ اندر ہاتھ باندھ لینے چاہئیں ۔
➋ ہاتھ باندھتے وقت حالت قیام میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے ۔
➌ سجدہ ہمیشہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کرنا چاہیے اس سے یہ پتہ چلا کہ دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنا چاہیے ۔
➍ بوقت ضرورت انسان چادر یا کمبل نماز میں اوپر لے سکتا ہے ۔ اس سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: