مقلدین کے تقلیدی دلائل کے تحقیقی جوابات
① پہلی دلیل
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورہ النحل 16:43)
اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔
حفیظ الرحمان قادری صاحب نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ثابت کرنے کے لیے یہ آیت مبارکہ اپنی کتاب کے صفحہ 45 پر پیش کی ہے۔
الجواب:
پہلی بات کہ یہ آیت اہل کتاب یعنی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس کا شان نزول تفسیر ابن جریر اور دیگر تفاسیر میں ہے، اور آیت کے سیاق سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ آیت عام ہے، پھر بھی اس سے مروجہ تقلید ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان كنتم لا تعلمون کی قید لگائی ہے۔ تو کیا مقلد عالم ہوتا ہے یا جاہل؟ اگر عالم ہوتا ہے تو پھر تقلید کی ضرورت کیوں محسوس کرتا ہے؟ اور اگر جاہل ہوتا ہے تو اس آیت سے تقلید کے اثبات پر اس نے استدلال کیسے کیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ اس میں اهل الذكر کا لفظ آیا ہے کہ عوام الناس علم سے مطلوبہ مسائل کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم کریں گے اور علماء کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتائیں گے، جس کے نتیجے میں عوام الناس کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو جائیں گے اور علماء ان تک حق کی رسائی کا ذریعہ اور واسطہ بن جائیں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ تم علماء کی رائے پر عمل کرو اور ان کی بے دلیل باتوں پر عمل کرو یا، ان کی تقلید کرو۔
میں حیران ہوں کہ قادری صاحب کو ہر چیز میں تقلید نظر آتی ہے۔ اگر یہی چیز تقلید ہے تو پھر آج کل جو لوگ علماء احناف سے سوال کرتے ہیں، کیا وہ انہی علماء کے مقلد ہیں؟ مگر یہ کلیہ آپ کے ہاں رائج نہیں ہے، بلکہ وہ سوال پوچھنے کے باوجود بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہی مقلد ہیں۔ تو علمائے اہل حدیث سے پوچھنے کے بعد بھی وہ متبع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہیں گے، ان علماء حق کے مقلد نہیں ہوں گے۔ ایک حنفی عالم ایک جاہل حنفی کو وہی مسائل بتاتا ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب سے تعلق رکھتے ہوں گے، اور وہ جاہل حنفی بھی حنفی عالم سے اس لیے سوال کرتا ہے کہ وہ عالم اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مابین صرف واسطہ ہوتا ہے۔ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہی ہوتی ہے اور اس لیے وہ حنفی ہی رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک عام اہل حدیث ایک اہل حدیث عالم سے سوال کرتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے، وہ اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائے گا اور وہ عالم دین یقیناً اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی بات بتاتا ہے اور وہ عالم دین، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس عام اہل حدیث مسلمان کے درمیان واسطہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ مسلمان اس عالم دین کی بات سن کر اس عالم دین کا مقلد نہیں بنتا بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع رہتا ہے۔
ایک مسلمان جب کسی عالم دین سے سوال پوچھتا ہے تو اس حسن ظن کی بنیاد پر پوچھتا ہے کہ وہ عالم اسے اپنی رائے کا مقلد نہیں بنائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائے گا۔ برخلاف اس کے، ایک مقلد اپنے عالم سے تو یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بتائے گا۔ یہاں پہنچ کر غالباً آپ یہ کہیں گے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوگی، گویا کہ جاہل حنفی اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین وہ حنفی عالم اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ دونوں واسطے کا ہی کام کر رہے ہیں۔
لہٰذا وہ جاہل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی متبع ہوا، نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ کیوں اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد کہتے ہیں؟ پھر یوں کیوں نہیں کہتے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع ہے؟ اگر آپ اس طرح کہنے لگیں تو تقلید کا صفایا ہو جائے گا، لیکن غالباً آپ کو یہ منظور نہیں کہ تقلید اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی نسبت ختم کی جائے، تو پھر اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ آپ کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پسند نہیں۔ کیا یہ مومن کا شعار ہے؟
قادری صاحب کا اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ جو بے علم شخص عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرے گا، تو یہ تقلید ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے علم آدمی کون سے علماء سے مسائل کا حل طلب کرے گا؟ ان سے جو وفات پا چکے ہیں یا ان سے جو زندہ ہیں؟
تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے فوت شدگان کا انتخاب ناممکن ہے، تو لامحالہ زندہ علماء کرام سے ہی رابطہ کرنا پڑے گا، جو کہ قرآن و حدیث کے موافق جواب دیں گے، تو ایسی صورت میں بے علم شخص نہ تو حنفی رہ سکے گا اور نہ شافعی، نہ مالکی، نہ حنبلی، بلکہ وہ متبع کتاب و سنت کہلائے گا۔
اگر ان پڑھ آدمی جس عالم سے پوچھ کر عمل کرے گا، تو پھر اسی عالم کا مقلد ہوگا، نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا، کیونکہ اس نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مسئلہ پوچھا ہی نہیں۔ ہر طرح آدمی اپنی مسجد کے امام کا مقلد بن جائے گا۔ اگر کسی سے سوال پوچھنے سے انسان اس کا مقلد بن جاتا ہے، تو پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جب مدرسہ میں پڑھ رہے تھے تو اپنے اساتذہ سے سوال پوچھتے رہے، وہ اپنے اساتذہ کے مقلد کیوں نہ بنے؟ اسی طرح دوسرے کسی امام سے دین کا مسئلہ پوچھنا کس طرح تقلید بن جاتا ہے؟ لہٰذا معلوم ہوا کہ اس آیت مبارکہ کا تقلید سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
یہ مقلدین کی سینہ زوری ہے، ورنہ اللہ کی کتاب کا تقلید کی تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں۔
② دوسری دلیل
حفیظ الرحمن قادری کی دوسری دلیل:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (سورہ النساء 4:59)
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔
الجواب:
اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نزلت فى عبد الله بن حذافة بن قيس إذ بعثه النبى صلى الله عليه وسلم فى سرية
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث: 147)
یہ آیت حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر پر امیر بنا کر روانہ کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية واستعمل عليها رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، صفحہ 565، حدیث: 4340)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو امیر مقرر کیا اور اہل لشکر کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔
پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہو گئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ سب نے کہا: ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں، تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگائی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانے ہی والے تھے کہ ان میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں۔ ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، حدیث: 4340)
اس سے معلوم ہوا کہ امام، خلیفہ، پیر و مرشد کی اطاعت صرف قرآن و حدیث کے مطابق احکام کے اندر ہے۔ اگر وہ خلاف بات کہیں تو پھر ان کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔
قادری صاحب! آپ بتائیں یہ مرفوع احادیث کیا بتلا رہی ہیں؟
کیا ان احادیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اولي الامر سے مراد امراء ہیں؟ جب کہ احمد رضا خان کا جو ترجمہ آپ نے نقل کیا ہے، اس نے ہی مسئلہ حل کر دیا کہ ان کا حکم مانو جو حکومت والے ہیں، اس سے مراد خلیفہ وقت، حکمران ہیں، نہ کہ کوئی مولوی، امام۔ سوال یہ ہے کہ اولي الامر میں لفظ امر واقع ہوا ہے، بتلا رہا ہے یہ امراء کا مادہ ہے یا علماء کا؟ علماء کا مادہ تو علم ہے کہ امر، پھر آپ کیسے علماء اور امام مراد لیتے ہیں؟
آج کل بھی کئی مشرک لوگ کہہ دیتے ہیں کہ آؤ اس مسئلہ میں آگ میں چھلانگ لگاتے ہیں کہ کون سچا ہے۔ اس بات کا بھی اس حدیث مبارکہ میں رد موجود ہے۔ یہ باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جن کا دامن قرآن و سنت کے دلائل سے خالی ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ قادری صاحب فرمائیں گے کہ اولي الامر سے مراد چاروں امام ہیں۔ اس مذکورہ آیت کے کس لفظ سے آپ آئمہ اربعہ رحمہم اللہ اور ان میں سے کسی ایک امام کی تقلید کو واجب کہتے ہیں؟ اس آیت مبارکہ سے تقلید شخصی کیسے ثابت ہوگئی؟ تقلید شخصی کا اس آیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کاش آپ تقلید شخصی کے ثبوت میں کوئی آیت پیش کرتے۔ یہاں ایک اور لفظ بھی قابل غور ہے کہ منكم جو تم میں موجود ہوں۔
میری گزارش یہ ہے کہ آپ اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ اس آیت سے مراد زندہ علماء، امراء مراد ہیں کہ فوت شدہ؟ اگر زندہ مراد ہیں تو پھر آپ فوت شدہ کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ اگر فوت شدہ امیر کی اطاعت لازم ہو تو پھر بڑا فساد پیدا ہوگا۔ موجودہ امیر کیا یہ برداشت کرے گا کہ اس کی اطاعت تو نہ کی جائے بلکہ ایک فوت شدہ امیر کی اطاعت کی جائے؟ یہ تو انتہائی مشکل مرحلہ ہوگا کہ فوت شدہ امیر کی تو اطاعت کی جائے اور زندہ کی نافرمانی کی جائے۔ پھر فوت شدہ امیروں میں سے اگر کسی ایک کی اطاعت لازمی ہوگی تو بتائیں اس کا انتخاب کیسے ہوگا؟ اگر کوئی غور کرے تو اس بات کا جواب اس آیت کے اگلے جملے میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (سورہ النساء 4:59)
اگر کسی معاملہ میں تمہارا باہم اختلاف ہو جائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو، اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔
مقلدین سے ایک ایسا سوال کرتے ہیں جس پر غور کرنے سے تقلید کا صفایا ہو جاتا ہے۔
اے جماعت مقلدین!
تم سلف و خلف تمام علماء کی تقلید جائز جانتے ہو؟ یا کہ بعض کی تقلید جائز اور بعض کی ناجائز؟
اگر سب کی تقلید جائز ہے تو پھر ایک کے پیچھے پڑ جانے کی کیا وجہ؟
جیسے ایک امام کی ذات قابل تقلید ہے، دوسرے امام کی بھی ہے۔ کیا وجہ کہ عمر بھر اسی ایک امام کی مانی جائے؟ اس کے بتائے ہوئے حرام و حلال کو سمجھا جائے اور دوسرے حق کو بھی صرف اسی ایک کو سمجھا جائے؟ کیا وجہ کہ اس کی ایک بات بھی نہ چھوڑی جائے اور دوسرے امام کی ایک بات بھی نہ مانی جائے، حالانکہ عالم یہ بھی ہے، عالم وہ بھی، اور تقلید اس کی بھی جائز، تقلید اس کی بھی جائز؟ اگر واقعی ان کی تقلید دین ہے تو ان کے اقوال بھی دین ہیں۔ پھر جن کے اقوال آپ نے چھوڑ دیے، وہ بھی دین تھا جس سے آپ دست بردار ہو گئے۔ اور اگر ان کے اقوال دین نہیں ہیں تو پھر ان کا ماننا کیسا؟ بہر صورت، یوں یا دوں، تمہاری تقلید تو باقی رہ نہیں سکتی۔ آؤ اس کی وضاحت سنو۔ جس کی تقلید آپ کرتے ہیں، جب اس سے کسی مسئلے میں دو قول مروی ہوئے ہیں تو تمہارے نزد یہ دونوں قابل عمل ہیں، دونوں مذہب میں داخل ہیں۔ جب یہ ہے تو جیسے یہ مجتہدین، دوسرے مجتہد کے قول کو جو ان کے قول کے خلاف ہے۔
انہی کے قول کا درجہ دے کر دونوں کے قول مثل اس ایک یا دو قول کے کیوں داخل مذہب اور قابل نہیں جانتے؟ بہت ممکن ہے، بلکہ ایسا واقع ہے کہ اس امام کے قول سے اس امام کا قول کتاب و سنت کے قریب اور قبولیت کے زیادہ لائق ہوتا ہے۔ (علام الموقعین، صفحہ 51)
مقلدین کو دعوت فکر دینے کے لیے چند لا جواب سوالات
مولانا حفیظ الرحمن قادری رحمہ اللہ سمیت تمام حنفی مقلدین میں سے کسی نے آج تک ان سوالوں کے جوابات نہیں دیے۔
➊ کیا تقلید شخصی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں تھی؟
➋ خود چاروں اماموں نے تقلید کے متعلق کیا فرمایا؟
➌ اجماع کی تعریف کریں اور کن لوگوں کا اجماع معتبر ہے؟ کیا تقلید شخصی پر اجماع ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
➍ مجتہد کسے کہتے ہیں کیا ہر مجتہد کی تقلید فرض ہوتی ہے؟ کیا چودہ سو سالوں میں صرف چار ہی مجتہد پیدا ہوئے ہیں؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ میں سے کوئی مجتہد نہیں ہوا؟
➎ ان چار آئمہ رحمہم اللہ نے کیسے تعلیم پائی، بذریعہ وحی یا دیگر آئمہ رحمہم اللہ سے؟ اگر دیگر آئمہ رحمہم اللہ سے انہوں نے تعلیم حاصل کی، تو کیا ان کے اساتذہ ان سے افضل تھے یا مفضول؟ اگر افضل تھے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟
➏ چاروں آئمہ افضل ہیں یا چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم؟ اگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم افضل ہیں تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟
➐ اگر چار میں سے کس ایک امام رحمہ اللہ کی تقلید کرنا ہے، تو ہمیں کیا خبر کہ ان میں سے کس کے مسائل صحیح ہیں اور کس کے غلط؟ اگر یہ چاروں مذہب برحق ہیں جیسا کہ مقلدین حضرات کہا کرتے ہیں، تو ایک مذہب پر عمل کرنے سے حق کے تین حصے ہم چھوڑ جاتے ہیں؟
➑ چاروں اماموں سے پہلے بھی یہ تقلید جاری تھی یا نہیں؟ اور اگر تھی تو کس کی؟
➒ اس وقت اس امام کی تقلید فرض تھی، واجب تھی یا مباح تھی؟ اگر تھی تو کیوں، اور نہیں تھی تو کیوں؟ اور پھر ان اماموں کے آنے سے منسوخ کیوں ہوئی؟
➓ چار اماموں سے پہلے جس امام کی تقلید جاری تھی، اس کا نام کیا تھا؟ اور اب بھی اس کی تقلید فرض، واجب یا مباح ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کب منع ہوئی؟ کس نے اس منصب پر آئمہ کو پہنچایا؟
➊ چاروں امام امامت کی حیثیت سے دنیا میں آئے، اس سے پہلے اسلام پر سو سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا۔ تب تک یہ امام نہ تھے اور نہ یہ مقلد، تو اس وقت کے مسلمان، مسلمان بھی تھے یا نہ تھے؟ اور اگر مسلمان تھے تو پورے یا ادھورے؟ کیونکہ تقلید تو اس وقت تھی ہی نہیں، بلکہ امام رحمہم اللہ بھی نہ تھے جن کی تقلید عرصہ دراز بعد شروع ہوئی۔ اگر باوجود تقلید نہ کرنے کے وہ لوگ مسلمان تھے اور کامل مسلمان تھے، تو آج اسلام کا کون سا روپ مارا جاتا ہے؟ جو تقلید کی ایجاد کی ضرورت پیش آئی، کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا اسلام ہمیں کافی نہیں، جو نئے نویلے اسلام کی ضرورت ہو؟
⓬ چار اماموں سے قبل چاروں خلیفہ کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں؟ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر اماموں کی تقلید کیوں کی جائے؟
⓭ چاروں امام مقلد تھے یا کہ نہیں؟ اگر مقلد تھے تو کس کے؟ اگر نہیں تھے تو کیوں؟ (ماخذ: ضرب محمدی)
⓮ کیا تقلید کے بغیر دین پر عمل کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ممکن ہے تو پھر تقلید کو کیوں فرض قرار دیا جاتا ہے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کسی بھی امام رحمہ اللہ کی تقلید کے بغیر دین پر عمل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تقلید کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر تقلید کے بغیر دین پر عمل نہیں ہو سکتا، تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ اور امت کا بہت بڑا حصہ مقلدین کے نزدیک بے دین اور بے عمل ٹھہرا، کیونکہ انہوں نے تو کسی امام کی تقلید نہیں کی۔ اور یہ سوچ رکھنا گستاخی اور بدنصیبی کی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کو بے دین اور بے عمل کہا جائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تقلید کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ہے تو جواب دیا جائے؟
⓯ کیا کتاب و سنت اپنی توضیح میں امام صاحب کے اقوال کے محتاج ہیں یا امام صاحب کے اقوال کتاب و سنت کے محتاج ہیں؟ اگر کتاب و سنت امام کی شرح کے محتاج ہیں، تو پھر ایسی آیت یا حدیث مطلوب ہے جس کی تشریح یا تفسیر امام نے کی ہو، جو کہ کبھی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ اور اگر امام کے اقوال قرآن و سنت کے محتاج ہیں، جو کہ حقیقت بھی ہے، تو پھر مسلمانوں کو اس شخص کا محتاج کیوں بنایا جاتا ہے جو کہ خود محتاج ہے؟ امام رحمہ اللہ کے اقوال کی صحت یا ابطال کے لیے قرآن و حدیث سے تو دلیل لی جا سکتی ہے، لیکن قرآن و حدیث کے لیے امام کے اقوال کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر بنایا جا سکتا ہے تو دلیل پیش کریں؟
⓰ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید میں مکمل دین پر عمل کیا جا سکتا ہے یا بعض پر عمل ہو سکتا ہے اور بعض پر نہیں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ امام کی تقلید سے سارے دین پر عمل کرنا ممکن ہے کیونکہ اس میں فقہ حنفی پر ہوتا ہے، جس میں سارا دین بیان ہوا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام کی فقہ کا دو تہائی حصہ تو امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اختلاف کی وجہ سے غیر معتبر ٹھہرا ہے۔ کیونکہ اکثر مسائل میں صاحبین رحمہما اللہ نے امام رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔ اب ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل پر، اس کا تعین خود احناف ہی کریں گے۔ دونوں تو حق پر ہو نہیں سکتے کیونکہ کسی مسئلے میں صاحبین رحمہما اللہ کا اجتماع باطل ہے۔ یہ بھی ممکن، بلکہ ایسا واقع ہوا ہے کہ انہوں نے اکثر مسائل میں امت کے دیگر علماء کرام رحمہم اللہ کی مخالفت کی ہے اور یہ بھی ایک غلطی ہے۔ تو فقہ حنفی کا اکثر حصہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے باہمی اختلاف سے مشتبہ ظاہر ہوا اور کچھ حصہ دیگر علماء کرام رحمہم اللہ سے مخالفت کی وجہ سے غیر معتبر ہوا۔ تو کیا ایسی صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرنے سے پورے دین پر عمل ممکن ہے؟ امام کی تقلید کی وجہ سے دین کے کچھ حصے پر عمل بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں بھی شک کا احتمال ہے۔ اس بحث کے حوالے سے تقلید کے دو نقصان قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ آدمی تقلید کی وجہ سے دین کے بڑے حصے پر عمل کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ جس حصے پر عمل کرتا ہے، اس میں بھی شک کا احتمال پایا جاتا ہے؟
⓱ آپ مقلدین ہیں یا مجتہد؟ اگر مقلد ہیں تو تقلید کے اثبات کے لیے آپ استدلالات بعیدہ کیوں کرتے ہیں، جبکہ بقول مقلدین کے استدلال کرنا صرف مجتہد کا کام ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں آپ تقلید کے دائرے سے کیوں نکلے؟ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ میں مجتہد ہوں، تو اس طرح تقلید کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ مقلدین کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس طرح آپ کے مجتہد بننے سے اجتہاد کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔
⓲ تقلید جاہل پر فرض ہے یا عالم پر یا دونوں پر؟ اگر عالم پر فرض ہے تو اس سے قرآن مجید کی آیت ان کنتم لا تعلمون کی مخالفت لازم آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ علماء کرام رحمہم اللہ کے متعدد مراتب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے مرتبہ کے حامل علماء پر تقلید فرض ہے؟ اور اگر تقلید جاہل پر فرض ہے، تو وہ کس کی تقلید کرے؟ کیونکہ اس کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اور اگر دونوں پر فرض ہے، تو پھر بھی مذکورہ نقصانات و اعتراضات وارد ہوں گے؟
⓳ کیا تقلید ہر مسلمان پر فرض ہے؟ اگر فرض ہے تو چاروں امام رحمہم اللہ بھی تو مسلمان تھے، انہوں نے تقلید کی اس وصیت پر عمل کیوں نہ کیا؟
تقلید شخصی کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے؟ اگر تقلید کا حکم ہے تو آیت اور حدیث صاف صاف تحریر فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ چاروں امام رحمہم اللہ مقلد تھے کہ غیر مقلد؟ اور مسلمان ہوتے ہوئے جو خالص قرآن و سنت پر عمل کرے، چاروں اماموں رحمہم اللہ میں سے کسی امام کی تقلید نہ کرے، کیا اس کی نجات ممکن ہے کہ نہیں؟ اگر ممکن ہے تو تقلید کا پٹہ گلے میں ڈالنے کی ضرورت کیا؟
③ تیسری دلیل
حفیظ الرحمن قادری صاحب اس سے آگے لکھتے ہیں کہ مجتہد اور محدث میں فرق اپنی طرف سے خود ساختہ فرق بیان کیا ہے کہ محدث کا کام صرف احادیث مبارکہ کو اکٹھا کرنا ہے اور اس کے پیش نظر حدیث کی صحت یا غریب ہونا ہوتا ہے، مسائل کا استنباط نہیں۔ (کتاب مذکورہ، صفحہ: 46)
الجواب:
یہ بات سراسر غلط ہے کہ جو محدث ہوتا ہے وہ مجتہد نہیں ہوتا، حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ دنیا کے نامور محدث ہونے کے ساتھ دنیا کے ایک بڑے مجتہد بھی تھے۔ صحیح بخاری کے ابواب پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ دنیا کے نامور فقیہ بھی تھے۔ مجھے قادری صاحب کی بات پڑھ کر حیرت ہوئی کہ حدیث کی صحت کے بارے میں مجتہد کو محدث سے زیادہ علم ہے۔ حالانکہ احادیث مبارکہ کو جمع کرنے والے محدثین رحمہم اللہ سے زیادہ حدیث کی صحت کو کوئی زیادہ نہیں جانتا۔ ہزاروں محدثین رحمہم اللہ مجتہد بھی تھے اور محدث بھی، جنہوں نے مسائل کا استنباط بھی کیا۔ محدث سے زیادہ فقیہ کو احادیث کا علم نہیں ہوتا۔ حدیث کا علم ہوگا تو پھر ہی مسائل کا حل قرآن و حدیث سے تلاش کر لے گا، ورنہ تو ایسے ہی اٹکل بچو لگا کے یا جس طرح اکثر فقہ حنفی کے خود ساختہ مسائل ہیں، ان میں نہ قرآن کا علم ہے نہ حدیث سے سروکار۔
ان لوگوں کے پاس جب دلائل نہیں ہوتے تو پھر ادھر ادھر کی مثالیں دیتے ہیں۔
کبھی میڈیکل ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں، کبھی پنساری کی مثالیں گھڑتے ہیں۔ ان دلائل کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اکثر یہ لوگ مثالیں دیتے رہتے ہیں، یہ باتیں بے اصل ہیں۔ آگے ایک حدیث کا نکتہ نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا، بجا فرمایا کہ امت اس گمراہی پر کب اکٹھی ہوئی؟ سوائے کوفیوں کے گروہ کے، امت ساری کب تقلید پر اکٹھی ہوئی؟ نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔ یہ راہ ہدایت نہ تھی، اس پر امت اکٹھی نہیں ہوگی اور نہ قیامت تک ہوگی۔
④ چوتھی دلیل
قادری عجیب منطق کہتے ہیں کہ چاروں امام برحق ہیں، ان کے مقلد بھی برحق ہیں۔ خود ہی سوال پیدا کر کے جواب دیتے ہیں کہ ایک امام کہتا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھو، دوسرا کہتا ہے فاتحہ خلف الامام نہ پڑھو۔ ایک امام کہتا ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ دونوں برحق کیسے ہو سکتے ہیں؟
جواب دیتے ہیں کہ ان میں سے ایک درست ہوگا اور دوسرا غلط، لیکن کیونکہ مجتہد کو غلطی پر بھی ثواب ملتا ہے، لہٰذا اس کے پیچھے چلنے والے بھی ثواب پائیں گے اور درست والے کو دونوں ثواب ملیں گے۔ (شرک کیا ہے، بدعت کی حقیقت، صفحہ 47)
الجواب:
قادری صاحب کو یہ بھی علم نہیں کہ اجتہاد ان مسائل میں کیا جاتا ہے جس مسئلہ کی وضاحت پر قرآن و حدیث میں کوئی واضح دلیل نہ ملتی ہو۔ جس مسئلہ کی سینکڑوں دلیلیں حدیث مبارکہ میں ملتی ہوں، تو وہاں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے سامنے اپنا اجتہاد اور قیاس پیش کرنے والا اپنے ایمان کی خیر منائے۔ جس طرح فاتحہ ہے، ہمیں اماموں کی لڑائی کا تماشائی بننے کی بجائے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و فرمان کی طرف توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة إنا نكون وراء الإمام فقال اقرأ بها فى نفسك
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 160، حدیث: 395، کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراءة الفاتحہ فی کل رکعۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے، وہ نماز ناقص ہے، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوری نہیں ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں، تو پھر؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے دل میں یعنی آہستہ پڑھ ۔
عن أنس أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى بأصحابه فلما قضى صلاته أقبل عليهم بوجهه فقال أتقرءون فى صلاتكم والإمام يقرأ فسكتوا فقال لهم ثلاث مرات فقال قائل أو قائلون إنا نفعل قال لا تفعلوا وليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب بنفسه
(جزء القراءات مترجم، صفحہ 113)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، فارغ ہو کر ان کی طرف منہ کر کے پوچھا: کیا تم اپنی نماز میں پڑھتے ہو جبکہ امام قراءت کر رہا ہوتا ہے؟ وہ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ سوال پر جواب دیا: ہاں، ہم ایسا کرتے ہیں۔ فرمایا: نہ کرو، تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ فقط سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لیا کرے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراءات میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے۔
دوسرے مقام پر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن عبادة بن الصامت قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب خلف الإمام
(کتاب القراءات عربی، صفحہ 56)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوگی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراءات میں روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
عن عبادة بن الصامت قال كنا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة الفجر فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فثقلت عليه القراءة فلما فرغ قال لعلكم تقرءون خلف إمامكم قلنا نعم يا رسول الله قال لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب إنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
(ابو داؤد، صفحہ 119، حدیث: 821)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم فجر کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھل ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: شاید تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، سوائے سورہ فاتحہ کے، کیونکہ جو کوئی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز ناقص ہے، اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے۔
ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث: 394)
ہم کہتے ہیں:
اماموں کی امامت بے شک بجا ہے
مگر اطاعت کے لائق صرف مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
(کتاب القراءات، صفحہ 29)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔
عن عبادة بن الصامت قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
(بخاری شریف، جلد اول، صفحہ 394، کتاب الاذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم، حدیث: 756)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں۔
اس حدیث مبارکہ میں من لفظ عموم کے لیے ہے، چنانچہ جیوین صاحب حنفی نورالانوار میں فرماتے ہیں کہ لفظ من اور ما کی نسبت لکھتے ہیں، من اور ما کے اصلی معنی عموم کے ہیں۔ پس جب من کا لفظ عموم کے لیے ثابت ہو چکا، تو اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ نماز بغیر سورہ فاتحہ کسی کی نہیں ہوتی۔
فلا تقرءوا بشيء من القرآن إذا جهرت إلا بأم القرآن
(ابو داؤد، کتاب الصلوۃ، باب من تثاقل القراءة، حدیث: 864)
جب (یعنی امام) اونچی آواز سے قراءت کروں، تو قرآن سے سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے تحقیق مشکوۃ میں، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا، جبکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
عن على إنه كان يأمر أن يقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب
(بیہقی، صفحہ 61)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم کرتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سینکڑوں احادیث و آثار موجود ہیں، مگر طوالت کے خوف سے صرف چند کو نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ میرے مسلمان بھائیوں کو علم ہو جائے کہ ہم اماموں کی لڑائی اور تقلید کی وجہ سے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو کیوں چھوڑے ہوئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی امام کی تقلید کا حکم نہیں دیتا، بلکہ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ جس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑا، وہ گمراہی کے طوفان کی نظر ہو کر تباہ و برباد ہو گیا۔
⑤ پانچویں دلیل
قادری صاحب تحریر کرتے ہیں: الحمد للہ عز وجل، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل قرآن و حدیث کے عین مطابق ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اکثریت حنفیوں کی ہے۔ (کتاب شرک کیا ہے، صفحہ 49)
الجواب:
قادری صاحب کے دعوے کی حقیقت کیا ہے کہ فقہ حنفی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل قرآن و حدیث کے عین مطابق ہیں؟ یہ دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا، فیصلہ خود نہیں کرنا۔ قارئین محترم پر چھوڑتا ہوں۔ فقہ حنفی اور حدیث نبوی کو آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث کے مطابق ہے یا کہ مخالف۔ حوالہ جات پر غور فرمائیں اور عدل و انصاف پر فیصلہ فرمائیں کہ حدیث نبوی اور فقہ حنفی میں کتنا فاصلہ ہے۔
فقہ حنفی قرآن و حدیث کے مخالف ہے یا مطابق؟ فقہ حنفی کی تقریباً تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ سر کے چوتھے حصے کا مسح فرض ہے۔ (ہدایہ، جلد اول، صفحہ 61 اور دیگر کتب فقہ حنفی)
قران مجید : وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ (سورہ المائدہ 5:6)
پورے سر کا مسح کرو۔
حدیث مبارکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے سر کا مسح کیا۔ چوتھے حصے کی فرضیت کا ذکر کسی بھی حدیث میں نہیں۔
فقہ حنفی :ولا يجوز المسح على العمامة
(ہدایہ، جلد اول، صفحہ 61)
عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پر مسح کیا۔ (صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 143؛ مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 46)
فقہ حنفی: مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ (عالمگیری، صفحہ 82؛ شرح وقایہ، صفحہ 150)
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان کے بعد مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل پڑھو۔ (بخاری، جلد 1، صفحہ 540؛ مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 104)
فقہ حنفی: خطبہ کے دوران نماز نہیں ہوتی۔ (عالمگیری، جلد اول، صفحہ 86)
حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو جمعہ کے دن مسجد میں آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو، تو وہ مختصر دو رکعتیں نماز پڑھ لے۔(صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 297؛ مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 133)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث ہے، اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔
فقہ حنفی: ترجیح کے ساتھ اذان نہیں ہے۔ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے ترجیع کے ساتھ اذان دیتے ہوئے غلطی ہو گئی تھی۔ (ہدایہ، صفحہ 87)
صاحب ہدایہ نے صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف ناکردہ غلطی منسوب کر کے اپنے مذہب کو ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث میں ترجیع کا ذکر آیا ہے۔ (مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 63)
فقہ حنفی: تجویز مستحب ہے۔ (ہدایہ، صفحہ 89؛ شرح وقایہ، جلد اول، صفحہ 86)
حالانکہ حدیث میں آتا ہے کہ تجویز بدعت ہے۔ (ابو داؤد، جلد اول، صفحہ 86)
فقہ حنفی: مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان کوئی وقفہ نہیں۔ (بدایہ، صفحہ 98)
جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ (بخاری، جلد 1، صفحہ 187)
فریقین کا موقف آپ کے سامنے ہے۔ ایک طرف پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں اور دوسری طرف احناف کی مخالفت۔ فیصلہ آپ پر ہے۔
کچھ مزید:
فقہ حنفی : فجر سے پہلے اذان دینا جائز نہیں۔ (بدایہ، صفحہ 91-92)
اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اذان قبل الفجر ہوتی تھی۔ (صحیح بخاری، باب الاذان قبل الفجر، جلد اول، صفحہ 87)
فقہ حنفی : نماز میں اللہ اکبر کی جگہ خدا بزرگ است اور اللہ اجل کہنا جائز ہے۔ (ہدایہ، جلد اول، صفحہ 100)
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک مسلمانوں نے نہ اس پر عمل کیا ہے اور نہ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ آخر ان خود ساختہ فرضی مسائل کی ضرورت ہی کیا ہے؟
فقہ حنفی : امام ربنا لك الحمد نہیں پڑھے گا۔ (بدایہ، صفحہ 106)
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 113، باب القنوت)
فقہ حنفی : صرف ناک یا صرف پیشانی پر بھی سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ (بدایہ، صفحہ 108)
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بخاری، جلد 1، صفحہ 123، مشکوۃ، جلد 1، صفحہ 83)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سجدہ میں ناک اور پیشانی دونوں کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔ (بیہقی، جلد 2، صفحہ 104؛ بخاری، جلد اول، صفحہ 112)
فقہ حنفی : عالم اور نابینا کی امامت مکروہ ہے۔ (ہدایہ، صفحہ 113)
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں امام مقرر کیا تھا اور سالم رضی اللہ عنہ جو کہ غلام صحابی رضی اللہ عنہ تھے، امامت کراتے تھے۔ (صحیح بخاری، جلد اول، صفحہ 196، ابو داؤد، کتاب الصلوۃ، باب امامتہ الأئمہ، حدیث: 595، کتاب الاذان، حدیث: 692)
فقہ حنفی : عورتوں کا اکیلے جماعت کرانا مکروہ تحریمی ہے کیونکہ امام کو درمیان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ (ہدایہ، جلد اول، صفحہ 123)
اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو ایک محلے میں عورتوں کے لیے امام مقرر کیا تھا۔ (ابو داؤد، جلد اول، صفحہ 94، باب امامتہ النساء)
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں آتا ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھاتی تھیں۔ (ابن ابی شیبہ، صفحہ 88-89)
فقہ حنفی : ممیز معصوم کی امامت نہیں ہوتی۔ (ہدایہ، جلد اول، صفحہ 123)
حالانکہ حدیث میں آتا ہے کہ عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے سات سال کی عمر میں نزول وحی کے دور میں امامت کرائی۔ (بخاری، مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 100؛ صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث: 3402)
فقہ حنفی : فرض پڑھنے والے کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے نہیں ہوتی۔ (بدایہ، صفحہ 138)
حدیث میں آتا ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض نماز پڑھتے تھے اور پھر اپنی قوم کو جا کر وہی نماز مستقل کی حیثیت سے پڑھاتے تھے۔ (بخاری، جلد 1، صفحہ 94؛ مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 103)
فقہ حنفی: وتر صرف تین رکعت پڑھی جا سکتی ہے، ایک رکعت پڑھنا دین میں نہیں۔ (ہدایہ، صفحہ 66)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أحب أن يوتر بواحدة فليفعل
(ابو داؤد، ترمذی، مشکوۃ، جلد 1، صفحہ 112)
جو ایک وتر پڑھنا چاہے، پڑھ لے۔
ہر مسئلے پر کئی کئی احادیث موجود ہیں، مگر طوالت کے خوف سے صرف ایک ایک یا دو دو حوالے تحریر کیے ہیں۔
فقہ حنفی: جس نے سنتیں نہیں پڑھیں اور فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے، تو اسے چاہیے کہ پہلے سنتیں پڑھے۔ (ہدایہ، صفحہ 152)
حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب فرض نماز کے لیے اقامت ہو جائے، تو پھر فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 250، کتاب صلوۃ المسافرین، باب کراہتہ الشروع فی نافلہ، حدیث: 710-712)
فقہ حنفی: نماز قصر کے لیے سفر کی زیادہ سے زیادہ میعاد پندرہ دن ہے۔ (بدایہ، صفحہ 126)
حالانکہ میعاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقام پر انیس دن ٹھہرے اور نماز قصر پڑھی۔ (بخاری، مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 118)
فقہ حنفی : صلوۃ کسوف میں جہری قراءت نہیں ہے۔ (ہدایہ، جلد اول، صفحہ 175)
لیکن حدیث میں جہری قراءت کا ثبوت ملتا ہے۔ (صحیح بخاری، جلد اول، صفحہ 135)
فقہ حنفی: صلوۃ کسوف کے بعد خطبہ نہیں ہے۔ (بدایہ، صفحہ 176)
جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا ہے۔ (بخاری، جلد اول، صفحہ 135)
فقہ حنفی : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں استقاء میں نماز نہیں ہے۔ (ہدایہ، صفحہ 176)
حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استقاء کی نماز پڑھی ہے۔ (بخاری، جلد اول، صفحہ 136؛ مشکوۃ، جلد اول، صفحہ 137)
فقہ حنفی : نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں۔ (ہدایہ، صفحہ 180)
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ الفاتحہ کے ساتھ نماز جنازہ پڑھانے کے ساتھ فرمایا:
تعلموا أنها سنة
(بخاری شریف، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 87؛ ماخذ: حقیقت التقلید، صفحہ 183)
یعنی میں نے سورہ فاتحہ کے ساتھ نماز اس لیے پڑھائی ہے تا کہ تم جان لو کہ جنازے میں سورہ فاتحہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
اس مسئلہ پر بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں، جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
قارئین محترم : فقہ حنفی کے ہزاروں مسائل قرآن و حدیث کے مخالف ہیں۔ میں نے صرف چند مسائل حفیظ الرحمن صاحب کے دعوے کو عوام کی عدالت میں پیش کرنے کے لیے صرف ان کو اپنے آئینے میں چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے، ورنہ تو ایسے ایسے گندے مسائل موجود تھے۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر فقہ حنفی کے ان مسائل کو نہیں چھیڑا کیونکہ میرا مقصد کسی کو شکست دینا نہیں، بلکہ دعوت فکر دینا ہے تا کہ ہم سب محمدی بن جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستہ حق پر چل کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خالص قرآن و حدیث پر عمل کر کے کامیابی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین۔