تقلید کیا ہے؟ اور کیا یہ شرک ہے؟ قران و حدیث کی روشنی میں
حفیظ الرحمان قادری صاحب فرماتے ہیں کہ کیا تقلید شرک ہے؟ شریعت کے احکامات میں ہم امام اعظم رحمہ اللہ کے مقلد ہیں۔ اس طرح کوئی تقلید میں شافعی ہے، کوئی مالکی ہے اور کوئی حنبلی ہے۔ ان آئمہ اربعہ یعنی چاروں اماموں کے پیروکار اہل سنت و جماعت کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد اس تقلید کو شرک قرار دیتے ہیں۔ (شرک کیا ہے، صفحہ 44)
الجواب:
محترم قادری صاحب! یہ مسئلہ ہم سے پوچھنے سے پہلے اگر آپ اپنے پیر سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ سے پوچھ لیتے تو اہل توحید سے سوال کرنے کی زحمت نہ ہوتی۔ چنانچہ وہ اہل توحید اور اہل تقلید میں فرق یوں بیان کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ اہل توحید صاحب عنایت اور تحقیق ہوتے ہیں۔
اور اہل تقلید صاحب دنیا، اہل شکایت اور مشرک ہوتے ہیں۔ (توفیق الہدایت، صفحہ 167)
پیر صاحب مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ ”کلید اور تقلید میں فرق“ کہتے ہیں۔ کلید سراسر جمعیت ہے اور تقلید جمیعتی اور پریشانی ہے، بلکہ اہل تقلید جاہل اور حیوان سے بھی برتر ہوتے ہیں۔ (توفیق الہدایت، صفحہ 20)
تقلید پر مزید بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تقلید کی تعریف بیان کی جائے تا کہ ہر عام و خاص پر واضح ہو جائے کہ تقلید کسے کہتے ہیں اور اس لفظ کے معنی کیا ہیں۔
التقليد العمل بقول الغير من غير حجة
(مسلم الثبوت نفسی، صفحہ 35، مصری)
بغیر دلیل کے کسی کے قول پر عمل کرنا تقلید ہے۔
مختصر ابن حاجب میں ہے:
التقليد العمل بقول غيرك من غير حجة
(مختصر ابن حاجب، مطبوعہ، صفحہ 231)
التقليد اتباع الغير على ظن أنه محق بلا نظر فى الدليل
(نامی شرح حسامی حنفی، صفحہ 190)
غیر نبی کی پیروی کرنا اس گمان سے کہ وہ لائق تر ہے بغیر کسی دلیل کے تقلید ہے۔
بغیر دلیل کے کسی کی رائے پر عمل کرنا تقلید ہے۔ (قول سدید حنفی، مطبوعہ مصر، صفحہ 6 بحوالہ)
(استبصار التقلید، صفحہ 12)
ہم نے تقلید کی تعریف کو حنفی کتب سے ہی پیش کیا تاکہ حنفی بھائی پڑھتے وقت پریشان نہ ہوں۔ اب پیش کرتے ہیں کہ تقلید کے معنی کیا ہیں۔
حفیظ الرحمان قادری خود بیان فرماتے ہیں کہ تقلید کے دو معنی ہیں : ایک لغوی اور دوسرا شرعی۔
لغوی معنی سے مراد ہے اپنے گلے میں ہار یا پٹہ ڈال لینا۔
شرعی معنی میں کسی کے قول و فعل کو اپنے اوپر لازم کر لینا کہ یہ شریعت سے واقف ہیں۔ تقلید کا مفہوم یہ بھی ہے کہ غیر کے قول کو اس کی دلیل کی معرفت کے بغیر اپنانا اور اس پر عمل کرنا۔ (شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت، صفحہ 45)
تقلید کے معنی بیان کرتے ہیں حنفی مفتی اعظم سہارنپور: تقلید کے معنی پٹہ ڈالنا، قربانی کے گلے میں ہوتا ہے یا درخت وغیرہ کی چھال رسی وغیرہ میں ہار بنا کر ڈالنا۔ (معالم الحاج، صفحہ 68)
قارئین کرام! مذکورہ حوالہ جات کی روشنی میں تقلید کی تعریف و معنی آسانی سے آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ کسی غیر نبی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننا تقلید ہے۔ لیکن قرآن مجید اس بات کو قبول نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (سورہ بنی اسرائیل 17:36)
جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کر۔
دوسری آیت مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (سورہ البقرہ 2:111)
کہہ دو اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قرآن کریم ہمیشہ سے اللہ کی اطاعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اتباع سنت سے اعراض کرنے والوں کو عذاب کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی اطاعت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کے فوائد اور سعادتیں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ اتباع رسول کا پہلا فائدہ فرمایا:
إِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا (سورہ النور 24:54)
اگر تم میرے نبی کی اتباع کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔
معلوم ہوا کہ ہدایت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مشروط ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اپنے ہدایت پر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
دوسرا اہم نقطہ:
اللہ تعالیٰ کی محبت اور مغفرت کا راز اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْلَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (سورہ آل عمران 3:31)
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔
دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (سورہ آل عمران 3:32)
کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔ اگر نہ مانیں تو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ اپنی امت سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کی محبت کے حصول کے طلبگار ہو تو میری اتباع و اطاعت کرو اور اللہ نہ صرف تم سے محبت کرے گا بلکہ تمہارے سابقہ گناہوں کو بھی معاف کر دے گا۔ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فوائد ہیں، مگر ہم اپنے مقام پر ذکر کریں گے، ان شاء اللہ۔
اب صرف تقلید کا رد پیش کرتے ہیں قرآن و حدیث سے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (سورہ الأعراف 7:3)
اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والے پیغامات اور احکامات کی پیروی کرو اور اس کو چھوڑ کر اولیاء کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم سمجھتے ہو۔
تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ ما أنزل سے مراد کتاب و سنت ہے اور بس۔ (قرطبی، جلد 7، صفحہ 161)
یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کی موجودگی میں علماء و اولیاء کی آراء کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اس میں تقلید کا واضح رد موجود ہے۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورہ النساء 4:65)
تیرے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ اپنے تمام معاملات و تنازعات میں تمہیں حاکم نہ مانیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کریں۔
ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہی میں مکمل نجات اور ہدایت ہے اور جنت میں داخلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح بخاری)
تو مومنوں کو تقلید کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔
تقلید کا رد کرتے ہوئے رب کائنات فرماتے ہیں:
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورہ البقرہ 2:4-5)
مومن وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان کے ساتھ ساتھ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ صحیح معنوں میں یہی لوگ ہدایت یافتہ اور اصل کامیابی سے ہمکنار ہیں۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں بما أنزل سے مراد قرآن و حدیث ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت و فلاح کو کتاب و سنت کی اتباع پر موقوف کیا ہے۔
جن لوگوں نے زندگی قرآن و سنت کے مطابق نہ گزاری، ان کو آخرت میں بڑا افسوس ہوگا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (سورہ الأحزاب 33:66-67)
جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائے جائیں گے، کہیں گے: اے کاش ہم اللہ کی فرمانبرداری کرتے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے۔ اور کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمیں رستے سے گمراہ کر دیا۔
یہ آیت مبارکہ تقلید کے باطل ہونے پر واضح دلیل ہے اور ثابت ہوا کہ قرآن و حدیث کی تابعداری میں ہی ہدایت کا راز مضمر ہے۔ قرآن و حدیث سے ہٹ کر کسی تیسرے کی تابعداری کا نتیجہ صرف اور صرف گمراہی ہے۔ دینی امور میں اگر یہ مقلد کتاب و سنت کو سمجھتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے تو یہ ہدایت یافتہ ہے، لیکن ایسی صورت میں وہ مقلد نہیں بلکہ متبع قرآن و سنت کہلائے گا۔ اگر قرآن و حدیث کو نہیں سمجھتا تو یہ جاہل ہے۔ اور کسی صورت میں بھی یہ نہیں جانتا کہ مقلد بن کر ہدایت پا رہا ہوں۔ یہ تمام اعتراضات کا جواب ہے جن میں مقلدین حضرات اپنے آپ کو ہدایت یافتہ امام کے تابع بنا کر خود کو اس امام کے بل بوتے پر ہدایت یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ جب دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پورا ہو گیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (سورہ المائدہ 5:3)
آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
اس آیت مبارکہ کو 9 ذی الحجہ 10 ہجری میدان عرفات میں نازل فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تھوڑا وقت دنیا میں رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے جو غرض تھی، یعنی دین اسلام کو مکمل کرنا، جب وہ پوری ہو چکی تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پورا کامل دین اور غیر ناقص دین ہمیں سونپ کر دنیا سے رخصت ہوئے اور امت کو وصیت کر گئے کہ:
قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا كتاب الله وسنة نبيه (رواہ الحاکم، صحیح الترغیب والترہیب للألبانی، جزء اول، رقم الحدیث: 31)
میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔
ایک دوسری حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قال رسول الله إني قد تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي (رواہ الحاکم، صحیح جامع الصغیر، جزء ثالث، رقم الحدیث: 2937)
میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے: ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔
قارئین محترم! دو چیزوں پر دین اسلام کامل اور تمام ہوا۔ اختلاف امت جو آخری زمانے میں ہوگا، اس کا نقشہ کھینچ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت برحق وہ جماعت ہوگی جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ (ترمذی)
پس اس سے معلوم ہوا کہ جو قرآن و حدیث میں ہے وہی شریعت ہے۔
جو آگیا زبان پہ سخن ناز ہوگیا
تل جو پڑا جبیں پر وہ انداز ہو گیا
یہی دو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو عمل کے قابل بتا کر دنیا سے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس یہی دو چیزیں عمل کے لیے تھیں۔ تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کا تعامل بھی انہی دو چیزوں پر رہا۔ خیر القرون والے انہی دو چیزوں کے مطابق اپنا عمل و عقیدہ رکھتے تھے۔ نہ کسی تیسری چیز کی انہیں ضرورت محسوس ہوئی، نہ کوئی تیسری چیز انہوں نے ایجاد کی، اور نہ کوئی تیسری چیز دین میں شامل ہوئی تھی، نہ کوئی تیسری چیز ان دو چیزوں کے مقابلے آسکتی تھی۔ مکمل حجت اور دلیل مستقل صرف یہی دو چیزیں مانی جاتی تھیں۔ اور یہی دو چیزیں اس قابل بھی تھیں۔
کیا واقعی اندھی تقلید مسلمانوں پر واجب ہے؟
بقول مقلدین کہ تقلید مسلمانوں پر واجب ہے۔ کیا چاروں امام رحمہم اللہ مسلمان نہ تھے؟ انہوں نے جن لوگوں سے علم حاصل کیا، ان کی تقلید کیوں نہ کی؟
اگر تقلید کے بغیر انسان پکا مسلمان نہیں بن سکتا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تقلید کے بغیر پکے مومن مسلمان نہ تھے؟ تو پھر رضی اللہ عنہم کا سرٹیفکیٹ کیسے ملا؟
مقلدین حضرات کہتے ہیں کہ تقلید کے بغیر گزارہ نہیں، تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گزارہ ہو گیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان دو چیزوں پر چل کر کامیاب ہوئے۔ تو اگر آج کوئی چاروں مذاہب کے بغیر قرآن و سنت پر عمل کرے تو وہ شخص ناکام کیوں ہوگا؟
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی رضی اللہ عنہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی نہیں تھا، پھر بھی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
کیا واقعی فقہ کے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے؟
لوگ کہتے ہیں کہ فقہ کے بغیر مسائل حل نہیں ہوتے، اس لیے فقہ پر چلنا ضروری ہے۔
تو عرض ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مسائل فقہ حنفی کے بغیر قرآن و حدیث سے حل ہو گئے، تو کیا ہمارے مسائل ان سے بھی زیادہ ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، حج کرتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے۔ ان کے مسائل کہاں سے حل ہوتے تھے؟
اگر مقلد ہونا کوئی بری بات ہے تو بتائیں، یہ چاروں امام رحمہم اللہ بھی تو غیر مقلد تھے۔ جس طرح آج کل لوگ کہتے ہیں کہ غیر مقلد گمراہ ہیں، تو تم جس امام کی تقلید کرتے ہو وہ بھی تو غیر مقلد ہے۔ اگر امام ہی گمراہ ہوگا تو اس کے پیچھے چلنے والے کیسے راہ راست پر ہوں گے؟ مذاہب اربعہ و آئمہ اربعہ رحمہم اللہ کا ثبوت نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث میں، نہ اس کی ضرورت تھی، نہ ہے۔ اور مذاہب اربعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نہ تھے۔ ایک دین کی بجائے چار بنانے کی کیا حاجت ہے؟ دین تو مکمل ہو چکا، تو پھر مذاہب اربعہ کو قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارا دین اسلام ہے اور ہم مسلمان ہیں، پھر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کہلانے کی ضرورت کیا ہے جس کو ہم نے اپنے اوپر لازم کر لیا؟ اگر کسی کے ساتھ نسبت کرنا ہی ہے تو وہ نسبت ایک ہی ہے جس کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں کہ تم سب محمدی بن جاؤ، تو تمہیں کسی اور نسبت کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، ان شاء اللہ۔ ہم نے حلال و حرام کا اختیار اماموں کو دے دیا جو اللہ کا حق تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ (سورہ التوبہ 9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا۔
یہ آیت اگرچہ یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہ بات بالاتفاق قانون کی حیثیت رکھتی ہے کہ یعنی لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ سبب کے خصوص، شان نزول کا اعتبار ہوتا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ یہود و نصاریٰ والی برائی ہم میں تو نہیں آگئی؟ اس سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مولویوں اور پیروں کو حرام اور حلال کا اختیار دے رکھا تھا۔ ان کے کہنے پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال جانتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ عیسائیت سے تائب ہو کر مشرف بالاسلام ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سورہ التوبہ کی مذکورہ آیت سنی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم نے تو ان کو الٰہ اور معبود نہیں بنایا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جب وہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کہتے، تو تم ان کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا ہی کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تو ان کی عبادت ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، سورہ التوبہ)
کسی کی تقلید کرنا بھی اللہ کا شریک ٹھہرانا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (سورہ الشورىٰ 42:21)
کیا انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دینی قوانین بناتے ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟
کیونکہ فقہ کے گھڑے ہوئے مسائل کی اللہ کی طرف سے کوئی اجازت نہیں، اس لیے اس کا ماننا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ سب کچھ تقلید ہی کا کرشمہ ہے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا تھا:
ہے فقد توحید و سنت امن و راحت کا طریق
فتنہ جنگ و جدل تقلید سے پیدا نہ کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس منہج پر تھے، جو اللہ نے خود بیان فرمایا:
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (سورہ الزخرف 43:43)
پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اس کو مضبوط پکڑے رہو، بیشک تم سیدھے رستے پر ہو۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری شراکت کی نفی کی ہے۔ ایک شراکت وہ جو عبادت میں ہو۔ عبادت کی شراکت قبول نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (سورہ الکھف 18:110)
کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے عبادت میں شراکت کی نفی کی ہے، اسی طرح اپنے نظام قانون اور اپنے امر میں شراکت کو قبول نہیں کیا۔ ارشاد فرمایا:
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (سورہ الکھف 18:26)
اور وہ کسی کو اپنے حکم میں شریک نہیں کرتا۔
کیا واقعی چار مذاہب میں سے کوئی ایک مذہب کا پیروکار ہونا ضروری ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ چار مذاہب میں سے کوئی ایک مذہب کا پیروکار ہونا ضروری ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار لکیریں کھینچ کر مسئلہ حق سمجھا دیا، صراط مستقیم کی نشاندہی فرما دی:
عن جابر بن عبدالله قال كنا عند النبى صلى الله عليه وسلم فخط خطا وخط خطين عن يمينه وخط خطين عن يساره ثم وضع يده فى الخط الأوسط فقال هذا سبيل الله ثم تلا هذه الآية، وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق عن سبيله (ابن ماجہ، باب اتباع سنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 11)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور اس کی دائیں جانب دو لکیریں اور بائیں جانب دو لکیریں کھینچیں اور پھر درمیان کی سیدھی لکیر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ (سورہ الأنعام 6:153)
یہی میرا سیدھا راستہ ہے، اس پر چلو اور ادھر اُدھر کی راہوں پر نہ چلو، ورنہ تم راہ راست سے بھٹک جاؤ گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جب چاروں امام رحمہم اللہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے تو اس سے پہلے کیا زمین پر اللہ کا دین موجود نہ تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کس دین پر تھے کیونکہ یہ امام رحمہم اللہ تو بہت بعد میں پیدا ہوئے:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ 80 ہجری میں پیدا ہوئے۔
امام مالک رحمہ اللہ 90 یا 93 ہجری میں پیدا ہوئے۔
امام شافعی رحمہ اللہ 150 ہجری میں پیدا ہوئے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 164 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ہر مسلک والا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم پہلے، تم بعد کی پیداوار ہو، مگر میں کہتا ہوں کہ باپ سے پہلے بیٹا نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
معلوم یہ ہوا کہ 80 ہجری سے پہلے حنفی مذہب نام کا کوئی مسلک زمین پر موجود نہ تھا۔
اس سے پہلے حنفی مقلد نامی کوئی مسلمان زمین پر موجود نہ تھا کیونکہ امام پہلے ہوگا پھر تقلید کرنے والے بعد میں آئیں گے۔
93 ہجری سے پہلے مالکی مذہب کا کوئی گروہ موجود نہ تھا۔
150 ہجری سے پہلے شافعی مذہب نام کا کوئی مسلک زمین پر موجود نہ تھا۔
164 ہجری سے پہلے حنبلی مذہب کا کوئی گروہ موجود نہ تھا۔
اگر گروہ موجود تھا تو وہ محمدی گروہ، قرآن و سنت کو ماننے والے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھے۔ اس وقت اللہ کا دین کامل موجود تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دے کر گئے تھے۔
تقلید سے صحابہ نے بھی منع کیا!
تقلید ایک ایسی برائی ہے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی منع کیا ہے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إما العالم فإن اهتدى فلا تقلدوه دينكم
(حلیۃ الأولیاء، جلد 5، صفحہ 97، بسند حسن، قال أبو نعیم الأصبهانی: هو الصحيح)
اگر عالم ہدایت پر بھی ہو، اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لا تقلدوا دينكم الرجال
(السنن الکبریٰ للبیہقی، جلد 2، صفحہ 110، وسندہ صحیح، بحوالہ علمی مقالات، جلد 1، صفحہ 220)
تم اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔
یہی وجہ ہے کہ جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منع کرتے تھے، آج اسی چیز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے والے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہم عقیدہ وہابی منع کرتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی رضی اللہ عنہ مقلد نہ تھا۔ سب متبع سنت تھے۔ مقلدین حضرات حقیقت میں اماموں کی بات بھی نہیں مانتے کیونکہ چاروں اماموں نے تقلید سے منع فرمایا تھا۔
آئمہ اربعہ نے بھی تقلید سے منع کیا!
چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:
حرام على من لم يعرف دليلي أن يفتي بكلامي
(میزان شعرانی، جلد 1، صفحہ 48)
جس کو میرے کہنے کی دلیل معلوم نہ ہو، اس کو میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔
ایک دوسرے مقام پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، پوری عبارت نقل کر دیتا ہوں:
قال أبو حنيفة لا أقلد التابعي لأنهم رجال ونحن رجال ولا يصح تقليده
(طبع یوسفی، صفحہ 219)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: میں تابعی کی تقلید نہیں کرتا کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، اس کی تقلید جائز نہیں۔
ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال أبو حنيفة لا يحل لأحد أن يأخذ بقولي ما لم يعلم من أين قلته ونهى عن التقليد وندب إلى الدليل
(مقدمہ عمدۃ الرعایہ، صفحہ 9، بحوالہ استیصال التقلید، صفحہ 30)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: کسی کو حلال نہیں کہ میرے قول کو لے جب تک یہ نہ جانے کہ میں نے کہاں سے کہا تقلید سے منع کیا۔
قارئین محترم! امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تو واضح اپنے موقف کا اظہار فرما دیا:
اگر کوئی ان کی بات کو نہیں مانتا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ انہوں نے اظہار حق فرما دیا اپنا فریضہ ادا کر دیا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان الإمام مالك يقول ما من أحد إلا ومأخوذ من كلامه ومردود عليه إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم
(میزان شعرانی، جلد 1، صفحہ 48، بحوالہ استیصال التقلید، صفحہ 31)
امام مالک رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ کوئی وجود ایسا نہیں جس کا ہر کلام قابل عمل ہو سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا:
قال الشافعي إذا قلت قولا وكان النبى صلى الله عليه وسلم قال خلاف قولي فما يصح من النبى صلى الله عليه وسلم أولى فلا تقلدوني
(عقد الجید، صفحہ 45)
امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: جب میں کوئی مسئلہ بتاؤں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد میرے قول کے خلاف ہو تو جو مسئلہ صحیح حدیث سے ثابت ہو، وہی زیادہ تر لائق ہے، میری تقلید مت کرو۔ پھر فرمایا جب صحیح حدیث مل جائے پس وہی میرا مذہب ہے میرا کلام حدیث کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کرو اور میرے کلام کو دیوار پر دے مارو میری تقلید مت کرو۔
فقد صح عن الشافعي أنه نهى عن تقليده وتقليد غيره
(عقد الجید، صفحہ 45)
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تقلید اور غیر کی تقلید سے منع فرمایا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان الإمام أحمد يقول ليس لأحد مع الله ورسوله كلام فلا تقلدوني ولا تقلدوا مالكا ولا الأوزاعي ولا النخعي وغيرهم
(عقد الجید، صفحہ 52، بحوالہ استیصال التقلید، صفحہ 32)
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے تھے: نہ میری تقلید کرو، نہ مالک رحمہ اللہ کی، نہ اوزاعی رحمہ اللہ کی، نہ نخعی رحمہ اللہ کی، اور نہ کسی اور کی۔ کتاب و سنت سے احکام لو جہاں سے انہوں نے لیے۔
غور فرمائیں کہ چاروں امام رحمہم اللہ تو تقلید سے منع فرماتے ہیں، مگر ان کے مقلدین نافرمانی کرتے ہیں۔ تقلید کو واجب فرض بتاتے ہیں اور دعویٰ یہ کہ ہم چاروں اماموں کی بات مانتے ہیں، کیونکہ چاروں اماموں کا مذہب مقلدین حضرات سے الگ ہے کہ وہ تو سب غیر مقلد تھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
یہ آئی کون سی منزل نہ ساحل ہے نہ دریا
شناور بحر غم کا اب کہاں ڈوبے کہاں نکلے
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ چوتھی صدی والے بھی کسی شخص خاص کی تقلید پر مجمع نہیں تھے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، صفحہ 22)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (سورہ محمد 47:33)
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور (اس سے ہٹ کر) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ جو اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کیے جائیں گے، وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں اور جو اس سے ہٹ کر کیے جائیں گے، وہ سب مردود ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ تقلید میں بری طرح گرفتار نظر آتے ہیں اور چھوڑنے کو بھی تیار نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ بات آج کی نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی بات ہے۔ قرآن مجید نے اس نظریے کو جا بجا بیان کیا ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (سورہ البقرہ 2:170)
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے اتارا ہے اس پر چلو، تو جواب دیتے ہیں: نہیں جی، ہم تو اسی طریقے پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا، بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے راستے پر ہوں۔
دوسرے مقام پر فرمایا: جب ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی طرف دعوت دی تو انہوں نے یہی جواب دیا:
وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ (سورہ الأنبیاء 21:53)
ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پرستش کرتے ہوئے پایا۔
اس کے جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (سورہ الأنبیاء 21:54)
تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہیں۔
ایک اور مقام پر ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے: ہم تیری تبلیغ سے اپنے آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے، ہم وہی کریں گے جو وہ کرتے تھے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ (سورہ لقمان 31:21)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا، بھلا اگرچہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔
ایک اور مقام پر دعوت الی اللہ کے جواب میں کہتے ہیں:
حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا (سورہ المائدہ 5:104)
جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، وہی ہمیں کافی ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو اللہ کے دین کی طرف بلایا، دلائل پیش کیے، تو قوم نے جواب دیا:
قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا (سورہ الأعراف 7:70)
وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں، ان کو چھوڑ دیں۔
کچھ اور گمراہ مشرکوں نے کہا:
قالوا إنا وجدنا آباءنا علىٰ أمة وإنا علىٰ آثارهم مهتدون (سورہ الزخرف 43:22)
کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔
یہ ایک روش ہے کہ یہ نہیں دیکھنا کہ آباء کے عقائد و اعمال درست تھے یا غلط تھے، تحقیق نہ کرنا، اندھا دھند آباء کی راہ پر چلنا بغیر دلیل کے، یہی تو تقلید ہے، بغیر دلیل کے بڑوں کی بات دینی مسائل میں ماننا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی امتوں کے سامنے دلائل پیش کرتے تھے، علم و عرفان کے دریا بہاتے تھے، لیکن ان کی امتیں بغیر دلیل کے اپنے بڑوں کی بات مانتی تھیں، گویا کہ تمام امتوں کے گمراہ لوگوں کا یہی عقیدہ تھا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ (سورہ الزخرف : 23)
اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کسی بستی میں کوئی ہدایت کرنے والا نہیں بھیجا، مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم قدم بقدم ان ہی کے پیچھے چلتے ہیں۔
جب انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں سے پوچھتے کہ تم جہالت کے کام کیوں کرتے ہو، تو وہ آگے سے جواب دیتے:
بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ (سورہ الشعراء 26:74)
انہوں نے کہا: بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا تھا:
اگر تقلید بودہ شیوه خوب
پیغمبر ہم رہ اجداد رفتے
ترجمہ: اگر تقلید اچھا طریقہ ہوتا تو رسول اپنے آباؤ اجداد کے راستے پر چلتے۔