تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

ہ مضمون اس اصول کو دلائل کے ساتھ واضح کرتا ہے کہ دین میں تقلیدِ شخصی لازم نہیں؛ یعنی کسی ایک عالم/امام کی رائے کو دلیلِ شرعی کے قائم مقام بنا کر ہر حال میں اسی کی پیروی کرنا جائز نہیں۔ ہم دکھائیں گے کہ: (1) نبی ﷺ کی مرفوع احادیث میں عالم کی لغزش کے وقت دین کو شخصی پیروی پر نہ لٹکانے کی صریح ہدایت ہے، (2) صحابہ کرامؓ کے موقوف آثار اسی منہج کی تائید کرتے ہیں، (3) سنداً یہ روایات قابلِ احتجاج ہیں (رواتِ حدیث کی توثیقات کے ساتھ)، اور (4) نتیجتاً حق کا معیار کتاب و سنّت کی دلیل ہے، اشخاص نہیں؛ “جو بات دلیل سے پہچانو اسے لے لو، جو نہ پہچانو اسے اہلِ علم کی طرف لوٹاؤ” — یہی منہجِ اہلِ سنّت ہے، اور تقلیدِ شخصی اس کے خلاف ہے۔

تقلیدِ شخصی کا رد: نبی ﷺ کی مرفوع حدیث سے

حدیثِ معاذ بن جبلؓ

عربی متن:
«إيَّاكُم وثَلاثةً: زَلَّةَ عالِمٍ، وجِدالَ مُنافِقٍ، ودُنْيا تَقطَعُ أَعْناقَكمْ. فأمّا زلّةُ عالِمٍ فإنِ اهْتَدَى فلا تُقَلِّدوه دينَكم، وإن زلَّ فلا تَقَطَّعوا عنهُ آمَالَكم… وأمّا جِدالُ منافقٍ بالقرآن فإنّ للقرآن مَنارًا كمنار الطريق، فما عَرَفْتُم فَخُذُوهُ، وما أنكرتُم فَرُدّوهُ إلى عالمِهِ…»

ترجمہ:
“تین چیزوں سے بچو: عالم کی لغزش، قرآن کے ساتھ منافق کا جدال اور ایسی دنیا جو تمہاری گردنیں کاٹ دے۔ عالم کی لغزش کے بارے میں (یہ اصول رکھو کہ) اگر وہ ہدایت پر ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو، اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے امیدیں منقطع نہ کرو… اور منافق کے قرآنی جدال کے بارے میں (جان لو کہ) قرآن کے واضح منارے ہیں؛ جو بات پہچانو اسے لے لو اور جسے نہ پہچانو اسے اس کے اہلِ علم کی طرف لوٹاؤ…”

حوالہ: المعجم الأوسط للطبرانی (8714–8715)؛ الحاکم: المستدرک “صحیح علی شرط مسلم” (وذَكَر له شواہد)؛ الذہبی: التلخیص میں متابع۔

سند کا خلاصہ:

المطلب بن شعیب الأزدی — ثقة (ابن الجوزی، ابن حجر)؛
عبدالله بن صالح کاتب اللیث — حسن الحدیث، غیر متَّهم” (ابن حجر، أبو زُرعہ)؛
اللیث بن سعد — ثقة ثبت؛
یحییٰ بن سعید الأنصاری — لا يروي إلا عن ثقة؛
أبو حازم سلمہ بن دینار — ثقة تابعی؛
عمرو بن مُرّة الجہنی — صحابی؛ معاذؓ — صحابی۔

نکتۂ استدلال:

اس نص میں فلا تُقَلِّدوه دينَكم اور “فما عَرَفتم فخذوه” جیسے الفاظ تقلیدِ شخصی کی نفی اور دلیلِ وحی کی پیروی کا واضح اصول دیتے ہیں: حق نص سے پہچانا جائے، شخص سے نہیں۔

حدیثِ معاذ بن جبلؓ دوسری سند کے ساتھ

یہی حدیث ایک دوسری، مضبوط اور متصل سند کے ساتھ امام ہبۃ اللہ بن الحسن اللالکائیؒ (متوفی 418ھ) نے اپنی کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں روایت کی ہے۔

عربی متن:

«إِيَّاكُمْ وَثَلَاثَةً: زَلَّةَ عَالِمٍ، وَجِدَالَ الْمُنَافِقِ بِالْقُرْآنِ، وَدُنْيَا تُقَطِّعُ أَعْنَاقَكُمْ، فَأَمَّا زَلَّةُ الْعَالِمِ فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ، وَإِنْ زَلَّ فَلَا تَقْطَعُوا عَنْهُ أَنَاتَكُمْ، وَأَمَّا جِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ لِلْقُرْآنِ مَنَارًا كَمَنَارِ الطَّرِيقِ، فَمَا عَرَفْتُمْ فَخُذُوهُ، وَمَا أَنْكَرْتُمْ فَرُدُّوهُ إِلَى عَالِمِهِ، وَأَمَّا الدُّنْيَا فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ فِي قَلْبِهِ الْغِنَى فَهُوَ الْغَنِيُّ.»

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، رقم 183)

ترجمہ:
“تین چیزوں سے بچو: عالم کی لغزش، قرآن کے ساتھ منافق کا جھگڑا اور دنیا جو تمہاری گردنیں کاٹ ڈالتی ہے۔ عالم کی لغزش کے بارے میں (یہ اصول رکھو کہ) اگر وہ ہدایت پر ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو، اور اگر وہ خطا کر جائے تو اس سے امیدیں منقطع نہ کرو۔ جہاں تک منافق کا قرآن سے جھگڑنا ہے تو (یاد رکھو) قرآن کے منارے راستے کے نشانات کی مانند ہیں، جو بات تمہیں پہچان میں آئے اسے لے لو، اور جو سمجھ میں نہ آئے اسے اہلِ علم کے پاس لوٹا دو۔ اور دنیا کے بارے میں فرمایا: جس کے دل میں اللہ نے قناعت پیدا کردی، وہی دراصل غنی ہے۔”

سند و ثقاہت

سلسلۂ سند:
ھبۃ اللہ بن الحسن اللالکائی (ثقة محدث) → جعفر بن عبد اللہ بن یعقوب الفناکی (صدوق حسن الحدیث) → محمد بن ہارون الرویانی (حافظ ثقة) → احمد بن عبدالرحمن بن وہب (صدوق) → عبد اللہ بن وہب (ثقة حافظ) → اللیث بن سعد (إمام فقیہ ثبت) → یحییٰ بن سعید (ثقة ثبت) → خالد بن ابی عمران (صدوق حسن الحدیث) → ابو حازم سلمہ بن دینار (ثقة) → عمرو بن مرۃ الجہنی (صحابی) → معاذ بن جبلؓ (صحابی)۔

حکم:

تمام راوی ثقہ یا صدوق درجے کے ہیں، اور امام ابویعلی الخلیلیؒ نے جعفر بن یعقوب کے بارے میں کہا:

"موصوف بالعدالة وحسن الديانة.” (الارشاد، ص 297)

اس لئے یہ روایت صحیح الاسناد ہے، اور روایتِ طبرانی کی قوی شاہد (مؤیِّد) ہے۔

وضاحت و مفہوم

رسول اللہ ﷺ نے یہاں تین بڑے فتنوں سے خبردار فرمایا:

  1. زَلَّةُ عَالِمٍ (عالم کی لغزش): یعنی جب کوئی عالم یا امام کسی اجتہاد یا فہم میں غلطی کر بیٹھے تو امت کے لئے لازم نہیں کہ وہ اس کی اندھی تقلید کرے۔ فرمایا:

    "فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ”
    یعنی اپنے دین کو کسی عالم کی لغزش کے ساتھ وابستہ نہ کرو۔
    ✅ اس سے معلوم ہوا کہ شخصی تقلید (blind following) شریعت میں ناجائز ہے، کیونکہ دین دلیل سے سمجھا جاتا ہے، شخصیت سے نہیں۔

  2. جِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْقُرْآنِ: یعنی منافقین قرآن کے الفاظ سے جھگڑتے ہیں اور بات کو دلیل کی بجائے خواہش پر موڑ دیتے ہیں۔ اس فتنہ سے بچنے کا حل خود نبی ﷺ نے بتایا:

    "فَمَا عَرَفْتُمْ فَخُذُوهُ، وَمَا أَنْكَرْتُمْ فَرُدُّوهُ إِلَى عَالِمِهِ”
    یعنی جو چیز تمہیں قرآن و سنت کے واضح دلائل سے معلوم ہو، اسے اختیار کرو، اور جو سمجھ نہ آئے، اسے اہلِ علم کے پاس لوٹاؤ۔

  3. دُنْيَا تُقَطِّعُ أَعْنَاقَكُمْ: دنیا کی محبت ایسی آفت ہے جو انسان کو حق کی طلب سے ہٹا دیتی ہے۔

تقلیدِ شخصی کا رد — صحابہ کرامؓ کے موقوف آثار

نبی ﷺ کی مرفوع ہدایت کے بعد اسی مضمون پر صحابہ کرامؓ کے موقوف اقوال بھی واضح اور صریح ہیں۔ ان آثار میں یہ اصول سکھایا گیا ہے کہ دین میں تقلید نہیں، دلیل کی پیروی ہے۔ ان میں خاص طور پر حضرت سلمان فارسیؓ، معاذ بن جبلؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کے اقوال نہایت صاف الفاظ میں تقلید کے رد پر دلالت کرتے ہیں۔

➊ حضرت سلمان فارسیؓ کا موقوف اثر

عربی متن:
«كَيْفَ أَنْتُمْ عِنْدَ ثَلَاثٍ؟ زَلَّةِ عَالِمٍ، وَجِدَالِ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ، وَدُنْيَا تَقْطَعُ أَعْنَاقَكُمْ. فَأَمَّا زَلَّةُ الْعَالِمِ فَإِنِ اهْتَدَى فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ، وَأَمَّا مُجَادَلَةُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ لِلْقُرْآنِ مَنَارًا كَمَنَارِ الطَّرِيقِ…»
(جامع بیان العلم وفضله لابن عبد البر، رقم 1873)

ترجمہ:
سلمان فارسیؓ نے فرمایا:
“تم تین فتنوں کے وقت کیا کرو گے؟ عالم کی لغزش، قرآن کے ساتھ منافق کا جھگڑا، اور دنیا کی محبت۔ جہاں تک عالم کی لغزش کا تعلق ہے، اگر وہ ہدایت پر ہو تب بھی اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔ اور جب منافق قرآن سے جھگڑتا ہے تو (یاد رکھو) قرآن کے منارے راستے کے نشانات کی طرح ہیں (جنہیں دلیل کے ذریعے پہچانو)۔”

سند:

تمام رواۃ ثقہ؛ امام ابن عبد البر نے تصریح کی: إسنادُه رجالُه ثقاتٌ معروفون.

وضاحت:

یہ اثر عین اسی مفہوم کا حامل ہے جو نبی ﷺ کی مرفوع حدیث میں آیا۔ یہاں بھی سلمان فارسیؓ نے فرمایا:

"فَإِنِ اهْتَدَى فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ”
یعنی اگر عالم ہدایت پر بھی ہو، تو اپنے دین کو محض اس کی پیروی پر قائم نہ کرو۔

یہ اصول واضح کرتا ہے کہ حق کا معیار شخص نہیں، بلکہ دلیل ہے۔

➋ حضرت معاذ بن جبلؓ کا موقوف اثر

عربی متن:
«كَيْفَ أَنْتُمْ بِثَلَاثٍ؟ بِزَلَّةِ عَالِمٍ، وَجِدَالِ الْمُنَافِقِ بِالْقُرْآنِ، وَدُنْيَا تَقْطَعُ أَعْنَاقَكُمْ؟ فَأَمَّا زَلَّةُ الْعَالِمِ فَإِنِ اهْتَدَى فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ، وَإِنِ افْتُتِنَ فَلَا تَقْطَعُوا عَنْهُ أَنْاتَكُمْ…»

(الزهد لأبي داود، رقم 183)

ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبلؓ نے فرمایا:
“تین چیزوں سے بچو: عالم کی لغزش، قرآن کے ساتھ منافق کا جھگڑا، اور دنیا جو تمہیں ہلاک کر دے۔ جہاں تک عالم کی لغزش ہے، اگر وہ ہدایت پر ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو، اور اگر وہ فتنہ میں پڑ جائے تو اس سے امید نہ توڑو۔”

حکم:

امام دارقطنیؒ نے فرمایا: “الموقوف هو الصحيح.” یعنی موقوف روایت ہی صحیح ہے۔

ابو نعیم اصفہانیؒ نے بھی حلیة الأولیاء میں نقل کر کے لکھا: “كَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ مَوْقُوفًا وَهُوَ الصَّحِيحُ.”

وضاحت:

یہ اثر اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ خود معاذ بن جبلؓ (جو فقہائے صحابہ میں سے تھے) تقلیدِ شخصی کے مخالف تھے۔ انہوں نے صاف فرمایا کہ اگر عالم کی بات دلیلِ شرعی سے ٹکرا جائے تو اس کی اندھی پیروی نہ کرو۔

➌ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا موقوف اثر

عربی متن:
«لَا تُقَلِّدُوا دِينَكُمُ الرِّجَالَ، فَإِنْ أَبَيْتُمْ فَبِالْأَمْوَاتِ لَا بِالْأَحْيَاءِ.»
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لالکائی 1/131)

ترجمہ:
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:
“اپنے دین میں مردوں (یعنی علماء) کی تقلید نہ کرو۔ اور اگر تقلید ہی کرنی ہو تو زندوں کی نہیں، مردوں کی کرو (کیونکہ زندہ انسان لغزش میں مبتلا ہو سکتا ہے)۔”

سند:

تمام راوی ثقہ؛ ازہری محدثین (ابن ابی حاتم، ابو زرعہ، ابو حاتم، عجلی، ابن حجر) نے رجال کی توثیق کی۔

وضاحت:

یہ اثر نہایت گہرا پیغام رکھتا ہے — ابن مسعودؓ نے تقلیدِ شخصی کے بجائے دلیل پر قائم رہنے کی تعلیم دی۔ فرمایا: زندہ انسان کا قول بدل سکتا ہے، اس لیے دین کو صرف قرآن و سنت کے ساتھ وابستہ رکھو۔

خلاصۂ

  1. سلمان فارسیؓ، معاذ بن جبلؓ اور ابن مسعودؓ کے یہ اقوال تقلیدِ شخصی کے رد میں نہایت واضح ہیں۔

  2. ان سب میں مشترک جملہ ہے: “فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ” یعنی "اپنے دین میں کسی کی تقلید نہ کرو”۔

  3. یہ اقوال نہ صرف نظری بلکہ عملی منہجِ صحابہؓ کی نمائندگی کرتے ہیں — وہ شخص کے نہیں، دلیل کے پابند تھے۔

  4. تقلیدِ شخصی کے مقابلے میں صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ قرآن و سنت کو میزان بنایا۔

تقلیدِ شخصی کا رد — تابعین، ائمہ و محدثین کے اقوال

نبی ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین اور ائمہ سلف نے بھی اسی منہج کو اپنایا کہ دلیل کی پیروی کی جائے، نہ کہ شخص کی۔ ان کے اقوال میں بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ عالم یا امام معصوم نہیں، اگر ان کی بات دلیل کے خلاف ہو تو اسے رد کر دیا جائے۔ یہی اصل اہلِ حدیث کا منہج ہے۔

➊ امام سعید بن المسیبؒ (تابعی کبیر)

انہوں نے فرمایا:

“ما أحدٌ إلا يؤخذ من قوله ويُترك، إلا النبي ﷺ.”

(جامع بيان العلم 2/32)

ترجمہ: “ہر شخص کی بات لی جا سکتی ہے اور چھوڑ بھی دی جا سکتی ہے، سوائے نبی ﷺ کے۔”
یعنی دین میں کسی امام یا عالم کی بات حتمی نہیں، فیصلہ صرف نبی ﷺ کی سنت کے مطابق ہوگا۔

➋ امام حسن بصریؒ

انہوں نے کہا:

“اتبعوا من مات، فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة.”

(الإبانة لابن بطة 2/557)

ترجمہ: “ان لوگوں کی پیروی کرو جو وفات پا چکے، کیونکہ زندہ شخص کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔”
یہی مفہوم ابن مسعودؓ کے اثر میں بھی آیا، یعنی زندہ شخص کو معیار نہ بناؤ، دلیل کو بناؤ۔

➌ امام ابراہیم النخعیؒ

انہوں نے فرمایا:

“كانوا إذا بلغهم عن رجلٍ شيءٌ، سألوا: ما دليله؟”
(جامع بيان العلم 2/78)
ترجمہ: “تابعین جب کسی شخص کا قول سنتے تو فوراً پوچھتے: اس کی دلیل کیا ہے؟”
یہی اصل منہجِ تحقیق ہے — قول نہیں، دلیل۔

➍ امام مالک بن انسؒ

انہوں نے فرمایا:

“إنما أنا بشر، أخطئ وأصيب، فانظروا في قولي، فما وافق الكتاب والسنة فخذوه، وما خالف فاضربوا به عرض الحائط.”
(الاعتصام للشاطبي 2/302)
ترجمہ: “میں بھی ایک انسان ہوں، کبھی درست کہتا ہوں کبھی غلط، میرے قول کو پرکھو — جو کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ لے لو، جو ان کے خلاف ہو اسے دیوار پر دے مارو۔”

➎ امام ابو حنیفہؒ

خود انہوں نے فرمایا:

“إذا صح الحديث فهو مذهبي.”

(الانتقاء لابن عبد البر، ص 145)

ترجمہ: “جب صحیح حدیث آ جائے تو وہی میرا مذہب ہے (میری رائے نہیں)۔”
ایک اور جگہ فرمایا:
“لا يحل لأحدٍ أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه.”
(الانتقاء، ص 145)
ترجمہ: “کسی کے لئے جائز نہیں کہ میرا قول لے جب تک یہ نہ جان لے کہ میں نے اسے کس دلیل سے کہا۔”

➏ امام شافعیؒ

انہوں نے فرمایا:

“كل ما قلتُ فكان عن النبي ﷺ خلاف قولي، فما قاله النبي ﷺ فهو أولى.”
(سير أعلام النبلاء 10/29)
ترجمہ: “میں نے جو بھی بات کہی، اگر نبی ﷺ سے اس کے خلاف روایت موجود ہے، تو میری بات چھوڑ دو اور نبی ﷺ کی بات کو اختیار کرو۔”

➐ امام احمد بن حنبلؒ

انہوں نے فرمایا:

“لا تقلدني، ولا تقلد مالكاً، ولا الشافعي، ولا الأوزاعي، ولا الثوري، وخذ من حيث أخذوا.”
(إعلام الموقعين 2/302)
ترجمہ: “میری تقلید نہ کرو، نہ مالکؒ، شافعیؒ، اوزاعیؒ یا ثوریؒ کی۔ اسی جگہ سے علم لو جہاں سے ہم نے لیا — یعنی قرآن و سنت۔”

خلاصۂ

  1. تمام تابعین، ائمہ اور محدثین نے ایک ہی بات کہی: قولِ امام دلیل نہیں بن سکتا جب تک وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو۔

  2. تقلیدِ شخصی کی نفی خود ائمہ نے کی اور اپنی رائے کو رد کرنے کی اجازت دی۔

  3. یہ اصول واضح کرتا ہے کہ اسلام کا اصل ماخذ وحی ہے، نہ کہ اشخاص۔

  4. لہٰذا جو شخص دلیلِ شرعی کے مقابلے میں کسی امام یا بزرگ کی بات کو مقدم کرے، وہ اسی منہج کے خلاف جاتا ہے جسے خود ائمہ نے قائم کیا۔

محدثین اور متأخرین علماء کی توضیحات — ائمہ کے منہجِ غیر تقلیدی کی تائید

نبی ﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ و تابعین کے موقوف اقوال اور ائمہ مجتہدین کے بیانات کے بعد ائمہ محدثین اور علمائے محققین نے بھی واضح الفاظ میں تقلیدِ شخصی کو باطل قرار دیا اور امت کو قرآن و سنت کی پیروی کا حکم دیا۔

➊ امام ابن عبدالبرؒ (463ھ)

انہوں نے فرمایا:

“أجمع الناس على أن المقلد ليس من أهل العلم، وأن العلم هو معرفة الحق بدليله.”
(جامع بيان العلم وفضله 2/119)
ترجمہ:
تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مقلد اہلِ علم میں سے نہیں، اور علم وہ ہے جو دلیل کے ساتھ حق کو پہچانے۔
یعنی جو بغیر دلیل کے محض اقوال کی پیروی کرتا ہے، وہ “اہل علم” نہیں کہلا سکتا۔

➋ امام ابن قیمؒ (751ھ)

انہوں نے تقلید کے بارے میں فرمایا:

“التقليد في الدين محرم لا يجوز، لأنه قول بلا علم.”
(إعلام الموقعين 2/301)
ترجمہ:
دین میں تقلید حرام ہے، کیونکہ یہ بلا علم بات کہنا ہے۔
اور فرمایا:
“كل إمام يُؤخذ من قوله ويُترك إلا رسول الله ﷺ.”
(إعلام الموقعين 2/309)

ترجمہ:
ہر امام کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑ بھی دی جا سکتی ہے، سوائے نبی ﷺ کے۔

➌ امام شاطبیؒ (790ھ)

انہوں نے تقلید کے بارے میں کہا:

“التقليد إنما يكون فيمن لم يظهر له الدليل، أما من قامت عليه الحجة فلا يقلد.”
(الاعتصام 2/296)
ترجمہ:
تقلید صرف اس کے لیے ہے جس پر دلیل واضح نہ ہوئی ہو، لیکن جس پر حجت قائم ہو جائے، اس کے لیے تقلید جائز نہیں۔

➍ امام ابن تیمیہؒ (728ھ)

انہوں نے فرمایا:

“من قلد شخصاً دون نظر في الدليل فهو مخطئ جاهل، ومن اتبع الدليل فهو المحق.”
(مجموع الفتاوى 20/211)
ترجمہ:
جو شخص کسی کو بغیر دلیل کے مانے، وہ غلط کار اور جاہل ہے، اور جو دلیل کی پیروی کرے، وہی حق پر ہے۔

➎ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (852ھ)

انہوں نے اصولِ تحقیق میں فرمایا:

“المقلد لا يقال له فقيه، لأنه لا يعرف علّة الحكم ولا مأخذه.”
(النكت على ابن الصلاح 2/321)
ترجمہ:
مقلد فقیہ نہیں کہلا سکتا، کیونکہ وہ حکم کی علت اور اس کی بنیاد کو نہیں جانتا۔

➏ امام شوکانیؒ (1250ھ)

انہوں نے “ارشاد الفحول” میں فرمایا:

“التقليد في الشريعة لا أصل له، بل الواجب على المسلم اتباع الدليل.”
(ارشاد الفحول، ص 256)
ترجمہ:
شریعت میں تقلید کی کوئی اصل نہیں، بلکہ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ دلیل کی اتباع کرے۔

➐ علامہ ناصر الدین البانیؒ (رحمہ اللہ)

اپنے آخری موقف میں فرمایا:

“التقليد الذي يُحجر على الناس من النظر في الكتاب والسنة بدعة محدثة.”
(سلسلة الهدى والنور، شريط 724)
ترجمہ:
وہ تقلید جو لوگوں کو قرآن و سنت کے غور و فکر سے روکے، بدعتِ محدثہ ہے۔

خلاصۂ

  1. ائمہ محدثین (ابن عبدالبر، ابن قیم، ابن تیمیہ، شاطبی، شوکانی، ابن حجر، البانی) سب اس بات پر متفق ہیں کہ تقلیدِ شخصی قرآن و سنت کے منافی ہے۔

  2. علم وہی ہے جو دلیل سے پہچانا جائے، نہ کہ شخصیت سے۔

  3. نبی ﷺ معصوم ہیں، باقی تمام ائمہ اجتہاد میں قابلِ خطا ہیں۔

  4. امت کو حکم یہی ہے کہ دلیل کو معیار بنائے — کیونکہ حجت اللہ کی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت ہے، نہ کہ کسی انسان کا قول۔

نتائجِ تحقیق

اس پوری تحقیق سے یہ حقیقت نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ تقلیدِ شخصی — یعنی دین کو ایک مخصوص امام یا عالم کی رائے پر محصور کر دینا اور اس کی ہر بات کو حجتِ شرعی سمجھ لینا — نہ قرآن و سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ و تابعین کے منہج سے۔

  1. نبی کریم ﷺ کی مرفوع احادیث میں واضح حکم دیا گیا کہ عالم کی لغزش کے وقت اپنے دین کو اس کے ساتھ وابستہ نہ کرو؛ “فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ” — دین دلیل پر قائم ہوتا ہے، شخصیت پر نہیں۔

  2. صحابہ کرامؓ جیسے سلمان فارسیؓ، معاذ بن جبلؓ، اور عبداللہ بن مسعودؓ نے صاف فرمایا:
    لا تُقَلِّدُوا دِينَكُمُ الرِّجَالَ” — اپنے دین میں مردوں (علماء) کی تقلید نہ کرو۔
    یہ منہجِ نبوی کی عملی تصویر ہے۔

  3. تابعین و ائمہ مجتہدین (سعید بن المسیبؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام احمدؒ) سب نے خود تقلید سے روکا اور فرمایا:
    “جب صحیح حدیث آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔”
    “میری بات کو کتاب و سنت پر پرکھو، جو موافق ہو لے لو، جو مخالف ہو چھوڑ دو۔”

  4. ائمہ محدثین و محققین (ابن عبدالبرؒ، ابن قیمؒ، ابن تیمیہؒ، شوکانیؒ، البانیؒ وغیرہ) نے اجماع کیا کہ تقلید بلا دلیل جائز نہیں۔
    دلیل ہی اصل معیارِ حق ہے، نہ کہ امام کی ذات۔

  5. اسلام کی اصل بنیاد “اتباع” ہے، تقلید نہیں۔
    اتباع = دلیل کی پیروی،
    تقلید = شخص کی پیروی۔
    اور شریعت میں پیروی صرف نبی ﷺ کی واجب ہے، کسی اور کی نہیں۔

  • تقلیدِ شخصی کا دعویٰ قرآن و سنت، مرفوع احادیث، آثارِ صحابہ، اور اقوالِ ائمہ سب کے خلاف ہے۔

  • اہلِ سنت والجماعت کا اصل منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت دلیل ہیں، ائمہ کا احترام ہے، مگر اطاعت صرف نبی ﷺ کی ہے۔

  • لہٰذا مسلمان کا فرض ہے کہ وہ “فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ” پر عمل کرے — یعنی دلیل کو دیکھے، حق کو پہچانے، اور اسی کی پیروی کرے۔

اہم حوالوں کے سکین

تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 01 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 02 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 03 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 04 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 05 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 06 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 07 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 08 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 09 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 10 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 11 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 12 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 13 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 14 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 15 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 16 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 17 تقلید شخصی کا رد نبیﷺ کی مرفوع احادیث، صحابہ، تابعین اور آئمہ سے – 18

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے