تعویذ کا شرعی حکم: ایک واضح رہنمائی
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

❌ تعویذ لکھنا، لکھوانا، پہننا — سب مطلقاً ناجائز ہے ❌

تعویذ چاہے قرآنی ہو یا غیر قرآنی، لکھنا، لکھوانا، گلے میں لٹکانا، کمر پر باندھنا یا بازو پر باندھنا – یہ سب عمل سراسر ناجائز، حرام اور عقیدے کے لیے تباہ کن ہیں۔

یہ عمل:

◈ 🔥 توحید کی نفی ہے
◈ 🔥 قرآن کی اہانت ہے
◈ 🔥 نبی ﷺ کی سنت کے خلاف ہے
◈ 🔥 اور دین میں بدعت کا دروازہ ہے

📖 قرآن کی تلاوت کے لیے نازل ہوا، لٹکانے کے لیے نہیں!

اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا تاکہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے، اس پر عمل کیا جائے – نہ کہ اسے تہ کر کے، چمڑے یا پلاسٹک میں بند کر کے گلے میں ڈال دیا جائے۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ
"کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے؟”
📚 (سورہ نساء: 82)

قرآن کو لٹکانا – "تدبر” کے خلاف، اور "عمل” سے فرار ہے!

❌ نبی ﷺ نے تعویذ پہننے کو شرک کہا

نبی ﷺ نے صاف الفاظ میں فرمایا:

من تعلق تميمة فقد أشرك
"جس نے تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔”
📚 (مسند احمد، صحیح)

یہ حدیث عموم پر ہے — نہ یہ فرمایا کہ "قرآنی ہو تو جائز ہے”۔
جس عمل کو رسول اللہ ﷺ "شرک” کہیں، اس پر تاویل کرنا دین سے خیانت ہے۔

❌ بدعقیدہ لوگوں نے "قرآنی تعویذ” کے نام پر شرک پھیلایا

یہی نرمی، تاویلیں، اور "اگر نیت ٹھیک ہو تو جائز ہے” جیسے جملے ہی دین کے بگاڑ کا سبب بنے۔
قرآن کو کاغذ پر لکھ کر بند کر کے گلے میں ڈالنا اس کے مقام و مرتبے کی توہین ہے۔

✋ اگر قرآن میں شفا ہے تو وہ تلاوت میں ہے، ایمان میں ہے – نہ کہ کاغذ میں بند کرنے میں۔

🔒 حتمی اور غیر مبہم اصول:

◈ ✅ قرآن پڑھنے کے لیے ہے، نہ کہ تعویذ بنانے کے لیے
◈ ✅ دعا مانگنے کے لیے ہے، نہ کہ بازو پر باندھنے کے لیے
◈ ✅ توحید پر ایمان شفا ہے، تعویذ شرک کی طرف پہلا قدم

📌 خلاصہ:

تعویذ چاہے جیسا بھی ہو — قرآنی یا غیر قرآنی — یہ عمل مطلقاً ناجائز ہے۔
یہ قرآن کے اصل مقصد کے خلاف ہے اور نبی ﷺ کی تعلیمات سے صریح بغاوت ہے۔
جو لوگ ان میں گنجائش نکالتے ہیں، وہ دین کو کمزور کر رہے ہیں اور عوام کو شرک کے دہانے پر لے جا رہے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے