تسعیر اور آفات کی بنا پر نقصان کی معافی کا شرعی حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نرخ مقرر کرنا جائز نہیں اور کسی آفت کی بنا پر ہونے والے نقصان کو معاف کر دینا ضروری ہے
تسعير سے مراد ”کسی چیز کا (نرخ) بھاؤ مقرر کرنا“ ہے اور یہ باب سَعَّرَ يُسَعّرُ (تفعیل) سے مصدر ہے۔
[المنجد: ص/ 374]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ [البقرة: 245]
”اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔ “
➋ حضرت انس بن مالکؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مدینہ منورہ میں اشیا کا بھاؤ چڑھ گیا۔ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اشیا کے نرخ بڑے تیز ہو رہے ہیں آپ ہمارے لیے (ان کے) نرخ مقرر فرما دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، إني لارجو، ان القى ربي وليس احد يطلبني بمظلمة فى دم ولا مال
”نرخ کا تعین کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے وہی ارزاں و سستا کرتا ہے ، وہی گراں کرتا ہے اور روزی دینے والا وہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کوئی شخص تم میں سے مجھ سے خون میں اور مال میں ظلم و نا انصافی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو ۔“
[صحيح: غاية المرام: 323 ، ابو داود: 3451 ، كتاب البيوع: باب فى التسعير ، ترمذي: 1314 ، ابن ماجة: 2200 ، دارمي: 324/2 ، أحمد: 156/3]
امام صنعانیؒ رقمطراز ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نرخ مقرر کرنا ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔
[سبل السلام: 1089/3]
تسعر (نرخ مقرر کرنے ) کی صورت یہ ہے کہ سلطان یا اس کا نائب یا کوئی حاکم منڈی میں فروخت کرنے والوں کو احکام کے ذریعہ پابند کر دے کہ وہ اتنے نرخ سے زائد اپنی اشیا فروخت نہ کریں اور نرخ کے اتار چڑھاؤ ، کمی بیشی کو مصلحتا روک دیں (اس سے ایک تو تاجروں کو نقصان ہوتا ہے دوسرا وہ اشیا کو روک کر عوام کو ضروریات زندگی سے محروم کر دیتے ہیں ) ۔
(مالکؒ) حکمران کے لیے نرخ مقرر کرنا جائز ہے۔
(بعض شافعیہ ) مہنگائی کے دور میں نرخ مقرر کیے جا سکتے ہیں۔
(جمہور) کسی حال میں کبھی بھی تسعیر جائز نہیں۔
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[نيل الأوطار: 603/3]
”الجوائح“ جائحة کی جمع ہے یعنی ایسی آفت و مصیبت جو پھلوں اور اموال کو ہلاک کر دیتی ہے۔
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم وضع الجوائح
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آفت زدہ کے نقصان کو معاف کر دیا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2885 ، كتاب البيوع: باب فى بيع السنين ، ابو داود: 3374 ، نسائي: 265/7 ، أحمد: 309/3]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أمر بوضع الجوائح
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت زدہ کے نقصان کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔“
[مسلم: 1554]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنے بھائی کو پھل فروخت کرو اور اسے کوئی آفت (سیلاب یا طوفان وغیرہ ) آن پہنچے تو تمہارے لیے اس سے کچھ بھی (قیمت) لینا جائز نہیں۔ (بالآخر) کس وجہ سے تم ناحق اپنے بھائی کا مال لے سکتے ہو؟ ۔“
[مسلم: 1554 ، كتاب المساقاة: باب وضع الجوائح ، دارمي: 252/2 ، ابو داود: 3470 ، نسائي: 264/7 ، ابن ماجة: 2219 ، شرح معاني الآثار: 34/4]
(شافعیؒ ، لیثؒ) بائع مشتری کو ضمانت (یعنی ادا کی ہوئی رقم واپس ) دے گا۔
(احمدؒ ، ابو عبیدؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(مالکؒ) اگر ثلث سے کم مال کو مصیبت پہنچے تو معاف کرنا ضروری نہیں اور اگر ثلث یا اس سے زیادہ کو پہنچے تو پھر ضروری ہے۔
( امام ابو داودؒ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثلث کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں )۔
(ابو حنیفہؒ) معاف کرنا مستحب ہے۔
(راجح) ہر حال میں معاف کر دینا چاہیے۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 552/3 ، الأم: 72/3 ، روضة الطالبين: 719/3 ، المبسوط: 195/2 ، المغنی: 177/6 ، حاشیۃ الدسوقی: 182/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے