الحمد لله رب العالمين و الصلاة و السلام على أفضل رسله و خاتم أنبياه محمد و على آله و أصحابه أجمعين و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.وبعد،
ہمارا اور آپ کا مشاہدہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے انجن اور اس کی ایجاد کی ہوئی گاڑیوں کے کل پرزے راستے کے نشیب و فراز سے گزرنے کی وجہ سے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور بسا اوقات وہ گاڑیاں کسی بڑی خرابی کا شکار ہو کر کمزوری یا تعطل کا شکار اور سروس اور اصلاح و مرمت کی محتاج ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاڑی بنانے والی کمپنیاں ہر گاڑی کے لیے ایک مقررہ میعاد اور متعینہ مسافت طے کرنے کے بعد ان کی سروس کو ضروری قرار دیتی ہیں۔ ان کی ہدایت کے مطابق جب اصلاح و مرمت اور سروس کا کام پورا ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ نئے آب و تاب کے ساتھ مفوضہ کاموں کی ادائیگی میں لگ جاتی ہیں۔ یہی حال ہماری زندگی کی گاڑی کا بھی ہے، جس کی تخلیق کا مقصداللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ [51-الذاريات:56]
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔‘‘
ہماری یہ گاڑی بھی چلتے چلتے کچھ مدت کے بعد شیطان کی فریب کاریوں میں پڑ کر سست روی اور فتور و اضمحلال کی شکار ہو کر سروس اور اصلاح کی ضرورت مند ہو جاتی ہے، اسی لیے اللہ علیم و خبیر اور حکیم و بصیر نے بعض دنوں اور راتوں اور بعض مقامات اور وقتوں کو ایسی فضیلت وبرتری اور خیر و برکت عطا کر رکھی ہے جن کی قدر و منزلت کو پہچان کر انسان، خصوصاً مسلمان ان سے بہرہ ور اور مستفید ہو کر اپنی زندگی کی گاڑی کی سروس کر سکتا ہے اور نئے آب و تاب کے ساتھ اپنے فرائض منصبی یعنی عبادت الٰہی کی انجام دہی میں مشغول و منہمک ہو سکتا ہے۔
رمضان کا مبارک مہینہ بھی انہیں ایام اور مہینوں میں سے ہے جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایسی رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں۔ جن میں انسان دنوں میں صوم رکھ کر اور راتوں میں عبادت و ریاضت، تہجد و تراویح، تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی کر کے شیطانی رکاوٹوں اور بندشوں کو توڑ کر اورشیطان کے وسوسوں اور اس کے خوشنما جال کو نظر انداز کر کے ماضی کی اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کو بخشوا کر اور تقوی شعار ہو کر آنے والی زندگی میں نئے سرے سے چاق و چوبند ہو کر کماحقہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں لگ سکتا ہے۔
① فرضیت صوم:
صوم رمضان اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے۔ رمضان کے مہینہ کا صوم ہر عاقل، بالغ مرد، عورت، آزاد اورغلام مسلمان پر فرض ہے۔ ماہ رمضان کے صوم کی فرضیت 2 ھ میں ہوئی اور یہ فرضیت کتاب اللہ (قرآن مجید) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت تینوں سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ٭ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [2-البقرة:183 ]
’’اے ایمان والو! تم پر صوم فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو، گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے، لیکن تمہارے حق میں بہتر کام صوم رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔‘‘
اور ارشاد ربانی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [2-البقرة:185]
’’ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے صوم رکھنا چاہئے۔‘‘
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
بني الإسلام على خمس. شهادة أن لاإله إلا الله و أن محمدا عبده ورسوله، و إقام الصلاة و إيتاء الزكاة، و حج البيت و صوم رمضان. [صحيح بخاري: كتاب 2، باب دعاؤكم إيمانكم 2 رقم 8، صحيح مسلم: الإيمان1، باب بيان أركان الإسلام و دعائمه العظام 5 رقم 20۔16]
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ① اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور ا س کے رسول ہیں۔ ② اور صلاۃ قائم کرنا ③ اور زکاۃ ادا کرنا ④ اور بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا حج کرنا ⑤ اور رمضان کے مہینہ کا صوم رکھنا۔‘‘
اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أن أعرابيا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثائر الرأس فقال: يا رسول الله! أخبرني ماذا فرض الله على من الصلاة؟ فقال: الصلوات الخمس، إلا أن تطوع شيئا، فقال: أخبرني فما فرض الله على من الصيام؟ فقال: شهر رمضان، إلا أن تطوع شيئا، فقال: أخبرني ما فرض الله على من الزكاة؟ فقال: فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بشرائع الإسلام، قال: والذي أكرمك، لا أتطوع شيئا و لا أنقص مما فرض الله على شيئا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفلح إن صدق، أو دخل الجنة إن صدق. [صحيح بخاري: الصوم 30، باب وجوب صوم رمضان 1 رقم 1891، صحيح مسلم: الإيمان1، باب بيان الصلوات التى هي أحد أركان الإسلام 2 رقم 8]
”ایک دیہاتی پراگندہ سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے خبر دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کون سی صلاۃ فرض کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پنجوقتہ صلوات، مگر یہ کہ تو کوئی نفلی صلاۃ ادا کرے۔ اس دیہاتی نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کون سا صوم فرض کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کا، الّا یہ کہ تو نفلی صوم رکھے۔ اس نے پھر پوچھا کہ آپ یہ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کس چیز کی زکاۃ فرض کی ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کے شرائع کی تعلیم دی۔ اس دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت بخشی ہے نہ تو میں کچھ نفل ادا کروں گا اور نہ اللہ کی فرض کردہ چیزوں میں سے کچھ کمی کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ کامیاب و کامراں ہو گا، یا یہ فرمایا کہ اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
ماہ رمضان کے صیام کی فرضیت پر امت اسلامیہ کے علماء کا اجماع ہے اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ اس کے وجوب کا منکر کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔
② فرضیت صوم کے مراحل:
چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق و مہربان اور بندوں کے حالات و ظروف اور ان کی کمزوری سے اچھی طرح واقف ہے، اس لیے رمضان کے پورے مہینہ کا صوم یکبارگی نہیں فرض کیا، بلکہ مختلف مراحل سے گزار کر موجودہ شکل میں فرض کیا، تاکہ بندے بتدریج صیام رکھنے کے عادی ہو جائیں اور ان کی ادائیگی ان کے لیے مشکل اور ناقابل برداشت نہ ہو:
➊ سب سے پہلے عاشوراء (دسویں محرم) کا صوم فرض ہوا تھا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صام يوم عاشوراء، و أمر بصيامه [ صحيح بخاري:الصوم 30، وجوب صوم رمضان 1 رقم 1892، صحيح مسلم: الصيام 13، أى يوم يصام فى عاشوراء 20 رقم 133، 1134 ]
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا صوم خود رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا صوم رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
➋ دوسرے مرحلہ میں رمضان کے مہینہ کا صوم فرض ہوا مگر چونکہ لوگ صوم رکھنے کے عادی نہیں تھے اس لیے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دیدی گئی تھی کہ اگر وہ صوم نہ رکھیں تو ہر صوم کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [2-البقرة:184]
’’اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے، لیکن تمہارے حق میں بہتر کام صوم رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔‘‘
➌ تیسرے مرحلہ میں صوم نہ رکھنے کا اختیار ختم کر دیا اور تاکید کے ساتھ صوم رکھنے کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [ 2-البقرة:185]
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے صوم رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘
③ صوم کا معنی:
صوم کے لغوی معنی کسی چیز سے رکنے اور اسے ترک کر دینے کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کی زبانی کہلوایا ہے:
إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَـنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [19-مريم:26]
’’میں نے اللہ رحمن کے لیے صوم رکھنے کی نذر مان رکھی ہے، میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔‘‘
صام الفرس صوما کے معنی ہیں گھوڑے نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ ’’صائم‘‘ اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو کھانا پینا چھوڑ کر چپ چاپ کھڑا ہو۔ نابغہ ذبیانی کا شعر ہے
خيل صيام و خيل غير صائمة . . . تحت العجاج و أخري تعلك اللجما
صامت الريح ہوا رک گئی، صام النهار صوما دن کھڑا ہو گیا، دوپہر ہو گئی۔
صوم کے شرعی معنی ہیں: صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رکے رہنا۔
④ مقصد صوم:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صوم کی فرضیت کے ساتھ اس کا مقصد بھی بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [2-البقرة:183]
’’اے ایمان والو! تم پر صوم فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔‘‘
⑤ تقویٰ کی تعریف:
تقویٰ کا لفظ ’’وقایہ‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی پرہیز کرنا، بچانا اور حفاظت کرنا ہیں، اس لحاظ سے تقوی کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لایا جائے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے پرہیز کیاجائے۔
تقویٰ کے اسی مفہوم کو اسلاف نے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’متقی وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچتے ہیں۔‘‘
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور ا س کی نافرمانی سے بچا جائے اور اس کو یاد رکھا جائے اور فراموش نہ کیا جائے اور ا س کا شکریہ ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔‘‘
امیر المومنین خلیفۂ دوم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ’’تقوی‘‘ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
أما سلكت طريقا ذا شوك؟ فقال: بلي، قال: فما عملت؟ قال: شمرت و اجتهدت، قال: فذلك التقوي. [ابن كثير 1؍]
’’کیا کسی کانٹے دار راستے سے آپ کا گزر ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے پوچھا: پھر آپ نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ ایسے موقع پر میں کمال احتیاط کے ساتھ پورے پور پر چاق و چوبند ہو کر اس سے گزر گیا، انہوں نے فرمایا: یہی تو ’’تقوی‘‘ہے۔‘‘
ابن المعتز شاعر نے اسی معنی کو یوں ادا کیا ہے:
خل الذنوب صغيرها . . . وكبيرها ذاك التقي
و اصنع كماش فوق أر . . . ض الشوك يحذر ما يري
لا تحقرن صغيرة . . . إن الجبال من الحصي
’’چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو تم چھوڑ دو، یہی ’’تقوی‘‘ ہے۔ اور کانٹے دار راستے پر چلنے والے کی طرح تم چلو، جو کانٹے سے ہوشیار اور چوکنا رہتا ہے، کسی چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ پہاڑ چھوٹی چھوٹی کنکریوں کے مجموعہ سے بنتا ہے۔‘‘
⑥ کتاب و سنت میں تقوی کا حکم:
تقوی کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر تقویٰ کا حکم دیا ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سلف صالحین نے بھی تقویٰ کا حکم دیا ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔
یوں تو تقوی کے حکم پر مشتمل آیات بہت ساری ہیں، لیکن ذیل میں ہم صرف ان آیات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ نکاح، وعظ و نصیحت، اور دیگر حاجات و ضروریات کے مواقع پرپڑھا کرتے تھے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [3-آل عمران:102]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرناچاہئے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا [4-النساء:4]
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔‘‘
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ٭ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا [33-الأحزاب:70]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) بات کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔‘‘
اور ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں دوران خطبہ یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
اتقوا ربكم، وصلوا خمسكم، و صوموا شهركم، و أدوا زكاة أموالكم، و أطيعوا أمراء كم، تدخلوا جنة ربكم.
’’اپنے رب سے ڈرو اور پنج وقتہ صلوات ادا کرو اور ماہ رمضان کے صوم رکھو اور اپنے مالوں کی زکاۃ دو اور اپنے امراء کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
⑦ تقویٰ کے ثمرات:
تقویٰ کی وجہ سے انسان دنیا اور آخرت میں بہت سے ثمرات و فوائد کا مستحق بنتاہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
➊ تقویٰ انسان کے کاموں میں آسانی کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا [64-الطلاق:4]
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر )کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔‘‘
اور ارشاد فرمایا:
أَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى ٭ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ٭ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى [92-الليل:5]
’’جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہا۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‘‘
➋ تقویٰ حصول رزق اور زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھولنے کا سبب ہے۔
ارشاد باری ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [7-الأعراف:96]
’’اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال (بد) کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ٭ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ [64-الطلاق:2]
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتاہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔‘‘
➌ تقوی دنیاوی زندگی میں توفیق الٰہی و تائید ربانی کے حصول کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا [8-الأنفال:29]
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا۔‘‘
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ [57-الحديد:28]
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گااور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
➍ تقوی اللہ تعالیٰ کی ولایت اور اس کی دوستی کا سبب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ [45-الجاثية:19 ]
’’اور یقین مانو کہ ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا رفیق و کارساز ہے۔ “
➎ تقویٰ کفار و مشرکین اور مکر و حسد کرنے والوں کے شر و فساد اور ان کے مکر و فریب سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ [3-آل عمران:120]
’’تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو ان کا مکر و فریب تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا۔ یقیناًً اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے۔ “
➏ تقوی حصول علم کا سبب ہے :
ارشاد باری ہے :
وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ [2-البقرة:282]
’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے۔ “
➐ تقویٰ حصول رحمت کا سبب ہے، ارشاد ربانی ہے :
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ [7-الأعراف:156 ]
’’اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ “
➑ تقویٰ دنیا و آخرت دونوں میں بشارت اور اطمینان و سکون قلبی کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ٭ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ٭ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [10-يونس:62 ]
’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے ) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق نہیں ہوا کرتا، یہ بڑی کامیابی ہے۔ “
➒ تقویٰ محبت الٰہی کا سبب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ [3-آل عمران:76]
’’کیوں نہیں (مواخذہ ہو گا) البتہ جو شخص اپنا عہد و پیمان پورا کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے، تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔ “
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے :
إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ [9-التوبة:4]
’’یقیناًً اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ “
➓ تقوی معیت الٰہی کا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ [2-البقرة:194]
’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ “
یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے علم اور سمع و بصر کے اعتبار سے ہر شخص کے ساتھ ہے یعنی انسان جو کچھ کہتا اور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا، سنتا اور دیکھتا ہے، لیکن پرہیزگاروں اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ وہ اپنی نصرت و مدد اور تائید کے ساتھ خصوصی طور پر رہتا ہے۔
⓫ تقوی کفارۂ سیئات اور مغفرتِ ذنوب کا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ذَلِكَ أَمْرُ اللَّـهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّـهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا [64-الطلاق:5]
’’یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔ “
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [8-الأنفال:29]
’’اے ایمان والو ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کر دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ “
⓬ تقوی نعمت اخروی کا سبب ہے۔
اس سلسلہ میں چند آیات درج ذیل ہیں :
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا ٭ حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا ٭ وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ٭ وَكَأْسًا دِهَاقًا ٭ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا ٭جَزَاءً مِنْ رَبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا [78-النبأ:31 ]
’’یقیناًً پرہیزگار لوگوں کے لیے کامیابی ہے۔ باغات اور انگور ہیں اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں اور چھلکتے ہوئے جام شراب ہیں۔ وہاں نہ تو وہ بے ہودہ باتیں سنیں گے اور نہ جھوٹی باتیں۔ (ان کو) تیرے رب کی طرف سے (ان کے نیک اعمال کا) یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہو گا۔ “
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ ٭ وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ ٭ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ٭ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ [77-المرسلات:41 ]
’’بیشک پرہیزگار لوگ سایوں میں ہوں گے اور بہتے چشموں میں ہوں گے اور ان میووں میں جن کی وہ خواہش کریں گے۔ (کہا جائے گا کہ اے جنتیو ! ) کھاؤ، پیو مزے سے اپنے کئے ہوئے اعمال کے بدلے۔ یقیناًً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ “
اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ ٭ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ٭ يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ ٭ كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ ٭ يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ ٭ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ٭ فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [44-الدخان:51]
’’بیشک اللہ سے ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں۔ باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ اسی طرح ہے اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکا ح کر دیں گے۔ دل جمعی کے ساتھ وہا ں ہر طرح کے میووں کی فرمائشیں کرتے ہوں گے۔ وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں، ہاں پہلی موت (جو وہ مر چکے ) انہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا۔ یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے، یہی ہے بڑی کامیابی۔ “
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ٭ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ [15-الحجر:45]
’’پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے (ان سے کہا: جائے گا) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔ “
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ٭ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [54-القمر:54]
’’یقیناًً ہمارا ڈر رکھنے والے جنتوں اور نہروں میں ہوں گے۔ راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ “
⑧ ایک اشکال کا ازالہ :
کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پورے ماہ رمضان میں صوم رکھنے کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہیں محسوس ہوتا ہے، ماہ رمضان کے پہلے ان کی زندگی کا جو وطیرہ تھا وہی رمضان کے صیام کے بعد بھی باقی رہتا ہے، پھر کیسے سمجھا جائے کہ صوم کا جو مقصد اللہ تعالیٰ نے متقی اور پرہیزگار بننا قرار دیا ہے وہ صحیح ہے ؟
اس سلسلے میں اگر ہم درج ذیل حدیث نبوی کو پیش نظر رکھ کر غور و فکر کریں تو مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مثل مابعثني الله به من الهدي و العلم كمثل الغيث الكثير أصاب أرضا، فكان منها نقية قبلت الماء فأنبتت الكلأ و العشب الكثير . وكان منها أجادب أمسكت الماء فنفع الله بها الناس فشربوا و سقوا وزرعوا، وأصابت منها طائفة أخري . إنما هي قيعان لا تمسك ماء و لا تنبت كلأ . فذلك مثل من فقه فى دين الله و نفعه ما بعثني الله به فعلم و علم . و مثل من لم يرفع بذلك رأسا، و لم يقبل هدي الله الذى أرسلت به .
’’اس ہدایت اور علم کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے، اس کثیر بارش کی مانند ہے جو کسی زمین کو پہنچی، پس اس زمین کا کچھ حصہ تو اچھا تھا، جس نے پانی کو اپنے اندر جذب کر لیا، اور اس نے گھاس اور بہت سی سبزیاں اگائیں اور اس زمین کا ایک حصہ غیر آباد (بنجر) تھا جس نے پانی کو روک لیا، پس اس پانی سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، لوگوں نے اس سے پانی پیا اور پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا، اور وہ بارش زمین کے ایک اور حصہ کو پہنچی جو بالکل چٹیل میدان تھا، جو نہ پانی روکتا ہے اور نہ گھاس اگاتا ہے، پس یہ ہے مثال اس شخص کی جس نے اللہ تعالیٰ کے دین میں سمجھ حاصل کی، اور اس علم و ہدایت سے اللہ تعالیٰ نے اسے نفع پہنچایا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا، پس اس نے خود بھی دین سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور (یہ دوسری) مثال اس شخص کی ہے جس نے (علم و ہدایت) کی طرف اپنا سر بھی نہیں اٹھایا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے۔ “ [صحيح بخاري : العلم3 باب فضل من علم و علم 20 رقم 79، صحيح مسلم : الفضائل 43 باب بيان مثل ما بعث النبى صلى الله عليه وسلم من الهدي و العلم 5 رقم 15 ]
اس حدیث پاک میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے گئے علم و ہدایت کو نفع پہنچانے والی بارش کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، کیوں کہ اس علم و ہدایت سے مردہ دلوں کو اسی طرح زندگی، رونق و تازگی ملتی ہے جس طرح مردہ زمین باران رحمت سے سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ علم نبوی سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے شخص کو اچھی زمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور جو شخص خود علم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھلاتا ہے لیکن خود اس پر عمل پیرا ہو کر فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے سخت زمین کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو پانی روک لیتی ہے اور اس سے دوسری مخلوقات الٰہی فیضیاب ہوتی ہے اور جو شخص نہ علم دین سیکھتا ہے، نہ ا س پر عمل کرتا ہے اسے ایسی چٹیل زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہ پانی روکتی ہے نہ گھاس اور سبزہ اگاتی ہے۔
اس حدیث نبوی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بالکل سچ اور درست ہیں اسی طرح رمضان اور اس کے صیام سے متعلق بیان کردہ فرامین الٰہی اور ارشادات نبوی بھی بالکل سچ ہیں، لیکن ان رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں کے حصول کے لیے عزم راسخ، قلب صافی اور رضائے الٰہی کا جذبۂ صادق اور وعدۂ الٰہی پر یقین کامل ضروری ہے، اب اگر صیام کی ادائیگی کے باوجود ماہ رمضان کے ختم ہونے کے بعد کسی کی زندگی میں فرق نظر نہ آئے اور وہ حسب سابق مکر و فریب، جھوٹ، بغض و حسد، رشوت اور سود خوری وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا رہے اور تقویٰ کے ثمرات نظر نہ آئیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ قصور رمضان اور صیام کا نہیں بلکہ خود آدمی کا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح باران رحمت زمین کے ہر حصے پر ہوتی ہے، مگر زمین کی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس میں پانی جذب ہوتا ہے اور اس سے گھاس پھوس، مختلف قسم کی سبزیاں، پیڑ پودے اور ہر قسم کے اناج اور غلے پیدا ہوتے ہیں اور جو زمین سنگلاخ، بنجر اور ناقابل کاشت اور سخت ہوتی ہے اسے اس کثیر باران رحمت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر آدمی کا دل صاف و شفاف اور اصلاح کو قبول کرنے کی استعداد رکھنے والا ہے تو یقیناًً رمضان کے بعد والی زندگی اس کی رمضان سے قبل والی زندگی سے بہرحال بہتر ہوگی۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
ألا و إن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، و إذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهى القلب . [صحيح بخاري : الإيمان باب فضل من استبرأ لدينه 39 رقم52، صحيح مسلم المساقاة 22 باب أخذ الحلال و ترك الشبهات 20 رقم 107، 1599]
’’یقیناًً جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صالح اور درست رہتا ہے تو پورا جسم درست رہتاہے اور اگر وہ بگڑ گیا اور فساد و خرابی کا شکار ہو گیا تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ “
⑨ فضائل ماہ رمضان :
اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کو سال کے دوسرے مہینوں پر مختلف حیثیتوں سے فضیلت و برتری عطا فرمائی ہے :
➊ یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے : قرآن کریم جو ساری انسانیت کی رشد و ہدایت والی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے، اس کا نزول اسی ماہ رمضان میں ہوا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ [2-البقرة:185 ]
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ “
رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پورا قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہو گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے اندر شبِ قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور وہاں ’’بیت العزۃ“ میں رکھ دیا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [97-القدر:1]
’’یقیناًً ہم نے اس کو شب قدر میں اتارا ہے۔ “
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ [44-الدخان:3]
’’یقیناًً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے، بے شک ہم ڈرانے والے ہیں۔ “
پھر ’’بیت العزۃ“ سے حسب حالات و ضرورت تھوڑا تھوڑا اترتا رہا۔ [تفسير ابن كثير 230/1 ]
بعض لوگو ں کے نزدیک رمضان میں نزول قرآن کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غار حرا میں جو پہلی وحی اتری وہ ماہ رمضان میں اتری۔
➋ یہ قرآن کے دور کا مہینہ ہے : قرآن مجید اور رمضان المبارک کا آپس میں اتنا گہرا ربط وتعلق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی لانے والے فرشتہ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ اس ماہ مبارک میں قرآن کا دور کیاکرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپ نے رمضان المبارک میں جبرئیل علیہ السلام سے دو مرتبہ دور کیا۔ جیسا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
أسر إلى النبى صلى الله عليه وسلم أن جبريل كان يعارضني بالقرآن كل سنة، وإنه عارضني العام مرتين، و لا أراه إلا حضر أجلي . [صحيح بخاري : فضائل القرآن 66، باب كان جبريل يعرض القرآن على النبى صلى الله عليه وسلم 7، صحيح مسلم : فضائل الصحابة 44، فضائل فاطمة 15، رقم 98۔ 99، 2450]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے راز دارانہ انداز میں یہ بات بتائی کہ جبرئیل علیہ السلام مجھے ہر سال قرآن کا دور کراتے تھے اور اس سال انہوں نے مجھے دوبار دور کرایا، میرا خیال ہے کہ اب دنیا سے میرے کوچ کا وقت آگیا ہے۔ “
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
كان يعرض على النبى صلى الله عليه وسلم القرآن كل عام مرة، ’’كان يعرض على النبى صلى الله عليه وسلم القرآن كل عام مرة، فعرض عليه مرتين فى العام الذى قبض فيه، وكان يعتكف فى كل عام عشرا، فاعتكف عشرين فى العام الذى قبض فيه . [صحيح بخاري : فضائل القرآن 66، باب كان جبريل يعرض القرآن على النبى صلى الله عليه وسلم رقم 4998]
’’جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر سال ایک مرتبہ قرآن پیش کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس سال انہو ں نے دو مرتبہ آپ پر قرآن کو پیش کیا اور ہر سال آپ دس رات اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال بیس رات اعتکاف کیا۔ “
یہ ’’دور“ اور قرآن کا ’’معارضہ“ ماہ رمضان المبارک میں ہوتا تھا، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير، وكان أجود مايكون فى رمضان حين يلقاه جبريل، و كان جبريل عليه السلام يلقاه كل ليلة فى رمضان حتي ينسلخ، يعرض عليه النبى صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل عليه السلام كان أجود بالخير من الريح المرسلة . [صحيح بخاري : بدء الوحي1، باب 5، رقم 6 الصوم 30، باب 7، رقم 1902 و بدء الخلق 59، باب ذكر الملائكة 6 رقم 3220 والمناقب 61، باب 23 رقم 3554 و فضائل القرآن 66، باب 7 رقم4997، صحيح مسلم : الفضائل 43، باب كان النبى صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير من الريح المرسلة 12رقم 50 ]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی میں سب سے زیادہ فیاض تھے، اور آپ کی سخاوت و فیاضی رمضان میں اور بڑھ جاتی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے اور جبرئیل علیہ السلام آپ سے پورے رمضان ہر رات ملاقات کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن سناتے تھے۔ پس جب جبرئیل علیہ السلام آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملاقات کرتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ بھلائی میں فیاض ہوتے۔ “
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن کے دور میں یا ’’قیام اللیل“ اور ’’صلاۃ تراویح“ میں ’’شبینہ“ یعنی ایک ہی رات میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا اور اتنی تیزی سے قرآن پڑھنا کہ سننے والوں کو کچھ پلّے نہ پڑے، نزول قرآن کے مقصد اور سنت نبوی کے خلاف ہے اور مسلمان کی بھلائی اور کامیابی اتباع سنت ہی میں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [33-الأحزاب:21]
’’یقیناًً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔ “
اور فرمایا :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا [59-الحشر:7]
’’اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔ “
اور اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے درج ذیل مقاصد بیان فرمائے ہیں جنہیں تلاوت قرآن کے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا [17-الإسراء:106]
’’قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت (ٹھہر ٹھہر کر) لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا ہے۔ “
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ [38-ص:29]
’’یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور عقل مند لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ “
اور فرمایا :
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا [4-النساء:105]
’’یقیناًً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔ “
➌ یہ صبر کا مہینہ ہے : مسلمان پورے ایک مہینہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اپنے آپ کو روک کر صبر کا عادی اور خوگر ہو جاتاہے، یہی وجہ ہے کہ اگر آپ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ میں بھوک اور پیاس سے دوچار ہوں اور وقت پر کھانے اور پینے کی چیز میسر نہ ہو اور صوم کا تصور کرلیں تو یک گونہ تسلی ہو جاتی ہے اور کچھ دیر کے لیے بھوک اور پیاس کی تکلیف کو بھول جاتے ہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : شهر الصبر، وثلاثة أيام من كل شهر، صوم الدهر [صحيح : صحيح سنن أبى داؤد : الصوم 8، باب فى صوم الدهر تطوعا رقم 2425، صحيح سنن النسائي الصيام 22، باب فى صيام ثلاثة أيام من كل شهر82 رقم 2407، سنن ابن ماجه الصيام 7، باب فى صيام ثلاثة أيام من كل شهر رقم 1386۔ 1708]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ صبر (رمضان)کے مہینہ کا صوم اور ہر مہینہ میں تین دن کا صوم پورے سال کے صوم کے برابر ہوتا ہے۔ “
⑩ صبر کا معنی :
صبر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں، کہا: جاتا ہے : ’’قُتِلَ فُلَانٌ صَبْرًا“ فلاں شخص باندھ کر مارا گیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [ 18-الكهف:28 ]
’’اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)۔ “
صبر کو صبر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں دل کو گریہ وزاری سے اور زبان کو شکوہ و شکایت سے اور جوارح کو بے قراری سے روک لیناہوتا ہے۔
⑪ صبر کی قسمیں :
صبر کی تین قسمیں ہیں :
➊ اطاعت الٰہی پر صبر
➋ معصیت الٰہی سے صبر
➌ مصیبت اور امتحان الٰہی پر صبر
صبر کے مفہوم اور اس کے اقسام کو ذہن میں رکھ کر غور کیجئے کہ ایک مسلمان صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کس طرح انواع و اقسام کے ماکولات و مشروبات پاتے ہوئے، حسین و جمیل بیوی رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے روک کرالگ تھلگ رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان ہمیں صبر کی تعلیم دیتاہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ [39-الزمر:10 ]
’’صبر کرنے والو ں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے۔ “
➍ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین پابہ زنجیر کر دئیے جاتے ہیں۔
چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة، و غلقت أبواب النار، و صفدت الشياطين [صحيح بخاري : الصوم 30 باب وجوب صوم رمضان 1، رقم 1899، صحيح مسلم : الصيام 13 باب فضل شهر رمضان 1، رقم 1۔ 1079]
’’جب رمضان کی آمد ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین مقید کر دیے جاتے ہیں۔ “
اور ایک دوسری روایت میں ان ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے :
إذا كان أول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين، و مردة الجن، و غلقت أبواب النار، فلم يفتح منها باب، و فتحت أبواب الجنة، فلم يغلق منها باب، و ينادي مناد : يا باغي الخير ! أقبل، و يا باغي الشر ! أقصر، و لله عتقاء من النار، و ذلك كل ليلة . [صحيح : صحيح سنن الترمذي الصوم 6، باب ما جاء فى فضل شهر رمضان 1 رقم 682، صحيح سنن ابن ماجه الصيام 7، باب ما جاء فى فضل رمضان 2 رقم 1331 ]
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن مقید کر دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دئے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ نہیں بند کیا جاتا اور ایک فرشتہ یہ اعلان کرتا ہے : اے خیر اور بھلائی کے طالب تو آگے بڑھ اور اے برائی کے خواہش مند تو رک جا اور اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ہر رات جاری رہتا ہے۔ “
یہی وجہ ہے کہ رمضان کے شروع ہوتے ہی بہت سے عاصی اور گنہگار لوگ توبہ واستغفار کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اہل علم سے ماضی کے اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے اور غلطیوں سے بچنے کے طریقے معلوم کر کے سچی توبہ کر لیتے ہیں اور اللہ کے مخلص بندے بن کر رمضان اور اس کے بعد والے مہینوں میں ہمہ تن اللہ کی عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو شیطانوں کے شرور و فتن سے محفوظ رکھ کر جنت کا مستحق بنائے اور جہنم کے عذاب سے دور رکھے۔ آمین
➎ یہ شب قدر کا مہینہ ہے : یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ’’شب قدر“ اور ’’لیلۃ مبارکہ“ رکھی ہے۔ جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ٭ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ٭ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ [97-القدر:1]
’’یقیناًً ہم نے اسے شب قدر میں اتارا ہے، تجھے کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ “
دوسرے مقام پر فرمایا :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ٭ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ [44-الدخان:3]
’’یقیناًً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔ اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتاہے۔ “
بعض لوگوں نے ’’لیلۃ مبارکہ“ سے شعبان کی پندرہویں رات مراد لی ہے جو صحیح نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ’’شب قدر“ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر اس کی صراحت فرمائی ہے۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [2-البقرة:185]
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا “
➏ یہ قبولیت دعا کا مہینہ ہے : رمضان کا مبارک مہینہ جہاں عبادتوں اور ریاضتوں کا موسم بہار ہے، وہیں قبولیت دعاکا بھی مہینہ ہے۔ رمضان اور دعا میں بڑا گہرا ربط ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے احکام و مسائل کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا مسئلہ یوں بیان فرمایا ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [2-البقرة:186]
’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہو ں اس لیے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کے رشد و ہدایت اور بھلائی کا باعث ہے۔ “
⑫ فضائل صیام :
صوم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ پر صوم کی صورت میں جو فریضہ عائد کیا ہے اس کی ادائیگی سے وہ بری الذمہ ہو کر اور اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن کر اس کا محبوب بن جاتاہے، لیکن اس کے علاوہ فضائل سے متعلق چند امور ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ ہمارے اندر صیام کی ادائیگی کا جذبہ زیادہ سے زیادہ پروان چڑھے :
➊ صوم شہوات نفسانی سے ڈھال ہے :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم نوجوانوں کو خطاب کر کے فرمایا :
يا معشر الشباب من استطاع منكم البآء ة فليتزوج فإنه أغض للبصر و أحصن للفرج و من لم يستطع فعليه بالصوم . فإنه له وجاء . [صحيح بخاري : الصوم 30 باب الصوم لمن خاف على نفسه العزبة 10 رقم 1905 و النكا ح 67 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم من استطاع الباء ة فليتزوج 2 رقم 5065 و باب 3 رقم 5066، صحيح مسلم : النكا ح 16 باب استحباب النكا ح لمن تاقت نفسه إليه۔۔۔ 1 رقم 1، 3۔ 1400]
’’اے جوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شخص اخراجات نکا ح کے ساتھ جماع کی قدرت رکھے اسے شادی کرلینا چاہئے، کیوں کہ نکا ح آدمی کی نگاہ کو پست کرنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو شخص اس کی طاقت نہ رکھے تو اس پر صوم رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ وہ شہوت کو کچلنے والا ہے۔ “
➋ صوم آتش دوزخ سے ڈھال ہے :
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے :
كل عمل ابن آدم له، إلا الصيام، فإنه لي و أنا أجزي به، و الصيام جنة، و إذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني امرؤ صائم، والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك . للصائم فرحتان يفرحهما : إذا أفطر فرح، و إذا لقي ربه فرح بصومه . [صحيح بخاري : الصوم 30 باب هل يقول إني صائم إذا شتم 9 رقم 1904، صحيح مسلم : الصيام 13 باب فضل الصيام 30 رقم 163۔ 1151 ]
’’اولاد آدم کاہر عمل ا س کے لیے ہے، سوائے صوم کے، اس لیے کہ صوم میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا، صوم (وساوس شیطانی، معصیت ربانی اور عذاب الٰہی سے ) ڈھال اور بچاؤ کا سامان ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کے صوم کا دن ہو تو وہ زبان سے گندی اور بری باتیں نہ نکالے اور شور و غل اور ہنگامہ آرائی نہ کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا اور لڑائی کرے تو وہ یہ کہہ کر اسے نظر انداز کرجائے کہ میں صوم سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، صائم کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے، صائم کو دو مسرتیں اور خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، دوم جس وقت وہ اپنے پالنہار سے شرف ملاقات حاصل کرے گا تو خوش ہو گا۔ “
ان ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كل عمل ابن آدم يضاعف . الحسنة عشر أمثالها إلى سبعماءة ضعف . قال الله عزوجل : إلا الصوم : فإنه لي و أنا أجزي به . يدع شهوته و طعامه من أجلي . [صحيح مسلم : الصيام 13 باب فضل الصيام 30 رقم 164۔ 1151 ]
’’انسان کے ہر عمل کا ثواب اسے دس گنا سے سات سو گنا تک دیاجاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : سوائے صوم کے، اس لیے کہ صوم میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، کیونکہ وہ میری ہی وجہ سے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پانی ترک کرتا ہے۔ “
اور جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الصوم جنة يستجن بها العبد من النار . [حسن : مسند أحمد 3؍396، صحيح الجامع رقم 3867، صحيح الترغيب و الترهيب رقم]
’’صوم ڈھال ہے، جس سے بندہ آتشِ دوزخ سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔ “
قربان جائیے رحمت باری تعالیٰ پر کہ دیگر اعمال صالحہ کا اجر و ثواب تو فرشتوں کے ذریعہ دلائے گا اور صوم کا بے پایاں اور بے حساب بدلہ صائمین کو اپنے دستِ کرم سے عنایت فرمائے گا۔ ایک آدمی کا منشی اور اس کا سکریٹری کارخانہ کے مزدوروں کو وہی اجرت دے سکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے لیکن اگر کارخانہ کا مالک اپنے کسی مزدور سے خوش ہو گیا تو اسے واجبی حق سے زیادہ جتنا چاہے انعام و اکرام سے نواز سکتا ہے اور بندہ چونکہ صوم صرف رضائے الٰہی کے لیے رکھتا ہے، اچھے سے اچھا اور بہتر سے بہتر کھانا پانی اور حسین و جمیل بیوی رکھتے ہوئے صرف اس وجہ سے ان چیزوں سے کنارہ کش رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی فرمان ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ صوم جیسے ریا و نمود سے دور عمل صالح کا اجر و ثواب اپنے لطف وکرم اور جود و سخا کے اعتبار سے بے حساب اور غیر محدود عطا فرمائے گا۔
➌ صوم بروز قیامت صائم کے لیے سفارش کرے گا :
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
الصيام و القرآن يشفعان للعبد يوم القيامة، يقول الصيام : أى رب منعته الطعام و الشهوات بالنهار فشفعني فيه، و يقول القرآن : منعته النوم بالليل فشفعني فيه، قال : فيشفعان . [صحيح : مسند أحمد 2؍174، صحيح الترغيب و الترهيب رقم 969، صحيح الجامع الصغير رقم 3882، مستدرك حاكم فضائل القرآن 1؍740 رقم 17۔ 2036]
’’صیام اور قرآن دونوں بندہ کے لیے بروز قیامت سفارش کریں گے، صوم کہے گا اے ربِّ کائنات ! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور خواہشات نفس کی تکمیل سے روک رکھا تھا اس لئے تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما لے اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات میں نیند اور آرام سے باز رکھا تھا لہٰذا تو اس کے بارے میں میری سفارش منظور فرمالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ “
➍ صوم کفارۂ سیئات اور مغفرت الٰہی کا سبب ہے :
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور لطف عمیم سے صوم و صلاۃ، زکاۃ و صدقات، حج و قربانی اور تمام قسم کی نیکیوں میں گناہوں کے مٹانے کی خاصیت رکھی ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ [11-هود:114]
’’یقیناًً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ “
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
الصلوات الخمس و الجمعة إلى الجمعة و رمضان إلى رمضان، مكفرات ما بينهن، إذا اجتنب الكبائر . [صحيح مسلم : الطهارة 2 باب الصلوات الخمس و الجمعة إلى الجمعة۔۔۔ 5 رقم 16]
’’پنج وقتہ صلوات اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں بشرطیکہ بندہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے “۔
اور یہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
من صام رمضان إيمانا و احتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه . [صحيح بخاري : الإيمان 2 باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان 28 رقم 38 و الصوم 30 باب من صام رمضان إيمانا و احتسابا و نية 6 رقم 1901، صحيح مسلم : صلاة المسافرين و قصرها 6 باب الترغيب فى قيام رمضان 25 رقم 175۔ 760]
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اجر و ثواب حاصل کرنے کی نیت سے صوم رکھا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ “
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا :
ف تنة الرجل فى أهله و ماله و جاره تكفرها الصلاة و الصيام والصدقة . [صحيح بخاري : مواقيت الصلاة 9 باب الصلاة كفارة 4 رقم 525، الصوم 30 باب الصوم كفارة 3 رقم 1895 و الزكاة 24 باب الصدقة تكفر الخطيءة 23 رقم 1435 والمناقب 61 باب علامات النبوة 25 رقم 3586 والفتن 92 باب الفتنة تموج كموج البحر 17 رقم 7096، صحيح مسلم : الإيمان 1 باب بيان أن الإسلام بدأ غريبا 65 رقم 231۔ 144 والفتن 52 باب فى الفتنة التى تموج كموج البحر 7 رقم 26 ]
’’آدمی کے اس کے اہل، مال اور پڑوسی کے سلسلہ میں فتنہ اور آزمائش (یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی) کا کفارہ صلاۃ، صیام اور صدقہ ہے۔ “
➎ صائمین کے لیے جنت میں خصوصی دروازہ :
اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی کے لیے صوم رکھنے والے بندوں سے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ انہیں صرف دخول جنت کا مستحق نہیں بناتا ہے، بلکہ آخرت میں وہ اس قدر اونچے درجات کے حامل ہوں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ عمومی دروازے سے نہیں بلکہ خصوصی دروازہ سے جنت میں داخل فرمائے گا، جس سے کسی غیر صائم کا گزر نہیں ہو گا، جیسا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
إن فى الجنة بابا يقال له الريان، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لايدخل منه أحد غيرهم، يقال : أين الصائمون؟ فيقومون، لا يدخل منه أحد غيرهم فإذا دخلوا أغلق، فلم يدخل منه أحد . [صحيح بخاري : الصوم 30 باب الريان للصائمين 4 رقم 1896 و بدء الخلق 59، باب صفة أبواب الجنة 9 رقم 3257، صحيح مسلم : الصيام 13 باب فضل الصيام 30 رقم 166۔ 1152 ]
’’یقیناًً جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ’’ریّان“ ہے، قیامت کے دن صائمین اسی سے داخل ہوں گے، اس سے ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں داخل ہو گا۔ اعلان کیاجائے گا کہ صائمین کہاں ہیں؟ اس پر یہ اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے سوا کوئی دوسرا اس سے نہیں داخل ہو گا۔ اور جب یہ لوگ داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کر دیاجائے گا، پھر اس سے کوئی دوسرا نہیں داخل ہو گا۔ “
ابوصادق عاشق علی اثری