تجارت میں شروط کا بیان
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: { جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ : فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ ، فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ . فَأَعِينِينِي . فَقُلْتُ: إنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ ، وَوَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ . فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إلَى أَهْلِهَا ، فَقَالَتْ: لَهُمْ . فَأَبَوْا عَلَيْهَا . فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ . فَقَالَتْ إنِّي عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَى أَهْلِي ، فَأَبَوْا إلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْوَلَاءُ . فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . فَقَالَ: خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمْ الْوَلَاءَ . فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ . فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ . ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ . ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ . فَمَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ كُلُّ شَرْطٍ [ ص: 518] لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ . قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ . وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ . وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ . } .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ آئی تو اس نے کہا: میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ کے عوض مکاتبت کر لی ہے، لہذا آپ میری مدد کیجیے ۔ میں نے کہا: اگر تیرے مالک یہ پسند کریں تو میں ان پر ایک شرط عائد کروں گی اور وہ یہ ہے کہ اگر تیری ولاء مجھے ملے گی تو میں (تیری مدد ) کرتی ہوں۔ بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی اور انھیں یہ بتلایا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا۔ ان سے (جواب لے کر پھر ) وہ (میرے پاس) آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میرے پاس ہی) بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کہا: میں نے اپنے مالکوں کو یہ شرط پیش کی ہے تو انھوں نے انکار کر دیا ہے (وہ کہتے ہیں ) کہ ولاء کے مالک صرف وہی ہوں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پکڑ اور ان سے والا ء کی شرط لگائے رکھ، کیونکہ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کروائے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی ، پھر فرمایا: امابعد ! لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں عائد کرتے پھرتے ہیں جن کا کتاب اللہ میں ذکر ہی نہیں ہے؟ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ سے ثابت نہ ہو وہ باطل ہے، اگر چہ وہ سوشرطیں ہی ہوں، اللہ کا فیصلہ ہی (قابل عمل ہونے کا ) زیادہ حق رکھتا ہے اور اللہ کی (لگائی ہوئی ) شرط ہی زیادہ پختہ ہے ، ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرائے۔
شرح المفردات:
أوقية: ایک اوقیہ رول کا بارہواں حصہ ہوتا ہے اور ایک رطل 64 تولہ ڈیڑھ ماشے کا ہوتا ہے۔
كاتب: مکاتب سے مراد یہ ہے کہ غلام اور آقا آپس میں ایک رقم یا کوئی بھی چیز طے کر لیں کہ اگر غلام اپنے آقا کو وہ ادا کر دے گا تو وہ اسے آزاد کر دے گا۔ واحد مذکر و مؤنث متکلم فعل ماضی معلوم، باب مفاعلہ ۔
ولاء: ولاء سے مراد غلام کا وه مال و اسباب یا دیگر ساز و سامان جو اس نے بطور وراثت چھوڑنا ہو۔
شرح الحديث:
كتاب اللہ سے مراد صرف قرآنِ کریم نہیں ہے بلکہ احادیث رسول بھی ہیں ، کیونکہ حدیث قرآن ہی کی تفسیر ہے۔ قرآن میں بیان شدہ بے شمار احکام و مسائل اجمالی ہیں جن کی تفصیل حدیث نے بیان کی ہے اور اگر حدیث کو قرآن کا لازمہ نہ سمجھا جائے تو احکام شریعت کے تقریباً جملہ اصول و فروع سے نا واقفیت لازم آئے گی۔
(272) صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب اذا اشترط شروطاً فى البيع لا تحل ، ح: 2168 – صحيح مسلم ، كتاب العتق ، باب انما الولاء لمن اعتق ، ح: 1504

——————
کوئی چیز فروخت کرنے کے بعد اس کے استعمال کی شرط لگانا
273 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ فَأَعْيَا ، فَأَرَادَ أَنْ يُسَيِّبَهُ . فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا لِي ، وَضَرَبَهُ . فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ . ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ . قُلْتُ: لَا . ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ . فَبِعْتُهُ بِأُوقِيَّةٍ . وَاسْتَثْنَيْتُ حِمْلَانَهُ إلَى أَهْلِي . فَلَمَّا بَلَغْتُ: أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ . فَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ . ثُمَّ رَجَعْتُ . فَأَرْسَلَ فِي إثْرِي . فَقَالَ: أَتُرَانِي مَاكَسْتُكَ لَآخُذَ جَمَلَكَ؟ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ . فَهُوَ لَكَ . }
سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ پر سوار چلے جارہے تھے جو تھک چکا تھا۔ میں نے اسے آزاد چھوڑنا چاہا تو پیچھے سے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آملے تو آپ نے آ میرے لیے دعا فرمائی اور اس کو ضرب لگائی تو وہ اس طرح چلنے لگا کہ اس سے پہلے وہ کبھی ایسے نہیں چلا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: یہ مجھے ایک اوقیہ کے عوض بیچ دو ، میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: یہ مجھے بیچ دو، چنانچہ میں نے اسے ایک اوقیہ کے عوض بیچ دیا اور اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنی کر لیا۔ پھر جب میں گھر پہنچا تو میں وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا تو آپ نے مجھے اس کی نقد قیمت ادا فرمائی۔ پھر میں واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: تو نے کیا سمجھا کہ میں تجھ سے اس لیے قیمت کم کروا رہا ہوں تا کہ تیرا اونٹ لے لوں؟ یہ اپنا اونٹ بھی پکڑ لو اور اپنے درہم بھی ، یہ تیرے ہی ہیں ۔
شرح المفردات:
غيا: بہت تھک چکا تھا، تھک کر ہانپنے لگا ۔ / واحد مذکر غائب، فعل ماضی معلوم، باب افعال۔
يسيبه: اونٹ کے تھک جانے کی وجہ سے اس کو آزاد بے مہار چھوڑ دینا کہ وہ اپنی مرضی سے چلتا رہے ۔ / واحد مذکر غائب، فعل مضارع معلوم ، باب تفعیل ۔
واستشنيت حملانه: یعنی میں نے یہ شرط عائد کر دی کہ میں یہ اونٹ ابھی آپ کے حوالے نہیں کروں گا بلکہ اپنے گھر تک اس پر سوار ہو کر جاؤں گا ۔ / استنيت: واحد مذکر و مؤنث متکلم، فعل ماضی معلوم، باب استفعال ۔
شرح الحديث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز فروخت کر دینے کے بعد اس کے کچھ دیر استعمال کی شرط لگائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ خریدار بھی اس پر رضامند ہو۔
(273) صحيح البخاري، كتاب الشروط ، باب اذا اشترط البائع ظهر الدابة — ، ح: 2718. صحيح مسلم، كتاب المساقاة ، باب بيع البعير و استثناء ركوبه ، ح: 715

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے