بیوی کی ذمہ داریاں

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال :
میں نے ایک رسالے میں ایک عالم کا یہ فتوی پڑھا کہ عورت پر خاوند کی خدمت کرنا قطعاً واجب نہیں ہے، اس کا نکاح صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہے، اگر عورت خاوند کی خدمت بجا لاتی ہے تو یہ حسن معاشرت کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عورت خاوند کی خدمت نہیں کرنا چاہتی یا کسی وجہ سے وہ اپنی خدمت بھی نہیں کر سکتی تو اس کے لئے ملازم رکھنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر صحیح نہیں تو بحد للہ یہ رسالہ کثیر الاشاعت نہیں ہے، بصورت دیگر جو بعض عورتیں یہ فتوٰی پڑھیں گی تو ان کے خاوند تنہائی کا شکار ہو کر رہ جانیں گے۔
جواب : یہ فتوی نہ تو صحیح ہے اور نہ اس پر کسی کا عمل ہے۔ صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے خاوندوں کی خدمت کیا کرتی تھیں جیسا کہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی خدمت کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی اپنے خاوند سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں، اس کے علاوہ بھی کئی شواہد موجود ہیں۔ حالات کی مناسبت سے مسلمان معاشرے کا شروع سے یہ عرف رہا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی عمومی خدمات بجا لایا کرتی ہے مثلاً کھانا پکانا، کپڑے دھونا، برتن صاف کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، اس کے علاوہ کھیتی باڑی کے ماحول میں جانوروں کو پانی پلانا اور ان کا دودھ دوھنا وغیرہ۔ یہ ایک ایسا مشہور عمل ہے جس پر بغیر انکار کے عہد نبوی سے لیکر آج تک عمل رہا ہے، ہاں عورت کو ایسے امور کی انجام دہی کا مکلف نہیں بنانا چاہئیے جو اس کیلے باعث مشقت ہوں، وہ اپنی بساط اور عام عادت کے مطابق ہی خاوند کی خدمت بجا لانے کی پابند ہے۔ والله الموفق

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply