سوال :
اس بیوی کے متعلق کیا حکم ہے جو خاوند کو بتائے بغیر اس کے مال سے کچھ لیتی رہتی ہو اور اپنی اولاد پر خرچ کرتی رہتی ہو اور خاوند کے سامنے قسم اٹھائے کہ اس نے اس کے مال سے کچھ بھی نہیں لیا۔ اس عمل کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
بیوی کے لئے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک دوسرے کا مال ہتھیانے سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر اعلان کرتے ہوئے یوں فرمایا :
«فان دماءكم وأموالكم وأعراضکم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، فى شهركم هذا، فى بلدكم هذا . . . ألا يا أمتاه ! هل بلغت ؟ » [رواه ابن حاجة فى كتاب المناسك باب 79]
”تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں جیسا کہ تمہارے اس دن (عرفہ) کی حرمت تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں۔ کان کھول کر سن لو میں نے (اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں) پہنچا دیا ہے۔“
لیکن اگر اس کا خاوند بخیل ہے اور وہ اپنی بیوی بچوں کے مناسب اخراجات ادا نہیں کرتا تو اس صورت میں وہ اپنے بچوں کے لئے مناسب مقدار میں اخراجات وصول کر سکتی ہے۔ وہ ضرورت سے زائد کا استحقاق نہیں رکھتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہند رضی اللہ عنہا بنت عتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے خاوند کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے گی کہ وہ ایک بخیل شخص ہے۔ میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی اخراجات نہیں دیتا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«خذى من ماله ما يكفيك ويكفى بنيك – أو قال – ما يكفيك ويكفي ولدك بالمعروف» [رواه مسلم كتاب الأقضية، باب 4]
”اس کے مال میں سے اتنا لے لے جو کہ تیرے لئے اور تیرے بچوں کے لئے کافی ہو۔“
دوسرے الفاظ یوں ہیں ”جو تیرے لئے اور تیری اولاد کے لئے عرف کے مطابق کافی ہو۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے خاوند کے مال سے بقدر کفایت عرف کے مطابق وصول کرنے کی اجازت دے دی، چاہے اسے اس کا علم ہو یا نہ ہو۔
سائلہ کے سوال میں یہ بات مذکور ہے کہ اس نے خاوند کے سامنے حلف اٹھایا کہ اس نے اس کے مال میں سے کچھ نہیں لیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اس کا یہ حلف اٹھانا حرام ہے، بجر اس صورت کے وہ تاویلاً ایسی قسم اٹھائے وہ یوں کہ تم اٹھاتے وقت اس کی نیت یہ ہو کہ میں نے ایسی کوئی چیز نہیں لی جس کا لینا مجھ پر حرام تھا، یا یہ نیت ہو کہ واللہ میں نے تجھ پر واجب اخراجات سے زائد کچھ نہیں لیا، یا اس طرح کی کوئی تاویل جو اس کے شرعی حق کے مطابق ہو۔ انسان کے مظلوم ہونے کی صورت میں ایسی تاویل جائز ہے۔ اور اگر انسان ظالم ہو یا ظالم ہو نہ مظلوم۔ تو اس صورت میں ایسی تاویل جائز نہیں ہے۔ ایسی عورت جس کا خاوند اس کے اور بچوں کے واجب اخراجات کی ادائیگی کے لئے بخل سے کام لیتا ہو تو ایسی عورت مظلوم ہی ہے۔
(شیخ محمد بن صالح عثیمین)