بیع کے صحیح ہونے میں بائع اور مشتری کی رضا مندی ضروری ہے خواہ یہ ایسے شخص کے محض اشارے کے ساتھ ہی ہو جو بولنے کی طاقت رکھتا ہو
لغوی وضاحت: لفظِ بیوع بیع کی جمع ہے جو باب بَاعَ يَبيعُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”بیچنا ، فروخت کرنا اور بعض اوقات خریدنا بھی“ مستعمل ہے۔ باب بَايَعَ اور تبَايَعَ (مفاعلة ، تفاعل ) ”باہم خرید و فروخت کرنا۔“ باب اِبْتَاعَ (افتعال) ”خریدنا“ – باب اباعَ (افعال) ”بیچنے کے لیے پیش کرنا ۔“ بَائِع اور بيع ”بیچنے والا“ ۔ مُشْتَرٍ وَشَارٍ ”خریدار ۔“
[المنجد: ص/ 81 ، القاموس: ص/ 634]
شرعی تعریف: (ابن قدامہؒ) ایک مال دوسرے کی ملکیت میں دیتے ہوئے اور اس کا مال اپنی ملکیت بناتے ہوئے باہم تبادلہ کرنا ۔
[المغنى: 559/3]
(نوویؒ) ملکیت بنانے کی غرض سے مال کو مال سے بدلنا۔
[مغني المحتاج: 2/2]
مشروعیت:
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ [البقرة: 275]
”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے ۔“
➋ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ [البقرة: 282]
”جب ایک دوسرے سے خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لو۔ “
➌ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ [البقرة: 198]
”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ “
➍ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ [الجمعة: 10]
”جب نماز مکمل کر دی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو ۔ “
➎ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا:
اى الكسب أطيب
”کون سی کمائی پاکیزہ تر ہے؟ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عمل الرجل بيده و كل بيع مبرور
”آدمی کی اپنے ہاتھ سے کمائی اور ہر قسم کی تجارت جو دھوکہ اور فریب دہی سے پاک ہو۔“
[بزار: 1257 ، 1258 ، حاكم: 20/2 ، أحمد: 141/4 ، طبراني: 276/4 ، تلخيص الحبير: 3/3 ، شيخ محمد صبحي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 8/5]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ [النساء: 29]
”اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ الا کہ تمہاری باہمی رضامندی سے خرید و فروخت ہو (تو جائز ہے)۔“
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة من نفسه
”کسی مسلمان آدمی کا مال اس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 285/5 ، بيهقي: 97/6]
➌ حدیث نبوی ہے کہ :
إنما البيع عن تراض
”صرف خرید و فروخت باہمی رضا مندی سے ہی (جائز) ہے۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1283 ، ابن ماجة: 2185]
اللہ تعالیٰ نے ایک مالک سے دوسرے مالک کی طرف مال کے منتقل ہونے میں صرف (فریقین کی ) باہمی رضامندی اور دلی خوشی کا ہی تقاضا کیا ہے خواہ وہ کسی بھی لفظ یا صفت پر واقع ہو جائے اور خواہ وہ (رضامندی) مجرد اشارے یا کتابت کے ذریعے ہی ہو جائے۔ جب یہ چیز حاصل ہو جائے اور بائع (فروخت کار ) اور مشتری (خریدار ) دونوں مجلس سے جدا ہوتے وقت رضا مند ہوں تو (سمجھ لو ) فروخت کی جانے والی چیز بائع کی ملکیت سے مشتری کی ملکیت میں منتقل ہو گئی جبکہ وہ ایسی اشیا میں سے ہو جن کی تجارت جائز ہے۔
[السيل الجرار: 6/3]