محارم (خونی رشتوں) میں بیع کے ذریعے تفریق ڈالنا جائز نہیں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے
➊ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مـن فـرق بين والدة وولدها فرق الله بينه وبين أحبته يوم القيمة
”جس نے ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالی اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے اور اس کے اعزاء و اقارب کے درمیان جدائی ڈال دیں گے ۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 6412 ، ترمذي: 1283 ، كتاب البيوع: باب ما جاء فى كراهية أن يفرق بين الأخوين أو بين الوالدة وولدها فى البيع ، أحمد: 413/5 ، حاكم: 55/2 ، دارقطني: 67/3 ، طبراني كبير: 182/4]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں دو غلام بھائیوں کو فروخت کر دوں ، میں نے ان دونوں کو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أدركهما فارتجعهما ولا تبعهما إلا جميعا
”ان دونوں کو جا کر واپس لاؤ اور دونوں کو اکٹھا فروخت کرو۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 219 ، أحمد: 126/1 ، حاكم: 54/2 ، دارقطني: 65/3 ، مجمع الزوائد: 107/3 ، شيخ محمد صبحی حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 72/5]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈال دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا اور بیع کو رد کر دیا ۔
[حسن: صحيح ابو داود: 7345 ، ابو داود: 2696 ، دارقطني: 66/3 ، حاكم: 55/2]
ماں اور اولاد کے درمیان ، بہن بھائیوں کے درمیان اور لونڈی اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی ڈالنا حرام ہے خواہ بیع کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے۔ باپ کو بھی ماں پر قیاس کیا جائے گا اور والدہ اور بچے پر تمام محارم کو قیاس کیا جائے گا۔
❀ اگر ان کے درمیان جدائی ڈال دی جائے تو کیا بیع منعقد ہو جائے گی یا نہیں؟
(شافعیؒ) بیع منعقد نہیں ہو گی۔
(ابو حنیفہؒ) بیع منعقد ہو جائے گی۔
(راجح) حدیث کے یہ الفاظ ورد البيع ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع رد کر دی۔“ امام شافعیؒ کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: تحفة الأحوذي: 572/4 ، سبل السلام: 1086/3 ، نيل الأوطار: 534/3 ، المبسوط: 140/13 ، مرقاة: 528/6]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
نهى النبى صلى الله عليه وسلم أن يبيع حاضر لباد
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا سامان فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخاري: 2159 ، كتاب البيوع: باب من كره أن يبيع حاضر لباد بأجر ، نسائي: 256/7]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا يبع حاضر لباد
”شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے۔“
لوگوں کو اپنے حال پر رہنے دو اللہ انہیں ایک دوسرے سے رزق عطا فرمائیں گے ۔“
[مسلم: 2522 ، كتاب البيوع: باب تحريم بيع الحاضر للبادي ، أحمد: 307/3 ، ابو داود: 3442 ، ترمذي: 1223 ، نسائي: 256/7 ، ابن ماجة: 2176 ، بيهقى: 346/5]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهينا أن يبيع حاضر لباد ، إن كان أخاه لأبيه وامه
”ہمیں منع کیا گیا کہ کوئی شہری دیہاتی کا سامان فروخت کرے خواہ وہ اس کا سگا بھائی ہی ہو ۔“
[بخاري: 2161 ، مسلم: 1523 ، ابو داود: 3440 ، نسائي: 256/7]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تلقوا الركبان ولا يبع حاضر لباد
”سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان فروخت کرے (یعنی دلال نہ بنے) ۔“
[بخاري: 2158 ، كتاب البيوع: باب هل يبيع حاضر لباد بغير أجر]
(نوویؒ) ہمارے اصحاب کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ ایک اجنبی آدمی دیہاتی سے یا دوسرے شہر سے ایسا ساز و سامان جس کی سبھی کو ضرورت ہے ، اس روز کے نرخ کے مطابق فروخت کرنے کے لیے لے کر آتا ہے مگر اسے شہری کہتا ہے کہ اس سامان کو میرے پاس چھوڑ دو تا کہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر بیچ دوں ۔
[شرح مسلم للنووي: 425/5]
(جمہور ، شافعیؒ) شہری کا کسی دیہاتی کے سامان کو فروخت کرنا حرام ہے۔
(ابو حنیفہؒ) ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے (ان کا کہنا ہے کہ کہ مذکورہ احادیث منسوخ ہو چکی ہیں ) ۔
(امیر صنعانیؒ) نسخ کا دعوی صحیح نہیں ہے ۔
[فتح البارى: 371/4 ، تحفة الأحوذى: 469/4]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 537/3 ، سبل السلام: 1082/3]
◈ جس طرح شہری کے لیے کسی دیہاتی کا سامان بیچنا جائز نہیں اسی طرح اس کے لیے خریدنا بھی جائز نہیں کیونکہ لفظِ بیع دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔
[عمدة القاري: 387/9 ، تحفة الأحوذي: 470/4 ، نيل الأوطار: 538/3]