اسے بھی فسخ کا اختیار ہے جس نے اختیار کی شرط کے ساتھ سودا کیا ہو
➊ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البائع والمبتاع بالخيار حتى يتفرقا إلا أن تكون صفقة خيار ولا يحل له أن يفارقه خشية أن يستقيله
”خریدار اور فروخت کرنے والے کو اختیار حاصل ہے تا وقتیکہ ایک دوسرے سے جدا ہوں اِلا کہ سودا اختیار والا ہو اور سودا واپس کر دینے کے اندیشے کی وجہ سے جلدی سے الگ ہو جانا جائز نہیں ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1311 ، ابو داود: 3456 ، كتاب البيوع: باب فى خيار المتبايعين ، ترمذي: 1247 ، نسائي: 4483 ، أحمد: 183/2 ، دارقطني: 50/3 ، بيهقي: 271/5]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
كل بيّعين لا بيع بينهما حتى يتفرقا إلا بيع الخيار
”ہر دو بیع کرنے والوں کے درمیان اُس وقت تک بیع نہیں ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں سوائے اختیار والی بیع کے ۔“
[بخاري: 2107 ، ابو داود: 3454 ، نسائي: 4465 ، ترمذي: 1245 ، ابن ماجة: 2181]
بیع خیار کا مفہوم یہ ہے کہ سودا کرنے والوں میں سے اگر ایک نے اپنے لیے شرط لگا لی ہو تو اس کا اختیار جدائی کے بعد بھی باقی رہے گا جب تک اختیار کی مقررہ مدت ختم نہ ہو جائے۔
خیارِ شرط کا ثبوت اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں دھوکہ دیے جانے والے شخص کے لیے کہا تھا تم بیع کے وقت کہہ دیا کرو: لا خلابة ”کوئی فریب نہیں ہو گا۔“
[بخاري: 2117 ، كتاب البيوع: باب ما يكره من الحداع فى البيع]
(ابن حجرؒ) بخاری کی یہ روایت خیارِ شرط کی تائید کرتی ہے ۔ إلا بيع الخيار
(احمدؒ) بیع کے وقت معین مدت (اگرچہ لمبی ہی کیوں نہ ہو) کے لیے اختیار کی شرط لگانا درست ہے۔
(مالکؒ) مدت بقدر ضرورت مقرر کی جائے گی۔
(ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) اختیار کی مدت تین دن یا اس سے کم ہے۔
(راجح) امام احمدؒ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے ۔
[فقه السنة: 241/3]