بیع مزابنہ منع ہے

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُزَابَنَةِ: أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَ حَائِطِهِ ، إنْ كَانَ نَخْلًا: بِتَمْرٍ كَيْلًا . وَإِنْ كَانَ كَرْمًا: أَنْ يَبِيعَهُ بِزَبِيبٍ كَيْلًا ، أَوْ كَانَ زَرْعًا: أَنْ يَبِيعَهُ بِكَيْلِ طَعَامٍ . نَهَى عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ . }
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور (مزابنہ سے مراد ) یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کا پھل بیچے، اگر وہ درخت پر کھڑی کھجور ہو تو اسے تیار کھجور کے بدلے وزن کر کے بیچے، اگر انگور ہو تو خشک کھجور کے بدلے وزن کر کے اور اگر کھیت ہو تو اسے اناج کے بدلے وزن کرکے بیچے ، ان سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ۔
شرح المفردات:

المزابنة: درخت پر لگی نا معلوم عدد، نامعلوم ماپ اور وزن نامعلوم والی چیز کی اسی جنس کی معلوم عدد، معلوم ماپ اور معلوم وزن والی چیز کے بدلے تجارت کرنا ۔ / مصدر، باب مفاعلہ۔
شرح الحدیث:

اس ممانعت کی توجیہ یہ ہے کہ خشک پھل یا اناج کا وزن کم ہوتا ہے، جبکہ درخت یا فصل پر موجود اسی جنس کی چیز کا وزن اس کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، لہذا نقصان کے پیش نظر ان دونوں چیزوں کو مساوی کر کے بیچنا یا خریدنا ناجائز قرار دیا گیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل