بیع عینہ کا حکم
بیع عینہ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز ادھار بيچے، پھر وہی چیز اس سے کم قیمت پر نقد خرید لے، اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی آدمی کوئی گاڑی پچاس ہزار میں ایک سال کی مدت کے لیے ادھار بيچ دے، پھر اسی شخص سے وہی گاڑی چالیس ہزار میں نقد خرید لے، یہ ہے عينه کا مسئلہ، جو حرام ہے کیونکہ یہ سود خوری کے لیے حیلہ سازی ہے، گویا يه شخص جس نے یہ گاڑی پچاس ہزار روپے میں بيچی، پھر چالیس ہزار میں نقدا خرید لی، ایسے ہی ہے جیسے اس نے اس کو ایک سال تک پچاس ہزار کے بدلے چالیس ہزار نقد دے دیے، یہ گاڑی صرف ایک لفظ ہے جو سود پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اس كے متعلق فرمایا: یہ تو درہم کے بدلے درہم ہیں، صرف ان کے درمیان ریشم کا کپڑا داخل ہوا ہے۔ [سنن ابي داود، رقم الحديث 3462]
بیع عینہ کی مذمت و حرمت فرمان نبوی میں وارد ہوئی ہے۔
اس مسئلہ عينہ کے متعلق ایک ضابطہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہر وہ عقد یعنی معاہدہ بيع جس کے نتیجے میں سود تک پہنچا جائے وہ حقیقت میں عینہ کی صورت ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/243]