غلہ کی بیع جائز نہیں حتی کہ اس میں دو صاع جاری ہو جائیں اور بیع میں استثناء کرنا جائز نہیں اِلا کہ مال معلوم ہو اور (معلوم استثناء ) کی صورت یہ ہے کہ فروخت کیے جانے والے (جانور) کی سواری کو مستثنی کر لینا
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهى رسول الله عن بيع الطعام حتى يجرى فيه الصاعان ، صاع البائع وصاع المشترى
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلے کی بیع سے منع فرمایا ہے حتی کہ اس میں دو صاع جاری ہو جائیں ، (ایک) بائع کا صاع (اور دوسرا) مشتری کا صاع ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1812 ، كتاب التجارات: باب النهي عن بيع الطعام قبل ما لم يقبض، ابن ماجة: 2228 ، دار قطني: 8/3 ، بيهقي: 316/5]
➋ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ لفظ ہیں:
إذا ابتعت فاكتل وإذا بعت فكل
”جب تم خریدو تو ماپ کر لو اور جب بیچو تو ماپ کر دو۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 179/5 ، بخارى تعليقا: 75/5 ، أحمد: 62/1 ، فتح البارى: 76/5]
(جمہور) جو شخص ماپ کر کوئی چیز خریدے اور اسے قبضہ میں لینے کے بعد فروخت کرے تو پہلے کیے ہوئے وزن کے ساتھ اسے مشتری کے حوالے کر دینا جائز نہیں حتی کہ دوسری مرتبہ (فروخت کرتے وقت) اس کا وزن کیا جائے (یا اسے ماپ لیا جائے )۔
(شوکانیؒ ) یہی بات راجح ہے۔
[نيل الأوطار: 533/3]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن الثنيا إلا أن تعلم
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدھ چیز مستثنی کر لینے سے منع فرمایا ہے الا کہ اس کی مقدار مقرر کر لی جائے ۔“
[مسلم: 1536 ، كتاب البيوع: باب النهي عن بيع الثمار ، أبو داود: 3375 ، ترمذي: 1313 ، ابن ماجة: 2266 ، نسائي: 296/7 ، أحمد: 313/3]
حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ بیع میں استثناء کی صورت یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز فروخت کرے اور اس کا کچھ حصہ مستثنی کرے۔ اگر تو مستثنی (علیحدہ کی ہوئی چیز ) معلوم ہو مثلا درختوں میں سے ایک درخت ، مختلف منازل میں سے ایک منزل اور زمین کی مختلف جگہوں میں سے کوئی ایک جگہ تو بالاتفاق (یہ بیع) صحیح ہے اور اگر (مستثنی ) مجہول ہو مثلاً آدمی کسی نا معلوم چیز کو مستثنی کر دے (یعنی وہ کہے میں نے یہ ڈھیر فروخت کر دیا لیکن اس کا بعض حصہ فروخت نہیں کیا) تو بیع صحیح نہیں ہو گی ۔ اور مجہول استثناء کی بیع سے ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ یہ بیع جہالت کی وجہ سے دھوکے پر مشتمل ہوتی ہے۔
[فتح البارى: 354/5]
امام نوویؒ سے بھی اسی معنی میں قول مروی ہے۔
[شرح مسلم: 195/10]
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اونٹ فروخت کرتے وقت مدینہ تک اس پر سوار ہو کے جانے کا (معلوم ) استثناء کر لیا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک اوقیہ کے بدلے اسے فروخت کردیا:
واشترطت حملانه إلى أهلي
”اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سواری کی شرط لگا لی ۔“
[بخاري: 2406 ، كتاب فى الاستقراض: باب الشفاعة فى وضع الدين ، مسلم: 715 ، ابو داود: 3505 ، نسائي: 4637 ، أحمد: 299/3]