بھینس کی قربانی کے جواز پر فقہی دلائل اور فتاوے
تحریر: عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ

بھينس كي قرباني سے متعلق علماء كے فتاوے

سابقہ دلائل ، استدلالات اور تمام ترتفصیلات کی روشنی میں اہل علم نے بھینس کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے ، اور جواز کے فتاوے صادر کئے ہیں ، اہل علم کے چند فتاوے ملاحظہ فرمائیں :
اولاً : علماء عرب کے فتاوے :
(1) امام احمد و اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا فتوی :
امام اسحاق بن منصور الکوسج نے امام احمد سے سوال کیا :
الجواميس تجزئ عن سبعة؟ قال : لا أعرف خلاف هذا [ مسائل الامام أحمد و اسحاق بن راهويه 8 /4027 نيز ديكهئے : 8 / 4045 ]
سوال : کیا بھینسوں کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟
جواب : ( امام احمد نے فرمایا ) میں اس کے خلاف نہیں مانتا ۔
اسی طرح سوال کرتے ہیں :
قال سفيان . . . والجواميس تجزى عن سبعة؟ قال أحمد كما قال قال إسحاق : كما قال [مسائل الامام أحمد و اسحاق بن راهويه 8 / 4045 مسئلہ نمبر : 2882 نيز ديكهئے : مسئلہ نمبر : 2865 ]
سفیان ثوری کہتے ہیں : بھینسیں سات لوگوں کی طرف سے کافی ہیں؟ ( کیا یہ صحیح ہے ؟) امام احمد نے کہا جو انہوں نے کہا وہی ہے ۔ اور امام اسحاق نے کہا جیسے انہوں نے کہا ویسے ہی ہے ۔

(2) امام ابو زکریا نووی رحمہ اللہ کا فتوی :
امام نووی رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے بارے میں فرماتے ہیں :
شرط المجزي فى الأضحية أن يكون من الأنعام وهى الإبل والبقر والغنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البحاني والعراب وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية . . . [المجموع شرح المهذب 393/8 ]
قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور بہیمۃ الانعام میں سے ہو یعنی : اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب وغیرہ گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ۔

(3) علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی :
س : سئل فضيلة الشيخ رحمه الله : يختلف الجاموس عن البقر فى كثير من الصفات كاختلاف الماعز عن الضأن ، وقد فصل الضأن ، وقد فصل الله فى سورة الأنعام بين الضأن والماعز ، ولم يفصل بين الجاموس والبقر ، فهل يدخل فى ضمن الأزواج الثمانية فيجوز الأضحية بها أم لا يجوز؟ فأجاب بقوله : الجاموس نوع من البقر ، والله عز وجل ذكر فى القرآن المعروف عند العرب الذين يحرمون ما يريدون ويبيحون ما يريدون ، والجاموس ليس معروفا عند العرب [ مجموع فتاوي در سائل العثيمين 34/25]
سوال : فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ۔ بھینس بہت سے اوصاف میں گائے سے مختلف ہے ، جیسے بکرا مینڈھے سے مختلف ہوتا ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مینڈھے اور بکرے کو تو الگ الگ بیان کیا ہے لیکن بھینس اور گائے کو الگ نہیں کیا ہے تو کیا بھینس نر و مادہ آٹھ قسموں کے ضمن میں داخل ہوئی اور اس کی قربانی بھی جائز ہو گی یا نہیں؟
جواب : آپ نے فرمایا : بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف ان مویشیوں کو بیان کیا ہے جو عربوں کے یہاں معروف تھے جنہیں وہ اپنی چاہت کے مطابق حرام ٹھہراتے تھے اور اپنی خواہش کے مطابق مباح اور جائز کر لیتے تھے ، اور بھینس اہل عرب کے یہاں معروف تھی ۔

(4) شیخ عبد العزیز محمد السلمان رحمہ اللہ کا فتوی :
س : تكلم بوضوح عن أحكام ما يلي : . . . الجواميس فى الهدي والأضحية ، اذكر ما تستحضره من دليل أو تعليل
ج : والجواميس فى الهدي والأضحية كالبقرة فى الإجزاء والسن وإجزاء الواحدة عن سبعة؛ لأنها نوع منها ، والله أعلم [الأسئلة والأجوبة الفقہیۃ 8/3-9 ]
سوال : حسب ذیل احکام کے سلسلہ میں وضاحت سے بتلائیں : ۔ ۔ ۔ ھدی اور قربانی میں بھینس کا کیا حکم ہے ؟ جو دلیل یا تعلیل مستحضر ہو وہ بھی ذکر کریں ۔
جواب : ہدی اور قربانی میں بھینس کا حکم کفایت کرنے ، عمر اور ایک میں سات کے شریک ہونے وغیرہ میں گائے کی طرح ہے ؛ کیونکہ وہ گائے ہی کی ایک قسم ہے ، واللہ اعلم ۔

(5) محدث العصر علامہ عبد الحسن العباد حفظہ اللہ کا فتوی :
س : ما حكم الأضحية بالجاموس؟
ج : الجاموس من البقر [شرح سنن الترمذي ]
سوال : بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے ۔
نیز فرماتے ہیں :
والأضاحى خاصة ببهيمة الأنعام : الإبل والبقر والغنم والجاموس يعد من فصيلة البقر [شرح سنن أبى داود اللعباد درس نمبر : 329 ، در شرح حديث نمبر : 2793 باب ما يستحب من الضحايا ]
قربانی بہیمۃ الانعام : یعنی اونٹ ، گائے اور بکری کے ساتھ خاص ہے ، اور بھینس گائے کی قسم شمار ہوتی ہے ۔

(6) فضیلۃ الشیخ مصطفی العدوی کا فتوی :
س : من أى شيء تكون الأضحية ؟
ج : الشيخ مصطفى العدوي : تكون الأضحية من الأنعام الثمانية ، والأنعام الثمانية هي التى ذكرت فى قول الله تعالى ﴿وأنزل لكم من الأنعام ثمانية أزواج﴾ [الزمر : 6] وفي اية أخري يقول سبحانه جل فى علاه ﴿ثمانية أزواج من الضأن اثنين ومن المعز اثنين ومن الإبل اثنين ومن البقر اثنين﴾ [الأنعام : 144 143] ، فالأضحية لا تكون إلا فى الأنعام الثمانية وهذا رأي الجمهور وهما : الجمل ، الناقة ، الثور ، البقرة ، الجدي العنزة الكبش والنعجة ، والجاموس يلحق بالبقر ، فما الجاموس إلا بقر أسود ، فهذه الأقسام التى تجوز منها الأضاحي
سوال : قربانی کس چیز کی ہوگی ؟
جواب : شیخ مصطفی عدوی
قربانی آٹھ ازواج کی ہوگی ، اور ان کا تذکر ہ فرمان باری : ( اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے ( آٹھ نر و مادہ ) اتارے ) اور ( آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم) اور (اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم) میں کر دیا گیا ہے ۔ لہٰذا قربانی صرف آٹھ جوڑوں کی ہو سکتی ہے ، اور یہی جمہور کی رائے ہے ، اور وہ ہیں : اونٹ اونٹنی بیل گائے ، بکرا بکری ، مینڈھا مینڈھی ، اور بھینس گائے سے ملحق ہے ، کیونکہ بھینس کالی گائے ہی ہے ، لہٰذا ان قسموں سے قربانی جائز ہے ۔

(7) مدرس مسجد نبوی علامہ محمد الشنقیطی کا فتوی :
قال : . . . والإبل بنوعيها : العراب ، والبختية ، والبقر بنوعيه : البقر ، والجواميس والغنم بنوعيه : الضأن ، والمعز ، فجعل الله فى الإبل زوجين ونوعين . . والبقر يفضل على الجاموس ؛ لأن النبى ضحى عن نسائه بالبقر ، وعلى هذا فإن البقر أفضل من التضحية بالجاموس ؛ والجاموس يدخل فى هذا بنوعيه
علامہ محمد مختار الشنقیطی قربانی کے احکام بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :
اونٹ کی دونوں قسمیں جائز ہیں : عراب اور بختی ، اور گائے کی دونوں قسمیں جائز ہیں ، گائیں اور بھینسیں ، اور بکرے کی دونوں قسمیں جائز ہیں ، مینڈھا اور بکری ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں دو جوڑے اور دو قسمیں بنائی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور گائے بھینس سے افضل ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی ۔ لہذا بھینس سے گائے کی قربانی افضل ہے ۔ اور بھینس اپنی دونوں قسموں ( نرو ماندہ) سے اس میں داخل ہے ۔

(8) شیخ حامد بن عبد الله العلی کا فتوی :
س : فضيلة الشيخ إشرح لنا أحكام الأضحية؟
ج : الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى اله وصحبه و بعد : الأضحية سنة مؤكدة . . . . وأفضلها الإبل وتجزىء عن سبعة ، ولا يقل عمرها عن خمس سنين . . ثم البقر أو الجاموس وتجزىء عن سبعة ولا يقل عمرها عن سنتين . ثم الغنم ولا تجزىء إلا عن واحد
سوال : فضیلۃ الشیخ ہمارے لئے قربانی کے احکام کی وضاحت فرما دیں؟
جواب : الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه و بعد : قربانی سنت موکدہ ہے ۔ سب سے افضل قربانی اونٹ کی ہے ایک اونٹ سات لوگوں کی طرف سے کافی ہوتا ہے ، اس کی عمر پانچ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے ، پھر ترتیب کے اعتبار سے گائے یا بھینس ہے ، یہ بھی سات لوگوں کی طرف سے کافی ہے ، اس کی عمر دو سال سے کم نہیں ہونا چاہئے ، اور پھر بکری ہے ، جو صرف ایک کی طرف سے کافی ہوتی ہے ۔

(9) فضیلۃ الشیخ الدکتور احمد الحجی الکردی کا فتوی :
شيخنا الفاضل د . أحمد الكردي
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
هل تجوز الأضحية بولد الجاموس الذى تجاوز عمره سنة ووزنه مائتين كيلو جرام على أن يكون عدد من يشترك فى الأضحية اثنان فقط؟
إجابة المفتي أ . د . أحمد الحجي الكردي :
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد خاتم الأنبياء والمرسلين ، وعلى اله وأصحابه أجمعين ، والتابعين ومن تبع
هداهم بإحسان إلى يوم الدين ، و بعد : فالجاموس فى الأحكام الشرعية كالبقر ، ويشترط للتضحية بالبقر أن يكون قد أتم السنتين واسأل الله لكم التوفيق ، والله تعالى أعلم

فضيلة الشيخ الدكتور احمد الحجي الكردی :
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
سوال :
کیا بھینس کے بچے (کٹے) کی قربانی جائز ہے جس کی عمر ایک سال اور وزن دو سو کلو گرام سے زیادہ ہے اس طور پر کہ قربانی میں صرف دو لوگ شریک ہوں گے ؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد خاتم الأنبياء والمرسلين ، وعلى اله وأصحابه أجمعين ، والتابعين ومن تبع هداهم بإحسان إلى يوم الدين ، و بعد :
بھینس شرعی احکام میں گائے کی طرح ہے ، اور گائے کی قربانی کے لئے شرط ہے کہ اس کے دو سال مکمل ہو چکے ہوں ۔ اور میں آپ کے لئے توفیق کا خواستگار ہوں ۔

(10) فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت کا فتوی :
قربانی کے جانور کے بارے میں فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت میں ہے :
الشرط الأول : وهو متفق عليه بين المذاهب : أن تكون من الأنعام ، وهى الإبل عرابا كانت أو بخاتي ، والبقرة الأهلية ومنها الحواميس [ الموسوعة الفقہیۃ الكويتية 81/5 ]
پہلی شرط : اور یہ تمام مذاہب میں متفق علیہ ہے : کہ قربانی کا جانور انعام میں سے ہونا چاہئے یعنی اونٹ خواہ عربی ہو یا بخاتی اور گھریلو گائیں اور اسی میں بھینس بھی ہے ۔

(11) شیخ محمد بن صالح المنجد کا فتوی :
س : حكم التضحية بمقطوعة الذيل أو الإلية ، وما الحكم : إذا لم يجد أضحية سليمة ؟
ج : قال الشيخ ابن عثيمين : فالضأن إذا قطعت إليته لا يجزئ ، والمعز إذا قطع ذنبه يجزئ ”انتهى ، الشرح الممتع“ [435/7 ]
وقد سبق نقل فتوى اللجنة الدائمة فى عدم جواز التضحية بمقطوع الإلية .
ثانيا : الواجب عليك الاجتهاد فى البحث عن أضحية غير مقطوعة الإلية ، ولا يجزؤك التضحية بشاة مقطوعة الإلية ما دام بالإمكان الحصول على شاة سليمة من كل العيو ب .
فإن لم تتمكن من الحصول على شاة سليمة ، فالمشروع هنا الانتقال إلى نوع اخر من بهيمة الأنعام التى تجزئ فى الأضاحي ، فتتركوا هذه الشياه المعيبة ، وتضحون بالماعز ، إن وجدتموه سليما من العيو ب أو تضحون بالبقر ومثله الجاموس ، أو الإبل فيشترك كل سبعة منكم فى بقرة أو ناقة
[ موقع اسلام سوال وجواب از شيخ محمد صالح المنجد]
سوال : دم یا پٹھا کٹے ہوئے جانور کی قربانی کا حکم ، اور اگر صحیح سلامت قربانی میسر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جس دنبے کی چکی کاٹ دی جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی لیکن جس بھیڑ بکری کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی قربانی ہو جائے گی ۔ ”الشرح الممتع“ [435/7 ]
اور سوال نمبر : (37039) میں دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی گزر چکا ہے جس میں پٹھا کٹے ہوئے جانور کی قربانی درست نہ ہونے کا ذکر ہے ۔
دوم : آپ کے لیے ایسی قربانی تلاش کرنا واجب ہے جس کی چکی کٹی ہوئی نہ ہو ، چنانچہ جب تک ایسے جانور کا حصول ممکن ہے جو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہو اس وقت تک عیب والا جانور قربان کرنا قربانی کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔
اور اگر آپ کو کوئی صحیح سالم بکری بھی میسر نہ آئے تو آپ قربانی کے لائق دیگر قسم کے جانوروں کی قربانی کریں ، اس لئے عیب زدہ بھیڑ کو چھوڑ کر صحیح سالم بکریوں کی قربانی کریں ، یا گائے کی قربانی کریں ، اور اس کے حکم میں بھینس بھی ہے ، یا اونٹ کی قربانی کرلیں ، چنانچہ ایک گائے یا اونٹ میں قربانی کے لیے سات افراد جمع ہو سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم

علماء حدیث برصغیر کے فتاوے

(1) رئیس المناظرین علامہ ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ کا فتوی:
سوال: بھینس کی حلت کی قرآن وحدیث سے کیا دلیل ہے؟ اور اس کی قربانی بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ قربانی جائز ہو تو استدلال کیا ہے ، حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجازت فرمائی یا عمل صحابہ ہے؟ (محمود علی خریدار اہل حدیث )
جواب: جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں:
﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾ [الانعام: 145]
(آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو) ان چیزوں کے سوا جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے ۔ بھینس ان میں نہیں ، اس کے علاوہ عرب کے لوگ ”بھینس“ کو ”بقر“ (گائے) میں شامل سمجھتے ہیں ۔
تشریح: حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ تعامل صحابہ ہے ۔ ہاں اگر اس کو جنس ”بقر“ سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کمافی الھداية) یا عموم بہیمتہ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے ۔ (ملخص) واللہ اعلم [فتاوي ثنائيه 810/1-809]

(2) شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کا فتوی:
سوال: احکام قربانی کے کیا کیا ہیں تفصیلا بیان فرما دیں؟
جواب: اس سوال کے تفصیلی جواب کے ضمن میں قربانی کے جانور کی عمر پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اور دوسرا شروع ، اور گائے اور بھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسرا شروع ، اور اونٹ کا پانچ سال اور چھٹا شروع ہونا چاہئے ، اور بھیڑ ایک سال سے کم کی بھی جائز ہے ، بشرط اس کے کہ خوب موٹی اور تازی ہو ، کہ سال بھر کی معلوم ہوتی ہو ۔ اور پھر آگے ”مسنۃ“ کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: اور ”مسنۃ“ ہر جانور میں سے ”ثنی“ کو کہتے ہیں ، اور ثنی کہتے ہیں بکری میں سے جو ایک سال کا ہو ، اور دوسرا شروع ، اور گائے بھینس میں سے جو دو سال کی ہو ، تیسر ا شروع ، اور اونٹ کا جو پانچ سال کا ہو ، اور چھٹا شروع ہو ۔ [بالتفصيل ، فتاوي نذيريه شيخ الكل حضرت مولانا سيد محمد نذير حسين محدث دهلوي 3 / 255-258 ، ناشر اهل حديث اكاومي كشميري بازار لا هور تطبع دوم 1971ء]

(3) شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کا فتوی:
الف: شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ احتیاطا اونٹ ، گائے اور بکری کی قربانی پر اکتفا کرنے کی ترغیب کے ساتھ بھینس کی قربانی کے جواز اور کرنے والوں پر عدم ملامت کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والأحوط عندي أن يقتصر الرجل فى الأضحية على ما ثبت بالسنة الصحيحة عملا وقولا وتقريرا ، ولا يلتفت إلى ما لم ينقل عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم ولا الصحابة والتابعين رضي الله عنهم ، ومن اطمأن قلبه بما ذكره القائلون باستنان التضحية بالجاموس ذهب مذهبهم ولا لوم عليه فى ذلك ، هذا ما عندي والله أعلم [مرعاة المفاتيح شرح مشکاۃا المصابیح 82/5]
میرے نزدیک زیادہ قابل احتیاط بات یہ ہے کہ آدمی قربانی میں انہی جانوروں پر اکتفا کرے جو قولی عملی اور تقریری طور پر صحیح سنت سے ثابت ہیں ، ان چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ، البتہ جس کا دل بھینس کی قربانی کے جواز کے قائلین کے ذکر کردہ دلائل سے مطمئن ہو ، وہ ان کا موقف اپنالے ، اور اس بارے میں اس پر کوئی ملامت نہیں ، یہی میری رائے ہے ، واللہ اعلم ۔

شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا بصراحت جواز کا فتوی:
سوال: عید الاضحی کے موقعہ پر ایک گاؤ میش (یعنی بھینس ) جس کے دونوں سینگ کا اوپر کا حصہ یعنی: جواو پر کا حصہ باریک ہوتا ہے کاٹا ہوا تھا یعنی: موٹاحصہ باقی رہ گیا جو دور سے دیکھنے والے کو یہ نظر آتا تھا کہ اس بھینس کے دونوں سینگ کٹے ہوئے ہیں ، کاٹی ہوئی جگہ کی چوٹیوں پر دو تین انگل اگر رکھے جاویں تو چوٹیوں کی اتنی فراخی یعنی عرض ہے ۔ عید قرباں کے روز خطیب نے خطبہ پڑھا اور کہا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جانور کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں اس کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس لئے یہ گاؤ میش قربانی کے لائق نہیں ہے ۔ جنھوں نے گاؤ میش خریدی تھی انہوں نے کہا کہ یہ کٹے ہوئے ہیں ٹوٹے ہوئے نہیں ہیں ۔ گاؤ میش کا اصل مالک جس سے گاؤ میش خریدی تھی ان خریداروں کو کہنے لگا کہ یہ گاؤ میش تم مجھے واپس دے دو اور رقم لے لو اور کوئی قربانی کا جانور خرید لو ۔
(1) اس پر ایک مولوی صاحب نے جو کہ سند یافتہ ہیں فرمایا کہ یہ ضرورت کے لئے سینگ کاٹے گئے ہیں یہ قربانی کے لئے جائز ہے ۔
(2) جو ریوڑ والے اپنی پہچان کے لئے تھوڑا سا کان نشانی کرنے کے لئے کہ اس جانور کی پہچان ہو سکے کہ یہ میرے ریوڑ کا ہے کاٹ لیتے ہیں وہ بھی جائز ہے ، بنابریں گاؤ میش کو انہوں نے قربانی کر ڈالی ہے ۔ ملتمس ہوں کہ گاؤ میش قربانی کے لئے جائز تھی یا نہیں؟ جن لوگوں نے قربانی کر ڈالی ہے ان کو کوئی سزا ہے یا نہیں؟
(3) اگر نشانی کے لئے تھوڑا سا کان چیرا جائے یا کاٹا جائے تو وہ جانور قربانی کے لئے جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام ابو حنیفہ ، امام احمد ، امام شافعی ، امام مالک کے نزدیک اس گاؤ میش کی قربانی جائز تھی ، اس لئے اس کی قربانی درست ہوگئی کیونکہ اس کی سینگ آدھی سے زیادہ موجود تھی ، ان لوگوں کے نزدیک آدھی سے زیادہ کٹی یا ٹوٹی ہو (تو قربانی نہیں ہوگی) اور صورت مسؤلہ میں آدھی سے کم کٹی تھی اور آدھی سے زیادہ موجود تھی ۔ نیز امام مالک کے نزدیک اس وقت ناجائز ہے جب ٹوٹے سینگ سے خون جاری ہو ، ورنہ سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی ان کے نزدیک مطلقا جائز ہے ۔
پس صورت مسئلہ میں اگر اس بھینس کی اندرونی سینگ بالکل صحیح سالم پوری کی پوری موجود تھی اور صرف خول کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا تھا تو قربانی جائز ہوگی ۔
کتبه عبید الله المباركفوري الرحماني المدرس بمدرستہ دار الحدیث الرحمانیہ بدہلی ۔ [فتاوی شيخ الحديث مباركپوري رحمه الله علامه عبيد الله رحماني مباركپوري كے علمي وفقہي فتاوي و تحريروں كا مجموعه جمع و ترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مباركپوري 2 / 400-402 ، دار الابلاغ لاهور]

(4) محقق العصر مولانا عبد القادر حصاری ساہیوال کا فتویٰ:
سوال: بھینس یا بھینسا جو مشہور جانور ہے کیا اس کی قربانی شریعت سے ثابت ہے؟ کتاب و سنت کی رو شنی میں اس کی وضاحت فرمائیے ، آپ کی تحقیق مسائل سے میری تسلی ہو جاتی ہے ۔
جواب: الحمد لله رب العالمين ، أما بعد: فأقول و بالله التوفيق واضح ہو کہ بھینس بھینسا جو مشہور حیوان ہے اور پنجاب وغیرہ ملک عجم میں عام پایا جاتا ہے ۔ عہد نبوی و صحابہ میں ملک عرب خصوصاًً حجاز میں پایا نہیں گیا ۔ کتاب وسنت میں خصوصی طور پر اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ یہ ملک عجم کی پیداوار ہے اس لیے اس کا نام معرب جاموس ہے حیوۃ الحیوان ج اص 232 میں ہے علامہ دمیری فرماتے ہیں: الجاموس واحد الجواميس ، فارسي معرب ”یعنی جاموس جوامیس صیغہ جمع کا واحد ہے“ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے جیسے بھیڑ ، دنبہ ، بکری کی جنس سے ہیں اس طرح جاموس بقر یعنی بھینس گائے کی جنس سے ہے چنانچہ حیوۃ الحیوان کے صفحہ محولہ میں لکھا حكمه وخواصه كالبقر یعنی بھینس کا حکم مثل گائے کے ہے یعنی اس کی جنس سے ہے ۔ ھدایہ فقہ کی مشہور درسی کتاب کی جلد 2 ص 229 میں لکھا ہے: ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه ”یعنی قربانی کے بارہ میں ، بھینس گائے کا حکم رکھتی ہے“ کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے کتاب الزکوۃ میں زکوۃ کے احکام بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک اثر باسنادہ یوں درج کیا ہے ۔ ابو بكر قال حدثنا معاذ بن معاذ ، عن أشعث ، عن الحسن ، أنه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر ”یعنی امام حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بھینس گائے کے درجہ میں ہے“ یعنی جیسے تیس گایوں پر زکوۃ ہے ویسے ہی تیس بھینسوں پر ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم قرآن وحدیث کا حاصل کیا ہے انہوں نے بھینس کو گائے کی جنس سے ٹھہرا کر اس پر وہی حکم لگایا ہے ، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موطا (مع شرح مصفیٰ) کے (ص 213) میں حیوانوں کی زکوۃ کا حکم بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھا ہے: قال مالك فى العراب والبخت والبقر والجواميس نحو الخ ”یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جیسے گوسفند اور بکری سے زکوۃ لینے کی تفصیل بیان ہوئی ہے ایسے ہی عربی اونٹوں اور بختی اونٹوں اور گائیوں اور بھینسوں سے زکوۃ لینی چاہئے“ امام مالک تبع تابعین رحمہ اللہ سے ہیں جو جاموس کو گائے ساتھ شمار کرتے ہیں ۔ پس تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں جاموس گائے کی جنس میں شمار ہوا کنوز الحقائق میں ایک روایت یوں درج ہے ۔ الجاموس تجزي عن سبعة فى الأضحية یعنی بھینس قربانی میں سات کی طرف سے شمار ہے ۔ اس حدیث کی اسناد کا کچھ علم نہیں ۔ کنوز الحقائق میں فردوس دیلمی کا حوالہ ہے اور معلوم ہے کہ فردوس کی روایات عموماًً کمزور ہوتی ہیں ، کنز العمال کے مقدمہ میں بحوالہ حافظ سیوطی جن چار کتابوں کی روایتوں کو علی العموم کمزور کہا ہے ان میں اس کا بھی شمار ہے ۔ والديلمي فى مسند الفردوس فهو ضعيف فيستغني بالعزو إليها أو إلى بعضها عن بيان ضعفه (جلد اول ص 3) لیکن جاموس کو گائے کے ساتھ شمار کرنے میں اکابر محدثین کا مسلک ہے ۔ چنانچہ مرعاۃ المفاتیح جلد 303/2 میں ہے:
لما رأى الفقهاء مالكا والحسن وعمر بن عبد العزيز وأبا يوسف و ابن مهدي ونحوهم أنهم جعلوا الجاموس فى الزكاة كالبقر فهم من ذلك أن الجاموس ضرب من البقر ، فعبر عن ذلك بأنه نوع منه
یعنی فقہاء محدثین امام مالک امام حسن بصری ، امام عمر بن عبد العزیز ، قاضی ابو یوسف امام ابن مہدی و غیرہ جاموس کو گائے کی ایک قسم شمار کرتے ہیں ، اس لئے زکوۃ بھینس کی گائے کے حساب سے بیان کرتے ہیں ۔ نیز یہ لکھا ہے: أعلم أنه لا يجزئ فى الأضحية غیر بهيمة الأنعام لقوله تعالى: ﴿ليذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام﴾ وهى الإبل والبقر والغنم ، والغنم صنفان: المعز والضأن یعنی یہ بات جان لینی چاہئے کہ بہیمۃ الانعام کے بغیر کوئی جانور قربانی میں کفایت نہیں کرسکتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان قرآن میں یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا نام قربانی کے مویشیوں پر یاد کریں ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دئیے ہیں اور وہ اونٹ ، گائے اور غنم ہیں ۔ غنم کی دو قسمیں ہیں: ایک بکری دوسری بھیڑ ۔ ان جانوروں کے بغیر کسی جانور کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے منقول نہیں ہے ، پھر لکھتے ہیں: فمذهب الحنفية وغيرهم جواز التضحية به ”یعنی مذہب حنفى وغيره میں بھینس کی قربانی جائز لکھتے ہیں ۔“ پھر یہ لکھا ہے: قالوا: لأن الجاموس نوع من البقر ، ويؤيد ذلك أن الجاموس فى الزكاة كالبقرة ، فيكون فى الأضحية أيضا مثلها ”یعنی الفقہاء حنیفہ وغیرہ یہ لکھتے ہیں کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے اور ان کی تائید یہ بات کرتی ہے کہ بھینس زکوۃ کے بارہ میں مثل گائے کے ہے تو قربانی میں بھی اس کی مثل ہے ۔“ میں کہتا ہوں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ بھینس حلال ہے ، اس کی دلیل سورۃ مائدہ کی آیت ہے: ﴿أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ﴾ ”تمہارے لئے چار پائے مویشی حلال کئے گئے ہیں“ تفسیر خازن وغیرہ میں سب چار پائے حیوانوں کو جو مویشی ہیں ۔ گھوڑے کی طرح سم دار نہیں اور نہ شکار کرنے والے درندے ہیں ۔ سب کو بھیمۃ الانعام میں شمار کیا ہے ، حتی کہ ہرن اور نیل گائے جنگلی گدھا گور خر وغیرہ کو بھی بہیمتہ الانعام میں شمار کیا ہے ، تو بھینس بھی بہیمتہ الانعام میں داخل ہے ، اس لئے یہ حلال ہے ، اور بہیمتہ الانعام کی قربانی نص قرآن سے ثابت ہے چنانچہ سورہ حج میں یہ آیت ہے: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ ”یعنی ہم نے ہر امت کے لیے طریقہ قربانی کرنے کا مقرر کیا ہے تاکہ اللہ کا نام ذبح کے وقت ان مویشیوں پر ذکر کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دئیے ہیں اور انہوں نے پال رکھے ہیں ۔ موضح القرآن میں بہیمۃ الانعام پر لکھا ہے ۔ “
”انعام وہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں کھانے کو ، جیسے گائے ، بکری ، بھیڑ ، جنگل کے ہرن اور نیل گائے وغیرہ اس میں داخل ہیں کہ جینس ایک ہے ۔“
بنابریں بھینس بھی بہتہ الانعام میں داخل ہے چنانچہ فتاوی ثنائیہ جلد 1 ص 540 میں سوال و جواب یوں درج ہیں:
سوال: بھینس کی حلت کی قرآن وحدیث سے کیا دلیل ہے اور اس کی قربانی بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ قربانی جائز ہو تو استدلال کیا ہے ، حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجازت فرمائی ہے ، یا عمل صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ۔
جواب: جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں: ﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾ [الانعام: 145]
ان چیزوں کے سوا جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے بھینس ان میں نہیں (وہ حلال ہے ) اس کے علاوہ عرب کے لوگ بھینس کو بقرہ (گائے ) میں داخل سمجھتے ہیں (تشریح حجاز میں بھینس کا وجود ہی تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کمافی الھدایہ) ، یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز ، قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے ۔
میں (عبد القادر حصاری ) کہتا ہوں کہ بھینس کو بہیتہ الانعام میں شمار کرنا قیاس نہیں ہے قرآنی نص بہیمتہ الانعام کا لفظ عام ہے جس کیلیے کئی افراد ہیں ، گائے ، بکری وغیرہ ۔ تو بھینس بھی بہیمۃ الانعام کا ایک فرد ہے ، بہیمۃ الانعام کی قربانی منصوص ہے تو بھینس کی قربانی بھی نص قرآنی سے ثابت ہوگئی ۔ باقی رہی یہ بات کہ سنت رسول سنت صحابہ نہیں ہے تو جواز کو مانع نہیں ہے ، دیکھئے: ریل ، جہاز ، سائیکل موٹرکار وغیرہ کا وجود عہد نبوی میں نہ تھا ، ان کی سواری نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ سنت صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہے ؛ تاہم یہ سب چیزیں عموم (عموم سے مراد یہ آیت ہے: ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ اس عہد کی تمام سواریوں کا ذکر کے فرمایا پیدا کرے گا وہ سواریاں جو تم نہیں جانتے ۔ الراقم علیمحمد سعیدی ) کے تحت آجاتی ہیں ۔ اور علماء اسلام ریل ، موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوں گے یا اونٹ گھوڑے گدھے وغیرہ پر سوار ہوں گے ۔ نیز نماز کی اذان عہد نبوی میں بلند مکان پر پڑھی جاتی تھی اور عہد سلف میں بلند مینار پر پڑھی جاتی تھی اور اس وقت لاؤڈ اسپیکر نہ تھا لیکن اب مسجدوں کے اندر لاؤ اسپیکر نصب ہیں اور اذان مسجد کے اندر کہی جاتی ہے ۔ پہلا مسنون طریقہ ہے اور دوسرے مروجہ کو جائز کہا جائے گا ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی قربانی مسنون ہے تاہم بھینس بھینسا کی قربانی بھی جائز اور مشروع ہے ، اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک درست نہیں فقط ۔
عبد القادر عارف المحصاری [اخبار الاعتصام لاہور جلد 26 شماره 15 مورخه 8 / نومبر 1974ء نيز ديكهئے: فتاوي حصاريه ومقالات علميه ، تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 442/5-446 ، ناشر مكتبه اصحاب الحديث لاهور ۔ وفتاوي علماء حديث ترتيب ابو الحسنات على محمد سعيدي مہتمم جامعه سعيديه خانيوال 71/13-74 ، ناشر مكتبه سعيديه خانيوال]

نوٹ: واضح رہے کہ علامہ حصاری رحمہ اللہ پہلے بھینس کی قربانی کے عدم جواز کے قائل تھے ، اور اس سلسلہ میں انہوں نے عدم جواز کا فتوی بھی دیا تھا ۔ [تنظيم اهل حديث ، جلد 16 ، شماره 42 ، 17 اپريل 1964ء نيز ديكهئے: فرآوي حصاريه و مقالات علميه ، 441-436/5]
الحمد للہ پھر اس کی قربانی کے جواز کے قائل ہوئے دلائل کے واضح ہونے پر حق کی طرف رجوع کیا اور اس کے جواز کا فتوی دیا ، اور ”بھینسے (کٹے ) کی قربانی پر دو متعارض فتوے اور ان کا تحقیق محل“ کے عنوان سے عدم جواز اور جواز کے دو متعارض فتووں میں تصفیہ کے سلسلہ میں دلائل کی روشنی میں حق واضح ہونے پر متعدد اہل علم کے رجوع الی الحق کی مثالیں پیش کر کے اپنے رجوع کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ پہلا فتوی (عدم جواز ) مرفوع و منسوخ ہے اور دوسرا فتوی (جواز ) قابل اخذ وعمل ہے ، چنانچہ اس کے بعد فرماتے ہیں:
واضح ہو کہ اس تعارض کے دو جواب ہیں ۔ ایک اصولی ، دوسرا تحقیقی ۔ اصولی جواب یہ ہے کہ بخاری شریف (جلد 1 ص 96 ) میں ہے کہ امام حمیدی استاد امام بخاری رحمہ اللہ اور تلمیذ امام شافعی رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ دو احادیث میں تعارض واقع ہو تو قاعدہ یہ ہے: انما يوخذ بالآخر ”کہ دوسرے حکم کو لیا جائے گا ۔“ اور پہلا مرفوع الحکم ہوگا ۔ پس اس قاعدہ کی رو سے کمترین حصاری کا دوسرا فتوی مندرجہ اخبار الاعتمام قابل اخذ ہے ۔ پہلا فتوی عدم جواز مرفوع ہے ۔ ہاں سنت تو ان جانوروں کی ہے ، دنبہ ، بکری ، گائے ، اونٹ لیکن بھینس وغیرہ جانوروں کی قربانی جائز ہے ۔ جیسے اونٹ گھوڑا ، گدھا ، خچر کی سواری سنت ہے اور سائیکل موٹر سواری ، ریل ، ہوائی جہاز وغیرہ کی سواری جائز ہے ۔ اسی طرح کسی بلند مکان اور منار وغیرہ پر اذان کہنی سنت اور مسجدوں کے اندر لاؤڈ سپیکر پر اذان کہنا مباح ہے ۔ اسی طرح ہاتھ کی انگلیوں سے کھانا کھانا اور ان کو چاٹنا سنت ہے اور چمچوں سے کھانا مباح ہے ۔ اسی طرح سنت اور جواز کا مقابلہ بہت سے کاموں اور چیزوں میں ہے ۔
دوسرا تفصیلی جواب یہ ہے کہ بھینس کی قربانی سنت تو نہیں ہے کیونکہ خاص صریح ذکر اس کا کسی نص شرعی میں نہیں پایا گیا ، البتہ جائز اور درست ہے ۔ عموم ادلہ سے علماء نے استخراج اس کا کیا ہے ۔ (آگے علامہ ثناء اللہ امر تسری رحمہ للہ کا فتوی ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں )
میں کہتا ہوں کہ اشیاء کی پہچان میں محاورہ اہل عرب کا معتبر ہے کہ شریعت الہی ان کی زبان پر نازل ہوئی ہے ۔ علماء اہل پنجاب و عجم کا نہیں کہ یہ اہل زبان نہیں ہیں ۔
حیاۃ الحیوان علامہ دمیری کی مشہور کتاب ہے جو حیوانات کے بیان اور پہچان میں نہایت معتبر اور قابل اعتماد ہے ، اس کی جلد 1 / ص 132 میں یہ لکھا ہے کہ حرف جیم میں جاموس کا بیان ہے ۔ حكمه وخواصه كالبقر یعنی اس کے خواص اور اس کا حکم شرعی مثل گائے کے ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ اہل عرب بھینس کو گائے کی جنس سے شمار کرتے ہیں ، اس لیے اگر تیس بھینس ہوں گی تو مثل گائے کے ان پر زکوۃ فرض ہے ۔
اور حیاۃ الحیوان کے ص 160 میں یہ لکھا ہے: قال الرافعي: قياس تكميل النصاب بإدخال الجاموس فى البقر فى الزكوة دخولها منها یعنی امام رافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زکوۃ میں گائے کے نصاب کو پورا کرنے کے لیے بھینسوں کو گائے کے ساتھ شامل کیا جائے گا ۔ قیاس یہی چاہتا ہے کیونکہ بھینس گائے کی جنس میں داخل ہے یعنی اگر بیس گائے کسی کے پاس ہوں اور دس بھینسیں ہوں تو ان پر زکوۃ فرض ہوئی ۔
موطا امام مالک مع شرح زرقانی (116/2) میں لکھا ہے: وقال مالك و كذلك البقر والجواميس يجمع فى الصدقة وقال: إنما هي بقر یعنی امام الائمہ مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح بکریوں کا نصاب بھیڑوں کو ملا کر پورا کیا جاتا ہے ، اسی طرح گایوں کے ساتھ بھینسوں کو شامل کر کے گایوں کا نصاب پورا کیا جائے گا کیونکہ یہ سب گائیں ہیں ۔
علامہ زرقانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: جواميس جمع جاموس نوع من البقر یعنی: ”لفظ جوامیس جو امام مالک کے قول میں مذکور ہے ، جاموس کی جمع ہے اور جاموس یعنی بھینس یہ گائے کی قسم سے ہے ۔“
میں کہتا ہوں: کہ جیسے دنبہ اور بھیڑ بکری کی قسم سے ہیں ، اسی طرح بھینس گائے کی قسم سے ہے ۔ جیسے زکوۃ اور قربانی میں بکری اور بھیڑ کا حکم یکساں ہے ، اسی طرح بھینس اور گائے کا حکم یکساں ہے ۔ حالانکہ بظاہر دنبہ بھیڑ کو دیکھا جائے تو ان کی صورت ، سیرت اور خواص بکری سے الگ الگ ہیں ۔ تاہم شارع نے دنبہ بھیڑ کو بکری کے حکم میں یکساں قرار دیا ہے ، جس سے انکار کرنا مکابرہ ہے ۔
فتاوی ستاریہ جو مرکزی علماء غرباء اہلحدیث کا مشہور فتاوی ہے ، اس کی جلد 3 ص 2 میں ایک سوال وجواب میں لکھا ہے کہ کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟
جواب: جائز ہے کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک حکم ہے ۔
الفتح الربانی شرح مسند احمد جلد 13 / ص76 میں لکھا ہے: نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام: الإبل بجميع أنواعها ، والبقر ومثله الجاموس
”اس بات پر ایک جماعت علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ چار پایوں کے بغیر کسی جانور کی قربانی صحیح نہیں ہے ، جیسے اونٹ اور اس کی سب قسمیں اور گائے اور مثل اس کی بھینس ہے ۔“
نیز الفتح الربانی جلد 8 / ص 23 میں زکوۃ سائمہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جانوروں کی عمریں قربانی کے بارے میں لکھی ہیں: وفي البقر والجاموس ماله سنتان ”یعنی گائے اور بھینس میں ثنی وہ ہے جو دو سال کا ہو ۔“
نیز امام مالک کا قول یہ نقل کیا ہے: الثنى من البقر والجاموس ما دخل السنة الرابعة ”یعنی ثنی گائے اور بھینس کا وہ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہو ۔“
اس تصریح سے یہ ظاہر ہوا کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ملک عرب میں خصوصاً حجاز میں بھیس نایاب تھی ، اس لیے اس کا ذکر نہ ہوا ۔ جب اس کا وجود تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں پایا گیا تو اس کا ذکر اور حکم بھی ائمہ دین اور فقہاء اسلام نے بیان کر دیا ۔
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الزکوۃ میں ص 64 پر یہ عنوان قائم کیا گیا ہے: فى الجواميس تعدفى الصدقة ”یعنی بھینس بھی زکوۃ میں شمار کی جائے گی ۔“
پھر اس کے ثبوت میں امام حسن بصری تابعی سے یہ نقل کیا ہے: انه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر ”یعنی امام بصری فرمایا کرتے تھے کہ بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے ۔“ ان پر بھی زکوۃ واجب ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ جب بھینس بمنزلہ گائے ہوئے تو قربانی بھی بمنزلہ گائے ہوئی کہ اس میں اشتراک سات شخصوں کا جائز ہوگا ۔ فقہ حنفیہ کی کتاب ہدایہ مشہور اور درسی کتاب ہے جو حنفیہ کی درس گاہوں بلکہ اہل حدیث کے مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے اور نصاب تعلیم میں داخل ہے اور فتاوی نذیریہ تو ہدایہ کے مسائل سے بھر پور ہے ۔ اس کی جلد 2 ص 449 میں یہ لکھا ہے: ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه (کتاب الاضحیہ) ”یعنی قربانی کے بارے میں بھینس گائے میں داخل ہے ، کیونکہ اس کی جنس سے ہے ۔“
اور جلد ص 190 میں ہے: والجواميس والبقر سواء لأن اسم البقر يتناولهما إذ هو نوع منه ”بھينس اور گائے احکام شرعیہ میں برابر ہیں اور بقر کا نام دونوں کو شامل ہے ، کیونکہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے ۔“
پھر لکھتے ہیں: إلا أن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ”ليكن عوام کا بھینس کی طرف رجحان نہیں ہوتا ، کیونکہ ہمارے ملک عرب میں اس کی قلت ہے ۔“
امام مالک نے جو موطا میں بھینسوں پر زکوۃ فرض لکھی ہے ، اس پر (مسوی حاثیہ موطا ) میں لکھا ہے: وهو قول الفقهاء ”کہ فقہاء کا بھی یہی قول ہے“ ایک بھینس گائے کی قسم سے ہے اور اس پر زکوۃ فرض ہے ۔
مخفی نہ رہے کہ موطا امام مالک حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے ، جس میں بھینس کو گائے کی جنس شمار کیا گیا ہے اور امام الائمہ امام مالک تبع تابعی ہیں جن کے اسماء الرجال میں بڑے مناقب لکھے ہیں ۔ استاذ الائمہ تھے ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ جیسے اکابر امام ان کے شاگرد تھے ۔ وہ بھینس کو گائے کی جنس قرار دیتے ہیں ، جن کے مناقب کتب اسماء الرجال میں بہت لکھے ہیں ۔ جب وہ پیدا ہوئے تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے ان کے تعلق میں شیرینی لگائی اور حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو دودھ پلایا ہے ۔ (اکمال ) ایسے عظیم الشان تابعی کا قول بھی اس سلسلہ میں حجت ہے ۔ وہ بھینس کو گائے کی قسم میں شمار کرتے ہیں اور دیگر علماء اہل عرب ان کے موید ہیں ۔
پس علماء اہل پنجاب کا قول ان کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔

حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اور علامہ عبید اللہ محدث مبارکپوری رحمہما اللہ پر اظہار تعجب:
لکھتے ہیں: مجھے ملک پنجاب کے دو فاضلوں اور محدثوں پر تعجب ہوا کہ بھینس کے بارے میں فقہاء کے مقابلہ میں بہت الجھے ہیں ۔ ایک تو مولانا حافظ عبد اللہ مرحوم روپڑی اور دوسرے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب محدث مبارکپوری ۔ دونوں بزرگوں نے مسئلہ زکوۃ میں تو گایوں کے ساتھ بھینس کو شامل کر لیا اور مسئلہ قربانی میں بھینس کو گائے سے الگ کر دیا ۔
بندہ راقم الحروف اپنے علم اور تحقیق پر تو ان دو بزرگ علاموں کے علم اور تحقیق کو ترجیح دے سکتا ہے لیکن فقہاء سابقین کے مقابلہ میں نہیں دے سکتا کہ وہ علم وعمل وفقاہت میں ان سے فائق تھے اور وہ اہل عرب تھے اور یہ ہر دو محققین عجمی ہیں ۔
مولانا عبید اللہ صاحب محدث مبارکپوری نے مشکوۃ کی شرح مرعاة المفاتیح میں حنفیہ کا مذہب مدلل بیان فرما کر پھر تنقید اور جرح شروع کر دی ۔ فرماتے ہیں: والأمر ليس عندي واضح ”حنفیہ کا مسلک اور استدلال واضح نہیں ہے ۔“
پھر تبصرہ یوں کرتے ہیں: حنفیہ کو یہ اعتراف ہے کہ لوگوں کے عرف عام میں بھینس گائے سے غیر جنس ہے کہ بظاہر دونوں کی شکل وصورت حلیہ میں اختلاف عظیم ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ یہ الزام حنفیہ پر غلط ہے ۔ اوپر کے بیان میں ہدایہ کے حوالہ سے یہ گزر چکا ہے کہ بھینس اور گائے کی ایک ہی جنس ہے اور وہ حکم میں برابر ہے ۔ باقی رہا مولانا کا یہ فرمان کہ گائے اور بھینس کے حلیہ اور شکل میں تفاوت ہے ، سو یہ شبہ اہل حدیث کو بھی ہو سکتا ہے کہ بکری ، بکرا اور بھیڑ ، دنبہ ، چھترا سب کو کھڑا کر کے انصاف کرلیں کہ ان کے حلیہ اور شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور شرعاًً بھی فرق ہے کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ: الإجماع على أنه يجزي الجذعة من الضأن وأنه لا يجزى جزع من المعز ”اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قربانی میں بھیڑ کا جذبہ کفایت کر جائے گا اور بکری کا جذبہ کفایت نہ کرے گا ۔“
جب ان کی شکل اور حلیہ اور حکم شرعی میں تفاوت ہے تو پھر زکوۃ اور قربانی میں ان کو برابر اور ایک جنس کیوں قرار دیا گیا ہے ۔ ما هو جوابكم عن هذا الكلام فهو جواب عن الحنفية
پھر گائے اور بھینس کے غیر جنس ہونے پر یہ ثبوت دیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھالے کہ واللہ باللہ تاللہ میں گائے کا گوشت نہیں کھاؤں گا اور پھر وہ بھینس کا گوشت کھالے تو حانث نہ ہوگا ۔ [فتاوي حصاريه ومقالات علميه ، 446/5-457]

(5) محدث دوراں حافظ گوندلوی کا فتوی:
سوال: فتوی دیں کہ آیا بھینس بھینسا بھی گائے بیل کی طرح قربان ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ لوگ شک میں ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے ، اور ہم لوگ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے ۔
جواب: بھینس بھی ”بقر“ میں شامل ہے ، اس کی قربانی جائز ہے ۔ [ہفت روزه الاعتصام ج 20 شماره 10، 9 ميں 29، 27 /ستمبر 1968ء نيز ديكهئے بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ حافظ نعيم الحق ملتاني ص: 203]

(6) محدث کبیر علامہ عبد الجلیل سامرودی کا فتوی:

مذاکرہ علمیہ بھینس کی قربانی

کہاں ہیں بھینس کی قربانی کو ”خنزیر کی قربانی“ سے تشبیہ دینے والے مولانا صاحب؟ اور کدھر ہے مجہول مصنوعی نام بنام ”اکبر عباسی“ پچاس روپئے انعام کا چیلنج کرنے والا؟ اب ثمانية أزواج سے گزارش ہے کہ ﴿هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا ، وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ، تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا﴾
اخبار اہل حدیث مجریہ یکم و دو اکتو بر 1952ء میں بضمن مذا کرہ علمیہ نمبر 1 میں مولانا ابو العلاء نظر احمد صاحب سہوانی کا مضمون نظر سے گذرا ، اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ہاں اگر اس (جاموس) کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے ۔ تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ حنفیہ کا نام ایک اکیلا پڑ گیا ہے ، موطا امام مالک جسے ایک جم غفیر نے اصح الکتب تسلیم کیا ہوا ہے ، مطبوعہ مجتبائی ص 111 میں ہے انما هي بقر یعنی بھینس اور گائے یہ سب حقیقت میں ایک ہی جنس میں مدونہ 355/1 میں ہے: قال ابن مهدي وقال سفيان ومالك: إن الجواميس من البقر ابن مہدی ، سفیان اور ، امام مالک کہتے ہیں کہ بھینس گائے سے ہی ہے ، اور مدونہ 355/1 ہی میں ہے: قال ابن وهب وقال الليث ومالك: سنة الجواميس فى السعاية وسنة البقر سواء
اور ابن ابی شیبہ 220/3 میں ہے: الجواميس تعد فى الصدقة ، و عن الحسن أنه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر علامہ ابو عبید قاسم بن سلام اپنی کتاب الاموال کے ص 476 میں تحریر فرماتے ہیں: فإذا خالطت البقر جواميس فسنتها واحدة ، وفي ذلك آثار: عن ابن شهاب أن عمر بن عبد العزيز ، كتب أن تؤخذ صدقة الجواميس كما تؤخذ صدقة البقر وكذلك يروى عن أشعث عن الحسن ، وعن مالك بن أنس قال: الجواميس والبقر سواء حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ راشد ، امام لیث ، امام مالک ، امام سفیان ، ابن مہدی اور دیگر ائمہ بھی جاموس کو گائے ہی سے شمار کرتے ہیں ۔ ”جاموس“ معرب ہے گاؤ میش سے ، گویا اس کا نام ہی ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ایک گائے ہی کی قسم ہے ، اس بارے میں حنفیہ ہی کی انگشت نمائی کرنا انصاف سے بعید ہے ، یا کوتاہ نظری اس کا باعث ہو ۔
بھینس ذوات ظلف ”کھر“ سے ہے جیسے گائے ذوات تخلف سے ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ حجاز میں بھینس کا وجود نہ تھا لیکن مصر میں یہ ضرور پائی جاتی تھی ، اور اس کی موجودگی کا علم حجاز والوں کو بھی قرن اول سے قریب تر زمانہ میں ہو گیا تھا ، کیا اس کی حلت کے لئے کوئی نص شارع علیہ السلام سے منقول ہے؟ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب اس کا گوشت کھانے اور دودھ پینے کی تخصیص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تو اس کے گوشت اور دودھ کا استعمال خلاف شرع ہے ، نیز صحابہ کے عہد میں بھی اس کے دودھ اور گوشت کا وجود بطور اکل و شرب معلومہ نہیں ہوتا ، اس لئے ان دونوں چیزوں کے کھانے پینے سے دست برداری اختیار کر لینا چاہئے ، حالانکہ یہ خیال غلط اور تعامل الناس کے خلاف ہے ۔
تعجب کا مقام ہے کہ یوں تو بھینس کے گوشت اور دودھ کا کھانا پینا درست سمجھا جائے اور اس کی قربانی کو ناجائز قرار دیا جائے ! اگر یہ جنس بقر نہیں ہے بلکہ غیر ہے تو اس کی حلت کے لئے مستقل دلیل پیش کی جائے ، یا پھر اس کا جنس بقر سے ہونا تسلیم کیا جائے ، اور جس طرح ”ثمانیۃ ازواج“ سے قربانی کرنا جائز ہے اسی طرح بھینس کو بھی اس میں شامل کیا جائے ۔ بہیمہ اور انعام کی تعریف کر کے یا حنفیہ کی طرف منسوب کر کے جواز ثابت کرنا کمزور پہلو ہے ، کھانے پینے کے لئے بھینس کو جنس بقر قرار دینا اور قربانی کے لئے جدا کرنا ترجیح بلا مرجع ہے صحیح یہ ہے کہ بھینس نہ صرف حنفیہ کے نزدیک بلکہ بالاتفاقی ہر دو معاملوں میں بھینس گائے کی جنس سے ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مولانا ابو عبد الکبیر عبد الجلیل السامرودی [مجله نور توحيد لكهنو 10 نومبر 1952 ص: 15]

(7) فتاوی ستاریہ کا فتوی:
مرکزی علماء غرباء اہل حدیث کے مجموع فتاوی ”فتاوی ستاریہ“ میں ہے:
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله و بركاته
الحمد لله ، والصلاة و السلام على رسول الله ، أما بعد !
جائز ہے ، کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک ہی حکم ہے ۔ [فتاوي ستاريه جلد 3 ص 2 بحواله فتاوي علمائے حديث 47/13 نيز ديكهئے: فتاوي حصاريه و مقالات علميه تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 5 / 455]

(8) علامہ نواب محمد صدیق حسن خان کا فتوی:
علامہ نواب محمد صدیق حسن خان قنوجی بھوپالی بخاری رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں ”قربانی کے جانور کی عمر“ کے تحت بطور دلیل جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم: لا تذبحوا إلا مسنة ، إلا أن يعسر عليكم ، فتذبحواجذعة من الضأن [صحيح مسلم 3/ 1555 حديث 1963]
دو دانت والے کے سوا ذبح نہ کرو مگر کہ تم پر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذہ (ایک سال کا) ذبح کرو ۔
پیش کرنے کے بعد ”مسنہ“ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
مسنہ: ہر جانور میں سے ”ثنی“ کو کہتے ہیں اور ثنی ، بکری میں سے جو ایک سال مکمل کرنے کے بعد دوسرے میں ہو ، اور گائے بھینس میں سے جو دو سال مکمل ہونے کے بعد تیسرے میں ہو ، اور اونٹ جو پانچ سال مکمل کرنے کے بعد چھٹے میں ہو ۔ [فتاوي نواب محمد صديق حسن خان رحمه الله التوجي البخاري ص 104 ترتيب محمد اشرف جاويد ، ناشر مكتبه النسيم ، مؤناتھ بهنجن ، يوپي]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ رحمہ اللہ بھی بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل تھے ، ورنہ گائے کے ساتھ بھینس کا ذکر نہ کرتے ۔

(9) محمد رفیق اثری کا فتوی:
استاذ العلماء شیخ محمد رفیق اثری (شیخ الحدیث دار الحدیث محمد یہ ضلع ملتان ) کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ مولفہ حافظ نعیم الحق ملتانی (سابق مدرس جامعہ محمد یہ اہل حدیث بہاولپور ) پر اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا ۔ چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے ۔ جبکہ ایسے مسئلے میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ فروعی مسائل میں تحقیق حق کے لئے شخصیات سے ہٹ کرنفس دلائل کو دیکھنا ، پرکھنا اور صحیح نتیجہ اخذ کرنا ہی سلفین کا شیوہ ہے ۔ “ [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزه ص 35 ، دوسرا ايڈيشن]

(10) فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاور ی کا فتوی:
علامہ شیخ امان اللہ پشاور ی اپنے شہرہ آفاق ”فتاوی الدین الخالص“ میں لکھتے ہیں:
إفحام الجاسوس فى أدلة حل الجاموس
[س: مراراً عن الجاموس هل يجوز أن يضحى به وما دليل حله؟]
[ج: الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله محمد واله وصحبه أجمعين ، أما بعد: فههنا ثلاثة أمور: الأول منشأ السؤال الثاني: أدلة حل الجاموس ، الثالث: الأضحية به]
سوال: کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟ اور اس کے حلال ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب: الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله محمد واله وصحبه اجمعين ، أما بعد:
یہاں تین باتیں ہیں:
(1) یہ سوال پیدا کہاں سے ہوا
(2) بھینس کے حلال ہونے کے دلائل
(3) بھینس کی قربانی
(پھر بھینس کی قربانی کے جواز کے دلائل پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں)
بھینس کی قربانی کی حلت کے دلائل بکثرت ہیں:
(1) کتاب و سنت جنہیں اللہ تعالیٰ نے واضح عربی زبان میں نازل فرمایا ہے ، چنانچہ جو لفظ بھی کسی چیز پر دلالت کرتا ہے اس کا حکم اس لفظ کے تحت شامل ہوتا ہے ، یہ کہنا درست نہیں کہ یہ صریح نہیں ہے ۔ مثلاً لفظ ”غنم“ یعنی بکری ، اس کے تحت جو بھی جانور شامل ہوگا ، اس کا حکم
بکری کا ہوگا ، اسی طرح قرآن میں ”بقر“ یعنی گائے کا لفظ آیا ہے ، اب زبان عرب میں جس کو بھی بقر کہا جائے گا اس کا حکم گائے ہی کا ہوگا ، تمام باتوں میں ؛ اس کی حلت میں ، قربانی کرنے میں ، اس کا گو شت کھانے ، دودھ پینے اور زکاۃ کے وجو ب وغیرہ ہیں ۔
چنانچہ جس طرح بقر کا لفظ کالی ، سفید اور زرد گایوں اور گائے کی تمام انواع پر بولا جاتا ہے اسی طرح جاموس یعنی بھینس پر بھی بولا جاتا ہے ۔ لہٰذا تمام باتوں میں اس کا حکم بھی گائیوں کا ہوگا ، اور جو یہ دعوی کرے کہ بھینس یا کالی گائیں بقر کے لفظ میں نہیں آتیں ، وہ دلیل پیش کرے ۔ (پھر اہل لغت کے متعدد اقوال سے بھینس کو گائے کی نوع ثابت کیا ہے )
(2) مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ گایوں کی طرح بھینس میں بھی زکاة واجب ہے ، اور گائے کی طرح بھینس کو کھانا اور اس کی قربانی کرناجائز ہے ۔ (پھر بھینس کے گائے کی جنس ہونے پر متعد د علماء سے اجماع نقل فرمایا ہے ، اور ساتھ ہی مذاہب اربعہ کے علماء کے اقوال پیش کیا ہے )
(3) اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ عکرمہ بن خالد ، ابن سیرین وغیرہ کے آثار پیش کیا ہے ۔
(4) نیز ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے ، جنہوں نے کہا ہے کہ بعض اکے دکے اہل لغت نے بھینس کو گائے کی جنس قرار دیا ہے ۔ اسی طرح ان کی بھی تردید کی ہے جنہوں نے بہیمتہ الانعام کو اونٹ ، گائے ، بکری اور مینڈھے کے ناموں میں محصور کر دیا ہے ۔ [فتاوي الدين الخاص عربي ، از فضيلة الشيخ امين الله پشاور ي 390/6-398]

(11) مفتی اعظم پاکستان علامہ محمد عبید الله عفیف کا فتوی:
سوال: بھینس کی قربانی کاکیا حکم ہے؟
جواب: قرآن مجید کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ ، بکری ، دنبہ اور گائے کی قربانی دینی چاہئے ، جیسے کہ ارشاد ہے:
﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [الحج: 34]
اور بظاہر بھینس گائے سے الگ دوسری قسم کا جانور معلوم ہوتا ہے ۔ مگر لغت میں بھینس کو گائے کی قسم قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ منجد میں ہے:
الجاموس جمعه جواميس صنف من كبار البقر ، يكون داجنا منذ أصناف وحشيته (ص 100)
کہ پالتو بھینس بڑی گائے کی ایک قسم ہے ، اسی وجہ سے شوافع اور حنفیہ کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية (شرح المهذب 308/8)
کہ قربانی کے جانوروں میں گائے کی تمام اقسام جائز ہیں ، خواہ گائے عربی ہو یا فارسی یعنی بھینس ۔
اور ہدایہ حنفیہ میں بھی اس کا جواز موجود ہے ۔ بہر حال بھینس چونکہ حلال چوپایہ ہے ، اور ”من بہیمۃ الانعام“ کے عموم میں داخل نہیں مگر اہل لغت کے مطابق یہ گائے کی ایک بڑی قسم ہے ، اس لئے اس کی قربانی کا جواز معلوم ہوتا ہے ۔ تاہم یہ نہ تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ سنت صحابہ ۔ [فتاوي محمديه منهج سلف صالحين كے مطابق مفتي اعظم پاكستان حضرة العلام مفتي محمد عبد الله ان عفيف ، ترتيب ابوالحسن مبشر احمد رباني ، 592/1 ، ناشر مكتبه قدوسيه لاهور]

(12) نامور محقق علامہ حافظ صلاح الدین یوسف کا فتوی:
حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
مذکورہ (آٹھ ) جانوروں میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، کیونکہ عرب بالخصوص حجاز (مکہ ومدینہ ) میں بھینس کا وجود نہیں ، اس لئے بھینس کے بارے میں بالخصوص قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے ، ۔ غیر عرب علاقوں میں بھینس پائی جاتی ہے ، تاہم بعض علمائے لغت نے اسے گائے ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے ۔
جیسا کہ (حیاۃ الحیوان ، 1 / 182 لسان العرب 43/6 المغرب في ترتيب المعرب اور المصباح المنیر 1 / 134) وغیرہ میں ہے ۔ اسی طرح محدثین نے بھینس کو حکم زکاة میں گائے کے حکم میں رکھا ہے ، یعنی گائے میں زکاۃ کا جو حساب ہوگا اسی حساب سے بھینسوں میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی ۔
احناف نے (غالبا) اسی مشابہت حکم زکاۃ کی بنا پر اسے حکم قربانی میں بھی گائے کے حکم پر محمول کیا ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه [هدايه ، كتاب الاضحية ، 433/2]
قربانی میں بھینس گائے کا حکم رکھتی ہے ، کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے ۔
علماء اہل حدیث اس بارے میں مختلف الرائے ہیں ، شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے قائل ہیں ۔ [ملاحظه هو: فتاويٰ ثنائيه ، 1 / 520]
مولانا عبد القادر عارف حصاری رحمہ اللہ جماعت اہل حدیث کے ایک محقق عالم تھے ، ان کا بھی ایک فتوی کئی سال قبل (الاعتصام ، 8 نومبر 1974ء میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے بھینس کی قربانی کے جواز میں دلائل مہیا فرمائے تھے ۔
لیکن دوسری طرف بعض علماء اہل حدیث بر بنائے امتیادا بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل نہیں ، جیسا کہ مولانا حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ، چنانچہ وہ اس سوال کے جواب میں کہ کہا: بھینسے (کٹے ) کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ لکھتے ہیں:
”قرآن مجید پارہ 8 رکوع 4 میں بہیمتہ الانعام کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ دنبہ ، بکری ، اونٹ گائے بھینس ان چار میں نہیں ۔ اور قربانی کے متعلق حکم ہے کہ بہیمۃ الانعام سے ہو ۔ اس بنا پر بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔ ہاں زکاۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے ۔ یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے اس میں بھی دونوں جہتوں پر عمل ہوگا ۔ زکاۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے ۔ اس بنا پر بھینسے کی قربانی جائز نہیں ، اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ: الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے کی قسم ہے ۔
یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے ۔ [فتاوي اهل حديث 466/2 467]
اس تفصیل سے واضع ہے کہ علماء اہل حدیث میں دورائیں پائی جاتی ہیں ، اس لئے اس مسئلہ میں تشدد اختیار کرنا صحیح نہیں ہے ، اگر کوئی شخص بر بنائے احتیاط بھینس کی قربانی کے جواز کا قائل نہ ہو تو اسے یہ رائے رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص دیگر علماء کی رائے کے مطابق بھینس کی قربانی کرتا ہے تو قابل ملامت وہ بھی نہیں ۔ جواز کی گنجائش بہر حال موجود ہے ، کیونکہ بہت سے علماء لغت نے اسے گائے ہی کی جنس سے قرار دیا ہے ۔ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ صاحب مرعاة المفاتیح نے بھی یہی بات لکھی ہے ۔ (مرعاة 2 / 354 طبع اول ) [فضائل عشره ذوالحجه اور احكام ومسائل عيد الاضحي ، از شيخ حافظ صلاح الدين يوسف حفظه الله ص: 41-44]

(13) معروف محقق حافظ زبير على زئي رحمه الله كا فتوي:
عصر حاضر کے معروف محقق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے ، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے ۔
امام ابن المنذر فرماتے ہیں: وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر اور اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے ۔ [الاجماع كتاب الزكاة ، ص 43]
ابن قدامہ لکھتے ہیں: لا خلاف فى هذا نعلمه اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں ۔ [المغني ج 2 ص 240 مسئله: 1711]
زکوۃ کے سلسلے میں اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے ۔ تاہم چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے ، اونٹ ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے ۔ واللہ اعلم ۔ [فتاوي علميه المعروف به توضيح الاحكام ، 2 / 181 نيز ديكهئے: قرباني كے مسائل ، محدث هند و پاک حافظ زبير على زئي ص: 27]

(14) حافظ ابویحیی نور پوری نائب مدیر ”السنتہ“ جہلم کا فتوی:
حافظ نور پوری صاحب اپنی مفید مختصر تحریر بھینس کی قربانی میں دلائل ، اقوال اور حوالوں کے بعد فرماتے ہیں:
الحاصل: بھینس گائے کی ایک نسل ہے ، اس کی قربانی بالکل جائز ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمه أبرم و أحكم۔ [بهينس كي قرباني از فضيلة الشيخ حافظ ابويحيي نور پوري ، نائب مدير ماهنامه ”الستة“ جهلم]

(15) حافظ نعیم الحق عبد الحق ملتانی کا فتوی:
ملاحظہ فرمائیں ، اس موضوع پر لکھی گئی سب سے مفصل کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزه از حافظ نعیم الحق ملتانی [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزه ، از حافظ نعيم الحق ملتاني ، دوسرا ايڈيشن ، ملنے كا پته: اسلامك سنٹر ، ملتان]

نوٹ: حافظ نعیم الحق ملتانی صاحب نے اس موضوع پر اپنی نہایت مفصل کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائز میں بھینس کی قربانی کے جواز پر مزید چند اہل علم کے فتاوے نقل کئے ہیں ، جو انہیں بذریعہ خط موصول ہوئے تھے ، یہاں باختصاران فتاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے:

(16) مولانا ابو عمر عبد العزیز نورستانی کا فتوی:
موصوف مسئلہ کی بابت مختلف دلائل ، اقوال تعلیلات اور گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت پر اجماع وغیر ہ کا ذکر کرنے بعد خلاصہ لکھتے ہیں:
”مذکورہ بالا و جوہات کی بنا پر میری ناقص رائے میں ان علماء کا موقف درست اور صحیح ہے جو جواز کے قائل ہیں ۔“ واللہ اعلم کتبہ: ابو عمر عبد العزیز نورستانی [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 228-235]

(17) جماعت غرباء اہلحدیث کراچی پاکستان کے مفتی مولانا عبد القہار اور نائب مفتی مولانا محمد ادریس سلفی صاحبان کا فتوی:
الجواب بعون الوهاب:
صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ شرعا بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے ، اور اس کی قربانی کرنا درست ہے ، کیونکہ گائے کی جنس سے ہے ۔ گائے کی قربانی جائز ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے ۔ اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گو شت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی ۔“
الجواب صحیح عبد القبار عفی عنہ ۔ [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 237-239]

(18) حافظ احمد اللہ فیصل آبا دی کافتوی:
السلام عليكم ورحمتہ اللہ !
کے بعد عرض ہے کہ میری کئی سالوں کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ پھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں ، اور اس بات پر بھی متفق ہوں کہ سورۃ الححج میں جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [الحج: 34]
یہ لفظ عام ہے اور ہر پالتو جانور کو شامل ہے نص قرآن سے کسی حیوان کو خارج کرنا صحیح نہیں ، رسول الله س نے ان کا ”جاموس“ (بھینس) کی قربانی نہ کرنا اس کے مختلف وجوہ ہو سکتے ہیں مثلاً جاموس کی حجاز میں قلت کی وجہ سے قربانی نہ کی ہو یا اور کوئی وجہ ہو ۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے عدم جواز کی دلیل صحیح نہیں ۔ بعض علماء کا یہ کہنا کہ ”جاموس“ بقر کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کی صورت میں بڑا فرق ہے ، یہ بات صحیح نہیں ۔ کیونکہ دنبہ اور مینڈھا ان کی صورتوں میں بھی فرق ہے ، کیونکہ دنبے کی چکی ہوتی ہے اور مینڈھے کی چکی نہیں ہوتی ، یہ واضح فرق ہے ، اور بالا تفاق اہل لغت کے یہاں اس کو ”ضان“ کہا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 240]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے