بھینس کی قربانی کے جواز پر اہل علم کے اقوال
بھینس کے گائے کی جنس سے اور اس کی نوع ہونے کے ساتھ ساتھ علماء وفقاء امت کی ایک بڑی جماعت نے بھینس کی قربانی کے جواز کی صراحت فرمائی ہے ، بطور مثال چندا قوال حسب ذیل ہیں :
(1) علامہ مرغینانی فرماتے ہیں :
ويدخل فى البقر الخاموس لأنه من جنسه [ الهدايه فى شرح بداية المبتدي 359/4 نيز ديكهئے : العنايه شرح الهداية 517/9 ]
گائے میں بھینس بھی داخل ہے ، کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہے ۔
(2) علامہ احمد بن محمد حلبی فرماتے ہیں :
الجاموس يجوز فى الصحايا والهدايا استحسانا ثم الإبل أفضل من البقر ثم الغنم أفضل من المعز [ لسان الحكام ص : 386 ۔ ]
قربانی اور ہدایا میں بھینس استحسا ناجائز ہے ، پھر اونٹ گائے سے افضل ہے ، پھر مینڈ ھا بکری سے افضل ہے ۔
(3) علامہ ابن النجیم حنفی فرماتے ہیں :
(والجاموس) معرب كواميش (كالبقر) فى الزكاة والأضحية والربا لأن اسم البقر يتناولها [النهر الفائق شرح كنز الدقائق 424/1 ]
گاؤمیش کا معرب جاموس ( بھینس ) زکاۃ قربانی اور سود میں گائے کی طرح ہے ، کیونکہ گائے کا نام اسے شامل ہے ۔
(4) علامہ کمال الدین ابن الہمام فرماتے ہیں :
والتني منها ومن المعز سنة ، ومن البقر ابن سنتين ، ومن الإبل ابن خمس سنين ، ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه [فتح القدر الكمال ابن الہمام 517/9 ]
اس کا اور بکرے کاثنی ایک سال کا ہوتا ہے ، اور گائے کا دو سال کا ، اور اونٹ کا پانچ سال کا ، اور گائے میں بھینس بھی داخل ہے ، کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہے ۔
(5) علامہ ابو بکر زبیدی یمنی فرماتے ہیں :
والجواميس والبقر سواء يعني فى الزكاة والأضحية واعتبار الربا [ الجوهرة النيرة على مختصر القدوري 1/ 118 ]
بھینسیں اور گائیں یکساں ہیں یعنی زکاۃ قربانی اور سود کے اعتبار میں ۔
(6) حافظ الاندلس علامہ ابن البر قرطبی فرماتے ہیں :
جمله مذهب مالك فى هذا الباب أن الأزواج الثمانية وهى الإبل والبقر والضان والمعر وكذلك الجواميس [التمهيد لمافي الموطامن المعاني والأسانيہ 4 / 329]
اس باب میں امام مالک کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ آٹھ جوڑ سے اونٹ ، گائے ، مینڈھا اور بکرا ہے ، اور اسی طرح بھینسیں ۔
(7) علامہ ابو الولید سلیمان بن خلف باجی اندلسی فرماتے ہیں :
أن أنواع الإبل كلها تخرى فى الهدايا البحت ، والنحب والعراب وسائر أنواع الإبل وكذلك سائر أنواع البقر من الجواميس والبقر وكذلك سائر أنواع الغنم من الضأن والماعر وإنما تختلف فى الأسنان والله أعلم [المنتقي شرح الموطا 2 / 310 ]
اونٹ کی ساری قسمیں بدایا (قربانی) میں کفایت کریں گی بختی نجائب ، عراب اور دیگر قسمیں ، اسی طرح گائے کی ساری تمہیں بھینسیں اور عام گائیں ، اسی طرح بکرے کی ساری قسمیں ؛ میندھا اور بال والی بکری ، یہ صرف عمروں میں مختلف ہیں ، واللہ اعلم
(8) علامہ محمد عربی قروی لکھتے ہیں :
س : من أى الأصناف تخرج الأضحية
ج : تخرج الأضحية من الغنم ضأن أو معز؛ ومن البقر ومن الإبل ويشمل البقر الجواميس وتشمل الإبل البحت [الخلاصة الختمية على مذهب السادة المالكية ص : 262 ]
سوال : مویشیوں کی کن قسموں سے قربانی کی جائے گی ۔
جواب : قربانی بکرے کی کی جائے گی ، خواہ مینڈھا ہو یا بال والا بکرا : اسی طرح گائے اور اونٹ سے کی جائے گی ، اور گائے بھینس کو شامل ہے ، اور اونٹ بختی کو ۔
(9) امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے لیث بن ابی سلیم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [ تفسير ابن ابي حاتم تحقيق اسعد حمد طيب 5 / 1403 ، رقم : 7990 ۔ نيز ديكهئے عتاب كا ص 44 ۔ ]
جاموس ( بھینس ) اور بختی (خراسانی اونٹ ) نرومادہ آٹھ قسموں میں سے ہیں ۔
(10) محمد احمد ہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فى الأضاحي كالبقر [ الارشاد الي سبيل الرشادس : 372 ]
بھینسیں قربانی میں گائے کی طرح ہیں ۔
(11) امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے بھی بھینس کی قربانی اور سات کی طرف سے کفایت پر موافقت فرمائی ہے :
امام اسحاق بن منصور الکو سج فرماتے ہیں :
الجواميس تجزئ عن سبعة ؟ قال : لا أعرف خلاف هذا [ مسائل الامام أحمد وإسحاق بن راهويه 8 / 4027 ، نيز ديكهئے : 4045/8 ، نيز على رضى الله عنه كا قول ملاحظه فرمائيں : الفردوس بماثور الخطاب ، ازديلحي 124/2 اثر 2650 ]
سوال : کیا بھینسوں کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں ؟
جواب :( امام احمد نے فرمایا) میں اس کے خلاف نہیں جانتا ۔
اسی طرح فرماتے ہیں :
قال سفيان . . . والجواميس تجزئ عن سبعة ؟ قال أحمد كما قال قال إسحاق : كما قال [ مسائل الامام احمد و اسحاق بن راهويه 8 / 4045 مسئله نمبر : 2882 نيز ديكهئے : مسانمبر 2865 ]
سفیان ثوری کہتے ہیں : بھینسیں سات لوگوں کی طرف سے کافی ہیں ؟ ( کیا صحیح ہے ؟ ) امام احمد نے کہا جو انہوں نے کہا: وہی ہے ۔ اور امام اسحاق نے کہا جیسے انہوں نے کہا: ویسے ہی ہے ۔
(12) علامہ موسی تجاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فيهما كالبقر [ الاقاع فى فته الامام أحمد بن حنبل 1/ 402 ]
بدی اور قربانی دونوں میں بھینسوں کا حکم گائے جیسا ہی ہے ۔
(13) اور اس کی شرح میں علامہ بہوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والجواميس فيهما) أى : فى الهدي والأضحية (كالبقر) فى الإجزاءوالسن ، وإجزاء الواحدة عن سبعة؛ لأنهانوع منها [كشاف القناع من من الاقتاع 533/2 ]
یعنی ھدی اور قربانی دونوں میں کافی ہونے ، عمر اور ایک میں سات لوگوں کی شرکت وغیرہ کے اعتبار سے بھینسیں گائے جیسی ہیں ، کیونکہ وہ گایوں ہی کی ایک قسم ہیں ۔
(13) شیخ عبد العزیز السلمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فى الهدي والأضحية كالبقرة فى الإجزاء والسن وإجزاء الواحدة عن سبعة لأنها نوع منها [ الأسئالية والأجو بة العظمية 9/3 ]
ھدی اور قربانی دونوں میں کافی ہونے ، عمر اور ایک میں سات لوگوں کی شرکت وغیرہ کے اعتبار سے بھی نہیں گائے ہی جیسی ہیں ، کیونکہ وہ گایوں ہی کی ایک قسم ہیں ۔
(15) علامہ احمد بن عبد الرحمن الساعاتی فرماتے ہیں :
نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام ، الإبل بجمیع أنواعہا والبقر ومثلہ الجاموس [ الفتح الرباني الترتيب مسند الامام أحمد بن مقبل الشيباني 76/13 حاشيه ۔ ]
علماء کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ قربانی صرف بسمہ الانعام کی صحیح ہوگی ، اونٹ اپنی تمام قسموں کے ساتھ ، اور گائے اور اسی کے مثل بھینس ہے ۔
(16) استاذ دکتوروہبہ مصطفی زحیلی فرماتے ہیں :
نوع الحيوان المضحى به : اتفق العلماء على أن الأضحية لا تصح إلا من نعم إبل و بقر (ومنها الجاموس) وغنم (ومنها المعز) بسائر أنواعها [ الفقه الاسلامي واولته للزحيلي 2719/4 ]
قربانی کے جانور کی نوعیت علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قربانی صرف انعام ہی کی صحیح ہوگی : یعنی اونٹ اور گائے ، اور بھینس بھی اسی میں سے ہے ، اور بکرے کی ہال والی بکری اور اس کی ساری قسمیں بھی اسی میں ہے ۔