بچے کی پرورش میں ماں کی اولویت اور کفالت کا شرعی نظم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بچے کی سب سے زیادہ مستحق اس کی ماں ہے جب تک کہ وہ اور نکاح نہ کر لے
لغوی وضاحت: لفظِ حضانة باب حَضَنَ (نصر) سے مصدر ہے اس کا معنی ”پرورش کرنا اور گود میں لینا“ مستعمل ہے۔ باب اِحْتَضَنَ (افتعال) کا بھی یہی معنی ہے۔ الحضن ”گود“ ۔ الْحَاضِنَةُ ”بچے کی پرورش کرنے والی عورت یعنی دایہ“
[القاموس المحيط: ص/ 1536 ، المنجد: ص/ 164 ، الصحاح: 2102/5]
شرعی تعریف: جو اپنے معاملے ، اپنی تربیت اور مہلک و ضرر رساں اشیا سے اپنے بچاؤ میں مستقل نہیں ہے اس کی حفاظت کرنا (حضانت ہے)۔
[سبل السلام: 1561/3]
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ جو میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے برتن تھا ، میری چھاتی (پستان ) اس کے لیے مشکیزہ تھی اور میری آغوش اس کے لیے جائے قرار تھی۔ اس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب وہ مجھ سے اس بچے کو بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنت أحق به ما لم تنكحي
”جب تک تو دوسرا نکاح نہیں کرتی اس وقت تک تو ہی اس کی زیادہ حق دار ہے۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1991 ، كتاب الطلاق: باب من أحق بالولد ، ابو داود: 2276 ، دارقطني: 305/3 ، حاكم: 207/2 ، بيهقي: 4/8 – 5 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے اسے صحيح كها هے۔]
اس حدیث میں مذکور تین اوصاف ایسے ہیں جو بچے کی پرورش میں ماں کے ساتھ ہی خاص ہیں لٰہذا پرورش کے استحقاق میں بھی ماں کو باپ پر فوقیت حاصل ہے۔
(ابن تیمیہؒ) بچے کی تربیت کے لیے باپ سے زیادہ حقدار ماں ہے کیونکہ وہ زیادہ رحمدل ، اس کی تربیت کو زیادہ سمجھنے والی اور زیادہ صبر کرنے والی ہے ۔
[التعليق على سبل السلام للشيخ عبدالله بسام: 1561/3]
(صدیق حسن خانؒ) اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ باپ سے زیادہ ماں بچے کی مستحق ہے۔
[الروضة الندية: 183/2]
واضح رہے کہ ماں کا یہ استحقاق اور برتری دوسرے نکاح سے پہلے ہے جب وہ اور نکاح کر لے گی تو یہ حق ساقط ہو جائے گا جیسا کہ گذشتہ حدیث میں یہ لفظ ہیں: مالم تنكحي
(شافعیہ ، حنفیہ ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 434/4]
(ابن منذرؒ ) انہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
[الإجماع لابن المنذر: 392]
تا ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نکاح سے بھی یہ حق باطل نہیں ہوتا ۔ حسن بصریؒ اور امام ابن حزمؒ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 183/2 ، المحلي: 325/10 – 329]
لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ یہ گذشتہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔
علما نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ مجرد عقد نکاح سے ہی ماں سے پرورش کا حق ساقط ہو جائے گا یا عقد کے بعد ہم بستری کے ساتھ ساقط ہو گا۔
(ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) یہ حق مجرد عقد نکاح سے ہی ساقط ہو جائے گا۔
(مالکؒ) ہم بستری کے بعد ساقط ہو گا ۔
[التعليقات الرضية للألباني: 335/2]
(ابن قیمؒ) انہوں نے پہلے قول کی طرف میلان ظاہر کیا ہے اور اسے جمہور کا موقف قرار دیا ہے۔
[زاد المعاد: 186/4]
(قرطبیؒ ) عقد کے ساتھ ہم بستری بھی ضروری ہے۔
[تفسير قرطبي: 101/3]
پھر خالہ مستحق ہے اور پھر والد
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں دیا اور فرمایا:
الخالة بمنزلة الأم
”خالہ ماں کے درجہ میں ہے ۔ “
[بخاري: 2699 ، كتاب الصلح: باب كيف يكتب: هذا ما صالح فلان بن فلان ، مسلم: 1783 ، ترمذي: 1904 ، بيهقى: 5/8]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :
والجارية عند خالتها فإن الخالة والدۃ
”لڑکی اپنی خالہ کے پاس ہو گی کیونکہ خالہ ماں ہے۔ “
[صحيح: إرواء الغليل: 246/7 – 248 ، أحمد: 98/1 ، مشكل الآثار: 173/4 ، ابو داود: 2280 ، حاکم: 120/3]
یہ روایات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ خالہ بچے کی پرورش کرنے میں ماں کے درجہ میں ہے۔ امام شوکانیؒ نے اس پر اجتماع نقل فرمایا ہے۔
[نيل الأوطار: 433/4]
اس کے متعلق کوئی واضح دلیل تو موجود نہیں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا والدہ سے کہنا کہ :
أنت أحق به ما لم تنكحي
اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کے بعد بچہ باپ کی کفالت و پرورش میں رہے گا اور اس طرح جس روایت میں بچے کو ماں اور باپ کے درمیان اختیار دینے کا ذکر ہے وہ بھی اس کا ثبوت ہے کہ ماں کے بعد باپ ہی مستحق ہے۔ تاہم خالہ کو ماں کے بعد اس لیے حق دیا گیا ہے کیونکہ اسے دوسری حدیث میں ماں کی جگہ قرار دیا گیا ہے لٰہذا ماں کے بعد خالہ کا اور پھر والد کا حق ہو گا۔
◈ گذشتہ استحقاقِ پرورش کی تمام بحث ایسے بچے کے متعلق ہے جو ابھی صغرسنی یعنی بچپن میں ہو اور سن تمیز کو نہ پہنچا ہو لیکن جب وہ سن شعور کو پہنچ جائے اور اسے تربیت و پرورش کی یکسر ضرورت نہ رہے تو اس صورت میں بچے کو ماں باپ کے درمیان اختیار دیا جائے گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے سے کہا:
يا غلام ! هذا أبوك وهذه أمك فخذ بيد أيهما شئت
”اے لڑکے ! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔“
پھر اس بچے نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی ۔
[صحيح: إرواء الغليل: 2192 ، كتاب الطلاق: باب من أحق بالولد ، ابو داود: 2277 ، ترمذي: 1357 ، نسائي: 3496 ، ابن ماجة: 2351 ، أحمد: 7346 – شاكر ، مشكل الآثار: 176/4 ، امام زيلعيؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بهي اس حديث كو صحيح كها هے۔ نصب الراية: 269/3 ، تلخيص الحبير: 12/4]
(شافعیؒ ، احمدؒ ، اسحاقؒ) اسی کے قائل ہیں اور انہوں نے اختیار کی حد سات یا آٹھ سال مقرر کی ہے (لیکن سات یا آٹھ سال والا اثر ضعیف ہے ) ۔
[إرواء الغليل: 2195]
(ابو حنیفہؒ) بچے کو اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ ماں کے پاس ہی رہے گا اور جب اس کا حق ساقط ہو گا تو باپ کے پاس رہے گا۔
(مالکؒ) بچے کو اختیار نہیں دیا جائے گا اور لڑکیوں کی زیادہ حق دار ماں ہے حتی کہ ان کا نکاح ہو جائے اور لڑکوں کا زیادہ مستحق باپ ہے حتی کہ وہ جوان اور بالغ ہو جائیں۔
[الأم: 92/5 ، المبسوط: 211/5 ، المغنى: 435/4 ، تفسير قرطبي: 108/3]
گذشته صحیح حدیث امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے موقف کے خلاف حجت ہے۔ علاوہ ازیں اگر بچے سے والدین میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا مشکل ہو جائے تو قرعہ کے ذریعے فیصلہ کر دیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
استهما فيه
”تم دونوں اس بچے کے متعلق قرعہ ڈال لو۔ “
[صحيح: صحيح ابو داود: 1992 ، كتاب الطلاق: باب من أحق بالولد ، ابو داود: 2277 ، نسائي: 185/6 ، ابن أبى شيبة: 237/5]
(ابن قیمؒ) جس میں بچے کے لیے مصلحت اور خیر خواہی کا پہلو زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ اگر باپ کے مقابلے میں ماں زیادہ صحیح تربیت اور حفاظت کر سکتی ہو اور غیرت مند عورت ہو تو ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی۔ اس صورت میں قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی چیز کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا کیونکہ بچہ تو کم فہم و کم عقل اور نادان و ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔ ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو بچہ اس کے حوالے کر دیا جائے۔ (اگر ماں سے زیادہ باپ میں یہ اوصاف موجود ہوں تو بچہ باپ کے حوالے کر دیا جائے پھر وہی اس کی تربیت کا ذمہ دار ہو گا ۔ ) شریعت اس کے علاوہ کسی چیز کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو…… ۔“
[ابو داود: 494]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ ۔ ” [التحريم: 6]
پس جب ماں اسے مکتب و مدرس میں چھوڑتی ہو اور اسے قرآن سکھاتی ہو اور بچہ کھیل کود اور اپنے ساتھیوں سے میل جول کو ہی ترجیح دیتا ہو اور اس کا والد اسے ان کاموں کی اجازت دیتا ہو تو ماں ہی اس کی زیادہ مستحق ہے۔ ایسی صورت میں اختیار اور قرعہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اسی طرح اس کے برعکس اگر والد دین سکھاتا ہو اور ماں کھیل کود کی اجازت دیتی ہو تو ہاپ زیادہ مستحق) ہے۔
[زاد المعاد: 474/5 – 475]
(امیر صنعانیؒ ) یہ (یعنی ابن قیم کا) کلام نہایت ہی عمدہ ہے۔
[سبل السلام: 1564/3]
(ابن تیمیہؒ) انہوں نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
(شوکانیؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 436/4]
(البانیؒ) انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے (یعنی جس میں بچے کی مصلحت زیادہ ہو اسی کو اختیار کیا جائے )۔
[التعليقات الرضية على الروضة: 338/2]
(راجح) یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
پھر حاکم رشتہ داروں میں سے اسے (ولی) مقرر کرے گا جس میں (پرورش کی ) صلاحیت دیکھے گا اور مضبوط عمر کو پہنچ جانے کے بعد بچے کو اس کے باپ اور اس کی ماں کے درمیان اختیار دیا جائے گا
کیونکہ جب ماں ، خالہ اور باپ تینوں موجود نہیں تو بچہ یقیناً کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کی پرورش ، تربیت اور دیکھ بھال کرے اور یہ بات معروف ہے کہ دیگر تمام افراد سے قریبی رشتہ دار ہی یہ ذمہ داری زیادہ خوش اسلوبی ، شفقت اور رحمدلی سے نبھا سکتے ہیں۔ لٰہذا حاکم وقت ان میں سے کسی کو جس میں زیادہ صلاحیت ہے بچے کا نگران و مربی مقرر کر دے۔
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم خير غلاما بين أبيه و أمه
”نبی صلى الله عليه وسلم نے ایک لڑکے کو اس کے باپ اور اس کی ماں کے درمیان اختیار دیا ۔“
[صحيح: التعليقات الرضية على الروضة: 339/2 ، ترمذي: 1397 ، كتاب الأحكام: باب ما جاء فى تخيير الغلام بين أبويه إذا افترقا ، ابن ماجة: 2351 ، أحمد: 447/2 ، نسائي: 3496]
➋ حضرت رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ خود مسلمان ہو گئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو ایک طرف اور باپ کو دوسری طرف بٹھا دیا اور بچے کو دونوں کے درمیان بیٹھا دیا ، تو بچہ ماں کی جانب مائل ہوا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اللهم اهده ”اے اللہ ! اسے ہدایت دے ۔“
اس پر وہ بچہ باپ کی طرف مائل ہو گیا اور باپ نے بچے کو پکڑ لیا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1963 ، كتاب الطلاق: باب إذا أسلم أحد الأبوين مع من يكون الولد ، ابو داود: 2244 ، نسائي: 3495 ، حاكم: 206/2 ، ابن ماجة: 2352 ، دار قطني: 43/4]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) ان احادیث سے ظاہر ہے کہ اولاد میں سے ایسا بچہ جو سن تمیز کو پہنچ چکا ہو اسے اختیار دینا واجب ہے۔ بغیر اس فرق کے کہ وہ مذکر ہے یا مونث ۔
[تحفة الأحوذى: 679/4]
مزید تفصیل پچھلے مسئلہ میں بیان کر دی گئی ہے۔
اگر کوئی ایسا شخص نہ ملے (جسے نص شرعی نے مقرر کیا ہے ) تو وہ شخص اس کی کفالت کرے جس کی کفالت میں مصلحت ہو
کیونکہ وہ بچہ اس کا محتاج ہے لٰہذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی پرورش کی ذمہ داری قبول کریں اور اس کے مال کو صحیح طور پر صرف کریں جیسا کہ کتاب اللہ میں یتیموں کے اموال کے متعلق تنبیہ کر دی گئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے