بولی لگا کر بھاؤ چڑھانا اور بیع پر بیع کرنا جائز نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بولی لگا کر بھاؤ چڑھانا اور بیع پر بیع کرنا جائز نہیں
لغوی وضاحت: لفظِ تناجش ”دوسرے سے بڑھ کر بولی دینا اور شکار بھگانا“ کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اور باب تفاعل سے مصدر ہے۔
[المنجد: ص / 874 ، القاموس المحيط: 545]
شرعی تعریف: ایسے شخص کا سودے کی قیمت میں اضافہ کرنا جو خود تو اسے خریدنا نہیں چاہتا لیکن کسی اور کو اس میں پھنسانا چاہتا ہے۔ اس کا نام ”ناجش“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ کیونکہ بولی لگانے والا سودے میں لوگوں کی رغبت ابھارتا ہے۔ یہ (یعنی تناجش ) بائع کے ساتھ (پہلے) طے ہوتا ہے (اس صورت میں ) دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اور یہ بائع کو علم ہونے کے بغیر بھی ممکن ہے اس صورت میں صرف ناجش (بولی لگانے والا ) ہی گناہ گار ہو گا اور بعض اوقات یہ بائع کے ساتھ خاص بھی ہوتا ہے جیسا کہ وہ (بائع ) لوگوں کو غیرت دلانے کے لیے اصل قیمت خرید سے بڑھ کر قیمت خرید بتلائے ۔
[فتح البارى: 90/5 ، تحفة الأحوزى: 604/4]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله عن النجش
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش سے منع فرمایا ہے۔“
[بخارى: 2142 ، كتاب البيوع: باب النجش ومن قال لا يجوز ذلك البيع ، مسلم: 1516 ، موطا: 683/2 ، نسائي: 258/7 ، ابن ماجة: 2173 ، أحمد: 108/2 ، شرح السنة: 290/4]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن يبيع حاضر لباد وأن يتناجشوا
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا سامان فروخت کرنے سے اور بولی لگا کر بھاؤ چڑھانے سے منع فرمایا ہے ۔ “
[بخاري: 2140 ، 2150 ، مسلم: 1515 ، نسائي: 258/7 ، ترمذي: 1190 ، ابن ماجة: 2172 ، أحمد: 274/2]
امام ابن بطالؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ناجش اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔
[فتح البارى: 355/4]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يبع أحدكم على بيع أخيه
”تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے ۔“
[موطا: 523/2 ، أحمد: 122/2 ، بخاري: 5142 ، مسلم: 1412 ، ابو داود: 2081 ، ترمذي: 1292 ، ابن ماجة: 1868 ، دارمي: 135/2]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يبيع الرجل على بيع أخيه
”آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے۔“
[بخاري: 5143 ، مسلم: 1413 ، ابو داود: 2080 ، نسائي: 73/6 ، ابن ماجة: 1867]
جس روایت میں یہ لفظ ہیں:
أن من باع من رجلين فهو للأول منهما
”جس نے دو آدمیوں سے بیع کی وہ ان دونوں میں سے پہلے کے لیے ہے۔“ وہ روایت ضعیف ہے۔
[إرواء الغليل: 1853]
اس بیع کی صورت یہ ہے کہ بیع خیار واقع ہو گئی ہے جتنی مدت اختیار کے لیے دی گئی تھی اس دوران ایک آدمی آ جاتا ہے اور خریدار سے کہتا ہے کہ تو اس سے سودے کو فسخ کر دے اور میں تمہیں اس سے ارزاں اور عمدہ و بہترین (چیز) فروخت کر دیتا ہوں اور جس طرح بیع پر بیع جائز نہیں اسی طرح شراء پر شراء (خریداری) جائز نہیں۔
وہ اس صورت میں کہ فروخت کرنے والے سے مدتِ خیار میں یوں کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے میں تجھ سے یہی چیز اس سے زیادہ قیمت پر خرید لوں گا۔
[سبل السلام: 1084/3 ، نيل الأوطار: 541/3]
(ابن حجرؒ) اس کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔
[فتح البارى: 88/5]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے