بغاوت کا انجام
(وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ﴿٢٦﴾ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴿٢٧﴾)
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے کافروں کی مدد کی تھی انہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلعوں سے اتار لایا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ ان کے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے تھے اور دوسرے کو قیدی بنا رہے تھے۔ اور تمہیں ان کی اراضی ، ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنادیا اور اس زمین کا بھی جہاں تم نے قدم تک نہ رکھا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
[الاحزاب : ۲۶، ۲۷]
فقه القرآن:
بنو قریظہ نے مسلمانوں سے بد عہدی و بغاوت کی اور دشمنانِ اسلام سے تعاون کیا جس کے نتیجے میں غزوہ احزاب سے فراغت کے بعد بنو قریظہ کے محاصرے کا حکم دیا گیا۔
قلعہ بندی کے تھوڑے ہی دنوں بعد بنو قریظہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم کیا، سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا:
مردوں کو قتل کر دیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کے اموال کو تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔
[بخاری: ۴۱۲۱ ۴۱۲۲۰]
جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکلنے سے دشمن مرعوب اور خوف و ہراس کا شکار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر لڑنے والوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کر دیئے کہ نہ صرف اموال واراضی ان کی ملکیت ہوئی بلکہ ’’جہاں تم نے قدم تک نہ رکھا تھا‘‘ کی وراثت بھی عطا کی اور تاریخ شاہد ہے کہ عرب سے نکلنے والے لشکر خیبر وشام، فارس و عراق کی سرزمین کو اپنے پاؤں تلے روندتے چلے گئے اور اسلام کا علم ہر سولہرایا (الحمد للہ )
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اسے کوئی چیز بھی عاجز نہیں کرسکتی۔