سوال :
کیا بغیر مصافحہ کے عورت کا مردوں کو سلام کہنا جائز ہے ؟
جواب:
فقہاء کے ہاں اس مسئلہ میں تفصیل ہے ، اور (واللہ اعلم) راجح بات یہ ہے کہ بلاشبہ نوجوان عورت کے لیے مردوں کو سلام کہنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن جب عورت ایسی عمر رسیدہ ہو اور ظن غالب ہو کہ اس کے سلام کہنے سے کوئی فتنہ برپا نہیں ہوگا تو اس کے مردوں کو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جیسے مرد کے بوڑھی عورت کو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہم سلف صالحین کی کوئی ایسی سنت اور طریقہ نہیں جانتے کہ وہ جب عورتوں کے پاس سے گزرتے ہوں تو بغیر کسی عمر کا فرق کیے ان کو سلام کہتے ہوں ۔ اور نوجوان عورت کے مردوں کو سلام نہ کرنے سے سبب فتنہ کاسدباب ہو جاتا ہے ، بہت سی شرعی نصوص اس قاعدہ پر دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے واضح ترین نص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
كتب على ابن آدم حظه من الزنا ، فهو مدركه لا محالة ، فالعين تزني وزناها النظر ، والأذن تزني وزناها السمع واليد تزني وزناها البطش والرجل تزني وزناها المشي ، والفرج يصدق ذلك أو يكذبه [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5889 صحيح مسلم ، رقم الحديث 2657 ]
”ابن آدم پر اس کا حصہ زنا (اس کی تقدیر میں اس ) پر لکھ دیا گیا ہے ، پس وہ لازمی طور پر اس کو حاصل کرنے والا ہے ، لہٰذا آنکھ زنا کرتی ہے اور اس کا زنا ( ناجائز ) دیکھنا ہے ، اور کان زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) سننا ہے ، اور ہاتھ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز) چھونا ہے ، اور پاؤں زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) چلنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ “یہ روایت بخاری و مسلم میں ہے ۔
سنن ابی داود میں صحیح سند والی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول والرجل تزني کے بعد یہ الفاظ ہیں : والفم يزني ، وزناها القبل ” اور منہ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا کسی کو ( ناجائز ) بوسہ دینا ہے ۔ “
سواس حدیث میں دو قسم کی حرام چیزوں کا بیان ہے :
➊ پہلی وہ ہے جو کسی دوسری (حرام) چیز کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ہے سبب کاسد باب کرنا ۔
➋ دوسری وہ ہے جو بذات خود حرام ہے اور وہ زنا ہے ۔
( عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )