بروز جمعہ سیدنا عثمانؓ کی دوسری اذان، کیا یہ بدعتِ حسنہ تھی؟
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن دوسری اذان شروع کروائی، اور چونکہ یہ نبی ﷺ کے زمانے میں نہیں تھی، اس لیے یہ ایک “بدعتِ حسنہ” ہے۔ ان کے نزدیک اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدعت دو قسم کی ہے: اچھی اور بری۔

اس مضمون میں ہم اس شبہے کو نقل کریں گے اور پھر سادہ انداز میں اس کا مدلل جواب دیں گے۔

بدعت کے جواز میں ایک بریلوی شبہ

اعتراض یہ ہے:

“سیدنا عثمانؓ نے جمعہ کے دن ایک اضافی اذان شروع کروائی، لہٰذا یہ بدعتِ حسنہ ہے۔”

اس شبہ کی مدلل وضاحت

➊ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہر ایک کے قول پر مقدم ہے

سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی بات، خواہ کسی بڑے سے بڑے صحابیؓ یا امام نے کہی ہو، وہ نبی ﷺ کے قول کے مقابلے میں دلیل نہیں ہو سکتی۔

نبی ﷺ نے فرمایا:

عربی:
«كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
ترجمہ: “ہر بدعت گمراہی ہے۔”
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث: 867)، سنن النسائي (حدیث: 1578)

ایک اور حدیث میں نبی ﷺ نے خاص طور پر اپنی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی تاکید کی:

عربی:
«عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ مِن بَعْدِي، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»
ترجمہ: “تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اسے داڑھوں سے مضبوطی سے تھام لو۔”
حوالہ: سنن ابی داود (حدیث: 4607)، ترمذی (حدیث: 2676)

پس معلوم ہوا کہ اگر خلفائے راشدین کچھ کریں تو وہ نبی ﷺ کی سنت کے ہی مطابق کرتے ہیں، نہ کہ اس کے خلاف۔

➋ عثمانؓ نے اذان ایجاد نہیں کی، صرف اعلان کی جگہ بدلی

صحیح بخاری میں سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

عربی:
«كانَ النِّداءُ يومَ الجُمُعةِ أوَّلُه إذا جلسَ الإمامُ على المنبرِ على عهدِ النَّبيِّ ﷺ وأبي بكرٍ وعمرَ رضيَ اللَّهُ عنهما، فلما كانَ عثمانُ رضيَ اللَّهُ عنهُ وكثُرَ النَّاسُ زادَ النداءَ الثالثَ على الزَّوراءِ.»
ترجمہ: “نبی ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے زمانے میں جمعہ کا اعلان اس وقت ہوتا جب امام منبر پر بیٹھ جاتا۔ پھر جب عثمانؓ کا زمانہ آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو انہوں نے الزوراء (بازار) میں ایک اضافی اعلان کروایا۔”
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الجمعہ (حدیث: 912، دیگر طرق میں بھی ہے)

📌 یہاں واضح ہے کہ عثمانؓ نے کوئی نئی عبادت نہیں بنائی، بلکہ صرف اتنا کیا کہ اعلان کو ایک اور جگہ پر کروا دیا تاکہ بازار کے لوگ بھی خطبے کے لئے تیار ہو سکیں۔

➌ یہ کام ایک “مصلحت” (انتظامی ضرورت) کے تحت تھا

شہر بڑا ہو گیا تھا، آبادی بڑھ گئی تھی، اور لوگ مسجد سے دور رہتے تھے۔ اس لئے حضرت عثمانؓ نے ایک اضافی اعلان کو ضروری سمجھا تاکہ سب کو بروقت اطلاع مل جائے۔

امام قرطبی نے الماوردي کا قول نقل کیا ہے:

عربی:
«فأما الأذان الأول فمُحْدَث، فعله عثمان ليتأهّب الناس لحضور الخطبة عند اتساع المدينة وكثرة أهلها.»
ترجمہ: “پہلا اعلان (یعنی الزوراء پر) نیا تھا، عثمانؓ نے یہ اس لئے کیا کہ شہر پھیل گیا اور آبادی زیادہ ہو گئی تاکہ لوگ خطبے کے لئے تیار ہو سکیں۔”
حوالہ: تفسیر القرطبی (تحت آیات الجمعہ)

یہ دراصل “مصلحت مرسلہ” (یعنی نئی انتظامی ضرورت جس پر کوئی خاص نص نہ ہو مگر شریعت کے مقاصد سے ٹکراتی بھی نہ ہو) کی مثال ہے۔

➍ علما کی وضاحت: یہ بدعت لغوی ہے، شرعی نہیں

“بدعت” کا لفظ لغت میں ہر نئی چیز پر آتا ہے، لیکن شریعت میں یہ صرف دین میں نئی ایجاد پر بولا جاتا ہے جو خلافِ سنت ہو۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

عربی:
«البدعة على قسمين: شرعية… ولغوية؛ كقول عمر: نعمت البدعة هذه.»
ترجمہ: “بدعت دو قسم کی ہے: ایک شرعی (یعنی دین میں نیا اضافہ) اور ایک لغوی (یعنی عام زبان میں نئی چیز)؛ جیسے سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ‘یہ اچھی بدعت ہے’۔”
حوالہ: تفسیر ابن کثیر (1/271)

امام ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا:

عربی:
«وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلك في البدع اللغوية لا الشرعية.»
ترجمہ: “سلف کے کلام میں جہاں کچھ بدعات کو اچھا کہا گیا ہے، وہاں مراد صرف لغوی بدعت ہے، شرعی بدعت نہیں۔”
حوالہ: جامع العلوم والحکم (ص: 252)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

عربی:
«وأما قول عمر: نعمت البدعة هذه… فلا تصلح معارضة الحديث بقول الصاحب.»
ترجمہ: “عمرؓ کا قول ‘یہ اچھی بدعت ہے’، نبی ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں دلیل نہیں بن سکتا۔”
حوالہ: مجموع الفتاویٰ (22/234)

📌 اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کا یہ کام عبادت میں اضافہ نہیں تھا بلکہ ایک انتظامی ضرورت تھی۔

خلاصہ

  • سیدنا عثمانؓ نے جمعہ کے دن بازار میں اعلان صرف اس لئے بڑھایا تاکہ زیادہ لوگوں تک اذان کی آواز پہنچے۔

  • یہ نبی ﷺ کی اصل سنت (امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اذان دینا) کے خلاف نہیں تھا۔

  • اس کو “بدعتِ حسنہ” کہنا درست نہیں، کیونکہ یہ دین میں نئی عبادت شامل کرنا نہیں بلکہ صرف ایک انتظامی تبدیلی تھی۔

  • “بدعتِ حسنہ” کا نظریہ قرآن و سنت کے نصوص اور سلف کے اجماع کے خلاف ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: “کل بدعة ضلالة” یعنی ہر بدعت گمراہی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے