بدعت کے نقصانات:
ابتداع واحداث، باعث خسارہ وگھاٹا ہے۔ بلکہ سراسر گھاٹا ہے کہ اس سے فائدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ذیل کی سطور میں بدعت کے نقصانات کو بیان کیا جاتا ہے۔
(1) بدعت سے توبہ قبول نہیں ہوتی:
بدعتی آدمی بدعت کو نیکی سمجھ کر رہا ہوتا ہے، لہذا نہ وہ اسے گناہ سمجھ کر توبہ کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”شیطان لعین کو گناہوں کی بہ نسبت بدعت زیادہ محبوب ہے کیونکہ گناہوں سے تو توبہ کر لی جاتی ہے لیکن بدعت سے تو بہ نہیں کی جاتی ۔ “
شرح السنة از امام بغوي: 216/1
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله حجب التوبة عن صاحب كل بدعة
المعجم الأوسط للطبرانی: 62/8 ، حدیث نمبر: 4713۔ سلسلہ احادیث صحیحه حدیث: 1620
”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی سے توبہ کو روک دیا ہے۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”البتہ توبہ اس طور پر ممکن اور واقع ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے کہ اس کی راہنمائی فرمائے یہاں تک کہ حق اس کے لیے آشکار ہو جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے کفار و منافقین اور اہل بدعت و ضلالت کو ہدایت عطا فرمائی ۔ “
مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیه: 9/10
(2) بدعت سے گناہ ملتا ہے:
سیدنا کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف مزنی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے (میرے باپ سے) میرے دادا نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے میری سنت سے کوئی ایک سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو سنت زندہ کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا، جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا جبکہ لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے بدعت جاری کی اور پھر اس پر لوگوں نے عمل کیا تو بدعت جاری کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہوگا، جو اس بدعت پر عمل کریں گے جبکہ بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں کی سزا سے کوئی چیز کم نہیں ہوگی (یعنی وہ بھی پوری پوری سزا پائیں گے)“ ۔
سنن ابن ماجه المقدمة، رقم: 209، 210۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مزید اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من سن فى الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شي
صحیح مسلم: 704/2، 705
”جس نے اسلام کے اندر کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر خود اس کا گناہ ہو گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا گناہ بھی ہوگا اس کے بغیر کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو۔“
(3) بدعت باعث لعنت ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا، فعليه لعنة الله والملئكة، والناس أجمعين ، لا يقبل منه صرف ولا عدل
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام باب اثم من آوی محدثا ، حدیث نمبر: 3706۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدينة ، ودعاء النبي ﷺ فيها بالبركة، حدیث نمبر: 1366
”جس نے مدینہ میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی، اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالی اس کی کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہ فرمائے گا۔“
(4) بدعت کے آنے سے سنت اٹھ جاتی ہے:
حسان بن عطیہ محاربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما ابتدع قوم بدعة فى دينهم إلا نزع من سنتهم مثلها، ثم لا يعيدهاإليهم إلى يوم القيامة
سنن الدارمی: 45/1
”جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس جیسی ایک سنت اٹھا لیتا ہے پھر تا قیامت اسے ان تک واپس نہیں لوٹاتا ۔“
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا خاتمہ:
اہل بدعت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے جو کہ زبردست گھاٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من رغب عن سنتي فليس منى
صحیح بخاری کتاب النکاح، رقم: 5063
”جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔“
(6)بدعتی حوض کوثر سے دور ہٹا دیا جائے گا:
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا فرطكم على الحوض، من ورد شرب ومن شرب لم يظمأ أبدا ، على أقرام أعرفهم ويعرفونني ثم يحال بيني وبينهم
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبي ﷺ: 264/7۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل باب اثبات حوض نبينا ﷺ وصفاته: 1793/4، حدیث نمبر: 2290
”میں حوض کوثر پر تمھارا پیش رفت ہوں گا ، جو بھی آئے گا نوش کرے گا، اور جو بھی نوش کرے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی، اور میرے پاس کچھ لوگ ایسے آئیں گے جنھیں میں پہچانتا ہوں اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے، پھر میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل کر دی جائے گی۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ میں کہوں گا: إنهم مني ”یہ میرے امتی ہیں“ تو کہا جائے گا: إنك لا تدرى ما أحدثوا بعدك ”آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کر لی تھیں“ تو میں کہوں گا: سحقا سحقا لمن غير بعدي ”ایسے لوگوں کو مجھ سے دور ہٹاؤ جنھوں نے میرے بعد میرے دین میں تبدیلیاں کرلی تھیں ۔“
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبي ﷺ ، حدیث نمبر: 6583
اور سیدنا شقیق سے بروایت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يا رب أصحابي أصحابي، فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبیﷺ حدیث نمبر: 6575۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا ﷺ و صفاته، حدیث نمبر: 2297
” (کہ میں کہوں گا ) اے میرے رب ! یہ میرے اصحاب ہیں، یہ میرے اصحاب ہیں، تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کر لی تھیں ۔“
نیز سیدہ اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إني على الحوض حتى أنظر من ترد على منكم، وسيؤخذ ناس من دوني فأقول: يا رب منى ومن أمتي فيقال: هل شعرت ما عملوا بعدك، والله ما برحوا يرجعون على أعقابهم، فكان ابن أبى مليكة يقول: اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا وأن تفتن فى ديننا
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبی ﷺ حدیث نمبر: 6593۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبينا ﷺ و صفاته حدیث نمبر: 2293
”میں حوض کوثر پر ہوں گا تاکہ تم میں جو لوگ میرے پاس آتے ہیں انھیں دیکھوں اور جو کچھ لوگوں کو مجھ سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا: اے میرے رب ! یہ مجھ سے اور میری امت کے لوگ ہیں تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا عمل کیا؟ اللہ کی قسم ! یہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ گئے تھے، چنانچہ حضرت ابن ابو ملیکہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اے اللہ ! ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹیں یا اپنے دین میں فتنہ سے۔“
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
ألا ليذا دن رجال عن حوضى كما يذاد البعير الضال أناديهم ألا هلم فيقال إنهم قد بدلوا بعدك فأقول سحقا سحقا
صحیح مسلم: 218/1
”سنو! کچھ لوگوں کو میرے حوض سے بھگایا جائے گا جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو بھگایا جاتا ہے۔ میں انھیں آواز دوں گا: سنو، ادھر آؤ تو کہا جائے گا: انھوں نے آپ کے بعد تبدیلی کر دی تھی تو میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو (بھگاؤ ، دور کرو ) ۔“