بدعت کی تقسیم: امام عز بن عبد السلام کا موقف اور اہلِ علم کا رد
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اسلامی شریعت میں "بدعت” کا مفہوم نہایت اہم اور حساس ہے۔ نبی کریم ﷺ نے قطعی الفاظ میں ارشاد فرمایا:

«كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار»
(رواہ أبو داود: 4607، وصححه الألباني)

یعنی: "ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔”

یہ عمومی نص اس بات پر واضح دلیل ہے کہ شریعت کے دائرے میں کوئی بھی بدعت "اچھی” نہیں ہوسکتی۔ تاہم بعد کے بعض علماء نے بدعت کی تقسیم کی کوشش کی، جن میں سب سے مشہور امام عز بن عبد السلام (المتوفى 660ھ) ہیں۔ انہوں نے بدعت کو پانچ اقسام میں بانٹا اور یہ موقف بعد میں کئی کتب میں ذکر ہوا۔

یہ مضمون امام عز بن عبد السلام کی تقسیم، ان کے دلائل، اور پھر جمہور محدثین و محققین کی جانب سے اس پر کیے گئے رد کو تفصیل سے بیان کرے گا۔

امام عز بن عبد السلام کا موقف

امام عز بن عبد السلام، جنہیں "سلطان العلماء” کہا جاتا ہے، نے اپنی کتاب قواعد الأحكام في مصالح الأنام میں بدعت کو "الأحكام التكليفية الخمسة” کے مطابق تقسیم کیا۔

انہوں نے کہا:

«البدعة تنقسم إلى واجبة، ومحرمة، ومندوبة، ومكروهة، ومباحة»
(قواعد الأحكام، 2/172)

ترجمہ:
"بدعت پانچ اقسام پر مشتمل ہے: واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح۔”

مثالیں:

  1. بدعة واجبة: جیسے قرآن کو مصاحف میں جمع کرنا تاکہ امت اس سے محروم نہ ہو۔

  2. بدعة مندوبة: جیسے مدارس کی تعمیر اور کتب کی تصنیف۔

  3. بدعة مباحة: جیسے نئی کشتیوں یا گھروں کی تعمیر۔

  4. بدعة مكروهة: جیسے مسجدوں کو ضرورت سے زیادہ سجانا۔

  5. بدعة محرمة: جیسے اہل بدعت کی عبادات یا مشرکانہ رسومات۔

امام عز بن عبد السلام کے نزدیک، بدعت وہ "نئی چیز” ہے جس کی پہلے نظیر موجود نہ ہو، اور پھر اس کو شرعی احکام کے پانچ دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

امام شاطبیؒ کا رد

امام شاطبیؒ (المتوفى 790ھ) نے اپنی مشہور کتاب الاعتصام میں اس تقسیم پر شدید نقد کیا۔ وہ فرماتے ہیں:

«إنّ هذا التقسيم أمر مخترع لا يدل عليه دليل شرعي، بل هو في نفسه متدافع؛ لأنّ حقيقة البدعة أن لا يدل عليها دليل شرعي، لا من نصوص الشرع، ولا من قواعده؛ إذ لو كان هنالك ما يدل من الشرع على وجوب أو ندب أو إباحة لما كان ثم بدعة، ولكان العمل داخلاً في عموم الأعمال المأمور بها أو المخيَّر فيها»
(الاعتصام، 1/188-220)

ترجمہ:
"یہ تقسیم خود ایک نئی بدعت ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ بلکہ یہ تقسیم اپنے اندر تضاد رکھتی ہے، کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو، نہ نصوص میں اور نہ قواعد شرع میں۔ اگر کسی چیز پر شریعت سے وجوب، ندب یا اباحت کی دلیل ہو تو وہ بدعت نہیں بلکہ شریعت کے عام حکم میں داخل ہے۔”

یعنی شاطبیؒ کے نزدیک بدعت اور شریعت کا اجتماع ناممکن ہے۔ اگر دلیل شرعی ہے تو وہ بدعت نہیں، اور اگر دلیل شرعی نہیں تو وہ بدعت اور گمراہی ہے۔

ابن تیمیہؒ کا موقف

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے بھی بدعت کی تقسیم کو غیر صحیح قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں:

«المحافظة على عموم قول النبي صلى الله عليه وسلم: (كل بدعة ضلالة) متعين، وأنه يجب العمل بعمومه، وأن من أخذ يصنف البدع إلى حسن وقبيح… فقد أخطأ. فما سمي بدعة، وثبت حسنه بأدلة الشرع، فإما أن يقال: ليس ببدعة في الدين، وإن كان يسمى بدعة في اللغة، كما قال عمر: نعمت البدعة هذه»
(مجموع الفتاوى، 20/163)

ترجمہ:
"نبی ﷺ کے عموم ‘ہر بدعت گمراہی ہے’ پر عمل لازم ہے۔ جو لوگ بدعت کو حسنہ اور قبیحہ میں تقسیم کرتے ہیں وہ خطا پر ہیں۔ جو چیز شریعت سے ثابت ہے، اسے دین میں بدعت نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ لغت میں بدعت کہلائے، جیسا کہ عمرؓ نے فرمایا: ‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے’۔”

دیگر ائمہ کے اقوال

ابن رجبؒ

«كل من أحدث شيئًا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه؛ فهو ضلالة، والدين منه بريء»
(جامع العلوم والحكم، 2/128)

ترجمہ:
"جو بھی نئی چیز دین میں شامل کرے اور اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو، وہ بدعت اور گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے۔”

ابن كثيرؒ

«البدعة على قسمين: تارة تكون بدعة شرعية… وتارة تكون بدعة لغوية، كقول عمر رضي الله عنه: نعمت البدعة»
(تفسير ابن كثير، 1/162)

ترجمہ:
"بدعت دو طرح کی ہے: ایک شرعی بدعت جو مذموم ہے، اور دوسری لغوی بدعت جیسا کہ عمرؓ نے کہا: ‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے’۔”

ابن حجر العسقلانيؒ

«ما كان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة، بخلاف اللغة»
(فتح الباري، 13/253)

ترجمہ:
"جو چیز کی اصل شریعت میں موجود ہو، وہ بدعت نہیں۔ شرعی اصطلاح میں بدعت مذموم ہے، جبکہ لغوی اعتبار سے ہر نئی چیز بدعت کہلائی جاتی ہے۔”

خلاصہ و نتیجہ

  1. امام عز بن عبد السلام نے بدعت کو پانچ اقسام (واجب، مندوب، مباح، مکروہ، حرام) میں تقسیم کیا۔

  2. لیکن امام شاطبیؒ، ابن تیمیہؒ، ابن رجبؒ، ابن كثيرؒ اور دیگر ائمہ نے اس تقسیم کو شرعی اعتبار سے باطل قرار دیا۔

  3. ان کے نزدیک:

    • اگر کسی عمل کی شریعت میں اصل موجود ہے تو وہ بدعت نہیں بلکہ سنت یا مصلحت کے دائرے میں ہے۔

    • اور اگر کسی عمل کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے تو وہ بدعت اور ضلالت ہے، چاہے وہ بظاہر نیک مقصد کے لیے ہو۔

  4. "بدعة حسنة” صرف لغوی معنی میں درست ہے، شرعی طور پر ہر بدعت مذموم ہے۔

  5. نبی ﷺ کا فرمان: «كل بدعة ضلالة» ایک کلی قاعدہ ہے، اور اس سے کوئی استثناء شرعی دلیل کے بغیر جائز نہیں۔

مصادر و مراجع

  1. قواعد الأحكام في مصالح الأنام، عز بن عبد السلام.

  2. الاعتصام، الشاطبي.

  3. مجموع الفتاوى، ابن تيمية.

  4. جامع العلوم والحكم، ابن رجب.

  5. تفسير ابن كثير.

  6. فتح الباري، ابن حجر.

  7. الباعث على إنكار البدع، أبو شامة.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے