بدعت کا صحیح مفہوم اور دنیاوی ایجادات کا شرعی حکم
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

الحمد للہ وحدہ، والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد:

یہ مضمون اس اہم علمی و فکری مغالطے کے ازالے کے لیے مرتب کیا جا رہا ہے جسے بعض حلقے خصوصاً بریلوی حضرات پھیلاتے ہیں کہ دنیاوی ایجادات بھی بدعت میں شامل ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کسی چیز کا زمانۂ رسالت میں وجود نہ تھا تو وہ “بدعت” ہے، خواہ وہ دنیاوی معاملہ ہو یا دینی۔ اس بنا پر وہ اکثر عوام کو شبہ میں ڈالتے ہیں اور اہلِ سنت کے بدعت پر ردّ کو یہ کہہ کر مشتبہ کرتے ہیں کہ:

“اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو گاڑیاں، ہوائی جہاز، مائیکروفون اور موبائل بھی بدعت ہیں!”

اس مضمون میں ہم قرآن و سنت کی نصوص، ائمہ سلف کے اقوال اور معاصر اہلِ علم کی وضاحتوں سے یہ بات کھول کر پیش کریں گے کہ:

  • بدعت کا شرعی مفہوم صرف اور صرف دین میں نئی عبادت یا طریقہ ایجاد کرنا ہے۔

  • دنیاوی ایجادات، عادات، سواریوں اور معاشرتی تبدیلیوں کا بدعتِ شرعی سے کوئی تعلق نہیں۔

  • یہ خلط مبحث عوام کو دھوکے میں ڈالنے اور اصل بدعاتِ دینیہ (جیسے میلاد، گیارہویں، اضافی عبادات وغیرہ) کو جائز ثابت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

پس اس مقالے کا مقصد یہ ہے کہ بدعت کے حقیقی مفہوم کو واضح کیا جائے اور بریلوی حضرات کے اس باطل اعتراض کا علمی رد کیا جائے کہ دنیاوی ایجادات بھی بدعت کے حکم میں داخل ہیں۔

بدعت کی شرعی تعریف:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»
ترجمہ: "جس نے ہمارے اس دین کے معاملے میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔”
📖 (صحیح البخاری، حدیث: 2697؛ صحیح مسلم، حدیث: 1718)

اور ایک اور روایت میں ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
ترجمہ: "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین قائم نہیں تو وہ مردود ہے۔”
📖 (صحیح مسلم، حدیث: 1718)

ان دونوں نصوص سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بدعت وہی ہے جو دین میں نئے طور پر داخل کی جائے، جبکہ دنیاوی ایجادات اس دائرے میں شامل ہی نہیں۔

بدعت شرعی کی تین قیود:

ڈاکٹر محمد حسین الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

البدعة الشرعية لا تكون إلا باجتماع ثلاثة قيود: الإحداث، وإضافته إلى الدين، وألا يستند إلى أصل شرعي.

ترجمہ: "شرعی بدعت صرف اسی وقت بدعت کہلائے گی جب تین شرطیں جمع ہو جائیں: (1) کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے، (2) اسے دین کے ساتھ منسوب کیا جائے، (3) اس کا کوئی شرعی اصل موجود نہ ہو۔”
📖 (قواعد معرفة البدع، ص 18-23)

لہٰذا جو چیز صرف دنیاوی سہولت یا عادت کے دائرے میں ہے، وہ ان شرائط کے تحت بدعتِ شرعی میں داخل نہیں ہو سکتی۔

دنیاوی ایجادات کی حقیقت:

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أما العوائد عوائد الناس ومراكبهم وملابسهم ومآكلهم ودورهم وغير ذلك فهذه ما فيها بدعة… ليس هذا من البدع، هذه أمور جدت في عوائد الناس… وإن سميت بدعة من حيث اللغة… أما من حيث الدين من حيث الشرع فلا يكون من البدع إلا ما كان في الدين في القربات في التشريع.”

ترجمہ: "جہاں تک لوگوں کی عادات، سواریوں، کپڑوں، کھانوں، گھروں اور دیگر دنیاوی چیزوں کا تعلق ہے، ان میں بدعت نہیں۔ یہ صرف عادات کی نئی صورتیں ہیں۔ ہاں لغوی اعتبار سے نئی چیز کو بدعت کہا جا سکتا ہے، مگر شرعی اعتبار سے بدعت صرف وہ ہے جو دین اور عبادات میں ایجاد کی جائے۔”
📖 (البدع في الأمور الدنيوية، فتویٰ ابن باز)

بدعت اور دنیاوی ایجادات کے درمیان فرق

اب جب بدعت کی شرعی تعریف اور اس کی قیود واضح ہو گئیں تو ضروری ہے کہ دنیاوی ایجادات اور دینی بدعات کے درمیان فرق کو مزید کھولا جائے، تاکہ وہ مغالطہ دور ہو جسے بعض لوگ پھیلاتے ہیں۔

لغوی بدعت اور شرعی بدعت کا فرق

علماء نے واضح کیا ہے کہ ہر نئی چیز لغوی اعتبار سے “بدعت” کہلا سکتی ہے، لیکن شرعی اصطلاح میں صرف وہی بدعت ہے جو دین میں نئی عبادت کے طور پر شامل کی جائے۔

امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"فكل من أحدث شيئًا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه؛ فهو ضلالة، والدين منه بريء. وأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعًا، وإن كان بدعة لغةً.”
ترجمہ: "ہر وہ چیز جو دین کی طرف منسوب کر کے ایجاد کی جائے اور اس کا دین میں کوئی اصل نہ ہو، وہ ضلالت ہے اور دین اس سے بری ہے۔ اور جو چیز شرع میں کسی اصل پر قائم ہو، وہ شرعاً بدعت نہیں، اگرچہ لغوی اعتبار سے اسے بدعت کہا جا سکتا ہے۔”
📖 (جامع العلوم والحكم، 2/127-128)

ائمہ کے اقوال

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"المراد بقوله: (كل بدعة ضلالة) ما أحدث ولا دليل له من الشرع بطريق خاص ولا عام.”
ترجمہ: "حدیث کے الفاظ ‘ہر بدعت گمراہی ہے’ سے مراد وہ چیز ہے جو ایجاد کی گئی ہو اور جس کے لیے شرع میں نہ خاص اور نہ ہی عام کوئی دلیل موجود ہو۔”
📖 (فتح الباري، 13/254)

امام شاطبی رحمہ اللہ (ت 790ھ) فرماتے ہیں:

"البدعة طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه.”
ترجمہ: "بدعت وہ ایجاد کردہ طریقہ ہے جو دین میں اس طرح داخل کیا جائے کہ وہ شریعت سے مشابہ لگے اور اس پر چلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ کرنا ہو۔”
📖 (الاعتصام، 1/37)

یہاں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ بدعت کا دائرہ صرف دین کے ساتھ مخصوص ہے، نہ کہ دنیاوی ایجادات کے ساتھ۔

دنیاوی ایجادات کی مثالیں

دنیاوی ایجادات جیسے:

  • ہوائی جہاز

  • گاڑیاں

  • موبائل فون

  • مائیکروفون

  • نئی عمارتیں اور گھروں کی طرزِ تعمیر

  • جدید ہتھیار

یہ سب لغوی معنی میں “نئی چیزیں” ہیں، لیکن چونکہ ان کا تعلق عادات اور دنیاوی سہولتوں سے ہے، لہٰذا یہ شرعی بدعت نہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی وضاحت

شیخ ابن باز نے مزید فرمایا:

"المقصود من هذا كله أن البدع هي ما يحدثه الناس في الشرائع لا في عادات الناس ومآكلهم ومشاربهم وسلاحهم وغير ذلك.”
ترجمہ: "اس سب کا مقصود یہ ہے کہ بدعت وہ ہے جو لوگ شرعیات میں ایجاد کریں، نہ کہ لوگوں کی عادات، کھانے پینے، ہتھیاروں اور دیگر دنیاوی معاملات میں۔”
📖 (البدع في الأمور الدنيوية، ابن باز)

بدعت کے غلط فہم اور بریلوی اعتراضات کا جواب

بریلوی حضرات جب بدعاتِ دینیہ (جیسے میلاد النبی، ایصالِ ثواب کی محفلیں، گیارہویں، مخصوص اذکار اور دیگر غیر ثابت رسومات) پر تنقید سن کر جواب نہیں دے پاتے تو عوام کو الجھانے کے لیے کہتے ہیں:

“اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو پھر کار، ہوائی جہاز، مائیکروفون اور موبائل بھی بدعت ہیں!”

یہ اعتراض دراصل خلطِ مبحث (Mixing of categories) ہے۔ وہ شرعی بدعت اور لغوی بدعت کو ایک کر کے اصل مسئلے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بدعت دینی اور بدعت دنیوی

1. دینی بدعت

وہ ہے جو دین میں عبادت اور تقربِ الٰہی کے طور پر ایجاد کی جائے، جیسے:

  • نماز کے اوقات یا رکعات میں اضافہ کرنا

  • نئی عید مقرر کرنا

  • میلاد النبی کو عبادت بنانا

  • مخصوص اذکار و وظائف گھڑنا

یہ سب داخل ہیں نبی ﷺ کے فرمان میں:

«وإياكم ومحدثات الأمور؛ فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة»
ترجمہ: "اور بچو نئی پیدا کردہ چیزوں سے، بے شک ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 (سنن أبي داود، حدیث: 4607)

2. دنیوی ایجادات

وہ ہیں جو انسانی زندگی کو سہل بنانے کے لیے ہوں:

  • سواریوں کی جدت (اونٹ → گاڑی → جہاز)

  • ہتھیاروں کی ترقی

  • کھانے پینے اور لباس کی نئی شکلیں

  • گھروں اور شہروں کی جدید تعمیر

یہ سب دینی بدعت کے زمرے میں نہیں آتے۔

مثال کے طور پر:

اگر کوئی شخص یہ کہے:

  • “ہم چھٹی نماز مقرر کریں گے تاکہ لوگ غفلت سے نکل آئیں”
    یا

  • “ہفتے میں دو جمعے رکھیں تاکہ اجتماع زیادہ ہو”

تو یہ دینی بدعت ہے اور حرام ہے، کیونکہ یہ عبادت کے نظام میں اضافہ ہے۔

لیکن اگر کوئی کہے:

  • “ہم گاڑی یا ہوائی جہاز استعمال کریں گے تاکہ جلدی سفر ہو سکے”
    یا

  • “ہم موبائل سے خطبات سنائیں گے تاکہ آواز سب تک پہنچے”

تو یہ دنیاوی سہولت ہے اور شریعت نے اس پر پابندی نہیں لگائی۔

امام شاطبی رحمہ اللہ کی تنبیہ

"ومن البدع ما هو إضافي… كإحداث أذكار معينة وأوقات معينة لم ترد في الشرع، وإن كان أصل الذكر مشروعًا.”
ترجمہ: "بدعات میں ایک قسم اضافی بدعت ہے، جیسے شرع میں ثابت اذکار کے علاوہ نئے اذکار مقرر کر لینا یا نئے اوقات طے کر لینا، اگرچہ اصل ذکر مشروع ہے۔”
📖 (الاعتصام، 1/50)

یہ اصول میلاد اور دوسری ایجاد شدہ عبادات پر بالکل منطبق ہوتا ہے، مگر گاڑی یا جہاز پر نہیں۔

خلاصہ اور نتیجہ

اب تک کی تفصیل سے واضح ہوا کہ:

  1. بدعت کا شرعی مفہوم

    • بدعت صرف وہ چیز ہے جو دین میں عبادت کے طور پر ایجاد کی جائے۔

    • اس کے لیے تین شرائط لازم ہیں:

      1. نئی چیز ایجاد کی جائے (الإحداث)

      2. اسے دین کے ساتھ منسوب کیا جائے (إضافته إلى الدين)

      3. اس کا کوئی شرعی اصل نہ ہو (عدم الاستناد إلى أصل شرعي)

  2. دنیاوی ایجادات

    • گاڑیاں، ہوائی جہاز، موبائل، مائیکروفون، جدید ہتھیار اور نئے کھانے پینے کی اشیاء بدعتِ شرعی نہیں، بلکہ صرف لغوی معنی میں نئی چیزیں ہیں۔

    • لغوی بدعت اور شرعی بدعت میں فرق نہ کرنا عوام کو گمراہ کرنے کا طریقہ ہے۔

  3. بریلوی اعتراضات کا ردّ

    • جب ان سے دینی بدعات (میلاد، گیارہویں، ایصالِ ثواب کی مخصوص محفلیں، نئی عیدیں، اضافی نمازیں وغیرہ) پر دلیل پوچھی جائے تو وہ دنیاوی ایجادات کو بیچ میں لا کر شبہ ڈالتے ہیں۔

    • یہ اعتراض باطل ہے، کیونکہ شریعت نے دنیاوی سہولتوں کو بدعت ہی نہیں کہا۔

اہلِ علم کے نصوص کا خلاصہ

  • نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
    "جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔”
    📖 (بخاری 2697، مسلم 1718)

  • ابن رجب رحمہ اللہ:

    "فكل من أحدث شيئًا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين… فهو ضلالة.”
    "جو چیز دین میں ایجاد کی جائے اور اس کی کوئی اصل نہ ہو، وہ ضلالت ہے۔”
    📖 (جامع العلوم والحكم 2/128)

  • ابن حجر رحمہ اللہ:

    "ما أحدث ولا دليل له من الشرع بطريق خاص ولا عام.”
    "وہی بدعت ہے جس کے لیے شرع میں کوئی خاص یا عام دلیل موجود نہ ہو۔”
    📖 (فتح الباري 13/254)

  • شیخ ابن باز رحمہ اللہ:

    "أما العوائد… فهذه ما فيها بدعة… أما من حيث الدين فلا يكون من البدع إلا ما كان في الدين.”
    "جہاں تک عادات، سواریوں، کپڑوں اور کھانوں کا تعلق ہے تو ان میں بدعت نہیں۔ بدعت صرف دین میں ایجاد شدہ چیز ہے۔”
    📖 (فتاویٰ ابن باز، البدع في الأمور الدنيوية)

نتیجہ

لہٰذا یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ:

  • دین میں نئی عبادات = بدعت و گمراہی

  • دنیاوی ایجادات = سہولت و عادت، بدعتِ شرعی نہیں

اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بریلوی حضرات کا یہ اعتراض کہ "اگر ہر نئی چیز بدعت ہے تو کار، جہاز، موبائل بھی بدعت ہیں” ایک باطل شبہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

اہلِ سنت والجماعت کا موقف بالکل واضح ہے:

  • دین اللہ کے رسول ﷺ نے مکمل کر دیا ہے۔

  • دنیاوی معاملات میں سہولتیں انسان اپنی ضرورت کے مطابق اختیار کر سکتا ہے، اور یہ دین کے حکم سے متصادم نہیں۔

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”
📖 (المائدة: 3)

✅ اس طرح ثابت ہوا کہ دنیاوی ایجادات کو بدعت کہنا جہالت اور گمراہی ہے، اور ان کے ذریعے اصل بدعاتِ دینیہ کو چھپانے کی کوشش کرنا عوام کو فریب دینے کے مترادف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے