بدعت (حسنہ) کے رد میں حضرت ابن مسعودؓ کا طرزِ عمل
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بندوں تک پہنچایا اور قرآن و سنت کے ذریعے محفوظ فرمایا۔ اس میں نہ کمی کی گنجائش ہے نہ اضافہ کی۔ جو چیز عبادت یا ذکر کے طور پر نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو، اسے دین کا حصہ بنانا بدعت ہے، چاہے وہ بظاہر نیکی لگے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ مشہور واقعہ اسی اصول کو واضح کرتا ہے۔

سنن دارمی میں صحیح سند سے منقول واقعہ

204 أخبرنا الحكم بن المبارك أخبرنا عمرو بن يحيى قال سمعت أبي يحدث عن أبيه قال كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود قبل صلاة الغداة فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد فجاءنا أبو موسى الأشعري فقال أخرج إليكم أبو عبد الرحمن بعد قلنا لا فجلس معنا حتى خرج فلما خرج قمنا إليه جميعا فقال له أبو موسى يا أبا عبد الرحمن إني رأيت في المسجد آنفا أمرا أنكرته ولم أر والحمد لله إلا خيرا قال فما هو فقال إن عشت فستراه قال رأيت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل وفي أيديهم حصى فيقول كبروا مائة فيكبرون مائة فيقول هللوا مائة فيهللون مائة ويقول سبحوا مائة فيسبحون مائة قال فماذا قلت لهم قال ما قلت لهم شيئا انتظار رأيك وانتظار أمرك قال أفلا أمرتهم أن يعدوا سيئاتهم وضمنت لهم أن لا يضيع من حسناتهم ثم مضى ومضينا معه حتى أتى حلقة من تلك الحلق فوقف عليهم فقال ما هذا الذي أراكم تصنعون قالوا يا أبا عبد الرحمن حصى نعد به التكبير والتهليل والتسبيح قال فعدوا سيئاتكم فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد ما أسرع هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وآنيته لم تكسر والذي نفسي بيده إنكم لعلى ملة هي أهدى من ملة محمد أو مفتتحو باب ضلالة قالوا والله يا أبا عبد الرحمن ما أردنا إلا الخير قال وكم من مريد للخير لن يصيبه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا أن قوما يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم  وايم الله ما أدري لعل [ ص: 80 ] أكثرهم منكم ثم تولى عنهم فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج

(سُنن الدارمي ، المقدمة، باب في كراهية أخذ الرأي، آن لائن لنک اسلام ویب)

روایت کا خلاصہ

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بتایا کہ مسجد میں کچھ لوگ حلقوں میں بیٹھے ہیں، ہر حلقے میں ایک شخص ہاتھ میں کنکریاں لیے کہتا ہے: "سو مرتبہ اللہ اکبر کہو”، سب کہتے ہیں، پھر "سو مرتبہ لا إله إلا الله” اور "سو مرتبہ سبحان الله”۔

حضرت ابن مسعودؓ ان کے پاس گئے اور فرمایا:

"اپنے گناہ گنو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہارے نیک اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ افسوس! تمہاری ہلاکت کتنی جلدی آگئی، صحابہ کرامؓ ابھی موجود ہیں، نبی ﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے، اور تم یا تو محمد ﷺ کی ملت سے بہتر ملت پر ہو یا گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو!”

انہوں نے کہا: "ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی کا تھا”۔

حضرت ابن مسعودؓ نے جواب دیا:

"کتنے ہی لوگ بھلائی چاہتے ہیں مگر اسے پاتے نہیں۔”

روایت کے آخر میں راوی عمرو بن سلمہ کہتے ہیں:

"بعد میں ہم نے دیکھا کہ ان حلقوں میں بیٹھنے والے لوگ گمراہ ہو گئے اور نہروان کے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہم سے لڑے۔”

[سنن الدارمی: 210، صحیح، الألبانی: صحیحۃ (2005)]

روایت کی صحت

اس واقعے کی سند صحیح ہے:

✔ تمام رواۃ ثقہ ہیں، جیسا کہ امام ابن معین، عجلی، ابن سعد اور ابن حبان نے توثیق کی۔

✔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے (السلسلۃ الصحیحۃ: 2005)۔

✔ اس کے متعدد شواہد مختلف کتبِ حدیث میں موجود ہیں جو اس کی صحت کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔

وضاحت

① ذکر اللہ بذاتِ خود نیکی ہے، مگر صحابی رسولؓ نے اس خاص شکل کو رد کیا کیونکہ یہ نبی ﷺ کے طریقے پر نہیں تھی۔

② ان لوگوں نے نبی ﷺ کی مقرر کردہ ہی عبارات استعمال کیں (تکبیر، تہلیل، تسبیح) لیکن ایک نیا طریقہ، اجتماعی انداز اور گنتی کا طریقہ متعین کر لیا، جو دین میں اضافہ ہے۔

③ حضرت ابن مسعودؓ نے واضح فرمایا کہ دین میں ایجاد کردہ عمل گمراہی کا دروازہ کھول دیتا ہے، چاہے کرنے والے کا ارادہ خیر ہی کیوں نہ ہو۔

بدعت حسنہ کے دعوے کا رد

بریلوی مکتبِ فکر کے اصول کے مطابق یہ عمل "بدعت حسنہ” کہلاتا، کیونکہ:

❀ یہ ذکر پر مشتمل تھا،

❀ اس میں کوئی گناہ نہیں تھا،

❀ اور نیکی کی نیت تھی۔

لیکن حضرت ابن مسعودؓ نے اسی اصول کو رد کرتے ہوئے فرمایا:

✿ "یا تو تم نبی ﷺ سے بہتر راستے پر ہو، یا گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو” — یہ بدعت حسنہ کے نظریے کی کھلی تردید ہے۔

✿ "کتنے ہی لوگ خیر کا ارادہ کرتے ہیں مگر وہ اسے نہیں پاتے” — نیت کا اچھا ہونا عمل کو سنت نہیں بنا دیتا۔

حاصل کلام

◈ دین میں عبادات اور اذکار کے لیے مقررہ طریقہ ہی درست ہے۔

◈ بظاہر نیک لگنے والے اضافے کو بھی صحابہؓ نے بدعت قرار دیا۔

◈بدعت حسنہ کا نظریہ صحابہ کرامؓ کے فہم اور طرزِ عمل سے ثابت نہیں، بلکہ اس کے خلاف ہے۔

◈ اصل کامیابی اتباعِ سنت میں ہے، نہ کہ خود ساختہ طریقوں میں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1