بدعت کے مسئلے میں اہلِ سنت والجماعت کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نئی ایجاد شدہ چیز کو دین میں داخل کرنا گمراہی قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس بریلوی حضرات بعض روایات کو اپنی تاویلات کے ساتھ پیش کر کے بدعت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور اس میں جواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان کے پیش کردہ ایک مشہور استدلال کو نقل کریں گے اور پھر قرآن و سنت اور فہمِ سلف کی روشنی میں اس کا مدلل رد پیش کریں گے۔
بریلوی حضرات کی دلیل کا خلاصہ
بریلوی حضرات یہ استدلال کرتے ہیں:
نبیﷺ نے فرمایا: "جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے” یہ حدیث "ہر بدعت گمراہی ہے” کے لئے تخصیص ہے اور اس کی وضاحت ہے۔ اگر بدعت مطلق طور پر گمراہی ہوتی تو الفاظ ایسے ہوتے: "جو کوئی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے وہ مردود ہے”۔ لیکن جب یہ فرمایا گیا کہ "جو ایسی چیز ایجاد کرے جو دین میں سے نہیں” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایجاد شدہ امور دو قسم کے ہیں:
-
جو دین کے خلاف ہوں، وہ مردود اور بدعتِ ضلالہ ہیں۔
-
اور جو دین کے مطابق اور دلائل سے مؤید ہوں، وہ صحیح اور قابلِ قبول ہیں، اور یہی "سنتِ حسنہ” ہے۔
اس بریلوی شبہہ کی وضاحت
اہلِ سنت والجماعت کے اصول کے مطابق احادیث کی ایک روایت دوسری کی شرح اور وضاحت ہوتی ہے۔ اس دلیل کی حقیقت درج ذیل نکات سے واضح ہوتی ہے:
➊ حدیث کی دوسری روایت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے:
النص:
«من عمل عملاً ليس عليه أمرنا؛ فهو رد»
(صحیح مسلم، حدیث: 1718)
📌 ترجمہ:
"جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا دین (یا طریقہ) نہ ہو تو وہ مردود ہے۔”
یہ روایت صاف وضاحت کرتی ہے کہ ہر وہ عمل جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر نہ ہو، مردود ہے۔ اس میں نہ صرف اصل بلکہ طریقہ، کیفیت اور ہیئت سب داخل ہیں۔
➋ فہمِ سلف
سلف صالحین نے ہمیشہ انہی الفاظ کے مطابق سمجھا اور ان کے نزدیک "بدعت” وہی تھی جو بظاہر دینی رنگ رکھتی ہو لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔
اس لئے وہ ایسے کاموں کو بھی بدعت کہتے تھے جن کی اصل عبادت میں تو موجود ہے مگر ان کی کیفیت و ہیئت نئی وضع کی گئی ہو۔
مثلاً:
-
کسی وقت یا جگہ کو خاص کر کے ذکر و دعا کو لازم کر دینا۔
-
جماعتی صورت میں ایسی عبادات کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین نے ایسے اعمال کو بدعت قرار دیا، حالانکہ ان کی اصل عبادت مشروع تھی۔
➌ لغوی و نحوی وضاحت
حدیث کے الفاظ "لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا” میں "لیس” خبر اور "علیہ امرنا” صفت کے طور پر آیا ہے۔ یعنی جو عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں، وہی مردود ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی نئی کیفیت یا نئی شکل دین میں داخل کی جائے، اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت نہ ہو تو وہ بدعت مردود ہے، چاہے بظاہر اچھی لگے۔
خلاصہ
بریلوی حضرات کی یہ تاویل کہ بدعت دو قسم کی ہے (بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ) قرآن، سنت اور فہمِ سلف کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل واضح ہے:
النص:
«كل بدعة ضلالة»
(سنن النسائي، حدیث: 1578)
📌 ترجمہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
یہ الفاظ عموم پر دلالت کرتے ہیں اور اس میں کوئی استثناء نہیں۔
لہٰذا دین میں ہر نیا کام بدعت اور گمراہی ہے، چاہے بظاہر اچھا نظر آئے۔ دین کی اصل تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں ہوچکی تھی:
النص:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ﴾
(المائدہ: 3)
📌 ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”
✍️ نتیجہ:
اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ بدعت خواہ کسی بھی شکل میں ہو، وہ دین میں مردود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ "کل بدعة ضلالة” ہر نئی بدعت کو شامل ہیں، اور کسی تاویل یا تخصیص کی گنجائش نہیں۔