بدعة حسنة (اچھی بدعت) اور بدعة سيئة (بری بدعت) کی تقسیم
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

آج کے دور میں بہت سے باطل کے داعی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف شبہات پیش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے باطل کو "حق” کے لبادے میں پیش کر سکیں۔ انہی شبہات میں سے ایک شبہ "بدعت کی تقسیم” ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم کی ہے: بدعة حسنة (اچھی بدعت) اور بدعة سيئة (بری بدعت)۔
اور پھر وہ کچھ نصوص کا سہارا لیتے ہیں جو بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ دلائل ان کے مدعا کے لیے درست نہیں۔

یہ مضمون انہی شبہات کا مدلل جواب ہے، تاکہ واضح ہو جائے کہ شریعت میں "کل بدعة ضلالة” (ہر بدعت گمراہی ہے) ایک جامع اور قطعی اصول ہے۔

تعریفِ بدعت

اہلِ علم نے بدعت کی متعدد تعریفیں ذکر کی ہیں، لیکن سب کا خلاصہ ایک ہی معنی پر آتا ہے:

➊ امام شاطبیؒ

«طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية، يقصَد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه»
(الاعتصام، 1/37)

ترجمہ: "دین میں ایک نئی ایجاد کی گئی راہ جو شریعت کی مشابہ ہو، اور اس پر چلنے کا مقصد اللہ کی عبادت میں غلو ہو۔”

➋ امام ابن رجبؒ

«المراد بالبدعة ما أحدِث مما لا أصل له في الشريعة يدلّ عليه، وأما ما كان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعًا وإن كان بدعة لغة»
(جامع العلوم والحكم، ص 265)

ترجمہ: "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جو شریعت میں کسی اصل کے بغیر ایجاد کی گئی ہو۔ اور جو چیز کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں، اگرچہ لغت میں بدعت کہلائے۔”

➌ امام جلال الدین السیوطیؒ

«البدعة عبارة عن فعلةٍ تصادم الشريعة بالمخالفة أو توجب التعاطي عليها بزيادة أو نقصان»
(الأمر بالاتباع، ص 88)

ترجمہ: "بدعت ایسی نئی چیز ہے جو شریعت سے ٹکرا جائے مخالفت کے ذریعے، یا شریعت پر زیادتی یا کمی کا باعث بنے۔”

➍ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ

«البدعة في الدين هي ما لم يشرعه الله ورسوله، وهو ما لم يأمر به أمر إيجاب ولا استحباب، فأما ما أمر به أمر إيجاب أو استحباب وعلم الأمر به بالأدلة الشرعية فهو من الدين الذي شرعه الله، سواء كان هذا مفعولاً على عهد النبي صلى الله عليه وسلم أو لم يكن»
(مجموع الفتاوى، 4/107-108)

ترجمہ: "دین میں بدعت وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہ کیا ہو، نہ اسے واجب قرار دیا ہو نہ مستحب۔ اور جو چیز واجب یا مستحب ہونے کی شرعی دلیل سے ثابت ہے، وہ دین میں داخل ہے، چاہے وہ نبی ﷺ کے زمانے میں عملاً ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔”

خلاصہ

تمام تعریفوں کا حاصل یہ ہے کہ:

  • بدعت شرعی: وہ نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو۔

  • بدعت لغوی: ہر نئی چیز کو لغت میں بدعت کہا جاتا ہے، لیکن اگر اس کی اصل شریعت میں موجود ہے تو وہ شرعاً بدعت نہیں۔

بدعت کی اقسام

اہلِ علم نے بدعت کی کئی تقسیمات ذکر کی ہیں۔ لیکن سب سے جامع اور واضح تقسیم یہ ہے جو معاصر عالم شیخ صالح الفوزان نے اپنی کتاب عقيدة التوحيد میں بیان کی۔

➊ بدعت قَولِیَّہ اعتقادیہ

یہ وہ بدعتیں ہیں جو عقیدہ اور نظریات میں پیدا کی گئیں۔
مثال کے طور پر:

  • جہمیہ

  • معتزلہ

  • رافضہ

  • اور دیگر گمراہ فرقے

ان کے عقائد چونکہ نصوصِ شرعیہ کے خلاف ہیں، اس لیے یہ بدعت قَولِیَّہ ہیں۔

➋ بدعت فعلیہ عبادیہ

یہ وہ بدعتیں ہیں جو عملی عبادات میں ایجاد کی گئیں۔ اس کی مزید چند ذیلی اقسام ہیں:

(أ) اصلِ عبادت میں بدعت

یعنی ایسی عبادت گھڑنا جس کی شریعت میں کوئی اصل ہی نہ ہو۔
مثال:

  • ایسی نماز ایجاد کرنا جو نبی ﷺ نے مشروع نہ کی ہو۔

  • ایسا روزہ رکھنا جس کا شریعت میں وجود ہی نہ ہو۔

  • غیر شرعی عیدیں بنانا جیسے "میلاد النبی” وغیرہ۔

(ب) عبادتِ مشروعہ میں اضافہ کرنا

یعنی ایسی عبادت کو بڑھا دینا جس کی اصل مشروع ہے لیکن اس میں زیادتی کر دی گئی ہو۔
مثال:

  • ظہر کی نماز کو پانچ رکعت پڑھنا۔

  • مغرب کو چار رکعت پڑھنا۔

(ج) عبادت کی صفت میں بدعت

یعنی عبادت تو مشروع ہو لیکن اسے ایسی صفت اور طریقے سے ادا کیا جائے جو شریعت نے مقرر نہ کیا ہو۔
مثال:

  • اذکار کو اجتماعی طور پر ایک ساتھ گانا نما انداز میں پڑھنا۔

  • عبادات میں غیر معمولی سختی کرنا جو نبی ﷺ کی سنت کے خلاف ہو۔

(د) عبادت کے وقت میں بدعت

یعنی ایسی عبادت کے لیے وقت مقرر کرنا جسے شریعت نے خاص وقت سے مقید نہ کیا ہو۔
مثال:

  • 15 شعبان کی رات کو خاص طور پر قیام کرنا۔

  • 15 شعبان کے دن کا روزہ خاص کر کے رکھنا۔

خلاصہ

  • عقائد میں بدعت: جہمیہ، رافضہ وغیرہ کی گمراہیاں۔

  • عبادات میں بدعت: یا تو نئی عبادت گھڑنا، یا مشروع عبادت میں اضافہ کرنا، یا صفت بدل دینا، یا غیر مشروع وقت خاص کرنا۔

یہ تمام بدعتیں دین کے اندر نئی راہیں ایجاد کرنا ہیں، اور یہی وہ بدعتیں ہیں جنہیں نبی ﷺ نے "ضلالة” کہا۔

بدعتِ حسنہ کے وجود کے بطلان پر دلائل

اہلِ باطل جب بدعت کو "حسنة” اور "سيئة” میں تقسیم کرتے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شریعت نامکمل تھی اور ہمیں اپنی طرف سے کچھ "اچھیاں” داخل کرنی تھیں۔ حالانکہ قرآن و سنت میں صریح دلائل موجود ہیں کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

➊ قرآن کی دلیل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا ۚ
(المائدة: 3)

ترجمہ: "آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔”

➤ اس آیت سے واضح ہے کہ دین مکمل ہوچکا۔ لہٰذا جو چیز دین میں بعد میں گھڑی جائے وہ بدعت ہے اور مردود ہے۔

➋ حدیثِ نبوی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار»
(رواہ النسائي 3/188، ومسلم 2/592)

ترجمہ: "ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔”

➤ یہاں "کل” کا لفظ عموم پر دلالت کرتا ہے، یعنی کوئی بدعت مستثنیٰ نہیں۔

➌ صحابہ کرام کے اقوال

(أ) ابن عمرؓ

«كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة»
(رواہ الدارمي بإسناد صحيح)

ترجمہ: "ہر بدعت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے اچھی سمجھیں۔”

(ب) امام مالکؒ

«من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة فقد زعم أن محمداً خان الرسالة؛ لأن الله يقول: ﴿اليوم أكملت لكم دينكم﴾، فما لم يكن يومئذ ديناً لا يكون اليوم ديناً»

(الاعتصام للشاطبي 1/62)

ترجمہ: "جو شخص اسلام میں کوئی بدعت نکالے اور اسے اچھا سمجھے تو گویا اس نے کہا کہ محمد ﷺ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا، کیونکہ اللہ نے فرمایا: ‘آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا’۔ پس جو چیز اس وقت دین نہ تھی وہ آج بھی دین نہیں۔”

(ج) امام احمد بن حنبلؒ

«أصول السنة عندنا التمسك بما كان عليه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والاقتداء بهم، وترك البدع؛ وكل بدعة فهي ضلالة»

(أصول السنة للإمام أحمد)

ترجمہ: "ہمارے نزدیک سنت کے اصول یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے طریقے کو تھامنا، ان کی اقتداء کرنا، اور بدعتوں کو چھوڑ دینا؛ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”

(د) امام ابو حنیفہؒ

«عليك بالأثر وطريق السلف، وإياك وكل محدثة فإنها بدعة»

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي 1/154)

ترجمہ: "تم آثار (حدیث) اور سلف کے طریقے کو لازم پکڑو، اور ہر نئی چیز سے بچو، کیونکہ وہ بدعت ہے۔”

خلاصہ

  1. قرآن نے اعلان کر دیا کہ دین مکمل ہے۔

  2. نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

  3. صحابہ اور ائمہ سلف نے بدعت کو ہمیشہ مذموم قرار دیا۔

  4. لہٰذا "بدعة حسنة” کا تصور شریعت میں باطل ہے۔

صحابی رسولؓ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بدعت کا رد

بدعت کے بطلان پر سب سے واضح عملی مثال صحابی رسول ﷺ عبد الله بن مسعود رضي الله عنه کا واقعہ ہے، جس میں انہوں نے ایک نئی ایجاد شدہ عبادت پر سخت انکار کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف بدعت کی حقیقت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس اصول کو بھی قائم کرتا ہے کہ عبادت اگر اصل میں مشروع ہو لیکن اس کی ہیئت، صفت یا وقت میں تبدیلی کر دی جائے تو وہ بدعت شمار ہوگی۔

نص واقعہ

روایت ہے کہ ایک شخص ابن مسعودؓ کے پاس آیا اور کہا:
"میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے جو مغرب کے بعد بیٹھتے ہیں، ان میں ایک آدمی کہتا ہے: ‘تکبیر کہو اتنی بار، تسبیح کہو اتنی بار، تحمید کہو اتنی بار’۔”

ابن مسعودؓ نے فرمایا:
"جب تم انہیں اس حالت میں دیکھو تو مجھے خبر دینا۔”

چنانچہ وہ گئے اور پھر ابن مسعودؓ کو بلا لائے۔

ابن مسعودؓ وہاں پہنچے اور فرمایا:

«أنا عبد الله بن مسعود، والله الذي لا إله غيره لقد جئتم ببدعة ظلماً، ولقد فضلتم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم علماً»

(رواہ الدارمي 1/68-69 بإسناد صحيح)

ترجمہ: "میں عبد الله بن مسعود ہوں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! تم نے ایک بدعت ایجاد کی ہے ظلم کے ساتھ، اور تم سمجھتے ہو کہ تم علم میں محمد ﷺ کے صحابہ سے افضل ہو۔”

ان کے کلام سے حاصل نکات

  1. ان لوگوں کا عمل بظاہر ذکر تھا (جو اصل میں مشروع ہے)۔

  2. لیکن چونکہ وہ ذکر کو ایک نئی ہیئت (یعنی اجتماعی انداز اور مقررہ تعداد) میں کر رہے تھے، اس لیے ابن مسعودؓ نے اسے "بدعة” کہا۔

  3. ابن مسعودؓ نے اس عمل کو "صحابہ پر فضیلت جتانا” قرار دیا، یعنی گویا ان سے زیادہ دین سمجھنے کا دعویٰ۔

  4. انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تم دائیں یا بائیں ہٹو گے تو "ضلالاً بعيداً” (بہت دور کی گمراہی) میں پڑ جاؤ گے۔

آج کے دور پر تنزیل

اب سوچئے:

  • ابن مسعودؓ نے ایسے ذکر کو بدعت کہا جس کا اصل مشروع تھا لیکن ہیئت نئی تھی۔

  • تو پھر آج کے دور میں صوفیانہ اذکار، "هو هو” یا "حي حي” جیسے الفاظ کا اجتماعی تکرار، رقص و موسیقی کے ساتھ "ذکر” کی محفلیں، یہ سب کس درجے کی بدعت ہوں گی؟

خلاصہ

  • ابن مسعودؓ کے واقعے سے ثابت ہوا کہ نئی ہیئت بھی بدعت ہے، چاہے اصل عمل مشروع ہو۔

  • یہ اصول بدعت حسنة کے تمام دعووں کو باطل کر دیتا ہے، کیونکہ اگر مشروع ذکر کو نئی شکل دینا بدعت ہے تو پھر غیر مشروع چیزیں کس طرح "حسنة” کہلائی جا سکتی ہیں؟

بدعت کو حسنه اور سيئه میں تقسیم کرنے والوں کے شبہات کا رد

بدعت کو "حسنة” اور "سيئة” میں تقسیم کرنے والے چند دلائل پیش کرتے ہیں، مگر ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں ہم ان کے پانچ بڑے شبہات اور ان کے جوابات بیان کریں گے:

🟢 الشبهة الأولى: حديث «من سن في الإسلام سنة حسنة»

وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

«من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده… ومن سن سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها»

(رواه مسلم 1017)

ترجمہ: "جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا، اسے اس کا اجر اور بعد میں کرنے والوں کا اجر ملے گا۔ اور جس نے برا طریقہ جاری کیا، اس پر اس کا گناہ اور بعد میں کرنے والوں کا گناہ ہوگا۔”

➤ الجواب:

  • نبی ﷺ نے "سنة حسنة” فرمایا، "بدعة حسنة” نہیں۔

  • "سنة حسنة” سے مراد وہ سنت ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو مگر وہ بھلا دی گئی ہو، اور کوئی شخص اسے زندہ کرے۔

  • اس حدیث کا سببِ ورود یہ ہے کہ کچھ لوگ ننگے بھوکے حالت میں نبی ﷺ کے پاس آئے، تو ایک انصاری صحابی نے صدقہ پیش کیا، پھر دوسرے بھی کرنے لگے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: "جس نے اسلام میں ایک اچھی سنت جاری کی…” (مسلم 1017)

  • صدقہ بذاتِ خود بدعت نہیں، بلکہ ایک مشروع عمل ہے۔ لہٰذا حدیث کا تعلق احیاءِ سنت سے ہے، نہ کہ نئی بدعت ایجاد کرنے سے۔

🟢 الشبهة الثانية: قول عمر رضي الله عنه «نعمت البدعة هذه»

وہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں کہا:

«نعمت البدعة هذه»

(البخاري 2010)

➤ الجواب:

  • یہ "بدعة لغوية” ہے، "بدعة شرعية” نہیں۔

  • تراویح اصل میں سنت ہے۔ نبی ﷺ نے چند راتیں صحابہ کے ساتھ پڑھی، لیکن چھوڑ دی اس خوف سے کہ فرض نہ ہو جائے۔

  • حضرت عمرؓ نے اسے دوبارہ زندہ کیا، اور چونکہ یہ ایک عرصہ موقوف رہی تھی، اس لیے لغوی اعتبار سے "نئی” لگی۔

  • اگر یہ بدعت شرعی ہوتی تو عمرؓ کبھی اسے "نعم” نہ کہتے، کیونکہ شرعی بدعت گمراہی ہے۔

🟢 الشبهة الثالثة: أعمال الصحابة مثل جمع المصاحف

وہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے بھی قرآن کو جمع کیا اور یہ بدعت تھی۔

➤ الجواب:

  • قرآن کو جمع کرنا بدعت نہیں، بلکہ شریعت کے تحفظ کا تقاضا تھا۔

  • یہ کام رسول اللہ ﷺ کے حکم "خذوا القرآن من أربعة” اور "بلغوا عني” کے دائرے میں آتا ہے۔

  • یہ خلفاء راشدین کے اجماع سے ہوا، اور نبی ﷺ نے فرمایا:

«فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين»
(أبو داود 4607)

لہٰذا یہ سنت ہے، بدعت نہیں۔

🟢 الشبهة الرابعة: استدلال بآية «ورهبانية ابتدعوها»

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان الله فما رعوها حق رعايتها﴾

"اور رہبانیت (ترکِ دنیا اور گوشہ نشینی) جو انہوں نے خود ایجاد کی، ہم نے ان پر اسے فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے یہ کام) اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا۔ پھر بھی انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔”

(الحديد: 27)

➤ الجواب:

  • یہ نصاریٰ کی "رهبانية” کی مذمت ہے۔

  • امام ابن كثيرؒ فرماتے ہیں:

«وهذا ذم لهم من وجهين: أحدهما الابتداع في دين الله ما لم يأمر به، والثاني أنهم لم يقوموا بما التزموه»

(تفسير ابن كثير 2/34)

ترجمہ: "یہ نصاریٰ کی دو طرح سے مذمت ہے: پہلی یہ کہ انہوں نے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اللہ نے فرض نہ کی تھی، اور دوسری یہ کہ جو کچھ انہوں نے ایجاد کیا اسے بھی پورا نہ کیا۔”

  • لہٰذا یہ آیت بدعت کی مذمت ہے، مدح نہیں۔

🟢 الشبهة الخامسة: قول الشافعي في المحدثات

وہ امام شافعیؒ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:

«المحدثات من الأمور ضربان: ما أحدث يخالف كتاباً أو سنة أو أثراً أو إجماعاً فهذه بدعة ضلالة، وما أحدث لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة»

ترجمہ

"نئی پیدا کی گئی چیزیں (المحدثات) دو قسم کی ہیں:

  1. جو چیز قرآن، سنت، اثر یا اجماع کے خلاف ایجاد کی گئی ہو، تو یہ بدعتِ ضلالت ہے۔

  2. اور جو چیز ان میں سے کسی کے بھی خلاف نہ ہو، تو یہ نئی چیز ہے مگر مذموم نہیں۔”

(ابن عساكر، تبيين كذب المفتري، ص 97)

➤ الجواب:

«ولا يقول بما استحسن، فإن القول بما استحسن شيء يحدثه لا على مثال سبق»

(الرسالة، ص 504)

ترجمہ: "کوئی محض استحسان کی بنیاد پر بات نہ کرے، کیونکہ استحسان ایسی چیز ہے جو بغیر سابق مثال کے گھڑی جائے۔”

  • ابن رجبؒ کہتے ہیں:

«وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع، فإنما ذلك في البدع اللغوية لا الشرعية»

(جامع العلوم والحكم، ص 252)

یعنی: "سلف کے کلام میں جو بدعت کے استحسان کے الفاظ ملتے ہیں وہ بدعت لغوی کے بارے میں ہیں، نہ کہ بدعت شرعی کے۔”

پورے مضمون کا خلاصہ و نتیجہ

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

اس طویل بحث اور دلائل کی روشنی میں درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:

➊ بدعت کی تعریف

  • بدعت شرعیہ وہ ہے جو دین میں ایجاد کی جائے اور اس کی کوئی اصل کتاب، سنت، اجماع یا اثر میں نہ ہو۔

  • بدعت لغویہ وہ ہے جو محض نئی ہو لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود ہو۔
    ➤ شریعت کی اصطلاح میں بدعت ہمیشہ مذموم ہے۔

➋ بدعت کی اقسام

  • عقیدہ میں بدعت: جہمیہ، معتزلہ، رافضہ وغیرہ کے نظریات۔

  • عبادت میں بدعت:

    • نئی عبادت گھڑنا (مثلاً میلاد یا نئی نمازیں)،

    • مشروع عبادت میں اضافہ کرنا (نماز میں رکعت بڑھانا)،

    • صفت بدل دینا (اذکار اجتماعی طور پر گانا)،

    • وقت بدل دینا (نصف شعبان کی رات مخصوص عبادت کرنا)۔

➌ بدعت حسنة کا بطلان

  • قرآن نے اعلان کیا: ﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ﴾ (المائدة: 3)

  • نبی ﷺ نے فرمایا: «كل بدعة ضلالة» (مسلم)

  • ابن عمرؓ: «كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة» (الدارمي)

  • امام مالکؒ: "جو بدعت کو اچھا سمجھے اس نے گویا کہا کہ محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی۔”

➍ سلف کے واقعات سے استدلال

  • ابن مسعودؓ نے ان لوگوں کو بدعتی کہا جو اجتماعی ذکر کرتے تھے حالانکہ ذکر بذاتِ خود مشروع تھا۔

  • اس سے اصول قائم ہوا کہ اگر مشروع عمل بھی غیر مشروع صفت یا وقت کے ساتھ کیا جائے تو وہ بدعت ہے۔

➎ شبہات کا جواب

  1. حدیث «من سن سنة حسنة»: سنت کے احیاء پر ہے، بدعت گھڑنے پر نہیں۔

  2. قول عمر «نعمت البدعة»: لغوی بدعت ہے، شرعی بدعت نہیں۔

  3. جمع القرآن: سنت خلفاء راشدین اور مصلحت شرعیہ ہے، بدعت نہیں۔

  4. آية «ورهبانية ابتدعوها»: نصاریٰ کی مذمت ہے، مدح نہیں۔

  5. قول الشافعي: لغوی بدعت مراد ہے، نہ کہ شرعی۔

➏ اجماعی موقف

  • امام شاطبیؒ: "بدعت کو واجب، مندوب، مباح کہنا خود ایک بدعت ہے۔” (الاعتصام)

  • ابن تیمیہؒ: "جو چیز شرع سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں، اگرچہ لغت میں بدعت کہلائے۔” (مجموع الفتاوى)

  • ابن رجبؒ: "جو چیز کی اصل دین میں نہ ہو وہ بدعت اور ضلالت ہے۔” (جامع العلوم والحكم)

جامع خلاصہ

  • دین مکمل ہے، اس میں کسی اضافہ یا نئی ایجاد کی گنجائش نہیں۔

  • "بدعة حسنة” کا تصور باطل ہے، کیونکہ شرعی بدعت ہمیشہ مذموم ہے۔

  • لغت میں نئی چیز کو بدعت کہا جا سکتا ہے (جیسے تراویح کو "نعمت البدعة” کہنا)، لیکن شرعی اصطلاح میں یہ بدعت نہیں۔

  • جو چیز شریعت میں اصل رکھتی ہے، وہ سنت یا مصلحت کے دائرے میں آتی ہے، بدعت کے دائرے میں نہیں۔

  • اس لیے نبی ﷺ کا فرمان «كل بدعة ضلالة» ہر بدعت کو شامل ہے، اور یہی اہلِ سنت والجماعة کا اجماعی موقف ہے۔

دعا

نسأل الله تعالى أن يحيينا على السنة، ويميتنا عليها، وأن يجنبنا البدع ما ظهر منها وما بطن، وأن يجعلنا من أتباع النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه، إنه ولي ذلك والقادر عليه.

والله أعلم، وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے