وعن ابي الدرداء رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن الله يبغض الفاحش البذيء . اخرجه الترمذي وصححه.
” ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ بدزبان (گالیاں بکنے والے) بیہودا گندی باتیں کرنے والے سے بغض رکھتا ہے۔ “
اسے ترمذی نے روایت کیا اور صحیح قرار دیا ہے۔
تخریج : اس کی سند میں کچھ ضعف ہے حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ ترمذی [2002] میں مکمل روایت اس طرح ہے :
عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء، ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: ” ما شيء اثقل فى ميزان المؤمن يوم القيامة من خلق حسن، وإن الله ليبغض الفاحش البذيء
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مومن کی میزان میں کوئی چیز اچھے خلق سے زیادہ وزنی نہیں ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ بدزبان (گالیاں بکنے والے ) بے ہودہ گندی باتیں کرنے والے سے بغض رکھتا ہے۔ “
شیخ البانی نے فرمایا : یعلیٰ بن مالک کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا اور اس سے ابن ابی ملیکہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اس لیے حافظ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ”مقبول“ یعنی مطابعت کے وقت۔ شیخ البانی فرماتے ہیں اس کے آخری حصے :
وإن الله ليبغض الفاحش البذيء
کے دو شاہد بھی ہیں تفصیل کے لئے دیکھئے سلسلہ الاحادیث الصحیحہ [876] اور دیکھیے تحفۃ الاشراف [246/8]
مفردات :
يُبْغِضُ بغض، محبت کی ضد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اچھا بدلہ دے گا اسے عزت عطا فرمائے گا اور اس کے بعض کا مطلب یہ ہے کہ اسے سزا دے گا اسے ذلیل کرے گا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ محبت اور بغض کا نتیجہ تو ہو سکتا ہے ہے مگر محبت اور بغض کا مطلب یہ ہرگز نہیں محبت اور بغض کا مطلب ہر شخص جانتا ہے دوستی اور دشمنی۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کی یہ صفات آئی ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو لوگ ان کا کوئی اور مطلب بیان کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ ماننے سے کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے یا دشمنی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کی شان میں فرق آتا ہے کیوں کہ یہ جذبات تو انسانوں میں پائے جاتے ہیں ہیں اور انسان محبت اور دشمنی کے جذبے کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اس لیے انہوں نے اللہ کی صفات کی تاویل کی جو در حقیقت اصل صفت حب و بغض کی نفی ہے کیونکہ بدلہ دینا، عزت کرنا یہ الگ صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ میں یہ بھی پائی جاتی ہیں اور محبت اور بغض اس کی الگ مستقل صفات ہیں۔
رہی یہ بات کے حب و بغض کو اللہ کی صفات مانیں تو انسانوں کی مشابہت لازم آتی ہے جبکہ اللہ کی مثل تو کوئی چیز نہیں اس لیے ہم اللہ کی ان صفات کو نہیں مانتے بلکہ ان کا مطلب دوسرا کرتے ہیں تو اس میں قابل غور یہ بات ہے کہ اگر محبت اور بغض انسانوں میں پائے جاتے ہیں تو اچھا یا برا بدلہ دینا، عزت کرنا یا بے عزتی کرنا بھی تو انسانوں میں پایا جاتا ہے پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ میں نہیں ہونا چاہیے اور ان کا مطلب بھی کچھ اور نکالنا چاہیے اور آخر کہاں تک مطلب نکالتے جائیں گے صاف کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ صفات سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ نے بالکل آسان فرما دیا ہے۔ فرمایا :
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ [42-الشورى:11]
” یعنی اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ “
یعنی تم سنتے اور دیکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ بھی سنتا ہے اور دیکھتا ہے مگر اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں تمہارا سننا دیکھنا اور اللہ کا سننا دیکھنا ایک جیسا نہیں۔ بلکہ اللہ کا سننا اور دیکھنا اس طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ معلوم ہوا انسانوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سننے اور دیکھنے کا ہی انکار کر دینا درست نہیں بلکہ یہ دراصل قرآن کا انکار ہے۔
اسی طرح حب و بغض یقیناً اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مگر جس طرح اس کی شان کے لائق ہیں۔ مخلوق کی طرح نہیں اور نہ ہی وہ انسانوں کی طرح محبت و بغض کے ہاتھوں بے بس ہے۔
الْفَاحِشَ فحش، فاحشہ، فحشاء سے مراد وہ قول یا فعل ہے جو بہت ہیں قبیح ہو زنا کو اسی لیے فاحشہ کہتے ہیں۔ شدید بخل کو فحشاء کہتے ہیں۔
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ [2-البقرة:268]
میں یہی مراد ہے۔ گالی بکنا بےحیائی کی بات کرنا بھی فحش ہے۔ اس حدیث میں یہی مراد ہے۔
الْبَذِيءَ بذاء سے فعیل کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے۔ بے ہودہ اور گندی باتوں کو بذاء کہتے ہیں۔