بسم الله الرحمن الرحيم
نحمده ونصلى على رسوله الكريم ، أما بعد فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم ، بسم الله الرحمن الرحيم:
(رضي الله عنهم ورضوا عنه) [البينة: 8]
’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے ۔‘‘
مسئلہ باغ فدک کی حقیقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((لا نورث ما تركنا صدقة))
’’ہم ( انبیاء ) کی وراثت نہیں ہوتی ، جو ہم چھوڑ جائیں؛ وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
صحيح البخاري: -3093 – صحیح مسلم: 1757 – سنن أبي داود: 2963 – سنن النسائی: 4148 – مسند أحمد: 9 – صحيح ابن حبان: 6607 – صحيح ابن خزيمة: 2353 – مسند البزار 2 – مصنف عبد الرزاق: 9772 – مسند أبي يعلى: 2 – المعجم الأوسط للطبراني 1806 – السنن الكبرى للبيهقى: 12782 .
حدیثِ ترکہ سے صحابہ کی واقفیت
◈نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا سیدہ فاطمہ رضی الله عنه اور ازواج مطہرات کو بھی علم تھا (صحیح البخارى: 3093 ، 4034] اور ان کے علاوہ تمام کبار صحابہ، یعنی سیدنا عمر ،سید نا عثمان ، سیدنا علی سیدنا عباس، سیدنا عبدالرحمن بن عوف ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه بھی اس سے واقف تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ نے ان صحابہ کرام کو مخاطب کر کے پوچھا تھا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ہم (انبیاء) کی وراثت نہیں ہوتی ، جو ہم چھوڑ جائیں؛ وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
سب نے جواب دیا: یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ اور سیدنا عباس رضی اللہ کو مخاطب کر کے دوبارہ پوچھا: ”ہم (انبیاء) کی وراثت نہیں ہوتی ، جو ہم چھوڑ جائیں؛ وہ صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی فرمایا تھا۔
صحيح البخاري: 4034 ، 3094 ـ صحیح مسلم: 1757
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال اور ممکنہ ورثاء
◈نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب رحلت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کا خمس، باغ فدک اور مدینہ میں موجود کچھ مال چھوڑ کر گئے۔
◈ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وارث بننے والے یہ لوگ تھے: سیدہ فاطمہ رضی الله عنه، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی الله عنه اور ازواج مطہرات ۔
◈نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ خلیفہ بنے تو یہ مال ان کے پاس آگیا۔
◈اگر یہ مال کسی عام آدمی کا ہوتا تو یوں تقسیم ہونا تھا: آدھا حصہ بیٹی کو ملتا، آٹھواں حصہ بیویوں کو اور باقی سارا عصبہ کے طور پر چچا کو ۔
سیدہ فاطمہؓ کا مطالبۂ میراث سیدنا ابوبکر رضی الله عنه کا فیصلہ
◈ اس کے پیش نظر سیدہ فاطمہ رضی الله عنه نے سیدنا ابوبکر رضی الله عنه سے مطالبہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کو تقسیم کیا جائے ۔
◈ لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ نے مذکورہ بالا حدیث رسول سنا کر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فرمان کے مطابق یہ مال وراثت نہیں بلکہ صدقہ ہے، جو بیت المال میں جمع ہوگا۔
◈ اس پر سیدہ فاطمہ رضی الله عنه ان سے ناراض ہو گئیں اور انہیں چھوڑ دیا، اور وفات تک چھوڑے رکھا۔
[صحیح البخاری: 3093]
ناراضی اور «وفات تک چھوڑنے» کا صحیح مفہوم
◈چھوڑے رکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی الله عنه سے قطع تعلقی کر لی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ خاتونِ جنت نے دوبارہ ان سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی ۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
[فتح الباری: 6/ 202]
مرضِ وفات میں صدیقؓ کی عیادت اور سیدہؓ کی رضامندی
◈اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب سیدہ فاطمہ رضی الله عنه بیمار پڑگئی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی الله عنه ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تھے ۔ سیدنا علی رضی الله عنه نے سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سے کہا کہ ابو بکر رضی الله عنه آئے ہیں اور آپ کی عیادت کی اجازت چاہتے ہیں ۔ سیدہ فاطمہ برضی الله عنه نے فرمایا: آجائیں۔ سیدنا ابوبکر رضی الله عنه اندر آ گئے اور انہیں راضی کرتے رہے، اور فرمایا:
والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتكم أهل البيت.
’’اللہ کی قسم ! میں نے گھر بار، مال و دولت، اہل وعیال اور خاندان کو صرف اللہ تعالٰی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اے اہلِ بیت! آپ کی خوش نودی کی خاطر ہی چھوڑا ہے۔‘‘
یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سے راضی ہو گئیں ۔
حسن بإسناد صحيح السنن الكبرى للبيهقي: 12735
◈اس کا مطلب ہے کہ جو ناراضی تھی وہ وفات سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔ چنانچہ وفات تک چھوڑے رکھا سے مراد یہی ہے کہ سیدہ خاتونِ جنت نے دوبارہ وراثت کے سلسلے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ سے بات نہیں کی ۔
جنازہ و تدفین کے بارے میں شبہات کا ازالہ
◈حقائق کے دشمن بعض لوگوں نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ جب سیدہ خاتونِ جنت رضی الله عنه کی وفات ہوئی تو سیدنا علی رضی الله عنه نے ان کا جنازہ پڑھا کر رات ہی رات دفن کر دیا اور سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کی ناراضی کے باعث سیدنا ابوبکر رضی الله عنه کو اطلاع بھی نہیں دی، تاکہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں۔ یہ روایت منقطع ہے، کیونکہ یہ امام زہری رحمتہ اللہ کا قول ہے جس کی سند بھی مذکور نہیں ہے، اور منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امام قرطبی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس في الخير ما يدل على أن أبا بكر لم يعلم بموتها ولا صلى عليها ولا شاهد جنازتها ، بل اللائق بهم المناسب لأحوالهم حضور جنازتها واغتنام بركتها ، ولا تسمع أكاذيب الرافضة المبطلين الضالين المضلين.
’’اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کو سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کی وفات کا علم نہیں ہوا، آپ نے سیدہ کا جنازہ نہیں پڑھا اور نہ جنازے میں حاضر ہوئے، بلکہ تمام صحابہ کرام رضی الله عنه کے لائق اور شایان شان یہی ہے کہ وہ سیدہ کے جنازے میں شریک ہوئے تھے اور ان کی برکت سے مستفید ہوئے تھے۔ روافض کی بہتان بازیوں پر مت جائیے کہ وہ تو باطل پرست، خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں۔‘‘
المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم: 3/ 569
اہلِ بیت کے اخراجات اور فدک کی آمدنی
◈واضح رہے کہ سید نا ابوبکر رضی اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سے فرمایا تھا:
’’اہل بیت کے اخراجات اس سے پورے کیے جائیں گے۔ اللہ کی قسم! میں دور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات صدقہ میں تبدیلی نہیں کروں گا بلکہ انہیں اسی طرح جاری رکھوں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر گئے ۔ اس کے بعد سیدناعلی رضی الله عنه فرمانے لگے : اے ابوبکر ! ہم آپ کی فضیلت اور مرتبے کے اقراری ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل بیت کی قرابت داری اور ان کے حقوق کا تذکرہ کیا، تو سید نا ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے حسن سلوک مجھے اپنے عزیز و اقارب سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘
صحیح البخاری: 3711 ، 3712 – صحیح مسلم: 1758
«من يرثك؟» والی روایت اور مزید وضاحت
◈ایک روایت میں ہے کہ سید نا ابوبکر رضی اللہ نے اس سے بھی واضح الفاظ میں صراحت فرمائی ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ :
أن فاطمة رضي الله عنها جاءت إلى أبي بكر رضي الله عنه فقالت: من يرثك؟ قال: أهلي وولدي ، قالت: فما لي لا أرث النبي صلى الله عليه وسلم قال: إنى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((إنا لا نورث)) ولكني أعول من كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوله ، وأنفق على من كان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق عليه.
سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سیدنا ابو بکر رضی الله عنه کے پاس تشریف لائیں اور پوچھا: آپ کا وارث کون بنے گا ؟ انہوں نے فرمایا: میری بیوی اور بچے ۔ سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کہنے لگیں: تو پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث کیوں نہیں بن سکتی ؟ انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ نے فرمایا: میں ان سب کی کفالت کرتا رہوں گا جن کی کفالت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور میں ان سب کو خرچ فراہم کروں گا جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فراہم کیا کرتے تھے۔
[حسن] السنن الكبرى للبيهقي : 12741
نبوّی وصیت: ازواج کا نفقہ اور باقی صدقہ
◈نیز سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا يقتسم ورثتى دينارا ولا درهما ما تركت بعد نفقة نسائي ومدونة عاملي فهو صدقة))
’’میرے ورثاء درہم و دینار کی تقسیم میں نہ پڑیں، بلکہ میری ازواج کے نان و نفقہ اور اس کے منتظم کی مزدوری سے بچا ہوا مال صدقہ ہوگا۔‘‘
صحيح البخاری: 2776 ، 3096 ، 672 – صحیح مسلم: 1760
غصب کے الزام کا رد اور خلفائے راشدین کا متفقہ طرزِ عمل
◈اہل تشیع کا سیدنا ابو بکر رضی رضی الله عنه کو غاصب کہنا اس لحاظ سے بھی چنداں حیثیت نہیں رکھتا کہ انہوں نے وہ مال نہ اپنے تصرف میں لایا، نہ اپنے قبضے میں کیا اور نہ اپنے اہلِ خانہ اور قرابت داروں پر خرچ کیا، بلکہ خلیفہ ہونے کے ناتے بہ طور امانت اپنے پاس رکھا اور یہ امانت آپ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ کے پاس منتقل ہوگئی، ان کے بعد سیدنا عثمان رضی الله عنه کے پاس اور ان کے بعد سید نا علی رضی الله عنه کے پاس یہ باغ بہ طور امانت آ گیا۔
◈پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس باغ سے اہلِ بیت کو محروم ہی کر دیا گیا تھا، جیسا کہ روافض یہ غلط نہی پھیلاتے ہیں، بلکہ اس باغ کی آمدنی با قاعدہ اہل بیت کو دی جاتی تھی اور ان پر خرچ کیا جاتا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ بھی سید نا ابوبکر رضی الله عنه کے طریقہ کار پر ہی عمل پیرا ر ہے اور اس باغ کی آمدنی اہل بیت کو دیتے رہے۔
اگر فیصلہ غلط تھا تو خلافتِ علیؓ میں فدک کیوں واپس نہ ہوا؟
◈لطف کی بات یہ ہے کہ اگر سید نا ابوبکر رضی الله عنه کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا تو جب سید نا علی رضی الله عنه خلیفہ بنے تو انہوں نے درست فیصلہ صادر فرماتے ہوئے باغ فدک کو سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کی اولاد کے حوالے کیوں نہ کیا؟ اس لیے کہ وہ بھی صدیق اکبر رضی اللہ کے فیصلے کو درست سمجھتے تھے تبھی ان کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اور اگر وہ درست نہیں سمجھتے تھے لیکن پھر اپنے دور خلافت میں اختیارات ہونے کے باوجود بھی باغ فدک کو آل فاطمہ رضی الله عنه کے حوالے نہ کرنے سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ کیا پھر نعوذ باللہ وہ بھی اس غلط فیصلے میں شریک سمجھے جائیں گے؟ پھر صرف سیدنا ابو بکر رضی الله عنه کو ہی اس کا ذمے دار کیوں سمجھا جائے ؟ لہذا سیدنا ابوبکر رضی الله عنه کے متعلق بھی وہی رائے رکھی جائے جو سیدنا علی رضی الله عنه کے متعلق رکھی جاتی ہے۔
دلچسپ مناظرہ: عباسی خلیفہ اور علوی شخص
اس سلسلے میں ایک دلچسپ قصہ ملاحظہ کیجیے۔ ابو العباس عبد اللہ بن محمد بن علی ہاشمی سفاح ایک دن خطبہ دے رہے تھے تو دورانِ خطبہ آل علی رضی الله عنه سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور بولا : امیر المومنین ! ظالم کے خلاف میری مدد کیجیے۔ خلیفہ نے پوچھا: تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟ اس نے کہا: میں آل علی سے ہوں اور ابو بکر رضی اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کو فدک نہ دے کر مجھ پر ظلم کیا ہے۔ خلیفہ نے پوچھا: کیا ابو بکر رضی الله عنه اس ظلم پر ڈٹے رہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ خلیفہ نے پوچھا: ان کے بعد کون خلیفہ بنا؟ اس نے کہا: عمر رضی الله عنه ۔ پوچھا : کیا سیدنا عمر رضی الله عنه بھی اس ظلم پر قائم رہے؟ وہ بولا : جی ہاں ۔ خلیفہ نے پوچھا: ان کے بعد خلافت کس کے پاس آئی؟ اس نے کہا: عثمان رضی الله عنه کے پاس۔ پوچھا: کیا انہوں نے بھی اس ظلم کو جاری رکھا؟ وہ کہنے لگا: ہاں جی ۔ خلیفہ نے پوچھا: ان کے بعد مسند خلافت پر کون براجمان ہوئے ؟ اب وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔
تلبیس ابلیس، ص: 153
فدک کا صدقہ ہونا: عروہؒ کی طویل روایت
◈عروہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: اس صدقے کا انتظام سیدنا علی رضی الله عنه کے ہاتھ میں بھی رہا۔ انہوں نے سیدنا عباس رضی الله عنه کو اس میں شریک نہیں کیا بلکہ خود ہی اس کا انتظام سنبھالے رکھا۔اس کے بعد یہ سیدنا حسن بن علی رضی الله عنه کے زیر انتظام آیا، پھر سیدنا حسین بن علی رضی الله عنه کے انتظام میں رہا۔ پھر امام علی بن حسین رحمتہ اللہ اور امام حسن بن حسن رحمتہ اللہ کی نگرانی میں رہا۔ وہ اسے استعمال کرتے رہے۔ پھر یہ مال امام زید بن حسن رحمتہ اللہ کے پاس آ گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقہ ہو گیا تھا۔
صحيح البخاري: 4034
حدیث «فاطمة بضعة منى» کا صحیح محل
◈بعض لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ کی تنقیص کے لیے یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فاطمة بضعة منى ، فمن أغضبها أغضبني))
’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، سو جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
صحیح البخاری: 3767 – صحیح مسلم: (49) 2449
وہ کہتے ہیں کہ چونکہ سیدنا ابو بکر رضی الله عنه نے سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کو چونکہ ناراض کر دیا تھا،اس لیے وہ اس وعید کا مصداق ٹھہرتے ہیں۔
حالانکہ ان کی یہ بات بالکل غلط اور بے محل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سیدنا علی رضی الله عنه متعلقہ ایک واقعے کے بارے میں تھا۔ وہ واقعہ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
أن علي بن أبي طالب خطب بنت أبي جهل، وعنده فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سمعت بذالك فاطمة أتت النبي صلى الله عليه وسلم ، فقالت له: إن قومك يتحدثون أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكحا ابنة أبي جهل، قال المسور: فقام النبي صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد ثم قال: ((أما بعد، فإني أنكحت أبا العاص بن الربيع ، فحدثني ، فصدقني ، وإن فاطمة بنت محمد مضغة مني، وإنما أكره أن يفتنوها ، وإنها والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا قال: فترك علي الخطبة.
’’سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ نے ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنه بھی ان کے عقد نکاح میں تھیں۔ چنانچہ جب فاطمہ رضی الله عنه نے یہ بات سنی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ کی قوم یہ باتیں کرتی ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے غصے میں نہیں آتے ، اسی لیے علی ؛ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے لگے ہیں۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حید ورسالت کی گواہی دیتے سنا ( یعنی خطبہ پڑھا)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اما بعد ! میں نے اپنی (ایک بیٹی کا) ابوالعاص بن ربیع سے نکاح کیا تو اس نے مجھ سے جو بات کی اس کو سچ کر دکھایا، اور بلاشبہ فاطمہ بنت محمد میرا جگر گوشہ ہے اور میں اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کو رنجیدہ کرے۔ اور اللہ کی قسم ! یقیناً اللہ کے رسول کی صاحبزادی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ہی آدمی کے ہاں کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر علی رضی الله نے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا ۔‘‘
صحيح البخاری: 3729 – صحیح مسلم: (49)2449
اس روایت سے ان نام نہاد محبانِ اہلِ بیت کو خوب سمجھ جانا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا سیاق وسباق کیا تھا۔
صدیقِ اکبرؓ کی مالی قربانی اور زہد
◈غور طلب امر یہ بھی ہے کہ اسلام کی خاطر اپنا سارا مال قربان کر دینے والے ابوبکر رضی الله عنه ، کہ جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے اتنا فائدہ کسی کے مال نے نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال نے دیا ہے۔
[سنن ابن ماجه: 94 ـ مسند أحمد: 7446]
ایسی شخصیت کے متعلق بھلا یہ بات کہنا زیادتی نہیں کہ انہوں نے مال کے لالچ میں آ کر وہ باغ سیدہ کو نہیں دیا تھا؟ بلکہ خلیفہ رہتے ہوئے بھی ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر رہی، جبکہ وہ چاہتے تو خوب بڑھا سکتے تھے، مگر جس شخصیت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی امام الزاہدین ہستی کے سنگ زندگی گزاری ہو؛ وہ بھلاد نیوی مال کی چاہت دل میں کیسے پال سکتا ہے؟
اگر فدک وراثت ہوتا تو امہات المؤمنین کا حصہ
◈اگر یہ مال وراثت ہوتا تو ورثاء میں چونکہ ازواج مطہرات بھی شامل تھیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ کی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی الله عنه نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی لاڈلی زوجہ تھیں ۔ نعوذ باللہ اگر سیدنا ابو بکر رضی الله عنه کی نگاہ میں اس مال کی ذراسی بھی حیثیت ہوتی تو اپنی پیاری بیٹی کو محروم کیوں رکھتے ؟ یعنی باغ کو جب بہ طور وراثت بانٹتے تو لازمی بات ہے کہ ان کی صاحبزادی کو بھی اس سے حصہ ملتا۔ لیکن ان کے پیش نظر صرف شرعی حکم کا بجاطور پر نفاذ تھا، اس کے سوا کچھ نہیں !
یارِ غار کی رفاقت اور دینِ دوست
◈یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنه نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ صرف یار غار تھے بلکہ سفر و حضر کے بھی ساتھی اور اکثر مواقع پر آپ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر عزیز دوست آپ کا کوئی نہیں تھا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنے سب سے پیارے دوست کے اہلِ خانہ کے ساتھ کوئی ایساسلوک روا رکھتے جو جائز نہ تھا؟ بلکہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل رفاقت اور صحت خاص سے یہی سیکھا ہے کہ حق اور عدل کا نفاذ کیا جائے ، اگر آپ کے فیصلے کو خلاف حق قرار دیا جائے تو یہ بالواسطہ ذات رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طعن ہے، کیونکہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((الرجل على دين خليله))
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہی ہوتا ہے ۔‘‘
[حسن] سنن أبى داود 48333 – سنن الترمذي: 2378
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ سے بڑھ کر دین کا پیروکار کون ہوسکتا ہے؟ چنانچہ ثابت ہوا کہ آپ نے وہی فیصلہ فرمایا جو آپ نے اپنے دوست صلی اللہ علیہ وسلم کو جاری کرتے دیکھا تھا۔
◈نیز اس معاملے کی آڑ میں دانستہ و نادانستہ طور پر سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سے بددعا والی جھوٹی بات منسوب کر کے ان کے زہد و تقویٰ پر داغ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ جنت کی شہزادی دنیا کے اس حقیر سے مال کی وجہ سے اپنے بابا کے محبوب دوست کو بددعا دیں گی؟
◈سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر واضح فرمان موجود تھا کہ ہم (انبیاء) کی وراثت نہیں ہوتی ، جو ہم چھوڑ جائیں ؛ وہ صدقہ ہوتا ہے۔ تو پھر سیدہ فاطمہ رضی الله عنه نے وراثت کی تقسیم کا مطالبہ کیوں کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سیدہ خاتونِ جنت کو حدیث کا مفہوم سمجھنے میں اجتہادی غلطی لگ گئی، کیونکہ اس دعوی میں سیدہ کے ساتھ اہل بیت کا کوئی اور فر د شریک نہیں ہوا۔ سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سمجھ رہی تھیں کہ زمین کی پیداوار سے حاصل ہونے والا منافع وراثت میں شامل نہیں ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ چنانچہ اس اجتہادی خطا کے باعث یہ سارا معاملہ پیش آیا ۔
◈اجتہادی خطا ہونا کوئی نقص یا عیب نہیں ہے بلکہ انسان ہونے کے ناتے سے کسی بات کو سمجھنے میں غلطی لگ جانا عین ممکن ہے اور اس سے مبرا صرف اور صرف رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔
◈جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ وراثت ہوتا تو پھر ورثاء میں ازواج مطہرات بھی شامل تھیں ۔ اسی وجہ سے ان سے بھی یہی خطا سرزد ہو نے لگی تھی لیکن پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان یاد آ گیا تو وہ رُک گئیں ۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ خالی رضی الله عنه بیان کرتی ہیں کہ :
أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عثمان إلى أبي بكر، يسألنه تمنهن مما أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم فكنت أنا أردهن ، فقلت لهن ألا تتقين الله ألم تعلمن أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: ((لأنورث ، ما تركنا صدقة ـ يريد بذلك نفسه – إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال، فانتهى أزواج النبي صلى الله عليه وسلم إلى ما أخبرتهن.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے عثمان رضی الله عنه کو سیدنا ابوبکر رضی الله عنه کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں اس جائیداد سے آٹھواں حصہ دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بہ طور نے دیا تھا، اور میں انہیں ( ازواج مطہرات کو ) منع کرتی تھی۔ میں نے ان سے کہا: تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتی نہیں ہو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد خود اپنی ذات تھی ۔ تاہم آل محمد اس مال سے اپنی ضروریات کے مطابق لیتے رہیں گے ۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ بتایا تو وہ رک گئیں۔
صحيح البخاري: 4034
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا علم تھا لیکن فراموش ہو گیا تھا۔ جب انہیں یاد دلایا گیا تو وہ بھی سمجھ گئیں اور اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ فدک مال وراثت ہر گز نہیں تھا۔
بے سند قصے کہانیاں اور امت کا نقصان
◈سیدہ فاطمہ رضی الله عنه سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی الله عنه سے فرمایا تھا: میں آپ کے خلاف ہر نماز کے بعد بددعا کروں گی۔ یہ روایت بالکل من گھڑت ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شیعہ کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس روایت کا ماخذ اور مصدر الامامة والسياسة نامی ایک کتاب ہے جسے اہل السنتہ کے معروف امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ نہج البلاغہ وغیرہ میں بھی جو اس روایت کو درج کیا گیا ہے وہاں بھی حوالہ اسی مذکورہ کتاب کا دیا گیا ہے۔ اس کتاب کی حقیقت یہ ہے کہ امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ نے اس نام کی کوئی کتاب تالیف ہی نہیں کی بلکہ کسی رافضی نے لغویات اور گمراہ کن عقائد پر مشتمل یہ کتاب گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے۔ باتیں بھی ایسی کہ خود امام موصوف کا عقیدہ اور رائے ان کے بالکل برعکس ہے۔ سو یہ واضح ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی الله عنه کی بددعا والی بات اس من گھڑت کتاب کے علاوہ کہیں بھی مذکور نہیں ہے، نہ شیعہ کتب میں اور نہ ہی سنی کتب میں ۔
◈مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس روایت کی سند بھی ذکر نہیں کی گئی، یعنی بالکل ہی بے سند بات۔ گویا ایسی بے سروپا بات کہ جس کو معلوم ہی نہ کیا جاسکے کہ کس نے کہی کس نے سنی اور کس کس نے آگے بیان کی۔ اس اُمت کی بربادی ہی اس سے ہوئی کہ من گھڑت باتیں، بے سند روایتیں، رطب و یابس سے بھر پور پلندے اور مبالغہ آمیز قصے کہانیاں آگے بیان ہوتی رہیں ، جس سے امت میں انتشار بھی پیدا ہوا اور حقائق تو بالکل ہی مسخ ہو گئے ۔
سید نا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے فضائل
صدیق کا تذکرہ خدا کرے!
اللہ تعالیٰ نے ہجرت رسول کے تذکرے میں رفیق رسول اور یار غار جناب صدیق اکبر رضی اللہ کا تذکرہ قرآن کریم میں بیان فرما کر آپ کی فضیلت و عظمت کو ہمیشہ کے لیے تلاوت کا حصہ بنا دیا، فرمایا:
(إذ هما فى الغار إذ يقول لصاحبه لا تحزن إن الله معنا)
[التوبة: 40]
’’جب وہ دونوں غار میں تھے اور بی ملت کا کام اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
تین کا تذکرہ ایک ساتھ :
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں غار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو مجھے (پیچھا کرنے والے) مشرکین کے پاؤں دکھائی دیے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی جانب دیکھ لیا تو اس کی ہم پر نظر پڑ جائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما ظنك باثنين الله ثالثهما؟)).
’’ان دو آدمیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہو؟“
صحيح البخاري: 4663 – صحیح مسلم: 2381
یعنی مجھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کا ساتھ حاصل ہے، اس لیے کہ کوئی بھی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اظہارِ محبت کا عجب انداز :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما نفعنى مال قط ما نفعني مال أبي بكر فبكى أبو بكر وقال: وهل أنا ومالى إلا لك يا رسول الله؟.
’’مجھے کسی مال سے کبھی اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا جس قدر فائدہ مجھے ابوبکر کے مال سے ہوا ہے۔‘‘(یہ سن کر) ابوبکر رضی الله عنه آبدیدہ ہو گئے اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ! کیا میں اور میرا مال آپ ہی کے نہیں ہیں؟
صحیح سنن ابن ماجه 94 – مسند أحمد: 7446
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہترین شخصیات:
ابو جحیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدناعلی رضی الله عنه کو فرماتے سنا:
ألا أخبركم بخير هذه الأمة بعد نبيها؟ أبو بكر.
’’کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اُمت کی سب سے بہترین شخصیت کا بتاؤں؟ وہ ابو بکر رضی الله عنه ہیں۔“
پھر فرمایا:
ألا أخبركم بخير هذه الأمة بعد أبي بكر؟ عمر.
’’کیا میں تمہیں ابو بکر رضی الله عنه کے بعد اس اُمت کی سب سے بہترین شخصیت کا بتاؤں؟ وہ عمر رضی للی ہیں ۔‘‘
[إسناده حسن] مسند أحمد: 833
پیکر وفا، جو دوسخا، محبت ورضا :
سیدنا ابوسعید خدری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:
((إن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله))
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کو اپنانے کا اختیار دیا، لہذا بندے نے اسے اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس ہے ( یعنی اُخروی زندگی ) ۔‘‘
یہ سن کر سیدنا ابو بکر رضی الله عنه رونے لگے ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اس بزرگ کو کیا ہو گیا ہے یہ رونے لگ گئے ہیں۔ بات تو صرف اتنی سی ہوئی ہے کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کو اپنانے کا اختیار دیا تو بندے نے آخرت کو اختیار کر لیا۔ لیکن مجھے بعد میں سمجھ آئی کہ بندے سے مراد خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی الله عنه (احوال و حیات رسول سے) ہم سب سے زیادہ باخبر تھے (اس لیے انہوں نے بھانپ لیا اور غم فراق میں رونے لگ گئے )۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((يا أبا بكر لا تبك ، إن أمن الناس علي في صحبته وماله أبو بكر، ولو كنت متخذا خليلا من أمتي لاتخذت أبا بكر، ولكن أخوة الإسلام ومودته))
’’ابوبکر ! آپ مت روئیں، مجھ پر لوگوں میں سے کسی کے ساتھ اور مال کا اتنا احسان نہیں ہے جتنا ابو بکر رضی الله عنه کا ہے۔ اگر میں اپنی اُمت سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بنا تا لیکن اسلامی اخوت و محبت ضرور ہے۔‘‘
صحيح البخاری: 466 – صحیح مسلم: 2382
مسجد نبوی میں صرف ابوبکر کا درواز ہ باقی رہے!
سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لا يبقين في المسجد باب إلا سد ، إلا باب أبي بكر ))
’’مسجد (نبوی) میں ابو بکر رضی اللہ کے دروازے کے علاوہ سب کے دروازے بند کر دیے جائیں۔‘‘
صحيح البخاري 466
حیات رسول میں ہی امامت کا مقام:
سید نا ابن عباس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ :
لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم أمر أبا بكر أن يصلي بالناس ، ثم وجد خفة فخرج ، فلما أحس به أبو بكر أراد أن ينكص فأوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم فجلس إلى جنب أبي بكر عن يساره واستفتح من الآية التي انتهى إليها أبو بكر.
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، جب ابو بکر رضی اللہ نے آپ کے قدموں کی آہٹ محسوس کی تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہیں کھڑے رہنے کا اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی الله عنه کے بائیں جانب پہلو میں بیٹھ گئے اور آیت کے اسی حصے سے قرآت شروع کی جہاں ابوبکر رضی الله عنه نے ختم کی تھی ۔‘‘
[صحيح] مسند أحمد: 2055
حرا! ٹھہر جا تجھ پر نبی ، صدیق اور شہید ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر موجود تھے تو پہاڑ نے حرکت کی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اسكن حراه فما عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد))
’’اے حراء اٹھہر جا، تجھ پر نبی ، صدیق اور شہید موجود ہے۔‘‘
اس وقت پہاڑ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر ،سیدنا عمر ،سیدنا عثمان ،سید ناعلی ،سیدنا طلحہ ،سید ناز بیر اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه موجود تھے۔
صحیح مسلم: 50
دنیا میں ہی جنت کی بشارت :
سیدنا سعید بن زید رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
((النبي فى الجنة ، وأبو بكر في الجنة ، وعمر في الجنة، وعثمان في الجنة ، وعلي في الجنة، وطلحة في الجنة، والزبير فى الجنة ، وعبد الرحمن بن عوف في الجنة ، وسعد في الجنة))، ولو شئت أن أسمي العاشر.
نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جنتی ہیں، ابوبکر جنتی ہے، عمر جنتی ہے، عثمان جنتی ہے، علی جنتی ہے، طلحہ جنتی ہے، زبیر جنتی ہے، عبدالرحمان بن عوف جنتی ہے اور سعد جنتی ہے۔ (پھر سعید رضی الله عنه نے فرمایا:) اگر میں چاہوں تو دسویں شخص کا نام بھی لے سکتا ہوں ( یعنی دسویں وہ خود تھے ) ۔“
[إسناده صحيح] مسند أحمد: 1631 – السنن الكبرى للنسائي 8210
جنت کے ہر دروازے سے صدا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من أنفق زوجين في سبيل الله نودي من أبواب الجنة: يا عبد الله هذا خير ، فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ، ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان ، ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ))
’’جس نے راہ خدا میں ( کسی چیز کا ) جوڑا خرچ کیا اسے جنت کے دروازوں سے یوں آواز دی جائے گی: اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ بہتر ہے۔ پھر نمازیوں کو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، مجاہدین کو جہاد کے دروازے سے، روزے داروں کو روزے کے دروازے سے اور صدقہ کرنے والوں کو صدقے کے دروازے سے بلایا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے آواز دی جائے گی ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((نعم وأرجو أن تكون منهم))
’’ہاں، مجھے امید ہے کہ آپ ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘
صحيح البخاري: 1897 – صحیح مسلم: 1027
نیک کاموں کے خوگر :
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز استفسار فرمایا:
((من أصبح منكم اليوم صائما؟))
’’آج تم میں سے روزہ کس نے رکھا؟‘‘
سید نا ابو بکر رضی الله عنه نے عرض کیا: میں نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فمن تبع منكم اليوم جنازة؟))
’’آج تم میں سے جنازے میں کس نے شرکت کی؟‘‘
ابو بکر رضی الله عنه نے جواب دیا: میں نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
((فمن أطعم منكم اليوم مسكينا؟))
’’آج تم میں سے مسکین کو کھانا کس نے کھلایا ؟‘‘
ابوبکر رضی الله عنه نے کہا: میں نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
((فمن عاد منكم اليوم مريضا؟))
’’آج تم میں سے مریض کی عیادت کس نے کی؟‘‘
ابو بکر رضی الله عنه گویا ہوئے: میں نے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما اجتمعن في امرء إلا دخل الجنة)).
’’جس آدمی میں یہ خوبیاں جمع ہوں ، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب من جمع الصدقة وأعمال البر ، ح: 1028
عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار :
سیدنا انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی الله عنه کےمتعلق فرمایا:
((أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي ما داما حيين))
’’ابوبکر اور عمر (رضی الله عنه) پہلے اور آخری؛ تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہوں گے،سوائے نبیوں اور رسولوں کے۔اے علی ! جب تک وہ زندہ رہیں تم انہیں یہ بات مت بتانا۔‘‘
[صحیح] سنن ابن ماجه 95 – سنن الترمذی: 3664
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب :
عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ نے عرض کیا:
يا رسول الله ، من أحب الناس إليك ؟ قال: ((عائشة)) ، قال: من الرجال؟ قال: ((أبوها)).
’’اے اللہ کے رسول ! آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ۔ عمر رضی الله عنه نے عرض کیا: مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ کے ابا جان ( یعنی سید نا ابو بکر رضی اللہ )‘‘
[صحيح سنن الترمذی: 3886 – صحيح ابن حبان 7107 – السنن الكبرى للبيهقى: 14748
اعتماد و یقین اور اپنائیت کا منفرد انداز:
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک روز نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
((بينا رجل يسوق بقرة إذ ركبها فضربها ، فقالت: إنا لم نخلق لهذا، إنما خلقنا للحراثة ، فقال الناس : سبحان الله بقرة تكلم))، قال: ((فإني أومن بهذا، أنا وأبو بكر وعمر )) ، وما هما ثم ، ((وبينا رجل في غنمه إذ عدا عليها الذتب فأخذ شاة منها ، فطلبه فأدركه فاستنقذها منه ، قال: يا هذا استنقذتها مني ، فمن لها يوم السبع ، يوم لا راعي لها غيري؟ فقال الناس: سبحان الله ذتب يتكلم))، قال: ((فإني أومن بذالك وأبو بكر وعمر )) ، وما هما ثم.
’’ایک شخص گائے کو ہانکے لیے جا رہا تھا، پھر وہ اس پر سوار ہو گیا اور اسے مارنے لگا، تو اس گائے نے کہا: ہم جانور سواری کرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ ہمیں تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ ! گائے باتیں کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ، ابوبکر اور عمر اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ) اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بکریوں میں موجود تھا کہ اچانک بھیڑیے نے حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک بکری پکڑ لی۔ چرواہا اس کے پیچھے بھاگا اور اسے پکڑ کر اس سے بکری چھڑالی ، تو بھیڑیے نے کہا: اے آدمی! آج تو یہ بکری تو نے مجھ سے چھڑالی ہے لیکن درندوں والے دن اسے کون بچائے گا، جس دن میرے علاوہ ان کا اور کوئی چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ ! بھیڑ یا با تیں کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں، ابوبکر اور عمر اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں وہاں موجود نہیں تھے۔‘‘
صحيح البخارى: 3471 – صحیح مسلم: 2388
یہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی الله عنه کا بہت بڑا اعزاز اور فضیلت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات بیان فرمائی اور پھر ان دونوں اصحاب کی تصدیق و تائید کو بطور گواہی ذکر کیا، حالانکہ یہ اس وقت وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ یہ ایک خاص اپنائیت کی دلیل ہوتی ہے کہ بندہ اپنے کسی رفیق کی عدم موجودگی میں بھی اس کو اپنا ہم خیال اور اپنی رائے سے متفق ظاہر کرے، اور بندہ ایسا فقط اسی کے ساتھ ہی کرتا ہے جس پر اسے بہت زیادہ اعتماد اور یقین کامل ہو۔
ابوبکر سے بڑھ کون ہے؟!
سیدنا عبداللہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
لما قبض رسول الله قالت الأنصار: منا أمير ومنكم أمير ، فأتى عمر فقال: يا معشر الأنصار ، ألستم تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمر أبا بكر أن يؤم الناس؟ قالوا: نلى، قال: فأيكم تطيب نفسه أن يتقدم أبا بكر؟ قالت الأنصار: نعوذ بالله أن تتقدم أبا بكر.
’’جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے ہو۔ تو سیدنا عمر رضی الله عنه ان کے پاس آئے اور فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیا تم جانتے نہیں ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی الله عنه کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو امامت کرائیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ تو عمر رضی اللہ نے فرمایا: تو پھر تم میں سے کون اپنے آپ کو اس لائق سمجھتا ہے کہ وہ خود کو ابوبکر رضی الله عنه پر مقدم کرے؟ تو انصار نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ابو بکر رضی الله عنه پر مقدم ہوں۔‘‘
[إسناده حسن] سنن النسائي: 777 – مسند أحمد: 133 ـ المستدرك للحاكم: 4423
سنت کے سرچشموں کے فضائل جانیں!
ابو جعفر رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
من جهل فضل أبي بكر وعمر فقد جهل السنة.
’’جو شخص ابوبکر اور عمر (رضی الله عنه) کی فضیلت سے نابلد ہے؛ وہ سنت سے لاعلم ہے۔‘‘
[إسناده حسن] فضائل الصحابة للدار قطني: 19/1
اسلام کے سچے محافظ :
امام وکیع بن جراح رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
لولا أبو بكر الصديق ذهب الإسلام.
’’اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ نہ ہوتے تو اسلام ختم ہو جاتا۔‘‘
[إسناده صحيح] الطبقات لابن سعد: ٤٠٥/٦
’’امام وکیع رحمتہ اللہ نے ایسا اس لیے فرمایا کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہوئی تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے۔ اس وقت فتنہ ارتداد اس تیزی سے پھیلا کہ اسلام کے نام لیواؤں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بن گیا۔ ایسی صورت حال میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ ہی تھے جنہوں نے نہایت حکمت، تن دہی اور بروقت فکری و عملی اقدامات کے ذریعے اس فتنے کی بیخ کنی کی اور اسلام کی حفاظت کی ۔‘‘
چٹان جیسا حوصلہ اور پختہ عزم و ہمت :
سیدہ عائشہ رضی الله عنه بیان کرتی ہیں کہ:
قبض النبي صلى الله عليه وسلم وارتدت العرب ، فنزل بأبي ما لو نزل بالجبال الراسيات لهاضها ، ارتدت العرب واشراب النفاق بالمدينة ، فوالله ما اختلف الناس في نقطة إلا طار أبي بحظها وعنائها.
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو عرب مرتد ہونے لگے اور مدینے میں نفاق پھیلنے لگا، اگر گڑے ہوئے مضبوط پہاڑوں پر بھی وہ آفتیں اترتیں جو میرے والد (ابوبکر رضی الله عنه) پر اتریں تو انہیں بھی توڑ ڈالتیں۔ اللہ کی قسم ! لوگوں کا اسلام کے بارے میں ایک نقطے کا بھی اختلاف ہو جاتا تو میرے والد پورے اہتمام اور تندہی کے ساتھ وہاں جا پہنچتے۔‘‘
[إسناده صحيح] المطالب العالية: 252/3
رحلت رسول کے بعد جب قبیلوں کے قبیلے مرتد ہونا شروع ہو گئے تو ان کا سد باب کرنا جتنا ضروری تھا اتنا ہی کٹھن بھی تھا، اور یہ سارا بار سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے کاندھوں پر تھا اور یہ ان کی ہمت اور حوصلہ تھا کہ انہوں نے بڑے ہی اہتمام ، تندہی اور خوش اسلوبی سے ان تمام مسائل کو حل کیا۔
یہ بارش جہاں بھی برسی، فائدہ مند ثابت ہوئی:
امام ربیع بن انس رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
مثل أبي بكر الصديق مثل القطر ، أينما وقع نفع.
’’سید نا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کی مثال بارش کے مانند ہے، کہ جو جہاں بھی برستی ہے فائدہ ہی دیتی ہے۔‘‘
المناقب لابن الجوزى، ص 106 – الصواعق المحرقة لابن عساكر، ص: 85
خلوص اور صدق و وفا ایک درخشاں باب:
بکر بن عبد اللہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
إن أبا بكر لم يفضل الناس بأنه كان أكثرهم صلاة وصوما ، إنما فضلهم بشيء كان في قلبه.
’’یقیناً سیدنا ابو بکر رضی الله عنه لوگوں پر ان سے زیادہ نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی بنا پر فضیلت نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ تو صرف اس چیز کے باعث ان پر فضیلت رکھتے تھے جو ان کے دل میں تھی ۔‘‘
إحياء علوم الدين: 1/ 23 – النوادر للحكيم الترمذى، ص 31
بلال رضی اللہ کو آزاد کرانے والی شخصیت :
سیدنا ابو بکر رضی اللہ نے سیدنا بلال رضی اللہ کو امیہ کی غلامی سے آزاد کروایا تھا۔ اس وجہ سے آپ کا لقب عتیق پڑ گیا تھا، یعنی آزاد کرنے والا اور خود جہنم سے آزاد ہونے والا ۔ آپ کی اس عظیم نیکی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ نے یہ اشعار پڑھے:
جزى الله خيرا عن بلال وصحبه ….. عتيقا وأخزى فاكها وأبا جهل عشية هما في بلال بسوءة … ولم يحذرا ما يحذر المرء ذو العقل بتوحيده رب الأنام وقوله … شهدت بأن الله ربي على مهل فإن يقتلوني يقتلوني ولم أكن الأشرك بالرحمن من خيفة القتل فيا رب إبراهيم والعبد يونس ….. وموسى وعيسى نجني ثم لا تمل لمن ظل يهوى الغي من آل غالب ….. على غير بر كان منه ولا عدل
’’اللہ تعالیٰ عتیق کو بلال اور اس کے ساتھیوں کو آزاد کرانے کے حوالے سے بہتر بدلہ دے اور فاکھہ اور ابو جہل کو رسوا کرے، کہ ایک شام ان دونوں نے بلال رضی الله عنه کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا اور انہیں ایسا کوئی بھی ڈر نہیں آیا کہ جو ایک عقلمند آدمی کو آسکتا ہے۔ یہ سزائیں صرف اس وجہ سے تھیں کہ بلال رضی الله عنه اپنے پروردگار کو ایک مانتے تھے اور کہتے تھے کہ میرا رب بس ایک اللہ ہی ہے۔ اگر یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں لیکن میں موت کے ڈر سے رحمان کے ساتھ شرک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ اے ابراہیم، یونس، موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کے رب! مجھے نجات عطا فرما، پھر تو آلِ غالب میں سے اس شخص کو مہلت نہ دے جو ضلالت و گمراہی میں پھنس چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گناہ و نافرمانی اور بے عدلی پر قائم ہے۔‘‘
حلية الأولياء لأبي نعيم: 1/ 147 – سير أعلام النبلاء: 53/3
سیدنا حسان رضی اللہ کا منظوم خراج عقیدت:
امام شعمی رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ سے سوال کیا کہ سب سے پہلے اسلام کون لایا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر صدیق رضی اللہ پھر فرمایا: کیا تم نے حسان بن ثابت رضی اللہ کے یہ اشعار نہیں سنے :
إذا تذكرت شجرا من أخي ثقة … فاذكر أخاك أبا بكر بما فعلا خير البرية أتقاها وأعدلها بعد النبي وأوفاها بما حملا الثاني التالي المحمود مشهده ….. وأول الناس منهم صدق الرسلا
’’جب تم نے میرے کسی پختہ و معتبر بہادر بھائی کا ذکر کرنا ہو تو اپنے بھائی ابوبکر (رضی اللہ) کا ذکر کرو، ان کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے انجام دیے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رُوئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہترین شخصیت ہیں، ان سب سے زیادی متقی اور عادل شخص ہیں اور جو ذمہ داری ان کو دی گئی تھی اس کو سب سے بہتر طور پر نبھانے والے ہیں۔ وہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) دوسرے تھے اور آگے آنے والے ہیں ، وہ جس اجتماع گاہ میں بھی جلوہ گر ہوئے وہ لائق تعریف ہوگئی، اور وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔‘‘
صفة الصفوة لابن الجوزي: 1/ 237