چند ضروری مسائل
❀ جو حاکم کے خلاف خروج کا ارادہ رکھتا ہو تو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کر دے یا اس کے لیے مستعد نہ ہو جائے اسے قتل کرنے سے ہاتھ روکا جائے گا ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا خرجوا فاقتلوهم
”جب وہ نکلیں تب انہیں قتل کرو ۔“
[نيل الأوطار: 627/5]
❀ امام خطابیؒ نے مسلمان علما کا اجماع نقل کیا ہے کہ خوارج (اپنی ضلالت کے باوجود ) مسلمان فرقوں میں سے ہی ایک فرقہ ہے اس لیے ان سے نکاح کرنا ، ان کا ذبیحہ کھانا درست ہے اور وہ اس وقت تک کافر نہیں ہو سکتے جب تک وہ اسلام کی اصل کو تھامے ہوئے ہیں ۔
[فتح البارى: 307/14]
❀ حاکم وقت انسداد بغاوت کے لیے اگر باغیوں کے اموال پکڑ لیتا ہے تو وہ بغاوت کے خاتمے پر انہیں ادا کرے گا تو یہ درست ہے کیونکہ اسے امر بالمعروف اور نهي عن المنكر کے تحت بھی یہ حق حاصل ہے ۔ لیکن ان کے اموال ملکیت بنانا یا غنیمت سمجھتے ہوئے پکڑنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں ۔
[السيل الجرار: 559/4 ، المبسوط: 124/10 ، بدائع الصنائع: 140/7 ، فتح القدير: 409/4 ، تبيين الحقائق: 295/3]
❀ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل عدل (یعنی اہل حق ) پر باغیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے کوئی گناہ یا کفارہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ تلف شدہ (اموال اور جانوں ) کے ضامن ہوں گے ۔
[شرح مسلم للنووي: 170/7 ، كشاف القناع: 128/4 ، المغنى: 13/8 ، مغني المحتاج: 125/4 ، القوانين الفقهية: ص / 364 ، بداية المجتهد: 448/2 ، بدائع الصنائع: 141/7]
❀ اگر قتال دنیاوی مال و جاہ اور ریاست و حکومت کے حصول کے لیے کیا گیا ہو (یعنی کسی تاویل کی وجہ سے نہ ہو ) تو ان کا حکم محاربین والا ہو گا اور انہیں وہی سزا دی جائے گی جس کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے:
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ ………… [المائدة: 33]
❀ شافعیہ کے نزدیک اگر باغی جنگ کے علاوہ اہل عدل کے مال و جان میں سے کسی چیز کو تلف کرے تو وہ ضامن ہو گا اسی طرح اگر حد کو پہنچے (تب بھی اسے سزا دی جائے گی ) لیکن قتل کے جرم میں قصاصاََ اسے قتل کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔
[المهذب: 221/2 ، مغني المحتاج: 129/4]