باغیوں سے لڑائی کرنا واجب ہے حتی کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں
لغوی وضاحت: لفظِ بغاة باغی کی جمع ہے اس کا معنی ہے بغاوت کرنے والے ۔ باب بَغَى يَبْغِى (ضرب ) طلب کرنا ، ظلم و زیادتی کرنا ، نافرمانی کرنا ، حق سے ہٹ جانا ، باب ابغى يُبْغِى (إفعال ) طالب بنانا ، بَابِ تَبَاغَى يَتَبَاغَى (تفاعل ) ایک دوسرے پر ظلم کرنا ۔
[المعجم الوسيط: ص / 64 – 65 ، المنجد: ص / 69 ، القاموس المحيط: ص / 1137]
شرعی تعریف: جو حکمران کے خلاف کسی من گھڑت تاویل کی وجہ سے اسلحہ اور قوت و طاقت کے ساتھ خروج کریں (جیسے خوارج وغیرہ ) اگرچہ ان کا کوئی امیر نہ ہو اور اگرچہ وہ کسی غیر عادل حکمران کے خلاف بغاوت کریں ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 5479/7]
(شوکانیؒ ) باغی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی واجب کردہ حاکم وقت کی اطاعت سے نکل جائے ۔
[السيل الجرار: 556/4]
باغی اور محارب میں فرق
محارب بغیر کسی تاویل کے نافرمانی کرتے ہوئے اطاعت سے نکل جاتا ہے اور باغی کسی تاویل پر لڑائی شروع کرتا ہے ، قتل کرتا ہے اور مال چھینتا ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 5479/7]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ [الحجرات: 9]
”اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو پھر ان دونوں میں سے ایک جماعت اگر دوسری پر زیادتی کرے تو تم زیادتی کرنے والے گروہ سے لڑائی کرو حتٰی کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔“
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا تھا:
تقتله الفئة الباغية
”اسے باغی گروہ قتل کرے گا ۔“
[مسلم: 2916 ، كتاب الفتن: باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (عقل میں فتور ہو گا ) ظاہری طور پر ساری مخلوق کے کلاموں سے جو بہتر ہے (یعنی قرآن اور حدیث ) اسے پڑھیں گے مگر در حقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے ۔ تم ان کو جہاں پاؤ بلا تامل قتل کر دو کیونکہ ان کے قتل میں روز قیامت اجر ملے گا ۔
[بخاري: 3611 ، 6930 ، 5057 ، كتاب استتابة المرتدين: باب قتل الخوارج والمرتدين بعد إقامة الحجة ، مسلم: 1066 ، احمد: 81/1 – 113 ، ابو داود: 4767 ، نسائي: 119/7 ، ابن حبان: 6739]
(شوکانیؒ ) باغیوں سے قتال کرنا بالا جماع جائز ہے اور یہ بعید نہیں ہے کہ واجب ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ان سے جہاد کرنا کفار سے اُن کے گھروں میں جا کر جہاد کرنے سے بھی افضل ہے ۔
[نيل الأوطار: 631/5]
❀ جب بغیر کسی تردد کے کسی کا باغی ہونا ثابت ہو جائے پھر اس سے قتال کا ہاتھ روک کر رکھنا اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے لیکن التباس و شبہ کی حالت میں لڑائی نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے مابین اللہ کے حکم :
فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا
کی وجہ سے صلح کے لیے چارہ جوئی کی جائے گی اور حاکم کا کسی مسئلے میں اجتہاد کرتے ہوئے دلیل کے تقاضے سے ہٹ کر فیصلہ کر دینا بغاوت نہیں ہے ۔ بلکہ مجتہدین سے ایسے امر کا صادر ہونا ناگزیر ہے ۔ اس صورت میں حاکم سے لڑائی نہیں بلکہ اسے پند و نصائح سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اور جب تک وہ نماز قائم رکھتے ہیں اور کسی واضح کفر کا ارتکاب نہیں کرتے ان کے خلاف خروج درست نہیں ۔
[السيل الجرار: 556/4]
(سید سابقؒ ) تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ باغی گروہ سے (ان کے صلح سے انکار پر ) جمع ہو کر قتال کریں اور حاکم وقت باغی گروہ سے قتال کرے گا جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکاۃ سے کیا ۔
[فقه السنة: 95/3]
(دکتور وھبہ زحیلی ) اگر باغیوں کے لیے کوئی پناہ گاہ (یا آلات حرب وغیرہ ) نہ ہوں تو حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ انہیں پکڑ کر قید کر دے حتی کہ وہ توبہ کر لیں ۔ اور اگر ان کے پاس محفوظ قلعے پناہ گاہیں اسلحہ جات اور لوازمات حرب میسر ہوں تو امام کو اولاً یہ کہ انہیں اطاعت کے التزام ، دار العدل اور جماعت کی رائے کی طرف واپسی کی دعوت دے جیسا کہ اہل حرب کے ساتھ کیا جاتا ہے اگر وہ اس کا انکار کر دیں تو اہل عدل ان سے قتال کریں حتی کہ انہیں شکست دے کر قتل کر دیں ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 5480/7]
(صدیق حسن خانؒ ) فی الحقیقت مسلمان کی جان و مال محفوظ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے باغی گروہ سے قتال کے علاوہ کسی چیز کی اجازت نہیں دی اس لیے اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے جب تک وہ بغاوت پر مصر ہوں ان سے صرف لڑائی کی جائے گی جبکہ ان کے مال کو چھیننا کسی طور پر درست نہیں ہے ۔
[الروضة الندية: 770/2]
(ابن حزمؒ ) تاویل کی دو قسمیں ہیں:
➊ جس کے ذریعے سنت کو مٹانے کی کوشش کی جائے جیسا کہ خوارج نے کی مثلا رجم کو باطل قرار دینا ، گناہ گاروں کو کافر قرار دینا ، رویت الہی کا انکار کرنا اور شفاعت کا بطلان وغیرہ ۔ اس کے قائلین کا عذر قبول نہیں ہو گا ۔
➋ جس سے دین میں رخنہ اندازی نہ ہو جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پہلے قتل عثمان کے قصاص کا مطالبہ کیا ۔ تو ایسے لوگ معذور ہوں گے ۔ اور جو امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، قرآن و سنت کے غلبے اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کی طرف دعوت دے وہ باغی نہیں ہے بلکہ اس کا مد مقابل باغی ہے ۔
[المحلى بالآثار: 335/11]
ان کے کسی قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا ، بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ، ان کے کسی زخمی کو موت تک نہیں پہنچایا جائے گا اور نہ ہی ان کے مال کو غنیمت بنایا جائے گا
➊ مروان بن حکم فرماتے ہیں کہ کسی نے جنگ جمل کے دن بلند آواز سے پکارا کہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا ، کسی زخمی کو موت تک نہیں پہنچایا جائے گا ، جس نے اپنے دروازے کو بند کر لیا وہ امن والا ہے اور جس نے اسلحہ ڈال دیا وہ بھی امن والا ہے ۔
[سنن سعيد بن منصور: 389/2 ، حاكم: 155/2 ، بيهقي: 181/8 ، ابن أبى شيبة: 33277]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابن اُم عبد ! میری اُمت میں سے بغاوت کرنے والے کا کیا حکم ہے تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يتبع مدبرهم ولا يجهز على جريحهم ولا يقتل أسير هم
”ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ، ان کے زخمی کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا اور ان کے قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔“
[حاكم: 155/2 ، بيهقي: 182/8]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ولا يذفف على جريحهم ولا يغنم فيئهم
”ان کے زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور ان کے مال کو غنیمت نہیں بنایا جائے گا ۔“
[امام ابن عديؒ فرماتے هيں كه يه روايت غير محفوظ هے ۔ الكامل: 78/6 ، امام بيهقيؒ نے اسے ضعيف كها هے ۔ نيل الأوطار: 629/5 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه امام حاكمؒ نے اسے صحيح كها هے ليكن اسے يه وهم هوا هے كيونكه اس كي مسند ميں كوثر بن حكيم راوي متروك هے۔ بلوغ المرام: ص / 254 ، نيل الأوطار: 629/5 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه على رضی اللہ عنہ سے مختلف اسناد سے يه صحیح ثابت ہے ۔ کما فی السيل الجرار: 557/4]
➌ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جنگ صفین میں حاضر تھا اور وہ (لشکر علی رضی اللہ عنہ ) کسی زخمی پر دھاوا نہیں بولتے تھے ، کسی بھاگنے والے کو قتل نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی مقتول سے (اس کا مال ) چھینتے تھے ۔
[بيهقي: 182/8]
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن فرمایا: ”اگر تم (مخالف ) قوم پر غلبہ حاصل کر لو تو بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو ، زخمی کو مجاز نہ بناؤ ، اور ان آلات حرب کو دیکھ کر قبضہ میں کر لو جن کے ساتھ وہ حاضر ہوئے ہیں اور جو کچھ ان کے علاوہ ہے وہ ان کے ورثاء کا ہے ۔
[بيهقي: 181/8 ، امام بيهقيؒ نے اسے منقطع كها هے۔]
➎ ابو فاختہ فرماتے ہیں کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قیدی لایا گیا تو اس نے کہا آپ مجھے تکلیف دے کر قتل نہ کرنا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں تکلیف سے (یعنی صبر سے ) قتل نہیں کروں گا کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں پھر انہوں نے اسے چھوڑ دیا ۔
[بيهقي: 182/8]
➏ امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ (جس وقت ) فتنہ بھڑک اٹھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وافر تھے ۔ انہوں نے اجماع کیا کہ وہ کسی سے قصاص نہیں لیں گے اور نہ ہی قرآن کی تاویل پر کسی کا مال چھینیں گے الا کہ کوئی اپنا مال بعینہ ان کے پاس پائے (تو وہ پکڑ سکتا ہے ) ۔
[سنن سعيد بن منصور: 2953 ، عبد الرزاق: 18584 ، بيهقي: 175/8]
یہ تمام آثار اس بات کی دلیل ہیں کہ مسلمانوں کے خون اور اموال حرام ہیں اور انہیں کسی شرعی دلیل کے ساتھ ہی حلال کیا جا سکتا ہے ۔
[الروضة الندية: 771/2]
(سید سابقؒ ) بغاوت کے ذریعے کوئی جماعت اسلام سے خارج نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ قتال کے باوجود انہیں ایمان کے وصف کے ساتھ متصف کیا ہے:
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا
لٰہذا ان کے بھاگنے والے اور زخمی کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ ان کے اموال کو غنیمت نہیں بنایا جائے گا ، ان کی خواتین و اولاد کو قید نہیں کیا جائے گا ۔ دوران جنگ تلف کی ہوئی اشیاء کے وہ ضامن نہیں ہوں گے (جان ہو یا مال ) اور ان میں سے جسے قتل کر دیا جائے اسے غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی ۔ اور جو اہل حق میں سے قتل کیا جائے گا وہ شہید ہو گا ۔ یاد رہے کہ یہ سب اس وقت ہے جب خلیفہ المسلمین کے خلاف خروج کیا گیا ہو ۔
[فقه السنة: 95/3]
(احناف ) بھاگنے والے باغی قیدی اور زخمیوں کو بھی قتل کر دیا جائے گا ۔
(جمہور ) احناف کے برعکس مؤقف رکھتے ہیں ۔
[المغنى: 114/8 ، مغنى المحتاج: 127/4 ، الكتاب مع اللباب: 154/4 ، حاشية الدسوقي: 300/4]
❀ اگر بھاگنے والے کا کوئی گروہ ہو یا اس کے دوبارہ حملے کا ڈر ہو تو اسے قتل کر دیا جائے گا یا نہیں اس میں اختلاف ہے ۔
(ابو حنیفہؒ ) اسے قتل کیا جائے گا ۔
(شافعیؒ ) اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔
[الأم: 217/4 ، بدائع الصنائع: 4397/10 ، المغنى: 252/12]
(راجح ) امام شافعیؒ کا موقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ باغیوں کے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ، اس پر کوئی قید ثابت نہیں ہے کہ وہ جماعت والا ہو یا نہ ہو ، یا اس کے پلٹ آنے کا خوف ہو ۔ اس لیے دلائل سے جو بات ثابت ہو چکی ہے اس پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔ اور محض رائے سے کسی دلیل کی تخصیص قابل قبول نہیں ہے ۔
[السيل الجرار: 558/4]