باجماعت نماز میں صف کیسے بنائی جائے؟ صحیح احادیث سے راہنمائی
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری کی کتاب صف بندی کے احکام و مسائل سے لیا گیا ہے۔

صف کے آداب :

صف کے آداب میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پہلی صفوں کو مکمل کیے بغیر اگلی صف نہ بنائی جائے۔ پہلی صفوں میں خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے، بلکہ کمی آخری صف میں ہونی چاہئے۔
❀سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيموا الصف الأول والثاني، فإن كان خلل، فليكن في الثالث .

’’پہلی اور دوسری صفیں مکمل کریں، جگہ خالی ہو، تو تیسری صف میں ہونی چاہیے۔‘‘

🌿(صحیح ابن خزيمة : 1547، وسنده صحيح)

اگر ایک سے زائد صفیں ہوں، تو پہلی تمام صفیں مکمل ہونی چاہئیں ، آخری صف امام کے پیچھے سے شروع کی جائے اور دونوں طرف لوگ شامل ہوتے جائیں، اس آخری صف میں کوئی جگہ باقی رہتی ہے، تو اس میں بعد والے لوگ شامل ہوتے رہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق صفوں کی درستی کی توفیق عطا فرمائے ۔

مردوں اور عورتوں کی بہتر صفیں :

❀سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها، وخير صفوف أولها.

’’مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی اور کم ترین آخری ہوتی ہے، جب کہ عورتوں کی سب سے بہتر آخری اور سب سے کم تر پہلی ہوتی ہے۔‘‘
🌿(صحیح مسلم: 440)

عورت امام ہو ، تو عورتوں کی پہلی صف ہی افضل ہو گی۔ اس طرح اگر عورتوں کے لئے علیحدہ انتظام ہو، تو بھی پہلی صف افضل ہوگی۔

عورتوں کی صف کہاں ہو؟

عورتوں کی صف مردوں کے پیچھے ہو گی۔ اگر بچے بھی ہوں، تو پہلے مردوں کی، پھر بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی صف ہوگی۔
❀سیدنا ابو موسی رضی الله عنه نے امامت کروائی ، تو فرمانے لگے:
ألا أصلي تكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصف الرجال ثم صف الولدان خلف الرجال، ثم صف النساء خلف الولدان .

’’میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ وہاں مردوں نے صف بنائی، پھر مردوں کے پیچھے بچوں نے اور بچوں کے پیچھے عورتوں نے صف بنائی۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 343/5، سنن أبي داود : 677 ، وسنده حسن)

حافظ ابن ملقن (تحفة المحتاج: ۵۴۸) نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

امام کہاں کھڑا ہو؟:

امام کا صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہونا مستحب ہے۔

ریطہ حنفیہ رحمتہ اللہ بیان کرتی ہیں :
أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلاة المكتوبة .

’’ہمیں عائشہ رضی الله عنه نے صف کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرائی۔‘‘
🌿(سنن الدارقطني : 1507 ، وسنده صحيح)

حافظ نو وی رحمتہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
🌿(خلاصة الأحكام : 680/2)

اگر عورت عورتوں کی امامت کرا رہی ہو، وہ صف کے اندر درمیان میں کھڑی ہو گی اور اگر مرد امام ہو، تو وہ صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو گا۔

تنبیہ:

سنن ابو داؤد (۶۸۱) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے:

وسطوا الإمام.

’’امام کو درمیان میں کرو۔‘‘
سند ’’ضعیف‘‘ ہے، یحییٰ بن بشیر بن خلاد ’’مستور‘‘ ہے۔
حافظ ذہبی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں :
قال ابن القطان : يجهل حاله وحال أبيه، هذا خطة، والصواب وحال أمه، وقال عبد الحق : ليس هذا الإسناد بقوي .

’’ابن قطان رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ اس راوی کے اور اس کے والد (بلکہ والدہ) کے حالات معلوم نہیں۔ عبد الحق رحمتہ اللہ کہتے ہیں : یہ سند قوی نہیں۔‘‘
🌿(میزان الاعتدال : 367/4)

والد کا ذکر غلطی ہے، درست یہ ہے کہ اس کی والدہ ، امتہ الواحد بنت یامین بن عبدالرحمٰن بھی ’’مجہولہ‘‘ ہے۔

امام کے پیچھے کون کھڑے ہوں ؟ :

پہلی صف میں امام کے بالکل پیچھے اہل علم ، اہل تقویٰ، اہل صلاح اور بالغ و عاقل کھڑے ہوں، تا کہ امام کو غلطی پر متنبہ کر سکیں، اگر امام کا وضوٹوٹ جائے یا کوئی اور مسئلہ در پیش ہو، تو امام کی نیابت کر سکیں ، مگر افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں غیر سنجیدہ لوگ ، مثلا داڑھی منڈوانے والے یا علم دین سے جاہل لوگ بھی امام کے پیچھے آ کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اليلني منكم أولو الأحلام والنهى، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم.

’’میرے قریب عقل و بینش والے کھڑے ہوں، پھر جو ان سے کم ہو، پھر جو ان سے کم ہوں۔‘‘

🌿(صحیح مسلم : 432)

❀علامہ خطابی رحمتہ اللہ (م : ۲۸۸ھ ) لکھتے ہیں:
إنما أمر صلى الله عليه وسلم أن يليه ذووا الأحلام والنهى ليعقلوا عنه صلاته، ولكي يخلفوه في الإمامة إن حدث به حدت في صلاته، وليرجع إلى قولهم إن أصابه سهو، أو عرض في صلاته عارض في نحو ذلك من الأمور .

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ امام کے قریب اہل دانش کھڑے ہوں تا کہ وہ امام کی نماز کو سمجھ سکیں، نیز امام کو نماز میں کوئی مسئلہ در پیش ہو، تو اس کی نیابت کر سکیں۔ اسی طرح امام کو غلطی لگے، تو اس کی اصلاح کرسکیں، یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ پیش آئے ، تو سنبھال لیں ۔‘‘

🌿(معالم السنن : 184/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے